- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔شکوہ نمبر - 4 - آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیںHsn Prince آپ کے تمام سوال اس فورم پر پوسٹ کر دیئے ہیں آپ اس فورم پر اپنا اکاونٹ بنائے اور اپنی قیمتی علم سے ھمیں بھی نوازے - فورم ضرور جوائنٹ کریں - جزاک اللہ
اس کےتینوں حوالوں کی حقیقت مسند احمد ( طبعۃ الرسالۃ )کے محققین نے واضح کردی ہے کہتے ہیں :
إسناده ضعيف لجهالة داود بن أبي صالح، وكثير بن زيد مختلف فيه، حسَّن القول فيه جماعة، وضعَّفه آخرون، وفي متنه نكارة.
وأخرجه الحاكم 4/515 من طريق أبي عامر عبد الملك بن عمرو، بهذا الإسناد. وصحَّحه!
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (3999) ، وفي "الأوسط" (286) و (3962) من طريق حاتم بن إسماعيل، عن كثير بن زيد، عن المطلب بن عبد الله بن حنطب قال: قال أبو أيوب الأنصاري ... فذكره دون قصة. وشيخ الطبراني فيه: أحمد ابن رشدين المصري، وهو ضعيف
اس عبارت کا خلاصہ یا مفہوم یوں ہے :
مسند احمد :
کی سند میں دو علتیں ہیں :
داؤد بن ابی صالح راوی مجہول ہے ۔ اور مجہول کی روایت ناقابل قبول ہوتی ہے ۔
اس کی سند میں ایک راوی کثیر بن زید مختلف فیہ ہے ۔
مستدرک حاکم :
میں بھی یہ روایت اسی سند کے ساتھ ہے یعنی اس کے اندر بھی کثیر بن زید اور داؤد بن أبی صالح ہیں ۔ گویا اس کی وجہ ضعف بھی وہی ہے جو مسند احمد والی حدیث میں ہے ۔
طبرانی کا حوالہ :
ایک تو اس میں طبرانی کا شیخ احمد بن رشدین ضعیف ہے ۔
دوسرا اس میں قبر والے قصے کا ذکر ہی نہیں ہے ۔
تیسرا اس میں کثیر بن زید مختلف فیہ راوی بھی ہے ۔
چوتھا اس میں مطلب بن عبد اللہ مدلس راوی ہے اور اس نے تصریح بالسماع نہیں کی ۔
یہ آخری بات کا اضافہ ابن حجر کی تقریب التہذیب کی عبارت ’’ صدوق کثیر التدلیس والإرسال ‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔