ملفوظات اعلیٰ حضرت میں تحریف سے ہم اظہار براء ت کرتے ہیں۔
تخریج وتسہیل کے نام سے مکتبہ المدینہ نے جو ملفوظات اعلیٰ حضرت
شائع کئے اُس کے پہلے ایڈیشن میں بھی تحریف کی گئی،
پھر جب دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تواُس میں کچھ جدید تحریفات کی گئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ادارے کو توفیق
دے کہ یہ کام جب اتنی محبت سے کیاہے تو اس میں کی گئی تحریف کو ختم کرے
اورتحقیقی بورڈ میں جونادان دوست یا چالاک دشمن چھپا ہے اور اہل سنت کو بدنام
کر رہا ہے تواُسے بے نقاب کرکے مسلک پراحسان کیا جائے۔
آیات توصحیح بخاری میں بھی غلط لکھی ہیں مگرکسی نے بخاری میں تحریف نہ کی۔
اسی طرح احادیث کے نقل کرنے میں محدثین کو سہو ہوئے مگر کسی نے سہو
متن میں درست کرکے تحریف نہ کی۔
یہاں زیرِ بحث حدیث میں کہیں (ابن)اورکہیں(صبی)لکھا ملتا ہے۔اگر سہو
سے (صبی)کو (صبیہ)بولاگیا تو ایسے سہو بھی کتب میں ملتے ہیں۔ چنانچہ
مطالب العالیہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ایک روایت لکھی ہے اور
اس کی سندکو بھی صحیح لکھا:۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ الله عَنْه قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى صَبِيٍّ أَوْ صَبِيَّةٍ
بے شک نبی پاک نے ناسمجھ بچے یا بچی کی نمازجنازہ پڑھائی۔
یہاں (صبی او صبیہ)میں (او)کا لفظ شک اورسہو کی نشاندہی کرتا ہے۔
لہذا بھول کومتن میں درست کرنے کی بجائے حاشیہ میں درست کیا جائے۔یہ علمی طریقہ ہے۔
ہم ادارے کی شائع کردہ اس کتاب میں کی گئی تحریفات سے اظہارِ براء ت کرتے ہیں۔
2
طبی ضرورت کے باعث کسی عورت کے چہرے یا بالائی صدر پر ہاتھ لگانا درست ہے۔ اس
پراعتراض کرنے والے غلطی پر ہیں، چنانچہ۔
امام ابن حجر عسقلانی کی مطالب عالیہ سے ہی ایک روایت پیش ہے۔
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حدثنا عَفَّانُ، ثنا عَبْدُ الْوَارِثِ، ثنا حَنْظَلَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ الله عَنْه
قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ امْسَحْ وَجْهِي، وادع الله عز وجل لِي،
قَالَ: فَمَسَحَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَهَا ودعا الله تعالى لَهَا.
قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَفِّلْ يَدَكَ. فَسَفَّلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِهَا.
فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَفِّلْ يَدَكَ. فَأَبَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَاعَدَهَا.
ترجمہ معترض خود کرلے۔
[/QUOT
السلام علیکم
محترم رانا صاحب
نمبر 2 پر نقل کی جانے والی روایت بھی ضعیف ہے۔ اس طرح کی تمام روایات کا مدار ایک روای حنظلہ السدوسی پر ہے جو ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ وہ اخیر عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔ مزید برآں اس کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کی جانے والی روایات مرسل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
قال المزي في "تهذيب الكمال" : قال على ابن المديني : سمعت يحيى بن سعيد و ذكر حنظلة السدوسى ، فقال : قد رأيته و تركته على عمد . قلت ليحيى : كان قد اختلط ؟ قال : نعم . و قال أبو الحسن الميمونى ، عن أحمد بن حنبل : ضعيف الحديث . و قال أبو بكر الأثرم : سألت أبا عبد الله عن حنظلة السدوسى فقال : حنظلة ـ و مد بها صوته ـ ثم قال : ذاك منكر الحديث ، يحدث بأعاجيب