• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بعض ملازمین کو تنخواہ میں اضافے اور ترقی سے محروم رکھتا تھا، اب توبہ کیسے کرے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بعض ملازمین کو تنخواہ میں اضافے اور ترقی سے محروم رکھتا تھا، اب توبہ کیسے کرے؟

میرا سوال حق تلفی کی چیز کو حقداروں تک واپس کرنے کے بارے میں ہے؛ اور یہ توبہ کی شرائط میں سے چوتھی شرط بھی ہے۔ اگر کوئی ظالم شخص متعلقہ چیز کو حقدار تک پہنچانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو مثلاً: ظالم شخص ملازمین کا سربراہ تھا، اور اس نے کچھ ملازمین کی حق تلفی کرتے ہوئے اس کی تنخواہ میں مناسب اضافہ نہیں کیا، یا جس گریڈ کا وہ حقدار تھا اسے وہ گریڈ نہ دیا، پھر بعد میں یہ سربراہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو گیا، تو کیا اس سربراہ کے لیے توبہ ممکن ہے؟ نیز اگر توبہ کر بھی لے اس ملازم تک اس کا حق کیسے پہنچائے؟

جواب کا متن
الحمد للہ.


حقوق العباد سے متعلق گناہ کی توبہ قبول ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ جس کی حق تلفی کی گئی ہو اس کی تلافی کی جائے؛

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اگر کسی نے اپنے کسی بھائی کی حق تلفی کی ہو تو وہ تلافی کروا لے؛ کیونکہ وہاں قیامت کے دن درہم و دینار نہیں ہوں گے، اس لیے قبل ازیں کہ اس کی نیکیاں مظلوم کے حق میں کاٹ لی جائیں، اور اگر نیکیاں ہوں ہی نہ تو پھر مظلوم کی برائیاں اٹھا کر اس پر ڈال دی جائیں گی۔) بخاری: (6534)

اور اگر کسی آدمی کا مال غصب کیا ہو یا حیلہ اپنا کر ہڑپ کیا ہو تو اس آدمی سے معافی مانگ کر معاف کروا لے یا پھر وہ مال اس تک کسی بھی ممکنہ طریقے سے پہنچا دے، مال پہنچاتے ہوئے اسے خبر دینا ضروری نہیں ہے، اور اگر حقدار فوت ہو جاتا ہے تو اس کے وارثوں تک پہنچا دے۔
اگر مال پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، تو حقدار کی طرف سے مال صدقہ کر دے۔
اور اگر نہ مال پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی حقدار سے معافی کی کوئی صورت ہے تو پھر اللہ تعالی سے توبہ کرے ممکن ہے کہ اللہ تعالی قیامت والے دن اس کی طرف سے خود ہی ادائیگی فرما دے۔

امام نووی رحمہ اللہ "روضة الطالبين" (11/ 246) میں کہتے ہیں:

"اگر گناہ کے ساتھ کسی کا مالی حق بھی منسلک ہو جیسے کہ زکاۃ ادا نہیں کی، غصب کیا ہوا مال، مالی بے قاعدگیاں وغیرہ تو پھر توبہ کے ساتھ ساتھ مالی حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے، یعنی زکاۃ ادا کرے گا، لوگوں کا مال ابھی تک اپنی اصلی حالت میں باقی ہو تو ان تک پہنچائے گا، اور اگر تلف ہو چکا ہو تو اس کا متبادل ادا کرے گا یا پھر حقدار شخص سے معافی مانگے گا اور حقدار اسے معاف کر دے۔ حقدار شخص کو اگر اپنے مالی حق کا علم نہ ہو تو اسے بتلانا بھی ضروری ہے، اور اگر حقدار شخص کہیں دور ہے اور وہیں پر ہی اس سے مال غصب کیا تھا تو اس تک پہنچانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اگر حقدار فوت ہو گیا تو اس کے وارثوں تک مال پہنچائے، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی خبر ہو تو کسی نیک اور دیانت دار قاضی کو سپرد کر دے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو غریبوں پر صدقہ اس نیت سے کرے کہ اگر اصل حقدار مل گیا تو اس کو اس کا مال واپس کروں گا۔۔۔
اور اگر غاصب شخص اب تنگ دست ہو گیا ہے تو یہ نیت کرے کہ اگر اللہ تعالی نے حالات اچھے کیے تو ضرور ادا کرے گا، لیکن اگر ادائیگی سے قبل ہی فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی سے امید ہے کہ اللہ تعالی اسے معاف فرمائے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں: صحیح ثابت شدہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان نے نافرمانی کے لیے ظلم کیا تو اسے اس کی تلافی کرنی پڑے گی چاہے وہ ادائیگی نہ کر سکتا ہو عاجز ہو۔
لیکن اگر کوئی شخص کسی جائز کام کے لیے قرض اٹھائے اور مرنے تک ادائیگی نہ کر سکے تسلسل کے ساتھ ہاتھ تنگ دست رہے ، یا پھر غلطی سے کوئی چیز تلف کر بیٹھے اور اپنے ذمہ پڑنے والے معاوضے کی ادائیگی موت تک نہ کر سکے، تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ آخرت میں اس سے اس مالی حق کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ اس نے عمداً مالی حق تلف نہیں کیا، اللہ تعالی سے امید ہے کہ حقدار کو اللہ تعالی خود ہی بدلہ عطا فرما دے گا۔۔۔
جبکہ غیبت کے بارے میں یہ ہے کہ اگر غیبت زدہ شخص کو غیبت کا علم نہیں ہوتا تو میں نے فتاوی حناطی میں لکھا دیکھا ہے کہ: ایسی صورت میں اظہار پشیمانی اور استغفار کافی ہے، اور اگر غیبت زدہ شخص کو اس کا علم ہو جائے تو پھر بہتر ہے کہ اس کے پاس آ کر معافی مانگے، اور اگر غیبت زدہ شخص کے فوت ہونے کی وجہ سے یا اس کے بہت دور رہنے کی وجہ سے پاس جا کر معافی مانگنا ممکن نہ ہو تو اللہ تعالی سے معافی مانگے، اس صورت میں وارثوں سے معافی مانگنے کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، حناطی نے اسی طرح ذکر کیا ہے۔ " ختم شد
لہذا مالی حقوق حقداروں تک پہنچانا ضروری ہیں، جبکہ معنوی حقوق کے غصب ہونے کی اطلاع مظلوم تک نہ پہنچی ہو تو اس صورت میں ندامت اور استغفار کافی ہے۔
آپ نے سوال میں ذکر کیا کہ آپ نے ملازم کو استحقاقی تنخواہ اور مناسب گریڈ نہیں دیا، اس سے مالی حق تلفی ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے انہیں اتنی تنخواہ نہیں دی جس کا وہ مستحق تھا، اور معنوی حق تلفی بھی ثابت ہوتی ہے کہ ملازم کو اس کے مقام اور مرتبے سے دور رکھا۔
اس بنا پر: مالی حق تلفی کے بارے میں لازم ہے کہ حقدار شخص سے معافی تلافی کر لیں، یا اسے اس کا حق دے دیں، جس کی مقدار وہ رقم ہے جس سے یہ حقدار محروم رہا ہے۔
اس مظلوم شخص سے معافی تلافی کے لیے کسی سفارشی کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔
اور اگر آپ مذکورہ دونوں کام نہیں کر سکتے تو کثرت کے ساتھ ندامت اور استغفار کریں، اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ قیامت کے دن آپ کی طرف سے یہ بوجھ ہلکا فرما دے۔
جبکہ معنوی حق کے بارے میں یہ ہے کہ اگر اسے آپ کے ظالم ہونے کا علم نہیں ہے تو پھر ندامت و استغفار ہی کافی ہے، اور اگر آپ کے ظالم ہونے کا اسے علم ہے تو پھر معافی مانگنا ضروری ہے، لیکن معافی مانگتے ہوئے یہ ضرور مد نظر رہے کہ کہیں کوئی بڑی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول فرمائے، آپ کو اس غلطی سے پاک فرمائے اور اپنی اطاعت پر قائم دائم رہنے کے لیے آپ کی مدد فرمائے۔

واللہ اعلم
 
Top