شکوہ نمبر-1: حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”اکبر“ نہیں بلکہ ”صدیق اکبر“ یعنی سچوں میں سب سے بڑے سچے ہیں۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”اعظم“ نہیں بلکہ ”فاروق اعظم“ ہیں۔ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والوں میں عظیم ہیں۔ اسی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالترتیب ”الغنی“ یا ”العلی“ نہیں ہیں، جو اللہ کی صفت ہے۔
جبکہ ”حضرت داتا گنج بخش“ کے لقب سے ہمیشہ ہمیش کے لئے خزانہ بخشنے والا مراد لیا جاتا ہے۔ اور اسی نیت سے لوگ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے مزار پر اپنی مرادیں مانگنے جاتے ہیں۔ اپنی زندگی میں اگر کوئی عام لوگوں کو دولت دنیا تقسیم کرتا ہے تو اسے ”سخی داتا“ یا خزانہ بخشنے والا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ ”حاتم طائی“ بھی اپنی زندگی میں ہی لوگوں کو اور مانگنے والوں کو بہت کچھ دیا کرتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی قبر پر جاکر نہیں مانگتا۔ اس لئے اس کی زندگی میں اسے ایسا کوئی بھی لقب دیا جاسکتا ہے۔
شکوہ نمبر۔3 : یہ تو بالکل لغو شکوہ ہے۔ کسی بھی انسان یا نبی سے، جب وہ سامنے موجود ہو، مدد کی درخواست کی جاسکتی ہے۔ انسانوں سے ”غائبانہ مدد مانگنا“ جائز نہیں ہے نہ کہ ”حاضرانہ مدد مانگنا“۔ روز حشر لوگ انبیا علیہ السلام کے سامنے جاکر ان سے مدد مانگیں گے۔
واللہ اعلم
پس تحریر: شکوہ نمبر-2 اور شکوہ نمبر۔4 والی احادیث کی صحت پر کوئی اہل علم ہی روشنی ڈال سکتا ہے۔