قیامت کے دن تقسیم تو دور کی بات کوئی الرحمٰن کی اجازت کے بغیر کلام بھی نہیں کر سکے گا:
يَوْمَ يَقُومُ ٱلرُّوحُ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ ٱلرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ﴿٣٨﴾۔۔۔سورۃ النباء
یہ ساری عقیدے کی خرابیاں ہیں جو اللہ کے نیک بندوں کی تعریف میں غلو کر کے پیدا ہوتی ہیں۔ العیاذباللہ
نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کچھ اپنے بارے میں دعویٰ کیا ہے، نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے، عقیدے کی خرابی کے ساتھ ساتھ یہ اللہ کے نیک بندوں پر بہتان بھی ہے۔