- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سکین شدہ عبارت سے مفتی صاحب اور ان کے ہم مسلک بھائیوں پر کوئی الزامی جواب عائد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ چاروں سلاسل صوفیا اور فقہی مذاہب اربعہ کو لغوی معنی میں بدعت کہہ رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے معا بعد ریل گاڑی ، ہوائی جہاز، سمندری جہاز،لاوڈ اسپیکر وغیرہ کی مثال دی ہے۔ ایسی بدعات کو تو یہ حضرات جائز سمجھتے ہیں اور اسے ’بدعت حسنہ “ کانام دیتے ہیں۔پس ان کا مقدمہ ہی مختلف ہے وہ ان سلاسل اور مذاہب کو اس معنی میں بدعت نہیں کہہ رہے ہیں جس معنی میں ہم بدعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہماری بدعت سے مراد شرعی معنی میں ’بدعت‘ ہوتی ہے جو ضلالت وگمراہی ہے۔ کیا مفتی صاحب اس معنی میں چاروں سلاسل اور فقہی مذاہب کو بدعت کہہ رہے ہیں؟ یہ کسی طرح بھی ان کی عبارت یا اس کے سیاق وسباق سے ثابت نہیں ہو رہا ہے۔
میرے خیال میں کسی کا اگر محض رد مقصود ہو تو اس کی عبارات کا تناقض دکھانا چاہیے لیکن اگر رد کے ساتھ اصلاح بھی مقصود ہو تو پھر کتاب وسنت سے ان کے موقف کی حیثیت احسن انداز میں واضح کر دینی چاہیے۔بعض اوقات یو ٹیوب پر ایسی ویڈیوز دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے کہ جب بریلوی ، اہل الحدیث کی عبارتوں ، دیوبندی بریلویوں کی عبارتوں اور اہل الحدیث ان دونوں کی عبارتوں کی بنیاد پر مناظرے کر رہے ہوتے ہیں۔ اشخاص اصل نہیں ہوتے ،فکر اصل شیئ ہوتی ہے لہذا فکر کا رد ہونا چاہیے۔ اشخاص کے رد کو قرآن وسنت میں پسند نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ کافروں کے معبودان باطلہ کو بھی برا بھلا نہ کہو یہاں برا بھلا کہنے سے مراد ان کی شخصیت کو برا کہنا ہے ورنہ ان معبودان باطلہ سے منسلک کفریہ و شرکیہ فکر کا رد تو مقصود ومطلوب ہے۔
میں سب بھائیوں سے یہی گزارش کروں گا کہ کسی شخصیت کا رد کرنے سے اگرچہ ہمارے جذبات کی تسکین تو ہو جائے گی لیکن شاید دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا نہ ہو سکے گا۔ہمیں اہنے دعوت و تبلیغ کے منہج کو مناظرے ومجادلے کے میدان سے نکال کر اصلاح و موعظت کے میدان میں لانا ہو گا یہاں ہی سے ہماری دعوت یعنی کتاب وسنت کی دعوت کے پھیلنے کا امکانات میں ہزاروں گنا اضافہ ہو گا۔ہم میں سے ہر ایک ’غلطیوں کی اصلاح کا نبوی طریق کار“ نامی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سخت لب ولہجہ کہ ابتدا مقلدین کی طرف سے ہوئی ہے لیکن کتاب وسنت کے داعین کو سختی کا جواب سختی کی بجائے نرمی سے دینا چاہیے کیونکہ یہی ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج دعوت ہے۔
آخر میں ایک بات اورکرناچاہوں گا کہ ہمیں دعوت اور مناظرے میں فرق کرنا چاہیے۔ آپ کی 13سالہ مکی دور میں مناظرہ ہمیں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ اگر کہیں کسی جاہل اور اجڈ سے واسطہ پڑ جاتا ہے اور وہ کج بحثی پر اتر کر مناظرہ شروع کر دیتا ہے تو آپ کو یہ تلقین کی جاتی ہے ؛
واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما
جب جہلا ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ سلام کہہ کے رخصت ہو جاتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں بھی کسی ملامت کی پرواہ نہیں ہے کہ ہم اپنی دعوت کے پھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ہیں اور اس کو آج کتاب وسنت کے داعین محسوس کرتے ہیں۔ ہماری دعوت خالص ہے اور سب دعوتوں سے بہتر ہے لیکن ہمارے رویے ، اخلاق، حکمت وفراست نبوی نہیں ہے۔ قرآن نے جہاں اللہ کی طرف دعوت کو بہترین دعوت قرار دیا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ ایسا داعی الی اللہ اپنے آپ میں متواضع ہو اور اپنے آپ کو ایک عام مسلمان سمجھتا ہوں۔ اور جبکہ یہ قرآن نازل ہو رہا تھا تو یہ دعوت الی اللہ کس کے لیے تھی؟ ظاہری بات ہے بدترین مشرکین اور کفار اور اہل کتاب کے لیے تھی۔
ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین
اور اس سے خوبصورت دعوت کس کی ہوسکتی ہے جو داعی الی اللہ ہولیکن اس کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتا ہو اور اپنے آپ کو ایک عام مسلمان قرار دیتا ہو۔
کسی بھائی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ ہم سب کی منزل ایک ہے کہ کسی طرح لوگوں کو کتاب وسنت پر جمع کر دیں اگرچہ طریق کار میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے طریق کار پر غور کرنا چاہیے اورایک دوسرے سے سیکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔واللہ اعلم بالصواب
سکین شدہ عبارت سے مفتی صاحب اور ان کے ہم مسلک بھائیوں پر کوئی الزامی جواب عائد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ چاروں سلاسل صوفیا اور فقہی مذاہب اربعہ کو لغوی معنی میں بدعت کہہ رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے معا بعد ریل گاڑی ، ہوائی جہاز، سمندری جہاز،لاوڈ اسپیکر وغیرہ کی مثال دی ہے۔ ایسی بدعات کو تو یہ حضرات جائز سمجھتے ہیں اور اسے ’بدعت حسنہ “ کانام دیتے ہیں۔پس ان کا مقدمہ ہی مختلف ہے وہ ان سلاسل اور مذاہب کو اس معنی میں بدعت نہیں کہہ رہے ہیں جس معنی میں ہم بدعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہماری بدعت سے مراد شرعی معنی میں ’بدعت‘ ہوتی ہے جو ضلالت وگمراہی ہے۔ کیا مفتی صاحب اس معنی میں چاروں سلاسل اور فقہی مذاہب کو بدعت کہہ رہے ہیں؟ یہ کسی طرح بھی ان کی عبارت یا اس کے سیاق وسباق سے ثابت نہیں ہو رہا ہے۔
میرے خیال میں کسی کا اگر محض رد مقصود ہو تو اس کی عبارات کا تناقض دکھانا چاہیے لیکن اگر رد کے ساتھ اصلاح بھی مقصود ہو تو پھر کتاب وسنت سے ان کے موقف کی حیثیت احسن انداز میں واضح کر دینی چاہیے۔بعض اوقات یو ٹیوب پر ایسی ویڈیوز دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے کہ جب بریلوی ، اہل الحدیث کی عبارتوں ، دیوبندی بریلویوں کی عبارتوں اور اہل الحدیث ان دونوں کی عبارتوں کی بنیاد پر مناظرے کر رہے ہوتے ہیں۔ اشخاص اصل نہیں ہوتے ،فکر اصل شیئ ہوتی ہے لہذا فکر کا رد ہونا چاہیے۔ اشخاص کے رد کو قرآن وسنت میں پسند نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ کافروں کے معبودان باطلہ کو بھی برا بھلا نہ کہو یہاں برا بھلا کہنے سے مراد ان کی شخصیت کو برا کہنا ہے ورنہ ان معبودان باطلہ سے منسلک کفریہ و شرکیہ فکر کا رد تو مقصود ومطلوب ہے۔
میں سب بھائیوں سے یہی گزارش کروں گا کہ کسی شخصیت کا رد کرنے سے اگرچہ ہمارے جذبات کی تسکین تو ہو جائے گی لیکن شاید دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا نہ ہو سکے گا۔ہمیں اہنے دعوت و تبلیغ کے منہج کو مناظرے ومجادلے کے میدان سے نکال کر اصلاح و موعظت کے میدان میں لانا ہو گا یہاں ہی سے ہماری دعوت یعنی کتاب وسنت کی دعوت کے پھیلنے کا امکانات میں ہزاروں گنا اضافہ ہو گا۔ہم میں سے ہر ایک ’غلطیوں کی اصلاح کا نبوی طریق کار“ نامی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سخت لب ولہجہ کہ ابتدا مقلدین کی طرف سے ہوئی ہے لیکن کتاب وسنت کے داعین کو سختی کا جواب سختی کی بجائے نرمی سے دینا چاہیے کیونکہ یہی ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج دعوت ہے۔
آخر میں ایک بات اورکرناچاہوں گا کہ ہمیں دعوت اور مناظرے میں فرق کرنا چاہیے۔ آپ کی 13سالہ مکی دور میں مناظرہ ہمیں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ اگر کہیں کسی جاہل اور اجڈ سے واسطہ پڑ جاتا ہے اور وہ کج بحثی پر اتر کر مناظرہ شروع کر دیتا ہے تو آپ کو یہ تلقین کی جاتی ہے ؛
واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما
جب جہلا ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ سلام کہہ کے رخصت ہو جاتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں بھی کسی ملامت کی پرواہ نہیں ہے کہ ہم اپنی دعوت کے پھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ہیں اور اس کو آج کتاب وسنت کے داعین محسوس کرتے ہیں۔ ہماری دعوت خالص ہے اور سب دعوتوں سے بہتر ہے لیکن ہمارے رویے ، اخلاق، حکمت وفراست نبوی نہیں ہے۔ قرآن نے جہاں اللہ کی طرف دعوت کو بہترین دعوت قرار دیا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ ایسا داعی الی اللہ اپنے آپ میں متواضع ہو اور اپنے آپ کو ایک عام مسلمان سمجھتا ہوں۔ اور جبکہ یہ قرآن نازل ہو رہا تھا تو یہ دعوت الی اللہ کس کے لیے تھی؟ ظاہری بات ہے بدترین مشرکین اور کفار اور اہل کتاب کے لیے تھی۔
ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین
اور اس سے خوبصورت دعوت کس کی ہوسکتی ہے جو داعی الی اللہ ہولیکن اس کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتا ہو اور اپنے آپ کو ایک عام مسلمان قرار دیتا ہو۔
کسی بھائی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ ہم سب کی منزل ایک ہے کہ کسی طرح لوگوں کو کتاب وسنت پر جمع کر دیں اگرچہ طریق کار میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے طریق کار پر غور کرنا چاہیے اورایک دوسرے سے سیکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔واللہ اعلم بالصواب