کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حق داروں کی حق تلفی
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہیں۔ جنہیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔ مسلم معاشرے میں ان حقوق کی پاسداری کی حد سے زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے۔ مگر بسنت میلہ کے موقع پر ان حقوق کی صریح پامالی ہوتی ہے۔ ہماری آبادیاں ’میدانِ جنگ‘ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے، بجلی کی باربار ٹرپنگ، فائرنگ، دھماکوں اور باجوں کا کان پھاڑتا شور، اور ہوہوکا ایسا عالم چوبیس گھنٹوں کے لئے برپا ہوتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے جب کہ بیماروں کی زبانیں بدعاوٴں کے لئے مجبور ہوجاتی ہیں۔ مگر بسنت کے شیدائیوں اور مست حال اوباشوں کو اس کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی۔ اگر یہ مسلمان ہیں تو انہیں نبی اکرم ﷺ کے ان فرامین کو غوروفکر سے بار بار پڑھنا چاہیے :
اگر یہ مان لیا جائے کہ پتنگ بازوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسے مذہبی رنگ میں نہیں بلکہ تفریحی انداز پر مناتے ہیں تو اس لحاظ سے بظاہر پتنگ بازی ایک کھیل معلوم ہوتا ہے مگر پھر بھی اسے دوسرے کھیلوں کی طرح حدود و قیود کا پابند بنانا ہوگا۔ بلکہ دنیا کے وہ ممالک جہاں اسے ایک کھیل کی حیثیت حاصل ہے وہاں اس کی سخت شروط وقیود لاگوہیں جن کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزا ئیں دی جاتی ہیں ۔شرعی اور اقتصادی نقصانات سے قطع نظر پتنگ بازی کے کھیل کے لیے یہ پابندی ضروری ہے کہ مقامی اور عوامی مقامات کی بجائے آبادی سے دور کھلے میدانوں اور دریاوٴں یا سمندروں کے ساحلوں پر اس کا اہتمام کر لیا جائے۔ اس لئے اگر کوئی من چلا اسے کھیل سمجھتے ہوئے اپنا شوق پورا کرنا ہی چاہتا ہے تو اسے آبادی اور آمدورفت کے مقامات سے دور کہیں جنگل میں یا دریا کے کنارے بھیج دینا چاہئے تاکہ وہ اپنا شوق بھی پورا کرلے اور کسی معصوم جان کا ضیاع بھی نہ ہو اور عام شہریوں کے سکون میں خلل بھی واقع نہ ہو۔
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہیں۔ جنہیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔ مسلم معاشرے میں ان حقوق کی پاسداری کی حد سے زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے۔ مگر بسنت میلہ کے موقع پر ان حقوق کی صریح پامالی ہوتی ہے۔ ہماری آبادیاں ’میدانِ جنگ‘ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے، بجلی کی باربار ٹرپنگ، فائرنگ، دھماکوں اور باجوں کا کان پھاڑتا شور، اور ہوہوکا ایسا عالم چوبیس گھنٹوں کے لئے برپا ہوتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے جب کہ بیماروں کی زبانیں بدعاوٴں کے لئے مجبور ہوجاتی ہیں۔ مگر بسنت کے شیدائیوں اور مست حال اوباشوں کو اس کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی۔ اگر یہ مسلمان ہیں تو انہیں نبی اکرم ﷺ کے ان فرامین کو غوروفکر سے بار بار پڑھنا چاہیے :
(المسلم من سلم المسلمون من لسانه و هده) (بخاری:۱۰)
”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“
تفریح کے لیے پتنگ بازی کا مسئلہ(من کان يوٴمن بالله واليوم الاخر فلا يوٴذجارہ)(بخاری:۶۰۱۸)
”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے۔“
اگر یہ مان لیا جائے کہ پتنگ بازوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسے مذہبی رنگ میں نہیں بلکہ تفریحی انداز پر مناتے ہیں تو اس لحاظ سے بظاہر پتنگ بازی ایک کھیل معلوم ہوتا ہے مگر پھر بھی اسے دوسرے کھیلوں کی طرح حدود و قیود کا پابند بنانا ہوگا۔ بلکہ دنیا کے وہ ممالک جہاں اسے ایک کھیل کی حیثیت حاصل ہے وہاں اس کی سخت شروط وقیود لاگوہیں جن کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزا ئیں دی جاتی ہیں ۔شرعی اور اقتصادی نقصانات سے قطع نظر پتنگ بازی کے کھیل کے لیے یہ پابندی ضروری ہے کہ مقامی اور عوامی مقامات کی بجائے آبادی سے دور کھلے میدانوں اور دریاوٴں یا سمندروں کے ساحلوں پر اس کا اہتمام کر لیا جائے۔ اس لئے اگر کوئی من چلا اسے کھیل سمجھتے ہوئے اپنا شوق پورا کرنا ہی چاہتا ہے تو اسے آبادی اور آمدورفت کے مقامات سے دور کہیں جنگل میں یا دریا کے کنارے بھیج دینا چاہئے تاکہ وہ اپنا شوق بھی پورا کرلے اور کسی معصوم جان کا ضیاع بھی نہ ہو اور عام شہریوں کے سکون میں خلل بھی واقع نہ ہو۔