::::::: برکت اور تبرک ::::::
نمبر شمار
موضوع
صفحہ
1
:::::::برکت ہر ایک حلال کام،چیز اور پاکیزہ جگہ میں ہو سکتی ہے :::::::
3
2
::::::: برکت کیسے ملتی ہے ؟ اور تبرک کیا ہے؟ :::::::
3
3
:::::: برکت کے حصول کے اسباب ::::::
5
4
::::::: """برکت """کونسی چیزوں میں ہوتی ہے ؟ :::::::
5
5
:::::: برکت و الے کام :::::::
11
6
::::::: برکت والے اوقات :::::::
14
7
::::::: برکت والے مُقامات (جگہیں) ::::::
17
8
::::::: ناجائز تبرک ::::::
18
9
:::::: حجر اسود، اور اُسے چُھونے چُومنے کے بارے میں أہم باتیں ::::::
20
موضوع
صفحہ
1
:::::::برکت ہر ایک حلال کام،چیز اور پاکیزہ جگہ میں ہو سکتی ہے :::::::
3
2
::::::: برکت کیسے ملتی ہے ؟ اور تبرک کیا ہے؟ :::::::
3
3
:::::: برکت کے حصول کے اسباب ::::::
5
4
::::::: """برکت """کونسی چیزوں میں ہوتی ہے ؟ :::::::
5
5
:::::: برکت و الے کام :::::::
11
6
::::::: برکت والے اوقات :::::::
14
7
::::::: برکت والے مُقامات (جگہیں) ::::::
17
8
::::::: ناجائز تبرک ::::::
18
9
:::::: حجر اسود، اور اُسے چُھونے چُومنے کے بارے میں أہم باتیں ::::::
20
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہم اکثر بلکہ بہت زیادہ ایک چیز کا ذِکر سُنا کرتے ہیں ، اور اس چیزکو حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں ، اُس کے حصول کے لیے دُعا بھی کرتے ہیں ، لیکن شاید اُس کے بارے میں دُرُست معلومات نہ ہونے کے سبب ٹھیک طور پر اُس کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتے ،اور اِسی کم عِلمی یا غلط فہمیوں کے باعث کچھ چیزوں، کچھ لوگوں کے بارے میں یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ اُن میں وہ چیز ایک مستقل صِفت کے طور پر پائی جاتی ہے ،لہذا اُن میں سے وہ چیز حاصل ہوتی ہے ،
یا ، اور ، اُن کے ذریعے وہ چیز حاصل کی جا سکتی ہے ، وہ لفظ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ، وہ چیز جس کی بارے میں یہ تمہید باندھی ہے وہ ہے """ برکت """،
جی ، اسے عربی میں """برکۃٌ """" کہا جاتا ہے اس کے بارے میں لغوی معلومات سے صرفءِ نظر کرتے ہوئے میں مختصراً اِس کے معانی اور مفاہیم کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں ،
"""برکت """ کے درج ذیل معانی اور مفاہیم ہیں ،
::::: (1) ::::: کسی بھی چیز میں خیر کا حسی یا معنوی اضافہ،
::::: (2) ::::: کسی چیز میں خیر کے وجود کا ثابت ہونا ،
::::: (3) ::::: کسی چیز میں اضافہ ،
::::: (4) ::::: کسی چیز کا مضبوطی سے جم جانا ،
پہلے دو معانی ہی اِسلامی عقائد کے ترجمان ہیں ، اور اُن دو معانی میں مُشترک صِفت کسی چیز میں خیر کا ہونا ہے ،اور یقیناً خیر وہی ہوتی ہے جو اللہ کی طرف سے بطور نعمت میسر ہو ، اور یقیناً خیر اُسی چیز میں ہوتی ہے جس کا اِستعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام کے عین مطابق ہو ، اُسی کام میں ہوتی ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام کے عین مطابق ہو ،
کسی چیز میں محض کوئی اضافہ """برکت """ نہیں ،
یعنی کسی چیز میں اضافہ جو شرعی طور پر خیر والا نہ ہو """برکت """ نہیں ہوتا بلکہ صرف اضافہ ہوتا ہے ، لہذا کسی چیز میں بڑھاوے یا اضافے کو ہم """برکت """ نہیں سمجھ سکتے ،
مثلاً کسی شخص کو بہت اچھی صحت میسر ہے ، اور اُس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، یا اچانک ہی کسی کی صحت ، تندرستی، چابکدستی ، ذہانت وغیرہ میں اضافہ ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے لیکن اُس کی صحت و تندرستی، چابکدستی اور ذہانت کا اِستعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں نہیں ہوتا ،خیر کے کاموں میں نہیں ہوتا ، بلکہ شرّ کے کاموں میں ہوتا ہے ، تو بلا شک و شبہ یہ اضافہ محض اضافہ ہے """برکت """ نہیں ،
کسی شخص کو بہت مال میسر ہوتا ہے اور اُس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، یا اچانک کسی کو مال ملنا شروع ہو جاتا ہے ، یا کسی کے تھوڑے سے مال میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بظاہر اس اضافے کے اسباب صاف ستھرے اور جائز ہوتے ہیں لیکن اُس مال کا اِستعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں نہیں ہوتا، نیکی کے کاموں میں نہیں ہوتا ، بلکہ نافرمانی اور گناہ کے کاموں میں ہوتا ہے ، تو یہ اضافہ محض اضافہ ہے """برکت """ نہیں ،
آخر میں ایک اہم بات کی طرف سب قارئین کی خاص توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ """ برکت مادی طور پر حسی چیز نہیں ہے، کسی کم و کیف ، جسد و ہیئت میں مقید چیز نہیں ، کہ اسے کسی طور اپنی مرضی کے مطابق لیا یا دیا جا سکے ، یا اس کا ماپ تول کیا جا سکے """
::::::: برکت ہر ایک حلال کام ، چیز اور پاکیزہ جگہ میں ہو سکتی ہے :::::::
جی ہاں ، ہو سکتی ہے ، اور نہیں بھی ،
"""برکت """ ہمارے گھروں میں اُن میں موجود اطمینان ، امن ، محبت سے جانچی جا سکتی ہے ،
"""برکت""" ہمارے اموال میں ایسا اضافہ ہے جو نیکی کے ساتھ ہو اور نیکی میں اِستعمال ہو،
"""برکت """ ہمارے کھانے میں ہماری صحت اور جسمانی راحت کی موجودگی سے پہچانی جا سکتی ہے،
"""برکت """ ہمارے گھرانے اور خاندان میں نیک و صالح افراد کی موجودگی سے جانی جا سکتی ہے ،
"""برکت """ ہمارے وقت میں رزق حلال کی کوشش میں صرف ہونے اور نیکیوں میں صرف ہونے کی صُورت میں سُجھائی دے سکتی ہے ،
"""برکت """ہمارے عِلم میں معلومات کی کثرت ، وسعت، گہرائی اور مضبوطی کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کے مطابق جانچنے اور اپنانے یا رد کرنے اور ان پر علم پیرا ہونے میں دیکھی جا سکتی ہے ، غرضیکہ زندگی کے ہر ایک لمحے میں """برکت """ کا حصول ممکن ہے ،
ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرواتا چلوں کہ """ برکت """ کسی بھی چیز میں خیر والے اضافے اور خیر کا موجود ہونا ہے ، جو یقیناً اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے ایسی نعمت جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ کئی نعمتوں کو ایسا بڑھاوا دیتا ہے کہ حسی طور پر وہ بہت کم دکھائی دیتی ہیں لیکن عملی طور پر وہ بہت زیادہ سے زیادہ والا کام کردیتی ہیں ، باذن اللہ ،
اس کی مثالیں کثرت سے ہمارے مسلم معاشرے میں ملتی چلی آ رہی ہیں ۔
::::::: برکت کیسے ملتی ہے ؟ اور تبرک کیا ہے؟ :::::::
::::::: """برکت """ اللہ کی طرف سے ہی مل سکتی ہے ، مخلوق میں سے کوئی بھی چیز ،قول ، فعل ،یاشخصیت یاجگہ یا عمل ذاتی طور پر یہ صلاحیت نہیں رکھتی کہ وہ """برکت """ لے سکے ، یا دے سکے:::::::
جی ہاں ، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایک جلیل القدر نبی عیسی علیہ السلام کے قول کی صورت میں ہمیں یہ بتاتا ہے ﴿ و جَعَلنِی مُبارَکاً أِینَ مَا کُنت ُ و أَوصِانی بِالصَّلاۃِ و الزَّکاۃِ مَا دُمت ُ حَیّاً :::اور مجھے اللہ نے ہر جگہ ہر وقت برکت والا بنایا اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوۃ (ادا کرنے ) کا حکم دیا ہے﴾سُورت مریم(19)/آیت 31 ،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ :::وہ (یعنی اللہ )بہت ہی زیادہ برکت دینے والا ہے اُس کے ہاتھ میں ساری ہی بادشاہی ہے اور وہی ہر چیز ہے مکمل قُدرت رکھتا ہے﴾سُورت المُلک(67)/آیت 1 ،
یعنی ہر ایک چیز پر مکمل اختیار اور بادشاہی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ہے لہذا تمام تر """برکت """صرف اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ، جسے، جب ، جتنی، جیسےاور جب تک چاہے دیتا ہے ،اورجیسے چاہے اُس"""برکت"""سے کسی اور کو مستفید کرتا ہے،
پس ہمیں یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ کسی بھی چیز یا شخصیت میں """برکت"""صِرف اور صِرف اللہ جلّ ثناوہُ کی طرف سے ہوتی ہے اور اُس میں سے آگے کسی اور کو ملنا بھی صرف اللہ جلّ جلالہُ کی مشئیت اور حکم سے ہوتا ہے ،
کسی چیز ،کسی جگہ یا شخصیت میں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی"""برکت """ ہو تو وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی کہ جب اور جیسے اور جتنی کسی کا جی چاہے جا کر لے آئے ، یا وہ چیز یا شخصیت خود سے کچھ """برکت """ نکال کر کسی کو دے دے ،
جی ہاں اللہ تعالیٰ اپنے اِیمان والے نیک بندوں میں سے جِسے چاہتا ہے کسی دوسرے کے لیے کسی برکت کا ذریعہ بھی بنادیتا ہے ، اس کی تفصیل اِن شاء اللہ آگے بیان کروں گا ، لیکن یہ بات حق ہے کہ کسی بھی شخصیت میں ، کسی بھی چیز میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ خود سے کسی کو کوئی برکت دے سکے ،اور نہ ہی کوئی چیز یا مُقام یا شخصیت مطُلقاً اور بذات خود ہر کسی کے لیے متبرک ہوتی ہے ، لہذا ،
تبرک یعنی برکت حاصل کرنے کی نیت سے کیے جانے والا کوئی کام ، یا کسی چیز کو حاصل کرنا یا کسی چیز کو اِستعمال کرنا صرف اور صرف اُسی وقت حصول برکت کا باعث بن سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اُس کے ذریعے برکت دینا چاہے ، کیونکہ کسی بھی چیز ، کسی بھی عمل اور کسی بھی شخصیت میں ذاتی طور پر ایسی مستقل برکت نہیں دی گئی جو ہر اِیمان والے کو یقیناً حاصل ہو سکتی ہو ، اِس موضوع کی کچھ مزید تفصیل اِن شاء اللہ برکت والی چیزوں کے ضمن میں پیش کروں گا ،
لیکن اس میں سے انبیاء علیہم السلام کا معاملہ الگ ہے ، کہ انبیاء علیہم السلام کے جسموں میں الگ ذاتی مُستقل برکت دی گئی تھی ،اسی لیے صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےوضوء سے بچا ہوا پانی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہاتھ مُبارک داخل ہوا کرتے ، پسینہ مُبارک،ناخن مُبارک،بال مُبارک،حتیٰ کہ تھوک مُبارک تک حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے رہتے ،
یہاں یہ بات خُوب اچھی طرح سے سمجھ لینے والی ہے کہ انبیاء اور رُسولوں علیہم السلام کے اِس معاملے کی وجہ سے کسی غیر نبی اور غیر رُسول کے بارے میں با برکت ہونے اور اُس سے تبرک حاصل کرنے کا عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے ،
اِس مضمون میں میرے دو بنیادی مقاصد ہیں :::
::::::: (1) ::::::: """برکت """ کی تعریف ، اس کے حصول کے اسباب ، اور اُن چیزوں کا بیان جن میں برکت ہونے کی خبر دی گئی ہے ، تا کہ ہم اُن چیزوں کو جان کر اُنہیں پہچان کر اُن کے ذریعے اللہ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کریں ،
::::::: (2) ::::::: ہم خوب اچھی طرح یہ سجھ لیں کہ ان چیزوں میں برکت کی موجودگی ان کی اپنی ذاتی کمائی نہیں ،اور یہ چیزیں بذات خود کسی کو کچھ برکت دینے والی نہیں ہیں ، اورکوئی اِن میں سے کسی مادی ذریعے سے برکت نکال کر اپنے لیے اپنی یا کسی اور کی کسی بھی چیز میں داخل نہیں کر سکتا،کیونکہ جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ """ برکت مادی طور پر حسی چیز نہیں ہے، کسی کم و کیف ، جسد و ہیئت میں مقید چیز نہیں ، کہ اسے کسی طور اپنی مرضی کے مطابق لیا یا دیا جا سکے، یا اس کا ماپ تول کیا جا سکے"""۔
:::::: برکت کے حصول کے اسباب ::::::
وہ تمام چیزیں حاصل کرنا برکت کے حصول کے اسباب میں سے ہیں جن میں برکت ہونے کی خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ملی ہو ، اور وہ تما م کام کرنا بھی برکت کے حصول کے اسباب میں سے ہیں جن کے کرنے میں اور جن میں برکت ہونے کی خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ملی ہوئی ، لہذا برکت کے حصول کے اسباب جاننے کے لیے ایسی چیزوں، کاموں اور جگہوں کے بارے میں جاننا اشد ضروری ہے جِن میں برکت ہونے کی خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ملی ہوئی ،
آیے اُن چیزوں اور کاموں کے بارے میں ملنے والی صحیح ثابت شدہ خبروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
::::::: """برکت """کونسی چیزوں میں ہوتی ہے ؟ :::::::
اس سوال کے جواب کو اِن شاء اللہ اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے میں برکت والی چیزوں کو کچھ الگ الگ عناوین میں بیان کروں گا اِن شاء اللہ ،
:::::: برکت و الی چیزیں :::::::
::: (1) ::: قران پاک میں برکت ہے :::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان مُبارک ہے ﴿ وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ::: اور یہ برکت والی کتاب ہم نے نازل کی لہذا تُم لوگ اس کی پیروی کرواور (اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے)بچوتا کہ تُم لوگوں پر رحم کیا جائے ﴾سُورت الانعام(6)/آیت 155 ،
اور فرمایا ﴿ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ:::(اے محمد )ہم نے آپ کی طرف برکت والی کتاب نازل کی ہے تا کہ لوگ اس کی آیات میں غور و فِکر کرو اور تا کہ عقلمند(اِس کے ذریعے)نصیحت حاصل کریں﴾سُورت ص(38)/آیت 29،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ من الْبَيْتِ الذي تُقْرَأُ فيه سُورَةُ الْبَقَرَةِ::: اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ بے شک شیطان اُس گھر سے دور بھاگتا ہے جس میں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہے﴾صحیح مُسلم /حدیث780/کتاب الصلاۃ المسافرین و قصرھا /باب29،
پس قران مبارک کو پڑھنا ، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا برکت کے حصول کے اہم اسباب میں سے ہے ۔
::: (2) ::: اِیمان اور تقویٰ میں برکت ہے :::
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے ﴿ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ وَلَـكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ :::اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ضرور اُن پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جُھٹلایا پس ہم نے اُن کو اُن کے کیے پر پکڑ لیا﴾سُورت الاعراف(7)/آیت 96 ،
یعنی اللہ پر اُس کے احکام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات اور احکام کے مطابق ایمان لانا اور اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچنے کی کوشش میں رہنا اللہ کی طرف سے آسمان اور زمین کی برکتیں حاصل کرنے کا سبب ہے ۔
::: (3) ::: نیکو کار اِیمان والوں میں بھی برکت ہوتی ہے :::
اللہ تعالیٰ اپنے اِیمان والے نیک بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کسی دوسرے کے لیے کسی برکت کا ذریعہ بھی بنادیتا ہے ، اوروہ برکت جِس نیکو کار اِیمان والے شخص کے ذریعے ملتی ہے لغوی طور پر اُس شخص کی برکت بھی کہا جا سکتا ہے ،
جیسا کہ تیمم کی آیات نازل ہونے پر اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ ُنے ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ اور اِیمان والوں کی محترمہ و پاکیزہ ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہا """ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يا آلَ أبي بَكْرٍ ::: اے ابو بکر کے خاندان والو یہ آپ لوگوں کی پہلی برکت نہیں""" مُتفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری /حدیث327 /کتاب التیّمم کی پہلی حدیث ، صحیح مُسلم /حدیث367 /کتاب الحیض /باب28،
اِن الفاظ کی شرح میں اِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے لکھا کہ """قَولُهُ مَا هِي بأولِ بَركتِکُم أي بَل هِي مَسبُوقَة بِغيرهَا مِن البَركاتِ والمُراد ُبآلِ أبي بكرٍ نَفسهُ وأهلهُ وأتباعهُ وفِيهِ دليلٌ عَلى فضلِ عائشة وأبيها وتَكرارُ البركة مِنهما ::: اُسید رضی اللہ عنہ ُ کی اِس بات کہ """یہ آپ لوگوں کی پہلی برکت نہیں """ کا مطلب یہ ہوا کہ اِس واقعہ سے پہلے بھی اُن لوگوں کی برکتوں میں سے برکتیں ظاہر ہو چکی ہیں ، اور """آل ابی بکر """ کا مطلب ،خودأمیر المومنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ ، اور اُن کے گھرانے والے اور اُن کے پیروکار ہیں ، اوراُسید رضی اللہ عنہ ُ کی بات میں إِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے والد محترم رضی اللہ عنہ ُ کی فضیلت اور اُن دونوں میں سے برکت کے بار بار حاصل ہونے کی بھی دلیل ہے """،
اور اِمام ملا علی قاری حنفی رحمہُ اللہ نے بھی کچھ مختلف الفاظ میں یہی کچھ فرمایا ہے ،
::::::: ایک اور روایت میں یہ ہے کہ اُسید رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """جَزَاكِ الله خَيْرًا فَوَاللَّهِ ما نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إلا جَعَلَ الله ذَلِكِ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فيه خَيْرًا ::: اللہ آپ کو خیر والی جزاء عطاء فرمائے ، اللہ کی قسم آپ کے لیے جب بھی کوئی دُکھ والا کام ہوا تو اللہ نے اُس میں آپ کے لیے اور مُسلمانوں کے لیے خیر عطاء فرما دی """ صحیح البُخاری /حدیث329 /کتاب التیّمم /باب اول ،
::::::: اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ """ جَزَاكِ الله خَيْرًا فو الله ما نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ إلا جَعَلَ اللهُ لَكِ منه مَخْرَجًا وَجُعِلَ لِلْمُسْلِمِينَ فيه بَرَكَةٌ ::: اللہ آپ کو خیر والی جزاء عطاء فرمائے ، اللہ کی قسم آپ کے لیے جب بھی کوئی دُکھ والا کام واقع ہوا تو اللہ نے آپ کے لیے اُس میں سے نکلنے کا راستہ بنایا اور اُس میں مُسلمانوں کے لیےبرکت دی"""مُتفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری/حدیث4869 /کتاب النکاح/باب65، صحیح مُسلم /حدیث367/کتاب الحیض /باب28،
::::::: اِیمان والوں کی ایک محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک بہن اِیمان والوں کی ایک اور محترمہ امی جان جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے نکاح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ، لوگوں نے اِس نکاح کی وجہ سے جویریہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے کے تمام غلاموں کو رہا کر دِیا کہ یہ لوگ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سُسرال ہیں ،
اور پھر اپنی بہن ، اِیمان والوں کی ایک اور ماں جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے بارے میں اِرشاد فرمایا"""فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا أُعْتِقَ فِى سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِى الْمُصْطَلِقِ::: پس ہم نے کسی عورت کو اُس کی قوم کے لیے جویریہ سے زیادہ برکت والا نہیں دیکھا کہ اُن کی وجہ سے (اُن کے قبیلے) بنی مُصطلق سو گھرانوں کے افراد کو غلامی سے نجات ملی"""سُنن ابو داؤد/حدیث/3933کتاب العِتق/باب2،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے حَسن قرار دِیا ،
::: (4) ::: سحر ی کے کھانے میں برکت ہے :::
﴿ تَسحَّرُوا فَاِنَّ فِی السَّحُورِ بَرکۃٌ :::سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے﴾صحیح البُخاری/حدیث 1963/کتاب الصوم/باب 20، صحیح مُسلم/ حدیث1095 /کتاب الصیام/ باب9 ،
ابی الدرداء ، اور عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سحری کے کھانے کو ﴿الغَداءُ المُبارک:::برکت والی خوراک﴾قرار دیا ، سنن ابی داؤد /حدیث 2344/کتاب الصوم /باب 16، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 2983،
عبداللہ ابن عَمر ابن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ﴿ تَسحَّرُوا و لَو بِجُرعۃِ مِن مَاءٍ:::سحری (کے وقت ضرور کھایا ، یا پیا )کروخواہ پانی کا ایک چُلُّو ہی ہو ﴾صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 2945،
اس حدیث شریف میں سحری کے وقت کچھ نہ کچھ ضرور کھانے یا پینے کو جو حُکم ہے اُس کی حکمت سحری کے کھانے میں پائی جانے والی برکت کا حصول بھی ہے اور اس کے عِلاوہ ایک اور حِکمت بھی ہے جس کا ذِکر """ماہ رمضان اور ہم """ کے زیر عنوان مضامین میں سحری سے متعلقہ مضامین میں ہو چکا ہے ،
"""ماہ رمضان اور ہم """ کا مطالعہ درج ذیل ربط پر کیا جا سکتا ہے :
http://bit.ly/18cMpsG
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِنَّ الله وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الْمُتَسَحِّرِينَ :::یقینا ً اللہ اور اُس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر صلاۃ بھیجتے ہیں﴾صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث1066 ،
[[[صلاۃ کے معنی اور مفہوم کا ذکر """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کا ثواب """ میں ذِکر کر چکا ہوں ]]]
مذکورہ بالا تینوں احادیث شریفہ صحیح ابن حبان / کتاب الصوم /باب السحور میں بھی ہیں ،
::: (5) ::: کھانے کے درمیانی اور بالائی حصے میں برکت ہوتی ہے :::::::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إذا وُضِعَ الطَّعَامُ فَخُذُوا من حَافَتِهِ وَذَرُوا وَسَطَهُ فإن الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ في وَسَطِهِ :::جب کھانا (کھانے کے لیے)رکھ دیا جائے تو اُس کے کناروں میں سے لو اور اُس کا درمیانی حصہ چھوڑ دو کیونکہ برکت اُس کے درمیانی حصے میں نازل ہوتی ہے﴾سُنن ابن ماجہ/حدیث 3275/کتاب الأطعمہ/باب 12،سُنن الترمذی /حدیث 1805/کتاب الأطعمہ/باب12، دونوں روایات کو امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
::: (6) ::: کھانے کے آخری حصے میں برکت ہوتی ہے :::
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إذا أَكَلَ أحدكم فلا يَمْسَحْ يَدَهُ حتى يَلْعَقَهَا أو يُلْعِقَهَا :::جب تُم میں کوئی (کچھ )کھائے تو اپنے ہاتھ کو (کپڑے وغیرہ سے پونچھ کر )صاف کرنے سے پہلے اُسے چاٹ لے یا چٹوا لے﴾صحیح البخاری /حدیث 5140/کتاب الاطعمہ/باب50 ، صحیح مُسلم /حدیث2031 /کتاب الاشربہ /باب18،
اور اس کی مزید وضاحت ایک اور حدیث میں ملتی ہے جو جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لَا يَمْسَحْ أَحَدُكُمْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ الْبَرَكَةُ:::تُم لوگوں میں سے کوئی بھی (کھانا کھانے کے بعد آخر میں ) اپنے ہاتھ کو (کپڑے وغیرہ سے پونچھ کر )صاف کرنے سے پہلے چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے کھانے میں برکت کہاں ہے﴾سنن ابن ماجہ /حدیث3270 /کتاب الاطعمہ /باب9، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
انہی جابر بن عبدللہ رضی اللہ عنہ ُ کا یہ بھی کہنا ہے کہ """میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كل شَيْءٍ من شَأْنِهِ حتى يَحْضُرَهُ عِنْدَ طَعَامِهِ فإذا سَقَطَتْ من أَحَدِكُمْ اللُّقْمَةُ فَلْيُمِطْ ما كان بها من أَذًى ثُمَّ لِيَأْكُلْهَا ولا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ فإذا فَرَغَ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ فإنه لَا يَدْرِي في أَيِّ طَعَامِهِ تَكُونُ الْبَرَكَةُ:::یقیناً شیطان تُم میں سے ہر ایک کے ہر کام کے وقت موجود ہوتا ہے حتیٰ کہ کھانے کے وقت بھی ، لہذا اگر تُم میں سے کِسی سے اُس(کے کھانے )کا لُقمہ گِر جائے تو (وہ اُس لقمے کو اُٹھا لے اور)اُس لقمے پر تکلیف والی جو چیز لگ گئی ہو اُسے صاف کر لے اور پھر اُسے کھا لے اور اُس لقمے کو شیطان کےلیے نہ چھوڑے ، اور جب وہ کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے کھانے کے کون سے حصے میں برکت تھی﴾"""صحیح مُسلم /حدیث2033 /کتاب الاشربہ /باب18 ، اس باب میں اسی مسئلے کے بارے میں تقریباً یہی باتیں اور کھانے کے برتن کو بھی چاٹ کر صاف کرنے کا حکم دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ،
الحمد للہ یہاں تک ، اس مذکورہ بالا حدیث شریف اور اس سے پہلے بیان کی گئی احادیث پاک میں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر دی گئی کہ جب ہم اللہ کا نام لے کر کچھ کھاتے پیتے ہیں تو اللہ کی طرف سے اُس کھانے یا پینے کی چیز میں برکت نازل کی جاتی ہے اور اس برکت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس چیز میں سے کچھ ترک نہ کریں حتیٰ کہ اپنے ہاتھ پر جو کچھ اس چیز میں سے لگا ہے اسے چاٹ کر صاف کریں اور کھانے کے برتن کو بھی ،
یہاں ایک بات کا ذِکر اِن شاء اللہ مُناسب ہو گا کہ چاٹ کر صاف کرنا ہی لازمی نہیں کسی اور طریقے سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے جس سے یقینی طور پر کھانے کے آخری ترین حصے اور باقیات بھی کھائی جائیں، جیسے کہ روٹی کے نوالوں سے خُوب اچھی طرح سےبرتن کو صاف کر کے وہ نوالے کھا لیے جائیں ۔
::: (7) ::: ثرید میں برکت ہے :::
﴿ والبركةُ في ثَلاثَةٍ في الْجَمَاعَةِ وَالثَّرِيدِ وَالسُّحُورِ ::: اور برکت تین چیزوں میں پائی جاتی ہے ، جماعت ، ثرید اور سحری کے کھانے میں﴾ المعجم الکبیر للطبرانی /حدیث 6127، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 2882،
:::ایک انتباہ ::: """یہاں جماعت سے مراد کوئی ایک خاص جماعت نہیں بلکہ مسلمانوں کا خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر مل جل کر ایک دوسرے کی مددکرتے ہوئے کام کرنا ہے"""
::: ثرید ::: ایسے کھانے کو کہا جاتا ہے جس میں روٹیوں کو شوربے والے سالن میں ڈبو دیا جاتا ہے اور ان کے نرم ہونے پر اُنہیں کھایا جاتا ہے ، اور سالن میں شامل چیزوں کو بھی چھوٹے چھوٹے حصوں میں رکھا جاتا ہے ۔
:::: (8) ::: جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیے جانے والے گھوڑوں میں برکت ہوتی ہے :::
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿الْبَرَكَةُ في نَوَاصِي الْخَيْلِ :::برکت گھوڑوں کی پیشانیوں میں ہے﴾مُتفقٌ علیہ ، صحیح البُخاری /حدیث 2696/کتاب الجہاد و السیر/باب 43، صحیح مسلم /کتاب الامارۃ /باب26 ،
اس سے آگے والی حدیث میں مزید وضاحت بھی میسر ہوتی ہے جو کہ عُروہ البارقی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿الْخَيْلُ مَعْقُودٌ في نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ:::گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے (اور وہ خیرہے)ثواب اور مالءِ غنیمت﴾صحیح البُخاری /حدیث 2697/کتاب الجہاد و السیر/باب 44، صحیح مسلم /کتاب الامارۃ /باب26،میں جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے ،
اِس مذکورہ بالا حدیث مُبارکہ میں ہمیں یہ خوشخبری بھی ملتی ہے کہ مُسلمانوں کی دینی دُنیاوی اور اُخروی عِزت اور سر بُلندی کا اعلیٰ ترین سبب ، اور اسلام کے اعلیٰ ترین کاموں میں سے بُلند ترین کام ، جِہاد فی سبیل اللہ قیامت تک جاری رہے گا ،
::: (9) ::: زمزم کا پانی برکت والا ہے :::
زمزم کے بارے میں ابو ذر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْم ٍ:::بے شک یہ برکت والا(پانی)ہے (اور)یقیناً مکمل کھانا ہے﴾صحیح مُسلم /حدیث2473 /کتاب فضائل الصحابہ رضی اللہ عنہم /باب28،
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں﴿زَمزَم طَعَامُ طُعم ٍ و شِفاءُ سُقم ٍ::: زم زم برکت والا (پانی)ہے (اور )یقیناً مکمل کھانا ہے اور بیماریوں کی شِفاء ہے﴾مُسند البزار/حدیث 3929،3946صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 1162،
سلیمان بن المُغیرہ رضی اللہ عنہُ سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں﴿أِنَّھا مُبارکۃٌ ھِیَ طَعَامُ طُعم ٍ و شِفاءُ سُقم ٍ :::بے شک یہ برکت والا (پانی)ہے (اور )یقیناً مکمل کھانا ہےاور بیماریوں کی شِفاء ہے﴾مسند الطیالیسی /حدیث 457،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 2435،
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ ::: زم زم کا پانی اُسی کام کے لیے جِس کام (کی نیت) سے پیا جائے﴾سنن ابن ماجہ / حدیث3062 /کتاب المناسک /باب78، صحیح سنن ابن ماجہ /حدیث /2484،
::: (10) ::: زیتون کے درخت میں برکت ہے :::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿شَجرَۃٍ مُبَارَکۃٍ زَیتُونَۃٍ :::برکت والا درخت زیتون﴾سورت النور(24)/آیت 35،
::: (11) ::: بکریوں میں برکت ہے :::
اُم ھانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن سے فرمایا ﴿اتَّخِذِي غَنَمًا فَإِنَّ فِيهَا بَرَكَةً :::تُم بکریاں لو (یعنی بکریاں پالو اور اُن کی تجارت کرو ) کہ بکریوں میں برکت ہوتی ہے﴾سنن ابن ماجہ /حدیث 2304/کتاب التجارات /آخری باب اتخاذ الماشیّۃ ، السلسلۃ الصحیحۃ /حدیث 773،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ، ،،،،،،،