• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانوی وزیر اعظم کیمرون کو شام پر ممکنہ کارروائی کے ووٹ میں شکست

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
برطانوی وزیر اعظم کیمرون کو شام پر ممکنہ کارروائی کے ووٹ میں شکست

جمعـہ 30 اگست 2013

برطانوی دارالعوام کے اراکین نے برطانوی حکومت کی جانب سے شامی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے دارالعوام میں پیش کی گئی قرارداد کو تیرہ ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی گئی۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالعوام نہیں چاہتا کہ کارروائی کی جائے 'حکومت اس کے مطابق کام کرے گی'۔

اس ووٹ کے بعد اب امریکی کی سربراہی میں شام پر ممکنہ فوجی کارروائی میں برطانیہ کا کردار تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔

دارلعوام میں شکست وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔

صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ لیبر پارٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد جس میں 'پرزور' ثبوتوں کی بات کی گئی تھی کو بھی دارالعوام کے اراکین نے 114 ووٹوں سے مسترد کر دیا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اراکینِ دارالعوام نے حکومت کی اُس قراداد کو بھی مسترد کر دیا جس میں شام میں اس صورت میں فوجی کارروائی کی بات کی گئی تھی اگر اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار اس کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔

'شام اپنا دفاع کرے گا'

اس سے قبل شام کے صدر بشار الاسد نے کہا تھا کہ کہ ان کا ملک مغربی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرے گا۔

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق بشارالاسد کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے براہ راست کارروائی کی دھمکیوں سے ان کے ارادے مزید مستحکم ہوں گے۔

امریکہ اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ شام کی حکومت زہریلی گیس کے حملے میں کئی افراد کی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔ شام کی حکومت نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس حملے کا الزام باغی گروہوں پر عائد کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم شام میں اس حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ معائنہ کار جمعے تک اپنا کام ختم کر لیں گے اور تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ سنیچر تک ان کو پیش کی جائے گی۔

بان کی مون نے یہ اپیل بھی کی ہے کہ معائنہ کاروں کو 'اپنا کام کرنے کے لیے وقت دیا جائے'۔

شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سنا کے مطابق صدر بشار الاسد نے یمن کے رکن پارلیمان سے کہا ہے کہ شام مغربی جارہیت کے خلاف اپنا دفاع کرے گا۔

انھوں نے کہا 'شام کے پُرعزم عوام اور بہادر افواج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لڑتے رہیں گے جس کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل اور مغربی ممالک خطے کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں'۔

اطلاعات کے مطابق شام کی فوج کے سینیئر کمانڈرز ان عمارتوں میں نہیں جا رہے ہیں جہاں ممکنہ طور پر حملہ ہو سکتا ہے۔

دمشق پر ممکنہ حملے کے پیش نظر کئی افراد شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

اس سے قبل امریکی صدر اوباما کا کہنا تھا کہ انھوں نے ابھی تک شام کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ دمشق میں ہونے والے کیمیائی حملے میں شامی حکومت کا ہاتھ ہے۔

ایک امریکی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ شام کی جانب سے کیمیائی حملے کی وجہ سے امریکہ کا قومی مفاد متاثر ہوا ہے اور یہ کہ شام کو ایک تنبیہی پیغام بھیجنے سے شام کی جنگ پر مثبت اثر پڑے گا۔

جیریمی باؤن، بی بی سی کے مشرقِ وسطیٰ کے نامہ نگار، دمشق

شہر کے مرکز میں خاصی ٹریفک تھی لیکن اس کے باوجود مجھے دمشق اس بار پہلے کی نسبت زیادہ خاموش لگا۔ لوگ ان فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں جو کہیں اور کیے جا رہے ہیں۔

خبررساں اداروں نے شہریوں اور حکومت مخالف باغیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بعض جگہوں پر بھاری اسلحہ فوجی اڈوں سے ہٹا لیا گیا ہے اور ہیڈکوارٹر کی کچھ عمارتوں میں سے عملے کو جزوی طور پر نکال لیا گیا ہے۔

ظاہر ہے کہ شامی فوج نے ملک کو حملے سے بچانے کے لیے کسی قسم کا منصوبہ ضرور تیار کیا ہو گا، خاص طور پر اس صورتِ حال میں جب مغربی ممالک کی جانب سے شام پر حملے کی باتیں کھلے عام کی جا رہی ہیں۔

شام کے پڑوسی ممالک بھی ایک نئے بحران سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ بیروت میں ایک قلی نے مجھے بتایا کہ مغرب جو جی چاہے وہ کرے گا: 'لیکن لبنان کے نزدیک بمباری نہ کرنا۔ ہمیں ڈر ہے کہ ایک نئی جنگ شروع ہو جائے گی۔'

ادھر برطانیہ نے ایک مجوزہ قرارداد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے سامنے پیش کی جس میں شام میں عام شہریوں کو بچانے کے لیے 'تمام اقدامات کی اجازت' کی بات کی گئی ہے۔

اس قراردار میں برطانیہ نے شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے 'ناقابلِ تسلیم' استعمال کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک پیغام میں کہا 'ہم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل شام سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے'۔

دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کسی قرارداد پر غور کیا جائے، اقوامِ متحدہ کو اپنی تحقیقات مکمل کرنی چاہییں۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک معائنہ کاروں کی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی تب تک کسی قرارداد کا مسودہ زیرِ غور نہیں لایا جانا چاہیے۔

پاکستان کا موقف

پاکستان نے بھی شام میں حکومت کی جانب سے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیاہے۔

پاکستان نے واضع کیا ہے کہ وہ اقوام محتدہ کی جانب کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق تحقیقات سے قبل کسی حملے کے خلاف ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان شام کے مسئلے کو انتہائی گہرائی سے دیکھ رہا ہے جس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم شام میں فورسز کی جانب سے باغیوں کےخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق تحقیقات کی اجازت دے اور یہ کہ شام میں کسی قسم کی مسلح مداخلت نہ ہو۔

اقوامِ متحدہ کے بغیر کارروائی ممکن

برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جانب سے شام میں کارروائی میں اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ شام میں فوجی مداخلت کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

برطانوی پارلیمان شام میں ممکنہ فوجی مداخلت کی حمایت کرنے کے حوالے سے بحث کرے گی۔

اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار شام میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ ماہرین شام میں کیمیائی حملے کے بارے میں اپنی تحقیقات چار دنوں میں مکمل کر لیں گے اور اس کے بعد انھیں اپنے حاصل کردہ مواد کا تجزیہ کرنے کے لیےمزید وقت چاہیے ہو گا۔

سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپیل کی کہ معائینہ کاروں کی ٹیم کو 'کام کرنے کے لیے وقت دیا جائے'۔

بان کی مون نے مذید کہا 'امن کو موقع دیں، سفارت کاری کو موقع دیں، لڑائی بند کر کے بات چیت شروع کریں'۔

اقوام متحدہ کی منظوری ضروری

مسودہ آج پیش کیا جائے گا

برطانیہ شام میں 'شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات' سے متعلق مسودہ آج اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرنے والا ہے۔

برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ یہ مسودہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

شام کے معاملے پر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی اخضر ابراہیمی نے کہا ہے کہ شام کی جانب سے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں کوئی بھی فوجی کارروائی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد ہی کی جائے گی۔

جنیوا میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور روس کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ کیمیائی حملہ کس نے کیا ہے تو وہ یہ ثبوت اقوامِ متحدہ کو فراہم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے کیمیائی حملے کی مذمت کرتا ہے۔

اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی ٹیم نے 21 اگست کے مبینہ کیمیاوی حملے کے بارے میں تحقیقات کا کام دوبارہ شروع کر دیا۔
اس سے پہلے امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا تھا کہ صدر براک اوباما کی جانب سے شام پر حملے کے احکامات کی صورت میں امریکی افواج شام پر حملے کے لیے تیار ہیں۔

شام کے وزیرِخارجہ ولید معلم کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ شامی افواج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔

امریکہ اور اس کے حلیف شام میں گذشتہ ہفتے کے کیمیائی حملے کے جواب میں ملک میں عسکری مداخلت پر غور کر رہے ہیں۔

حملے کی صورت میں شام کیا کرے گا؟

اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہا ہے تو ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے جواب میں شام کے پاس کیا راستہ ہے۔
جس طرح کے حملے کی بات کی جا رہی ہے اس سے خود کو بچانے کے لیے شام کی حکومت کیا کر سکتی ہے اور جوابی کارروائی کے لیے کس طرح کے اقدامات کا امکان ہے۔

اس کارروائی میں فکسڈ ونگ طیارے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو ان کے ذریعے شام کی فضائی حدود کے باہر سے یہ حملے کیے جا سکتے ہیں جس کا مقابلہ شام کے دفاعی نظام کے لیے مشکل ہوگا۔

شام کا فضائی دفاعی نظام بہترین ہوا کرتا تھا۔ تاہم یہ پرانے روسی ہتھیاروں پر مشتمل ہے جن میں حال ہی میں کچھ نئے ہتھیار بھی شامل کیے گیے ہیں جن میں چین کا سپلائی کیا گیا ریڈار سسٹم بھی ہے۔

تاہم مغربی ممالک کی جدید فضائیہ ان ہتھیاروں سے اچھی طرح واقف ہے جو شام کے پاس ہیں۔

ابھی شام کے ایس 300 سسٹم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا جو شام نے ماسکو سے منگوائے تھے۔ یہ سسٹم یا تو ابھی سپلائی نہیں کیا گیا یا پھر آپریشنل نہیں ہے۔

تو شام اگر خود ان حملوں کا جواب نہیں دے سکا تو پھر اس کی جوابی کارروائی کیا اور کیسے ہوگی۔

ایک راستہ تو یہ ہوگا کہ شام ملک کے اندر باغیوں کے خلاف حملے شدید کردے تاکہ اپنی افواج کی حوصلہ افزائی کر سکے اور امریکہ اور اس اتحادیوں کو یہ پیغام دے سکے کہ اسد حکومت اپنے موقف پر قائم ہے۔

دوسرا متبادل یہ ہو سکتا ہے کہ اردن میں امریکی افواج، ترکی یا پھر اسرائیل پر حملہ کر کے اس لڑائی کا دائرہ وسیع کر دے۔ اس صورتِ حال میں بشار الاسد حکومت کے لیے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اردن میں امریکی افواج اور ترکی خود اپنا دفاع کر سکتا ہے۔

دونوں ہی ممالک میں میزائل شکن نظام موجود ہے اور اسرائیل پر حملے کے امکان کم ہیں کیونکہ شام کی فوج خانہ جنگی میں الجھی ہوئی ہے۔

اسرائیل کے خلاف حملہ ایک بڑی جوابی کارروائی میں تبدیل ہو سکتا ہے جو ایک بڑی علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے جو نہ تو دمشق کے حق میں ہوگا اور نہ ہی ایران کے حق میں۔

شام دوسرے ممالک میں امریکی اور مغربی مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے حزب اللہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

'امریکہ شام پر حملے کے لیے تیار ہے'

جو بائیڈن ان مبینہ کیمیائی حملوں کا شامی حکومت کو ذمہ دار ٹھرانے والے سینیئر ترین امریکی اہلکار ہیں

امریکی نائب صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ 'اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔'

اس سے پہلے امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما کی جانب سے شام پر حملے کے احکامات کی صورت میں امریکی افواج حملے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ' ہم نے صدر کے کسی بھی حکم پر عمل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر لیے گئے ہیں'۔

اس سے قبل شام کے وزیر خارجہ ولید معلم کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ شامی افواج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔

امریکہ اور اس کے حلیف شام میں گذشتہ ہفتے کے کیمیائی حملے کے جواب میں ملک میں عسکری مداخلت پر غور کر رہے ہیں۔

چک ہیگل کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع نے صدر اوباما کو 'ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام آپشنز' سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کے جون سوپل کو بتایا کہ صدر اوباما 'صدر تمام صورتحال سے واقف ہیں اور ہم تیار ہیں۔'

چک ہیگل کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی جانب سے اکٹھے کیے جا رہے شواہد سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ شام کی حکومت گزشتہ ہفتے ہونے والے کیمیائی حملوں میں ذمہ دار ہے۔

معائنہ کاروں کا مینڈیٹ

اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی 20 رکنی ٹیم 18 اگست سے شام میں ہے اور وہ اس سے قبل ہونے والے تین مبینہ کیمیائی حملوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کا مینڈیٹ صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں یا نہیں۔ اس بات کا پتا چلانا ان کی مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیے ہیں۔

بی بی سی کے بیروت میں نامہ نگار یولینڈ نیل کہتے ہیں کہ معائنہ کاروں کی یہ ٹیم مٹی، خون، پیشاب اور بافتوں کی نمونے حاصل کرے گی جن کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ شام میں لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں'۔

'میرے خیال سے ان معلومات سے پتہ چل جائے گا گا کہ ان ہتھیاروں کا استعمال باغیوں نے نہیں کیا اور اس بات کے ٹھوث شواہد ہوں گے کہ اس میں شام کی حکومت ملوث تھی۔ لیکن ہم حقایق کے سامنے آنے کا انتظار کریں گے'۔

چک ہیگل کا بیان اس وقت آیا جب ایک دن قبل ہی وزیر خارجہ سینیٹر جان کیری نے شام کی حکومت پر دمشق کے نواح میں گولا باری کر کے کیمیائی حملوں کے شواہد کو ختم کرنے کا الزام لگایا تھا۔

پیر کو معائنہ کاروں کی ٹیم متاثرہ علاقے کی جانب جاتے ہوئے فائرنگ کے زد میں آ گئی تھی۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ایک سخت بیان میں شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے 'ناقابلِ تردید' استعمال کی مذمت کی ہے۔ جان کیری نے دمشق کے مضافات میں ان حالیہ حملوں کو'اخلاقی بد تہذیبی' قرار دیا۔

جان کیری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'جو کچھ ہم نے شام میں گزشتہ ہفتے دیکھا ہے اس سے دنیا کے ضمیر کو ضرور جاگنا چاہیے۔'

شامی حکومت اور حزبِ مخالف دونوں ایک دوسرے پر اس کیمیائی حملے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

شام کے خلاف مغربی ممالک کی جانب سے ممکنہ کارروائی کے پیش نظر ایشیا اور یورپ کی شیئر مارکیٹ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔دبئی میں دو ہزار نو میں آنے والے معاشی بحران کے بعد سے شیئرز کی قیمت میں سب سے زیادہ سات فیصد کمی آئی ہے۔ ایشیا کے دوسری مارکیٹوں میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ یورپ کی مارکیٹ میں اوسطاً ساڑھے ایک فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

خام تیل کے ایک بیرل کی قیمت ایک سو بارہ امریکی ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔ تیل کے بیرل کی قیمت میں اضافہ شام پر حملے سے خطے کی تیل کی برآمدات متاثر ہونے کے خدشات کو ظاہر کرتا ہے۔

اس وقت اس لنک پر اس کا ٹائٹل بدل دیا گیا ھے مگر اسی ٹائٹل سے یہ خبر کسی فارم میں لگائی تھی جو اب یہاں شیئر کر رہا ہوں۔
ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
اوباما کی'سرخ لکیر'

اتوار 1 ستمبر 2013

خود سے لگائی ہوئی'سرخ لائن' میں پھنس گئے؟

کانگریس سے رائے کے اعلان پر حیرانی

اوباما کا بھی خیال ہے کہ انھیں کانگریس میں کامیابی مل جائے گی

امریکی صدر براک اوباما نے شام کے خلاف کارروائی پر کانگریس سے رائے لینے کے اعلان پر واشنگٹن کو حیران کر دیا ہے۔

بہت سے لوگ توقع کرتے تھے کہ اب تک شام پر حملے کے لیے میزائل ہوا میں ہوں گے لیکن اس کی بجائے اسے کم از کم دس دن کے لیے روک لیا گیا ہے۔

براک اوباما کا یہ فیصلہ شاید ان لوگوں کو متاثر نہ کر سکے جو ان پر عملی اقدام اٹھانے میں تذبذب کا شکار ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن کم از کم شاید اس دفعہ کانگریس کے اراکین شکایت نہیں کریں گے۔

گذشتہ چند دنوں میں کانگریس کے اراکین کی طرف سے سامنے آنے والی آراء سے امکان پیدا ہوا ہے کہ براک اوباما کے فیصلے کو کانگریس سے منظوری مل جائے گی۔

اوباما کا بھی خیال ہے کہ انھیں کانگریس میں کامیابی مل جائے گی لیکن اس طرح تو ان کے ساتھی ڈیوڈ کیمرن بھی سوچ رہے تھے۔

آلۂ کار

ماضی میں برطانیہ پر امریکہ کا آلۂ کار ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اس دفع برطانیہ کے دارالعوام کے اراکین نے براک اوباما کو دانت دکھاتے ہوئے ان کا شام پر حملے کے جواز کو رد کر دیا۔

برطانوی وزیرِاعظم کو ہونے والی شرمندگی نے صدر براک اوباما کے فیصلے پر براہ راست اثر کیا۔ برطانوی پارلمیان نے ملک کی حکومت کی مرضی کے برعکس شام پر حملے کے خلاف ووٹ دیا تھا جس کی وجہ سے براک اوباما کے مشیر شام کے معاملے پر کانگریس کی رائے لینے کے فیصلے کے مزید مخالف ہوگئے۔

ماضی میں برطانیہ پر امریکہ کا پٹھو ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اس دفعہ برطانیہ کے دارالعوام کے اراکین نے براک اوباما کو دانت دکھاتے ہوئے ان کا شام پر حملے کے جواز کو رد کر دیا۔

عراق پر امریکہ حملے کے بعد امریکی عوام نے امریکہ کی جنگیں ختم کرنے کے لیے براک اوباما کو منتخب کیا۔
بہت سے ان کے اپنے حمایتی چاہتے ہیں کہ وہ ملک کے اندر 'قوم کی تعمیر' پر توجہ مرکوز کریں۔

لیکن براک اوباما خود اپنی دی ہوئی سرخ لائن میں پھنس گئے ہیں اور شاید وہ ایران اور شمالی کوریا کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں۔

'سرخ لائن میں پھنس گئے'

لیکن براک اوباما خود اپنے دیے ہوئے سرخ لائن میں پھنس گئے ہیں اور شاید وہ ایران اور شمالی کوریا کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں۔

امریکہ میں کیے گئے ایک حالیہ عوامی جائزے کے مطابق 80 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ کسی بھی فوجی کارروائی سے پہلے کانگریس کا فیصلہ آنا چاہیے۔

ایک ایسی کارروائی جو غیر مقبول ہو اور اتحادی بھی غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہوں، مقامی سطح پر بھی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ ہو تو یہ اوباما انتظامیہ کے لیے ایک مضبوط پوزیشن نہیں۔

لیکن یہ ایک دانشمندانہ اقدام ہے کہ ایک غیر مقبول کارروائی کی ذمہ داری میں دوسرے سیاستدانوں کو بھی شریک کیا جائے جس طرح کہ جولیس سیازر کے قاتل جانتے تھے۔

براک اوباما کا یہ عقلمندانہ اقدام مقامی سطح پر کانگریس کو خوش کرنے کے حوالے سے بھی اچھا ہے۔

بعض لوگ شاید یہ جواز بھی پیش کریں کہ جمہوریت میں یہ ایک صحیح قدم ہے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
تین چوتھائی برطانوی شام پر کارروائی کے مخالف

پير 2 ستمبر 2013

چالیس فیصد افراد نے وزیر اعظم کی کارکردگی پر مثبت رائے دی جبکہ پیالیس فیصد نے منفی رائے دی

بی بی سی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق تین چوتھائی برطانوی شہری سمجھتے ہیں کہ برطانوی دارالعوام کے اراکین شام پر فوجی کارروائی کو رد کرنے میں درست تھے۔

اس جائزے کے مطابق بہتر فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات متاثر ہوں گے اور دو تہائی افراد نے کہا کہ اگر اس سے تعلقات متاثر ہوتے بھی تو انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔

آئی سی ایم ریسرچ نے ایک ہزار بالغ افراد سے انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں جمعے اور پیر کے درمیانی عرصے میں فون پر بات کی۔

برطانوی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ شام پر دوبارہ دارالعوام میں ووٹ نہیں لیا جائے گا۔

برطانوی حکومت کو گزشتہ ہفتے شام میں فوجی کارروائی کے بل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جس عرصے کے دوران یہ جائزہ لیا گیا صدر براک اوباما نے بھی کہا کہ وہ کانگریس سے اس معاملے میں رائے لیں گے جبکہ جان کیری کا کہنا تھا امریکہ کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ شامی حکومت نے گزشتہ مہینے میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔

شامی نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شامی فوج نے نہیں بلکہ امریکی حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔

اس جائزے میں شرکت کرنے والے اکہتر فیصد افراد نے کہا کہ برطانوی دارالعوام نے کارروائی کے خلاف ووٹ دے کر درست کیا ہے جس میں سے بہّتر فیصد مرد جبکہ ستّر فیصد خواتین شامل تھیں۔

اس جائزے سے حاصل شدہ معلومات تقریباً دوسرے کئی جائزوں سے مماثلت رکھتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ برطانوی عوام کی خاصی اکثریت شام میں فوج مداخلت کے خلاف ہے۔

انچاس فیصد افراد کا ماننا تھا کہ اس سے برطانیہ کی کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہو گی جبکہ سولہ فیصد کا ماننا تھا کہ اس سے ملک کی ساکھ متاثر ہو گی۔

چوالیس فیصد افراد کا ماننا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

تینتیس فیصد افراد کا خیال تھا برطانوی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی ایڈ ملی بینڈ اس معاملے سے اچھی طرح نبرد آزما ہوئے جبکہ انتالیس فیصد کی رائے اس کے خلاف تھی۔

چالیس فیصد افراد نے وزیر اعظم کی کارکردگی پر مثبت رائے دی جبکہ پیالیس فیصد نے منفی رائے دی جو کہ دو فیصد کے منفی فرق کے ساتھ ہے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بے چین دمشق

دمشق میں چاروں جانب یہی باتیں ہو رہی ہیں کہ نہ جانے امریکہ کب بمباری کر دے۔ البتہ یہ بات امریکی کانگریس کے فیصلے پر منحصر ہے کہ آیا بمباری ہوگی یا نہیں اور اگر ہوگي تو کب۔

شام کے بعض باشندے اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سربراہ آخر ٹھٹھک کیوں گئے۔ وہ اس امید کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں کہ صدر براک اوباما شام پر حملے میں شامل خطرات سے ڈر گئے اور یہ کہ وہ کانگریس میں حملے کی حمایت میں ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

واضح رہے کہ اس ہفتے تناؤ میں کمی آئی ہے لیکن ہر کسی کو یہ معلوم ہے کہ جب ووٹنگ کا وقت قریب آئےگا تو پھر اس میں اضافہ ہو جائے گا۔

میں شامی عرب حلال احمر کے عملے پر مبنی ایک گروپ کو دیکھ رہا تھا جنہیں یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ اگر انہیں کارخانے اور دفاتر خالی کرنے پڑے تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔

ان کے مینیجر نے انہیں سختی کے ساتھ کہا کہ اب جب بھی وہ سائرن کی آواز سنیں گے تو وہ اصلی ہوگی اور انہیں اپنی جگہ چھوڑنے کے لیے صرف دو منٹ کا وقت ہوگا اور پانچ منٹ کا مزید وقفہ انہیں اپنے چھپنے کی جگہ تک پہنچنے کے لیے حاصل ہوگا۔

زیادہ تر شامی باشندے صدر بشار الاسد کے موقف سے اتفاق رکھتے ہیں کہ امریکہ ضرور حملہ کریگا

حلال احمر کے عملے جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں وہ آپس میں مذاق کرتے ہیں کہ کیا ہوگا جب وہ سائرن کے وقت باتھ روم میں ہونگے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کے اگلے ہفتے کیا ہونے والا ہے۔

'ہم لوگ جواب دیں گے۔ یہ اہم بات ہے۔'

بظاہر دمشق پرسکون اور معمول پر نظر آتا ہے لیکن اگر پہلے سے موازنہ کیا جائے تو یہ بالکل پرسکون نہیں ہے۔ شہر کے لوگ دوسال سے جاری جنگ سے گزر رہے ہیں اور ان کی چمڑی پہلے کے مقابلے موٹی ہو چکی ہے یعنی احساس کی نزاکت میں کمی آئی ہے۔

زیادہ تر شامی باشندے صدر بشار الاسد کے موقف سے اتفاق رکھتے ہیں کہ امریکہ ضرور حملہ کریگا اور وہ اس بارے میں باتیں کیے چلے جاتے ہیں کہ پھر کیا ہوگا۔

ایک صورت تو یہ ہے کہ امریکہ کیمیائی ہتھیاروں کے زخیروں پر حملے کرے گا اور لوگ کو ڈر ہے کہ کہیں اس سے زہریلی گیس کا بادل اٹھ کر ان کی جانب نہ آئے۔

بات چیت کا دوسرا موضوع ہے کہ کیا امریکی حملے کے نتیجے میں چھوٹے شہروں اور شہر کے مضافاتی علاقوں میں مسلح مخالفین کہیں شہر کے مرکز میں تو داخل ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔

اور یہ خدشہ وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے کہ مغربی دنیا سے ایک اور عرب ملک پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں خطے میں بڑی جنگ چھڑ جائے گی۔

شام کے میرے ایک شناسا اور صدر اسد کے حامی نے مجھ سے کہا: 'اگر وہ حملہ کریں گے تو ہم چپ چاپ بیٹھے نہیں رہیں گے۔ ہم لوگ بھی جوابی کارروائی کریں اور یہ اسرائیل اور ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور وہ دونوں بھی خاموش نہیں رہیں گے۔'

یہ واضح نہیں کہ اس طرح کا کچھ ہوگا کیونکہ اس سال کے شروع میں جب اسرائیل نے شام کے اہم سٹریٹیجک علاقوں پر حملہ کیا تھا تو بشار الاسد حکومت نے اس پر رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ان میں سے ایک حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس نے دارلحکومت دمشق کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

لیکن اسرائیلی حملہ اچانک ہوا تھا اور اگر امریکی حملہ ہوتا ہے تو یہ جنگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ اطلاع کے بعد کیا جانے والا حملہ ہوگا۔

اور یہ خدشہ وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے کہ مغربی دنیا سے ایک اور عرب ملک پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں خطے میں بڑی جنگ چھڑ جائے گی

شام کے سرکاری ٹی وی پر دن رات فوج کی قصیدہ خوانی جاری ہے، بہادر فوجیوں کو ٹینکوں کو تباہ کرتے اور راکٹ لانچر چلاتے دکھایا جا رہا ہے۔

شام کے باشندوں کے لیے ہدایات جاری کی جارہی ہیں کہ باغیوں کی کامیابی یا ملک کے حکام کے ملک چھوڑنے کی افواہوں پر کان نہ دیں۔ صدر بشار الاسد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہ ہیں۔

اگر امریکی کانگریس میں حملے کو منظوری مل جاتی ہے تو نتیجے کے علان کے ساتھ ہی دمشق میں ہائی الرٹ ہو جائے۔

جوابی کارروائی کرنے کے اتنے دعووں اور شور کے بعد صدر بشار الاسد اور ان کے مشیروں کے لیے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

جیریمی بوئن بی بی سی کے مشرقِ وسطیٰ ایڈیٹر
منگل 3 ستمبر 2013‭
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
شام پر حملہ ہوا تو خطے کیلئے تباہ کن ہو گا،
ایران کا امریکا کو انتباہ

قاہرہ : عرب لیگ نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شامی حکومت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔

ترک وزیراعظم طیب اردوان کا کہنا ہے کہ محدود آپریشن کے بجائے ممکنہ خطرات کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ضروری ہے۔

ایران نے خبردار کیا ہے کہ شام پر حملہ پورے خطے کے لئے تباہ کن ہوگا۔

عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس قاہرہ میں ہوا جس میں سلامتی کونسل سے شام کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اگر شام کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی تو 'شامی حکومت کو اپنے جرائم جاری رکھنے کی شہ ملے گی۔

عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری اپنی ذمے داری پوری کرے اور شام کو اپنے عوام کے خلاف مظالم ڈھانے سے روکے۔

ترک وزیراعظم طیب اردوان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ شام کے خلاف کوئی بھی بین الاقوامی کارروائی ظالم حکومت کے خاتمے تک جاری رہنی چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بشار حکومت کے خلاف محدود کارروائی کافی نہیں ہوگی۔

ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک ایسی حکومت جس کے ہاتھ ایک لاکھ سے زاہد شہریوں کے خون سے رنگے ہوں، اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں، ایسی حکومت خطے کیلئے بھی خطرہ ہے۔

دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ شام پر حملے سے پورے خطے کا امن تباہ ہو جائے گا۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے ایک بار پھر کہا ہے کہ شامی حکومت کے اپنے شہریوں پر سیرن گیس حملے کے شواہد موجود ہیں۔

امریکی صدر براک حسین اوباما نے شام پر حملے کے معاملے پر کانگریس میں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا ہے، جو نو ستمبر تک متوقع ہے۔

روزنامہ خبریں: 3 ستمبر 2013
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
اللھم لا تسلط علینا من لا یرحمنا ولا یخافک فینا ۔آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
شام کے مسئلے پر جی20 اجلاس 'منقسم'
جمعـہ 6 ستمبر 2013

روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جی20 سربراہی اجلاس کے پہلے دن کے اختتام پر عالمی طاقتیں شام کے خلاف فوجی کارروائی پر متفق نہیں ہو سکیں۔

اطالوی وزیرِ اعظم نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں عالمی رہنماؤں کے متفق نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔

روسی ایوانِ صدر کے ایک ترجمان نے کہا کہ شام پر حملہ 'بین الاقوامی قانون کے تابوت میں ایک اور کیل' ثابت ہو گا۔

دوسری جانب ادھر اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے روس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے شام کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو بار بار ویٹو کر ادارے کو یرغمال بنا لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کو جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دینے کا اب کوئی 'قابلِ عمل راستہ' نہیں بچا۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے نیو یارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا 'شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کے تناظر میں روس نے کونسل کو یرغمال بنا لیا ہے اور وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو رہا'۔

خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما شام کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اٹلی کے وزیرِ اعظم نے ٹوئٹر کے ذریعے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں عالمی رہنماؤں کے متفق نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔

صدر اوباما نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ شام کے خلاف محدو کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے اور انھوں نے اس مقصد کے لیے کانگریس کی منظوری حاصل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

سینٹ پیٹرزبرگ میں موجود بی بی سی نامہ نگار بریجِٹ کینڈل کا کہنا ہے کہ اوباما کے لیے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے حوالے جی 20 کے رہنماؤں کے خیالات باعثِ تشویش نہیں تاہم ان کے لیے اصل مشکلات شاید امریکہ میں ہیں۔

دریں اثنا شام کی پارلیمان کے سپیکر محمد جہاد نے اپنے امریکی ہم منصب جان بینر کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ شام میں فوجی کارروائی کے بارے میں جلد بازی نہ کریں۔

اس سے پہلے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن نے کہا تھا کہ برطانیہ کو دمشق میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے نئے شواہد ملے ہیں۔

روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جی20 ممالک کے اجلاس میں شرکت سے پہلے ڈیوڈ کیمرون نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ برطانوی پارلیمان کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے خلاف قرار داد کے بعد برطانیہ کا شام کے بارے کردار ختم نہیں ہوگیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت پر 21 اگست کو دارالحکومت دمشق کے مضافات میں کیمیائی حملہ کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جس کی شام حکومت تردید کرتی ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے 21 اگست کو دمشق کے نواح میں کیمیائی حملے کیے تھے جن میں 1429 افراد مارے گئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت میں اب تک ایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
امریکہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے: بشار الاسد

پير 9 ستمبر 2013

شام کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت شام کے اتحادی امریکہ کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں: بشار الاسد

شامی صدر بشار الاسد نے ایک امریکی ٹی وی کو بتایا ہے کہ امریکہ کے پاس اس بات کا 'کوئی ثبوت' نہیں ہے کہ شام نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔

پی بی ایس چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ اگر مغرب نے حملہ کیا تو اس کے حلیف اس کا جواب دے سکتے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری شام کے خلاف فوجی کارروائی کی لیے یورپی اور عرب رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیری کی عرب رہنماؤں سے ملاقات

پیر کو کانگریس کے ارکان گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس لوٹیں گے اور پہلے اجلاس میں صدر اوباما کی جانب سے 'محدود' حملے کے بارے میں بحث کریں گے۔ سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے اراکین بدھ تک اس معاملے پر رائے شماری میں حصہ لے سکتے ہیں۔

امریکہ شامی حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے 21 اگست کو دمشق کے مضافاتی علاقے غوطہ میں باغیوں کے خلاف سیرن گیس استعمال کی تھی جس سے 1429 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بشار الاسد کی حکومت اس حملے کا الزام باغیوں پر لگاتی ہے جو ڈھائی برس سے حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسی دوران اطلاعات آئی ہیں کہ شامی باغیوں نے دمشق کے شمال میں تاریخی عیسائی بستی معلولا پر قبضہ کر لیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا کہ باغی وہاں میں عیسائیوں کے ثقافتی ورثے کو نقصانات پہنچا سکتے ہیں۔ معلولا کے رہائشی اب بھی قدیم آرامی زبان بولتے ہیں۔

ادھر شام کی اپوزیشن نے خبر دار کیا ہے کہ حکومتی افواج نے ملک کے مغربی حصے میں اسد جھیل پر باندھےگئے بند کو توڑ دیا ہے جس سے وادی فرات میں سیلاب آنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

جوابی کارروائی

بی پی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے شامی صدر نے کہا کہ یہ ثابت کرنا امریکہ کا کام ہے کہ شامی فوج نے غوطہ میں کیمیائی حملہ کیا ہے:

'اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ میں نے اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی اسلحہ استعمال کیا ہے۔'
صدر اسد نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ ان کے پاس کیمیائی اسلحہ ہے، لیکن کہا کہ اگر ایسے ہتھیار موجود بھی ہیں تو وہ 'مرکزی کنٹرول' میں ہیں۔

اسد نے یہ بھی عندیہ دیا کہ اگر شام پر حملہ ہوا تو 'ان کے حلیف کسی نہ کسی قسم کی جوابی کارروائی کریں گے۔'

شام کے حلیفوں میں روس، چین اور ایران کے علاوہ لبنان کی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ شامل ہے۔

وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ اس بات کا کوئی 'ناقابلِ تردید' ثبوت نہیں ہے کہ 21 اگست کو ہونے والا حملہ شامی حکومت نے کیا تھا، لیکن 'شواہد سے قطع نظر عقلمِ سلیم کہتی ہے' کہ حکومت اس کی ذمے دار ہے۔
وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف ڈینس میک ڈونو نے اتوار کو کہا: 'ہم نے اس حملے کے نتائج کی ویڈیو دیکھی ہے۔ کیا ہمارے پاس کسی شک و شبے سے بالاتر، ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں؟ یہ کوئی عدالت نہیں ہے اور انٹیلی جنس معلومات اس طرح کام نہیں کرتیں۔'

شام کے کیمیائی ہتھیار

. سی آئی اے کا خیال ہے کہ شام کے پاس کئی برسوں سے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جنھیں جہاز، بیلسٹک میزائلوں اور آرٹلری راکٹوں کی مدد سے داغا جا سکتا ہے۔

. شام کے پاس مبینہ طور پر مسٹرڈ گیس اور سیرن موجود ہیں، جو انتہائی طاقت ور اعصابی گیسیں ہیں۔

. سی آئی اے سمجھتی ہے کہ شام نے وی ایکس جیسی زیادہ مہلک کیمیائی ہتھیار بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔

. ترک، عرب اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کے مطابق شام کے پاس ایک ہزار ٹن سے زائد کیمیائی اسلحہ موجود ہے جسے 50 شہروں اور قصبوں میں رکھا گیا ہے۔

. شام نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی روک تھام کے معاہدے سی ڈبلیو سی پر دستخط نہیں کیے۔


امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بھی بشار الاسد کا بیان مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ شواہد 'خود اپنے منھ سے بول رہے ہیں۔'

انھوں نے پیرس میں عرب لیگ کے وزارئے خارجہ سے ملاقات میں کہا: 'اسد کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا افسوس ناک استعمال بین الاقوامی ''سرخ لکیر'' عبور کرتا ہے۔'

کیری پیر کی صبح برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ سے ملاقات کریں گے۔

برطانوی حکومت کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کے باوجود ولیم ہیگ نے امریکی موقت کی تائید کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'میں سختی سے اس بات کا قائل ہوں کہ دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔'

بی بی سی اور اے بی سی نیوز کی جانب سے کیے جانے والے ایک مشترکہ سروے کے مطابق کانگریس کے ایک تہائی ارکان نے ابھی تک شام پر حملے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، اور جنھوں نے فیصلہ کر لیا ہے ان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ صدر کے خلاف ووٹ دیں گے۔

ان میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ شام پر حملے سے امریکہ ایک اور جنگ میں الجھ کر رہ جائے گا اور اس جنگ کے شعلے پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

ح
 
Top