رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
برصغیر کے عام حنفی علما کا عقیدہ
’’قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کے الفاظ نہیں!‘‘
کلام نفسی: ماتریدیہ اور اشاعرہ کی نظر میں
کلام نفسی: ماتریدیہ اور اشاعرہ کی نظر میں
ماہنامہ محدث کے سابقہ شمارہ میں ہمارا ایک مضمون بعنوان ’کیا صفاتِ الٰہیہ میں اَئمہ اربعہ مفوضہ ہیں؟‘شائع ہوا۔ جس میں ہم نے سلفی حضرات کے بارے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولاناسلیم اللہ خاں کی منفی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ سلفی حضرات(ابن تیمیہ وغیرہ) توحید اسماء وصفات میں جس مسلک پر ہیں وہ تمام صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین (ائمہ اربعہ) اور محققین فقہاء و اُصولیین کا موقف ہے جیسا کہ بر صغیر کے نامور حنفی عالم دین مولانا عبد الحی لکھنوی نے وضاحت کرتے ہوئے اسے ’حق‘ قرار دیا ہے لیکن مولانا سلیم اللہ خاں کا تجزیہ مولانا عبد الحی لکھنوی سے بالکل مختلف ہے۔ ہم نے ائمہ اربعہ بالخصوص امام ابو حنیفہ کے بارے میں ان کی اپنی تصنیفات سے ثبوت پیش کر کے مولانا عبدالحی لکھنوی کی حقیقت پسندی کا اظہار کیا تھا۔ اس مضمون کے بارے میں رابطۃ المدارس الاسلامیہ لاہور کے مرکزی دارالعلوم کے اُستاذِ محترم جناب واصل واسطی صاحب کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جو ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:گذشتہ شمارۂ ’محدث‘میں ’قرآن اکیڈمی‘ لاہور کے محقق حافظ محمد زبیر کا وفاق المدارس العربیہ، پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خاں کی طرف سے سلفی حضرات پر تنقید کے جواب میں ایک وضاحتی مقالہ بعنوان ’کیا اَئمہ اربعہ مفوضہ تھے؟‘ شائع ہوا ہے جس میں ایک جگہ کتابت کی غلطی سے مولانا عبد الحی لکھنوی اور مولانا سلیم اللہ خاں کا حوالہ خلط ملط ہو گیا ہے۔ اگر یہ قارئین ص ١٤، دوسری سطر میں لفظ’مولانا‘ کے بعد’سلیم اللہ خاں‘کے الفاظ حذف کر دیں اور ص ١٤ نویں سطر میں بعنوان راجح اور محتاط مسلک سے قبل ’مولانا سلیم اللہ کے خاں کے نزدیک‘الفاظ کا اضافہ کر لیں تو عبارت درست ہو جاتی ہے۔ (محدّث)
[HR][/HR][1] ریسرچ سکالر’قرآن اکیڈمی‘ 36 کے، ماڈل ٹاؤن، لاہور
جناب واصل واسطی صاحب کا خط
محترم جناب حافظ حسن مدنی صاحب (مدیر ’محدث‘لاہور)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آداب! حافظ زبیر صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اچھا ہے،مگر اس میں ص١٢پرایک فقرہ یوں ہے’’مثلا اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں ہے۔‘‘جہاں تک ہمارا علم ہے کہ یہ ماتریدیہ و اشعریہ میں سے کسی کا عقیدہ نہیں ہے، اگرچہ وہ کلام نفسی کے قائل ہیں مگر کلام لفظی پر عدم قدرت کی بات تو مشہور کتابوں مثلا شرح مواقف، شرح مقاصد،شرح عقائد جلالیہ، شرح عقائد نسفیہ اوربیاضی وغیرہ میں نہیں ہے۔
بڑی مہربانی ہو گی اگر اس کی نشاندہی کریں۔ والسلام
واصل واسطی معلّم مرکز علوم اسلامیہ(منصورہ )،لاہور
خط کا جواب
الٰہیات کے بارے میں تعبیرات مع اصطلاحات اگرچہ متکلمین کے ہاں متفقہ نہیں ہیں تاہم ایک تعبیر کے مطابق اشاعرہ اور ماتریدیہ نے صفاتِ الہیہ کو پہلے صفاتِ عقلیہ میں اور صفاتِ خبریہ میں تقسیم کیا ہے، پھر عقلیہ کی تقسیم چار ناموں سے اس طرح کی ہے:
- نفسیہ: اس سے مراد صفت ِوجود ہے۔
- سلبیہ: اس سے مراد قِدم ، بقا، مخالفت حوادث ِاور قیام بالنفس کی صفات ہیں۔
- معانی: اس سے مراد ذات سے زائد سات صفات ہیں اور وہ حیات، قدرت، ارادہ، علم، سمع ، بصر اور کلام ہیں۔
- معنویہ: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کاحی، قادر، مرید، علیم، سمیع، بصیر اور متکلم ہونا ہے۔
- اللہ کی صفاتِ ذاتیہ مثلاًصفت ید (ہاتھ)، صفت وجہ ( چہرہ) اور صفت ِعین (آنکھ) وغیرہ کا اثبات نہیں کرتے ۔
- اسی طرح اللہ کی صفات ِفعلیہ (لازمہ با لذات) مثلاًنزول (اترنا)، استواء (برابر ہونا) اورمجيء(آنا) وغیرہ کابھی اثبات نہیں کرتے۔البتہ صفاتِ فعلیہ متعدیہ (خلق و رزق وغیرہ) کے قائل ہیں۔
- علاوہ ازیں ان حضرات نے صفات ِمعانی کو لفظاً تسلیم کرنے کے باوجود ان کی تشریح وتوضیح میں تاویلات کا لمبا چوڑا باب کھولا ہوا ہے۔
ہم اپنے سابقہ مضمون میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ ائمہ فقہا ےاربعہ عقیدہ میں علم کلام سے متنفر ہونے کی وجہ سے سلفی تھے جبکہ برصغیر پاک وہند میں امام ابو حنیفہؒ کے اکثرمقلدین عقیدہ میں ائمہ اربعہ کی اتباع کی بجائے ابو منصور ماتریدی کے پیرو کار ہیں اور اسی نسبت سے ’ماتریدیہ‘ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ اشاعرہ اور ماتریدیہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِکلام کا لفظاً اقرار کرنے کے باوجود اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اللہ کا کلام لفظی نہیں ہو سکتا بلکہ نفسی ہوتا ہے کیونکہ الفاظ و حروف حادث ہیں اور اگر اللہ کے کلام کو لفظی کلام مان لیا جائے تو اللہ کی ذات محلِّ حادث ٹھہرے گی جو ممتنع ہے۔ پس اللہ کا کلام صرف نفسی ہے یعنی اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اس کو وہ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کلام کرنے سے پہلے اپنے ذہن میں ان معانی کو لاتا ہے جن کو وہ الفاظ کی صورت دینا چاہ رہا ہوتا ہے۔ پس ذہن میں موجود جن معانی کو انسان الفاظ کی صورت دے کر مخاطب تک پہنچانا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ معانی کلام نفسی کہلاتے ہیں۔ اور وہ انسان کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں جبکہ الفاظ ان معانی کو ادا کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں، جو زبان سے نکل کر انسان سے جدا ہو جاتے ہیں۔ پس کلام نفسی وہ معانی ہیں جو متکلم کی ذات کے ساتھ قائم ہوں۔ اللہ کے یہ معانی ازلی ہیں یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا کل کلام ، کلامِ نفسی ہے اور یہ ازلی ہے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کلام الٰہی ایک معنوی وحدت ہے جس کے اجزا نہیں کئے جا سکتے ہیں۔علامہ سعد الدین تفتازانی (متوفی ٧٩٣ھ ) لکھتے ہیں:
فعند أهل الحق کلامه لیس من جنس الأصوات والحروف، بل صفة أزلیة قائمة بذات اﷲ تعالىٰ منافیة للسکوت، والآفة کما في الخرس والطفولة هو بها آمر ناه مخبر وغیر ذلك، یدل علیها بالعبارة أو الکتابة أو الإشارة، فإذا عبر عنها بالعربیة فقرآن، وبالسریانیة فإنجیل، بالعبرانیة فتوراة.والاختلاف علىٰ العبارات دون المسمّٰی کما إذا ذکر اﷲ تعالىٰ بألسنة متعددة ولغات مختلفة [1]
’’ اہل حق کے نزدیک اللہ کا کلام اصوات اور حرو ف کی جنس میں سے نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی سے مراد وہ ازلی صفت ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔اور یہ کلام نفسی سکوت اور عیب کے منافی ہے جیسا کہ گونگے اور بچے میں یہ عیب ہوتا ہے ( کہ وہ لفظی گفتگو نہیں کر سکتا)۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس ازلی کلام نفسی کے ذریعے حکم بھی دیتے ہیں اور منع بھی کرتے ہیں اور خبر وغیرہ بھی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام نفسی پر عبارت، کتابت یا اشارہ کے ذریعہ رہنمائی فرماتے ہیں۔پس جب اس ازلی کلام نفسی کو عربی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ قرآن بن جاتا ہے اور اگرسریانی میں بیان کیا جائے تو انجیل بن جاتی ہے اور اگر عبرانی میں بیان ہو تو تورات بن جاتی ہے۔ پس (ان کتابوں میں) اختلاف عبارات کا ہے جبکہ مسمّٰی (مفہوم) ایک ہے۔‘‘
ان اہل تاویل کا کہنا یہ بھی ہے کہ اللہ کا کل کلام ازلی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سب کلام ازل ہی میں فرما لیا تھا اور یہ ازل سے اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو مکالمہ قرآن میں نقل ہوا ہے وہ کسی خاص یا متعین وقت میں نہیں ہوا بلکہ وہ ازل سے ہے ۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:
[HR][/HR][1] شرح المقاصد:١٤٤٤، عالم الکتب، بیروت، طبع دوم،١٩٩٨ء
نوٹ: یہ مضمونPDF فارمیٹ میں "ڈاؤن لوڈ" کرنے لئے یہاں کلک کریں