• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بر صغیر ہند وپاک میں فتنہ انکار حدیث اور اس کا دفاع

شمولیت
فروری 14، 2018
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
*برصغیر میں فتنہ انکار حدیث اور اس کے دفاع میں علمائے اہل حدیث کی خدمات *

محمد صادق جمیل تیمی

یوں تو فتنہ انکار حدیث کی ابتداء 200ھ میں شروع ہوچکی تھی ،اس کا پہلا سہرا خوارج پر جاتا ہے جنہوں نے اہل بیت سے متعلق وارد احادیث کا انکار کیا ،ان کے ہم سفر شیعہ بھی ہوگئے جس نے فضائل صحابہ کے بارہ میں مروی احادیث کا انکار کیا -جہاں تک پہلی صدی کے دور کی بات ہے تو یہ دور اسلامی روایات کا مقدس دور کہلاتا ہے اس میں ہر فرقہ کے افراد بلا تفریق و اختلاف کے تسلیم کیا -پہلی صدی کے بعد متکلمین معتزلہ نے اس اجماع امت کی مخالفت کی -اس طرح کی بات علامہ ابن حزم رحمہ اللہ علیہ نے کہی ہے مزید معلومات کے لئے دیکھیے (احکام الاحکام: 114/1)
جہاں تک بات برصغیر ہند و پاک کی ہے تو اس کا سرخیل سر سید احمد خان رہے -انہوں نے احادیث کے اندر اپنے شکوک وشبہات کا اظہار اس انداز میں کیا کہ تدوین حدیث کا عمل عہد نبوی کے بعد ہوئی -اللہ جانے اس میں کیا کیا داخل کیا گیا -اسی طرح پیغمبرِ اسلام کی غیبی امور کے تعلق سے پیشین گوئیوں کا انکار کیا ہے -پھر سید خاں کے بعد انہیں کا ہم فکر و ہم پلہ و ہم زلف مولوی عبد اللہ چکڑالوی نے کیا -انہوں نے بالکلیہ طور پر حدیث کا انکار کیا اور اپنے زمانے میں یہ واویلا مچایا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے حدیث کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور اپنے آپ کو "اہل قرآن "ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا -مولوی چکڑالوی کے بعد چند اور ان کے ہم نوا و خیالات کی تائید مستری محمد رمضان گوجرانوالہ ،مولوی حشمت علی لاہوری اور مولوی رفیع الدین ملتانی نے کی -ان کے بعد اس سلسلہ کو مولوی احمد الدین امرتسری ،غلام احمد پرویز اور حافظ اسلم جیراج پوری نے آگے بڑھایا -اور اس کی ترقی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑا -ان لوگوں نے احادیث نبویہ کو محض تاریخ کی حیثیت دے دی اور اسلام کو ایک مذاق بنانے کی ایک ناکام کوشش کی -لیکن اللہ کا کا یہ اٹل فیصلہ و قانون کو کون بدل سکتا؟ "واللہ متم نورہ و لو کرہ الکافرون "(سورہ توبۃ: 32)
نور حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
چنانچہ ایسے نازک حالات میں اللہ نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے چند افراد پیدا کیا -جنہوں نے اس کا قلع قمع کرنے کے لئے ہر حربہ کو استعمال کیا -ہند و پاک کے طاقتور خوشہ چیں ،باد مخالف کا دندان شکن جواب دینے والے قلمی و لسانی ذرائع کو لیکر میدان عمل میں آیے اور فتنہ انکار حدیث کے تمام راہوں کو مسدود کرکے ناقابل فراموش خدمات انجام دئیے -مولانا حسین بٹالوی (م 1338)نے اپنے ماہنامہ "اشاعت السنۃ " عبد الجبار عمر پوری (م 1234)نے "ضیاء السنۃ " شیر پنجاب ثناء اللہ امرتسری (م 1367)نے اپنا اخبار "اخبار اہل حدیث "جیسے مسلم صحافیوں نے بے شمار مضامین و مقالات لکھ کر دفاع حدیث اور منکرین کے رد میں کارہائے نمایاں انجام دیا -اسی طرح شیخ الحدیث اسماعیل سلفی نے ماہنامہ "الاعتصام "لاہور اور دیگر مجلات میں مضامین لکھے -ثناء اللہ امرتسری اور اسماعیل سلفی کے بارے میں کہتے تھے کہ "یہ دونوں ایسے بزرگ تھے جنہوں نے کبھی بھی حدیث کے خلاف ذرہ برابر مداہنت برداشت نہیں کئے "(علمائے اہل حدیث کی خدمات: 131)

اسی طرح بہار کے عظیم جیالہ ،محدث کبیر شمس الحق عظیم آبادی کے کہنے کی وجہ سے عمر کریم پٹنوی منکر حدیث کے رد میں اپنا شاگرد خاص ابو القاسم سیف بنارسی کو کتاب لکھنے کو کہا ،چنانچہ آپ نے اس میدان میں "قضیۃ الحدیث فی حجیۃ الحدیث ،ماء حمیم للمولوی عمر کریم ،الریح العقیم لحسم عمر کریم "جیسی اہم کتابوں کو لکھ کر نمایاں خدمات انجام دیئے -اسی طرح عبد الرحمن مبارکپوری نے "ابکار المنن فی تنقید آثار السنن "ابو المکارم محمد علی مئوی نے "لوامع الانوار فی تائید دقائق الاسرار ،القول الماثور فی اثبات احادیث الصدور المقلب...... محمد سعید بنارسی نے "ہدایۃ القلوب الکاسیۃ فی رد گلزار آسیہ ،رفع البہتان العظیم من احادیث رسول الکریم "اسماعیل سلفی نے "حجیت حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں ،جماعت اسلام کا نظریہ حدیث "رئیس ندوی نے "اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات "مولانا خالد سیف نے "کتابت حدیث تا عہد تابعین "جیسے چوٹی کے علماء نے اپنی موقر تصنیفات منصہ شہود میں لاکر تاریخی کام کیا -


جب جب منکرین حدیث نے حدیث کے خلاف کوئی کتاب،پمفلٹ یا مضمون آیا تو وقت کے علمائے اہل حدیث نے اس کے مکمل جوابات تحریر کئے -اسلم جیراج پوری نے طلوع اسلام دہلی میں مضامین لکھے تو اس وقت کے ممتاز عالم دین عبد الصمد حسین آبادی نے سخت نوٹس لیا اور "تائید حدیث بجواب تنقید حدیث اور شرف حدیث "جیسے اہم مضامین لکھ کر اس کا کھلے طور پر جواب دیا -ان سب کے علاوہ دیگر بڑے ایمہ نے اپنی تصنیف و تالیف ،اخبارات کا اجرا ،اور مختلف رسائل و جرائد میں بے شمار مضامین و مقالات لکھ کر منکرینِ حدیث کی بری کارکردگی میں کالک پوت دی اور اس کے سارے راہوں کو مسدود کر دیا -اللہ ان کے حسنات کو قبول فرمائے
 
Top