کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
برطانوی وزیر اعظم کیمرون کو شام پر ممکنہ کارروائی کے ووٹ میں شکست
جمعـہ 30 اگست 2013
برطانوی دارالعوام کے اراکین نے برطانوی حکومت کی جانب سے شامی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے دارالعوام میں پیش کی گئی قرارداد کو تیرہ ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی گئی۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالعوام نہیں چاہتا کہ کارروائی کی جائے 'حکومت اس کے مطابق کام کرے گی'۔
اس ووٹ کے بعد اب امریکی کی سربراہی میں شام پر ممکنہ فوجی کارروائی میں برطانیہ کا کردار تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔
دارلعوام میں شکست وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔
صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ لیبر پارٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد جس میں 'پرزور' ثبوتوں کی بات کی گئی تھی کو بھی دارالعوام کے اراکین نے 114 ووٹوں سے مسترد کر دیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اراکینِ دارالعوام نے حکومت کی اُس قراداد کو بھی مسترد کر دیا جس میں شام میں اس صورت میں فوجی کارروائی کی بات کی گئی تھی اگر اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار اس کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔
'شام اپنا دفاع کرے گا'
اس سے قبل شام کے صدر بشار الاسد نے کہا تھا کہ کہ ان کا ملک مغربی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرے گا۔
شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق بشارالاسد کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے براہ راست کارروائی کی دھمکیوں سے ان کے ارادے مزید مستحکم ہوں گے۔
امریکہ اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ شام کی حکومت زہریلی گیس کے حملے میں کئی افراد کی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔ شام کی حکومت نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس حملے کا الزام باغی گروہوں پر عائد کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم شام میں اس حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ معائنہ کار جمعے تک اپنا کام ختم کر لیں گے اور تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ سنیچر تک ان کو پیش کی جائے گی۔
بان کی مون نے یہ اپیل بھی کی ہے کہ معائنہ کاروں کو 'اپنا کام کرنے کے لیے وقت دیا جائے'۔
شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سنا کے مطابق صدر بشار الاسد نے یمن کے رکن پارلیمان سے کہا ہے کہ شام مغربی جارہیت کے خلاف اپنا دفاع کرے گا۔
انھوں نے کہا 'شام کے پُرعزم عوام اور بہادر افواج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لڑتے رہیں گے جس کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل اور مغربی ممالک خطے کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں'۔
اطلاعات کے مطابق شام کی فوج کے سینیئر کمانڈرز ان عمارتوں میں نہیں جا رہے ہیں جہاں ممکنہ طور پر حملہ ہو سکتا ہے۔
دمشق پر ممکنہ حملے کے پیش نظر کئی افراد شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
اس سے قبل امریکی صدر اوباما کا کہنا تھا کہ انھوں نے ابھی تک شام کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ دمشق میں ہونے والے کیمیائی حملے میں شامی حکومت کا ہاتھ ہے۔
ایک امریکی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ شام کی جانب سے کیمیائی حملے کی وجہ سے امریکہ کا قومی مفاد متاثر ہوا ہے اور یہ کہ شام کو ایک تنبیہی پیغام بھیجنے سے شام کی جنگ پر مثبت اثر پڑے گا۔
جیریمی باؤن، بی بی سی کے مشرقِ وسطیٰ کے نامہ نگار، دمشق
شہر کے مرکز میں خاصی ٹریفک تھی لیکن اس کے باوجود مجھے دمشق اس بار پہلے کی نسبت زیادہ خاموش لگا۔ لوگ ان فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں جو کہیں اور کیے جا رہے ہیں۔
خبررساں اداروں نے شہریوں اور حکومت مخالف باغیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بعض جگہوں پر بھاری اسلحہ فوجی اڈوں سے ہٹا لیا گیا ہے اور ہیڈکوارٹر کی کچھ عمارتوں میں سے عملے کو جزوی طور پر نکال لیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ شامی فوج نے ملک کو حملے سے بچانے کے لیے کسی قسم کا منصوبہ ضرور تیار کیا ہو گا، خاص طور پر اس صورتِ حال میں جب مغربی ممالک کی جانب سے شام پر حملے کی باتیں کھلے عام کی جا رہی ہیں۔
شام کے پڑوسی ممالک بھی ایک نئے بحران سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ بیروت میں ایک قلی نے مجھے بتایا کہ مغرب جو جی چاہے وہ کرے گا: 'لیکن لبنان کے نزدیک بمباری نہ کرنا۔ ہمیں ڈر ہے کہ ایک نئی جنگ شروع ہو جائے گی۔'
ادھر برطانیہ نے ایک مجوزہ قرارداد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے سامنے پیش کی جس میں شام میں عام شہریوں کو بچانے کے لیے 'تمام اقدامات کی اجازت' کی بات کی گئی ہے۔
اس قراردار میں برطانیہ نے شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے 'ناقابلِ تسلیم' استعمال کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک پیغام میں کہا 'ہم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل شام سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے'۔
دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کسی قرارداد پر غور کیا جائے، اقوامِ متحدہ کو اپنی تحقیقات مکمل کرنی چاہییں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک معائنہ کاروں کی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی تب تک کسی قرارداد کا مسودہ زیرِ غور نہیں لایا جانا چاہیے۔
پاکستان کا موقف
پاکستان نے بھی شام میں حکومت کی جانب سے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیاہے۔
پاکستان نے واضع کیا ہے کہ وہ اقوام محتدہ کی جانب کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق تحقیقات سے قبل کسی حملے کے خلاف ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان شام کے مسئلے کو انتہائی گہرائی سے دیکھ رہا ہے جس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم شام میں فورسز کی جانب سے باغیوں کےخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق تحقیقات کی اجازت دے اور یہ کہ شام میں کسی قسم کی مسلح مداخلت نہ ہو۔
اقوامِ متحدہ کے بغیر کارروائی ممکن
برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جانب سے شام میں کارروائی میں اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ شام میں فوجی مداخلت کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھا سکتا ہے۔
برطانوی پارلیمان شام میں ممکنہ فوجی مداخلت کی حمایت کرنے کے حوالے سے بحث کرے گی۔
اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار شام میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ ماہرین شام میں کیمیائی حملے کے بارے میں اپنی تحقیقات چار دنوں میں مکمل کر لیں گے اور اس کے بعد انھیں اپنے حاصل کردہ مواد کا تجزیہ کرنے کے لیےمزید وقت چاہیے ہو گا۔
سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپیل کی کہ معائینہ کاروں کی ٹیم کو 'کام کرنے کے لیے وقت دیا جائے'۔
بان کی مون نے مذید کہا 'امن کو موقع دیں، سفارت کاری کو موقع دیں، لڑائی بند کر کے بات چیت شروع کریں'۔
اقوام متحدہ کی منظوری ضروری
مسودہ آج پیش کیا جائے گا
برطانیہ شام میں 'شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات' سے متعلق مسودہ آج اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرنے والا ہے۔
برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ یہ مسودہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
شام کے معاملے پر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی اخضر ابراہیمی نے کہا ہے کہ شام کی جانب سے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں کوئی بھی فوجی کارروائی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد ہی کی جائے گی۔
جنیوا میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور روس کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ کیمیائی حملہ کس نے کیا ہے تو وہ یہ ثبوت اقوامِ متحدہ کو فراہم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے کیمیائی حملے کی مذمت کرتا ہے۔
اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی ٹیم نے 21 اگست کے مبینہ کیمیاوی حملے کے بارے میں تحقیقات کا کام دوبارہ شروع کر دیا۔
اس سے پہلے امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا تھا کہ صدر براک اوباما کی جانب سے شام پر حملے کے احکامات کی صورت میں امریکی افواج شام پر حملے کے لیے تیار ہیں۔
شام کے وزیرِخارجہ ولید معلم کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ شامی افواج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
امریکہ اور اس کے حلیف شام میں گذشتہ ہفتے کے کیمیائی حملے کے جواب میں ملک میں عسکری مداخلت پر غور کر رہے ہیں۔
حملے کی صورت میں شام کیا کرے گا؟
اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہا ہے تو ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے جواب میں شام کے پاس کیا راستہ ہے۔
جس طرح کے حملے کی بات کی جا رہی ہے اس سے خود کو بچانے کے لیے شام کی حکومت کیا کر سکتی ہے اور جوابی کارروائی کے لیے کس طرح کے اقدامات کا امکان ہے۔
اس کارروائی میں فکسڈ ونگ طیارے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو ان کے ذریعے شام کی فضائی حدود کے باہر سے یہ حملے کیے جا سکتے ہیں جس کا مقابلہ شام کے دفاعی نظام کے لیے مشکل ہوگا۔
شام کا فضائی دفاعی نظام بہترین ہوا کرتا تھا۔ تاہم یہ پرانے روسی ہتھیاروں پر مشتمل ہے جن میں حال ہی میں کچھ نئے ہتھیار بھی شامل کیے گیے ہیں جن میں چین کا سپلائی کیا گیا ریڈار سسٹم بھی ہے۔
تاہم مغربی ممالک کی جدید فضائیہ ان ہتھیاروں سے اچھی طرح واقف ہے جو شام کے پاس ہیں۔
ابھی شام کے ایس 300 سسٹم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا جو شام نے ماسکو سے منگوائے تھے۔ یہ سسٹم یا تو ابھی سپلائی نہیں کیا گیا یا پھر آپریشنل نہیں ہے۔
تو شام اگر خود ان حملوں کا جواب نہیں دے سکا تو پھر اس کی جوابی کارروائی کیا اور کیسے ہوگی۔
ایک راستہ تو یہ ہوگا کہ شام ملک کے اندر باغیوں کے خلاف حملے شدید کردے تاکہ اپنی افواج کی حوصلہ افزائی کر سکے اور امریکہ اور اس اتحادیوں کو یہ پیغام دے سکے کہ اسد حکومت اپنے موقف پر قائم ہے۔
دوسرا متبادل یہ ہو سکتا ہے کہ اردن میں امریکی افواج، ترکی یا پھر اسرائیل پر حملہ کر کے اس لڑائی کا دائرہ وسیع کر دے۔ اس صورتِ حال میں بشار الاسد حکومت کے لیے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اردن میں امریکی افواج اور ترکی خود اپنا دفاع کر سکتا ہے۔
دونوں ہی ممالک میں میزائل شکن نظام موجود ہے اور اسرائیل پر حملے کے امکان کم ہیں کیونکہ شام کی فوج خانہ جنگی میں الجھی ہوئی ہے۔
اسرائیل کے خلاف حملہ ایک بڑی جوابی کارروائی میں تبدیل ہو سکتا ہے جو ایک بڑی علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے جو نہ تو دمشق کے حق میں ہوگا اور نہ ہی ایران کے حق میں۔
شام دوسرے ممالک میں امریکی اور مغربی مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے حزب اللہ کا استعمال کر سکتا ہے۔
'امریکہ شام پر حملے کے لیے تیار ہے'
جو بائیڈن ان مبینہ کیمیائی حملوں کا شامی حکومت کو ذمہ دار ٹھرانے والے سینیئر ترین امریکی اہلکار ہیں
امریکی نائب صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ 'اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔'
اس سے پہلے امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما کی جانب سے شام پر حملے کے احکامات کی صورت میں امریکی افواج حملے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ' ہم نے صدر کے کسی بھی حکم پر عمل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر لیے گئے ہیں'۔
اس سے قبل شام کے وزیر خارجہ ولید معلم کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ شامی افواج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
امریکہ اور اس کے حلیف شام میں گذشتہ ہفتے کے کیمیائی حملے کے جواب میں ملک میں عسکری مداخلت پر غور کر رہے ہیں۔
چک ہیگل کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع نے صدر اوباما کو 'ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام آپشنز' سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کے جون سوپل کو بتایا کہ صدر اوباما 'صدر تمام صورتحال سے واقف ہیں اور ہم تیار ہیں۔'
چک ہیگل کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی جانب سے اکٹھے کیے جا رہے شواہد سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ شام کی حکومت گزشتہ ہفتے ہونے والے کیمیائی حملوں میں ذمہ دار ہے۔
معائنہ کاروں کا مینڈیٹ
اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی 20 رکنی ٹیم 18 اگست سے شام میں ہے اور وہ اس سے قبل ہونے والے تین مبینہ کیمیائی حملوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کا مینڈیٹ صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں یا نہیں۔ اس بات کا پتا چلانا ان کی مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیے ہیں۔
بی بی سی کے بیروت میں نامہ نگار یولینڈ نیل کہتے ہیں کہ معائنہ کاروں کی یہ ٹیم مٹی، خون، پیشاب اور بافتوں کی نمونے حاصل کرے گی جن کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ شام میں لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں'۔
'میرے خیال سے ان معلومات سے پتہ چل جائے گا گا کہ ان ہتھیاروں کا استعمال باغیوں نے نہیں کیا اور اس بات کے ٹھوث شواہد ہوں گے کہ اس میں شام کی حکومت ملوث تھی۔ لیکن ہم حقایق کے سامنے آنے کا انتظار کریں گے'۔
چک ہیگل کا بیان اس وقت آیا جب ایک دن قبل ہی وزیر خارجہ سینیٹر جان کیری نے شام کی حکومت پر دمشق کے نواح میں گولا باری کر کے کیمیائی حملوں کے شواہد کو ختم کرنے کا الزام لگایا تھا۔
پیر کو معائنہ کاروں کی ٹیم متاثرہ علاقے کی جانب جاتے ہوئے فائرنگ کے زد میں آ گئی تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ایک سخت بیان میں شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے 'ناقابلِ تردید' استعمال کی مذمت کی ہے۔ جان کیری نے دمشق کے مضافات میں ان حالیہ حملوں کو'اخلاقی بد تہذیبی' قرار دیا۔
جان کیری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'جو کچھ ہم نے شام میں گزشتہ ہفتے دیکھا ہے اس سے دنیا کے ضمیر کو ضرور جاگنا چاہیے۔'
شامی حکومت اور حزبِ مخالف دونوں ایک دوسرے پر اس کیمیائی حملے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
شام کے خلاف مغربی ممالک کی جانب سے ممکنہ کارروائی کے پیش نظر ایشیا اور یورپ کی شیئر مارکیٹ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔دبئی میں دو ہزار نو میں آنے والے معاشی بحران کے بعد سے شیئرز کی قیمت میں سب سے زیادہ سات فیصد کمی آئی ہے۔ ایشیا کے دوسری مارکیٹوں میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ یورپ کی مارکیٹ میں اوسطاً ساڑھے ایک فیصد تک کمی ہوئی ہے۔
خام تیل کے ایک بیرل کی قیمت ایک سو بارہ امریکی ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔ تیل کے بیرل کی قیمت میں اضافہ شام پر حملے سے خطے کی تیل کی برآمدات متاثر ہونے کے خدشات کو ظاہر کرتا ہے۔
اس وقت اس لنک پر اس کا ٹائٹل بدل دیا گیا ھے مگر اسی ٹائٹل سے یہ خبر کسی فارم میں لگائی تھی جو اب یہاں شیئر کر رہا ہوں۔
ح