• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلاد شام –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سوریا)

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بلاد شام –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سوریا)

تحریر : مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

بلاد شام کی تاریخ
بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہےوہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔پہلی عالمی جنگ عظیم تک یہ چاروں ممالک ملک شام سے شامل تھا۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور 1920موجودہ شام بنام سوریاوجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے ۔ اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے ۔
موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ملک شام کی بات ہوتو اس سے چاروں ممالک(سوریا،لبنان،فلسطین،اردن) مراد ہوں گے ۔ یہاں اسی پس منظر میں تحریر ہوگی ۔بلاد شام میں فلسطین کا شہر بیت المقدس اور سوریا کا شہر دمشق تاریخی اور شرعی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
مسجد اقصی کے بےشمار فضائل ہیں،یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد بنائی گئی اس کے بنانے والے انبیاء ہیں ۔نبی ﷺ نےمعراج میں اس کا سفر کیا اور زیارت کے طور پر یہاں پر سفر کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ یہاں پر ایک وقت کی نماز ڈھائی سو نماز کے برابر ہے ۔ یہاں پر اللہ تعالی نے بے پناہ برکت رکھی ہے اور یہ مقدس سرزمین ہے ۔
نبی ﷺ نے نبوت سے پہلے دومرتبہ ملک شام کا سفر کیا ۔ایک مرتبہ اپنے چچا کے ساتھ جو بحیرہ راہب کےواقعہ کے ساتھ معروف ہے ۔ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا مال لیکر تجارت کی غرض سے ۔
یہ شام ہمیشہ علم وفن اور نور نبوت سے منور رہا ہے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھیجے کے ساتھ عراق سے شام کا سفر کیااور یہیں سے اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہ اوراسماعیل علیہ السلام کو لق ودق صحرا میں چھوڑنے کے لئے سفر کیا تھا۔ آپ کے بعد اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، الیسع علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، یحی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام آئے۔
نبی ﷺ نے اسامہ بن زید کو ایک لشکر دے کراس کی طرف روانگی کا حکم دیا تھا مگر عین وقت پر آپ کی بیماری کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا ۔ آپ کی وفات کے بعد بغیر تاخیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ کو لشکر کے ساتھ روانہ کیااور فتح یابی سے ہمکنار ہوا۔ عہد فاروقی میں بیت المقدس فتح ہوگیا۔
اسی سرسبزوشاداب سرزمین میں امام نووی شارح صحیح مسلم ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، حافظ ابن عساکر اورحافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ جیسے علماء وفضلاء پیدا ہوئے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء ، بہت سارے علماء ومحدثین اور بہت سارے صحابہ کرام مدفون ہیں ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں بلاد شام کی فضیلت
قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص شام کی فضیلت سے متعلق ہیں ، مختصرا چند فضائل یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) بابرکت سرزمین : مسجد اقصی اور اس کے ارد گرد اللہ نے برکت رکھی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء:1)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ۔یقینا اللہ تعالی ہی خوب سنے دیکھنے والا ہے ۔
اور نبی ﷺ سے پورے شام کے لئے دعائے برکت کرنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے دعا کی :
اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا (صحيح البخاري:7094)
ترجمہ: اے اللہ! ہمیں برکت عطا فرما ہمارے شام میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔

(2) ایمان والی سرزمین :
نبی ﷺ نے فرمایا:
بَينا أنا نائمٌ رأيتُ عمودَ الكتابِ احْتُمِلَ مِن تحتِ رأسي فعُمِدَ بهِ إلى الشَّامِ ، ألا وإنَّ الإيمانَ حين تقعُ الفتنُ بالشَّامِ .(صحيح الترغيب:3094)
ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ کتاب(دین) کا ایک بنیادی حصہ لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔

(3) میدان حشر: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا ترجمہ: رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ : عليكُم بالشَّامِ(صحيح الترمذي:2217)
ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں'، آپ نے فرمایا:' تم شام چلے جانا۔

(4) اہل شام کے لئے فرشتے پربچھاتے ہیں:نبی ﷺ کا فرمان ہے :
طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها(صحيح الترمذي:3954)
ترجمہ: مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں۔

(5) نومسلموں کے ذریعہ دین کی مدد : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إذا وقعتِ الملاحِمَ، بعثَ اللَّهُ بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللَّهُ بِهمُ الدِّينَ(صحيح ابن ماجه:3319)
ترجمہ: جب جنگیں ہوں گی تو اللہ تعالی موالی(نومسلموں )کاایک لشکر کھڑا کرے گا۔ ان کے گھوڑے عرب کے بہترین گھوڑے ہوں گے اور ان کا اسلحہ سب سے عمدہ ہوگا۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے دین کی مدد کرے گا۔
بعض روایت میں الفاظ ہیں "
اذا وقعتِ الملاحمُ بعث اللهُ من دمشقَ بعثًا من الموالي أكرمُ العربِ فرسًا وأجودُهم سلاحًا يُؤَيِّدُ اللهُ بهمُ الدِّينَ"یعنی دمشق سے نومسلموں کا ایک لشکر کھڑا کرے گا۔ اس روایت کو شیخ البانی نے فضائل الشام ودمشق میں صحیح کہا ہے ۔

(6) اہل شام کے حق پرست جماعت کو اللہ کی مدد:
قرہ بن ایاس المزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ(صحيح الترمذي:2192)
ترجمہ: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا سکتے ہیں۔

(7) شام ارض مقدس اور بوقت خلافت قرب قیامت کا سبب ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ(صحيح أبي داود:2535)
ترجمہ: اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے ۔

(8) نزول عیسی علیہ السلام اور قتل دجال : نبی ﷺ نے فرمایا:
ينزل عيسى بن مريم ، عند المنارة البيضاء شرقي دمشق فيدركه عند بًاب لد فيقتله(صحيح أبي داود:4321)
ترجمہ: دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ‘ پس وہ (دجال کو) اس باب لد کے پاس پائیں گے اور اس کا کام تمام کر دیں گے ۔

ان کے علاوہ اور بھی شام کے فضائل وخصوصیات ہیں مثلا یہ مومنوں کا مسکن ، بہترین بندوں کی سرزمین ، مال غنیمت اور رزق کی جگہ ہے جنہیں بخوف طوالت چھوڑ دیا گیا۔

موجودہ شام (سوریا) کے حالات
ارض مقدس بلاد شام کا ایک حصہ موجودہ شام (سوریا)اس وقت آگ وخون کی لپیٹ میں ہے ۔ یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں ڈھائی لاکھ لوگ مرچکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔سوریا کے اکثر شہر خصوصا درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں ۔حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کا ظالم فوجی مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکاٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصے پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اکیس مہینوں میں 60 ہزار شامی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لاپتہ،کتنے فرار، کتنے اسپتال میں اورکتنے اعدادوشمار سے باہر ہوں گے ۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں ۔ مسلم حکمراں ، مسلم تنظیمیں اور مسلم ذمہ داران بھی غفلت کی لمبی چادر تانے سورہے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے شامی بھائیوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے اسی وقت اقدام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کی ہرطرح سے امداد دینی ہوگی ۔ خوابیدہ ضمیرذمہ داروں کو جگانا ہوگا۔ ظالم حکمرانوں کو سبق سکھانا ہوگا۔ ظلم کو ہوادینے والوں، اتحاد کو توڑنے اور انتشار وانارکی کو پھیلانے والوں کا گلا دباہوگا۔ مظلوم بھائیوں کے لئے کثرت سے دعا کریں اور امداد کی جو صورت آپ کو نظر آئے پیش کرنے میں دریغ نہ کریں خواہ قنوت نازلہ یا دعائے نیم شبی کے ذریعہ ہی سہی۔
یااللہ !شامی مسلمان کی غیبی مدد فرما، مسلم خواتین کی عزت وآبروکی حفاظت فرما، ظالموں کو فرشتوں اور پاکباز مجاہدوں کے ذریعہ نیست ونابود کردے، رذیل اقوام جو شامی مسلمانوں کی تباہی پہ تلےہیں انہیں خاکستردے۔ اور پورے جہان کے مسلمانوں کو اپنی پناہ میں لے لے ۔ آمین یارب العالمین۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دو دن پہلے واٹس ایپ پر ایک تحریر موصول ہوئی ، صاحب تحریر کا نام نہیں لکھا ہوا ، ابھی آپ کی تحریر کے عنوان سے لگا ، شاید آپ کی ہو ، لیکن دیکھنے سے معلوم ہوا ، کہ دونوں تحریروں میں فرق ہے، افادہ عام کی خاطر یہاں نقل کی جاتی ہے :
ارض شام ، ایک تاریخی پس منظر
تاریخ میں جس خطے کو ’بلادِ شام‘ کہا جاتا ہے اس کے چار اقلیم ہیں، حالیہ سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن، جوکہ اس وقت چار الگ الگ ملک ہیں۔ خطۂ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے اور محدثین نے رسول اللہ ﷺ سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے لاتعداد مناقب روایت کئے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی اہل علم نے آیات اور مستند احادیث پر مشتمل، سرزمین شام کی فضیلت پر باقاعدہ تصانیف چھوڑی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا بخاری میں مروی ہے: اللہم بارک لنا فی شامنا (صحیح بخاری حدیث رقم: 990 ) ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما“۔ مزید برآں کئی احادیث سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ خطۂ شام طائفۂ منصورہ(1) کا مسکن بنا رہے گا، مثلا حدیث: لایزال أھل الغرب ظاھرین علی الحق حتی تقوم الساعۃ (صحیح مسلم حدیث رقم 5067) ”شام کی جہت والے لوگ بالاتر رہیں گے، حق پر رہتے ہوئے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کا یہ فرما دینا: اِذا فسد أھل الشام فلا خیر فیکم، لا تزال طائفۃ من أمتی منصورین لا یضرہم من خذلہم حتیٰ تقوم الساعۃ (مسند احمد حدیث رقم 15635، عن معاویۃ بن قرۃ)(2) ”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔ اسی طرح کے نبوی اخبار و آثار کے پیش نظر صحابہ کی بہت بڑی تعداد خاص شام کو مسکن بنا کر رہی اور شام ومابعد خطوں میں جہاد کرنا صحابہ کو سب سے زیادہ مرغوب تھا۔ مدینہ یا عمومی طور پر جزیرۂ عرب کے بعد اگر کوئی خطہ ہے جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ وہاں اصحابِ رسول اللہ کی سب سے بڑی تعداد دفن ہے تو وہ بلاد شام ہی ہے۔ پس یہاں جگہ جگہ انبیاءؑ مدفون ہیں، جوکہ مخلوق میں برگزیدہ ترین ہیں اور یا پھر خاتم المرسلین کے اصحابؓ جوکہ انبیاءکے بعد برگزیدہ ترین ہیں۔ اور جہاں تک تابعین وما بعد ادوار کے اولیاءوصلحاء، ائمۂ وعلماء، شہداءاور مجاہدین، قائدین اور سلاطین اور عجوبۂ روزگار مسلم شخصیات کا تعلق ہے، تو خطۂ شام کے حوالے سے وہ تو شمار سے باہر ہے۔ یوں سمجھئے شام ہمیشہ ہیروں موتیوں سے بھرا رہا ہے! کئی ایک نصوص کی رو سے شام ہی ارض محشر ہے(3)۔ شام کا ایک تاریخی حوالہ اہل اسلام کے ہاں ’ارضِ رِباط‘(4) رہا ہے.... اسلامی فتوحات سے پہلے دراصل شام ہی دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کا پایۂ تخت رہا ہے۔ یہیں سے بیٹھ کر رومن سیزر ایشیا، یورپ اور افریقہ کے ایک بڑے خطے پر قائم اپنی ایمپائر کا انتظام وانصرام کرتا تھا، جوکہ اس جگہ کی جغرافیائی اہمیت کی ایک واضح دلیل ہے۔رومن طنطنہ و جبر کا سکہ کوئی چوتھائی دنیا پر یہیں سے چلایا جارہا تھا۔ اسلام کے شیر جزیرۂ عرب سے نکلے تو مغربی سمت سب سے پہلا ہلہ ظلم کے اسی راج گھاٹ پر بولا گیا۔ چنانچہ بیرونی فتوحات میں انبیاءکی یہ سرزمین اہل اسلام کیلئے پہلا خدائی تحفہ تھا۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی مجاہد سپاہ کے ہاتھوں یرموک کی فیصلہ کن شکست کے بعد سیزر ہریکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتا ہوا رخصت ہوا ’سلام اے ارض شام، جس کے بعد کبھی ملنا نہیں‘.... اور اس کے ساتھ ہی یہ خطہ اذانوں کی گونج میں عدل فارقی کا نظارہ کرنے لگا! شام کا مسلم افواج کے ہاتھوں میں آنا تھا کہ ایشیا اور افریقہ میں پھر رومنز کے باقی مقبوضات پکے پھل کی طرح ایک ایک کر کے عمر فاروقؓ کی جھولی میں گرنے لگے اور تکبیروں کی گونج میں مغرب کی جانب پیش قدمی کرتی ہوئی مسلم افواج مصر سے بڑھتی ہوئی افریقہ کے ایک بڑے علاقے تک صبح صادق کی طرح پھیل گئیں۔ بلکہ کچھ ہی دیر بعد بحر ابیض کے ساحلوں پہ بڑھتی ہوئی پورے شمالی افریقہ پر حاوی ہوگئیں، یہاں تک کہ قیروان، مراکش سے اِدھر کہیں رکنے کا نام نہ لیا، جہاں شمال کی جانب بحر ابیض کے دوسرے پار اندلس (یورپ) رہ جاتا تھا تو مغرب کی جانب خشکی ختم، بحر اوقیانوس Atlantic Ocean شروع ہوجاتا تھا، جس کی بابت اُس وقت کے لوگوں کا خیال تھا کہ دنیا یہاں پر ختم ہوجاتی ہے! اس سے کوئی دو عشرے بعد یہیں شام سے بیٹھ کر امیر معاویہؓ نے بحر ابیض کو، جس کا دوسرا نام کسی وقت ’بحرِ روم‘ ہوا کرتا تھا، اسلام کے بحری بیڑوں کی آماج گاہ بنا دیا اور قبرص اور سلسلی ایسے اسٹریٹجک جزیروں کو زیر نگین کرتے ہوئے سیزر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ پر چڑھائی کیلئے موحدین کے لشکر روانہ کئے۔ چند عشرے بعد یہیں سے بیٹھ کر خلیفہ ولید بن عبد الملک اندلس کا خراج وصول کرنے لگا۔ چنانچہ مغرب کی جانب ہونے والی تمام تر اسلامی توسیع کیلئے ارض شام ایک گیٹ وے بنا رہا۔ اس کے بعد کوئی تین صدی تک رومنوں کی بائزنٹینی ایمپائر کے ساتھ عباسی خلفاءاور بعد ازاں کچھ علاقائی امارتوں کی مسلسل جنگ رہی تو اس کا بیس کیمپ بڑی حد تک شام ہی رہا۔ اس لحاظ سے، شام مجاہدین سے کبھی خالی نہ رہا۔ اسلام کے دور عروج میں بھی شہادت کے متلاشی صدیوں تک اسی جگہ کو اپنا مستقر بناتے رہے۔ پھر جب مسلم قوت کے کمزور پڑجانے کے بعد صلیبی یلغاریں شروع ہوئیں تو یہی خطہ جو کبھی بندگانِ صلیب پر عرصۂ حیات تنگ کر کے رہا تھا اب ان کی دست درازی کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ہدف تھا۔ پانچویں صدی ہجری میں بیت المقدس اور فلسطین کا ایک بڑاحصہ مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتا رہا اور بقیہ شام لینے کیلئے صلیبی افواج ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں، جس کے بعد ان صلیبی قوتوں کا اگلا ہدف یہ تھا کہ عالم اسلام کے دیگر خطے بھی تاراج کر دیں، بلکہ ان کا ایک بدبخت رینالڈ ڈی شاتیلون، جوکہ کرک کا صلیبی بادشاہ تھا، اور مصر سے آنے والے حجاج کے قافلے لوٹنے کیلئے بہت آگے تک جایا کرتا تھا، علی الاعلان بکتا تھا کہ وہ مدینہ پہنچ کر پیغمبرِ اسلام کی قبر اکھاڑنے سے کم کسی بات پر رکنے والا نہیں۔ یہی وہ خبیث النفس تھا جس کی بابت صلاح الدین نے قسم کھا کر نذر مانی تھی کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے جہنم رسید کرے گا۔ چنانچہ اب ایک بار پھر، پوری عیسائی دنیا کے مدمقابل پورے عالم اسلام کی جنگ یہیں پہ مورچہ زن ہو کر لڑی جانے لگی۔ چھٹی صدی ہجری میں عماد الدین، نور الدین اور پھر صلاح الدین کے گھوڑے اسی ارض شام میں دوڑائے گئے کہ بالآخر اللہ نے بیت المقدس مسلمانوں کو واپس دیا۔ حطین کا وہ تاریخی میدان فلسطین ہی میں واقع ہے جہاں پر صلاح الدین کی مجاہد سپاہ نے عالم صلیب کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور جس میں سات صلیبی بادشاہ قید کر کے صلاح الدین کی سرکار میں پیش کئے گئے تھے۔ صلاح الدین کی جانب سے رینالڈ کہ گستاخِ رسول اور آخری درجے کا بد عہد تھا کو چھوڑ کر باقی چھ کی جان بخشی کر دی گئی تھی۔ ’حطین‘ درحقیقت سات عشرے سے مسلسل جاری جہادی عمل کا نقطۂ عروج تھا۔ مگر اس کے بعد بھی کوئی دو سو سال تک ایوبی سلاطین اور پھر ممالیک، صلیبی حملوں کے مدمقابل یہیں پر معرکہ آرا رہے اور امت کے لئے خدائی نصرت کا ذریعہ بنتے رہے۔ چنانچہ شام خصوصاً فلسطین کے علاوہ شاید ہی کوئی خطہ ہو جس کو اتنی صدیاں اس تسلسل اور اس شدت کے ساتھ ’ارضِ رِباط‘ بنا رہنے کا شرف حاصل رہا ہو، اور وہ بھی امت کے ایک نہایت فیصلہ کن محاذ کے طور پر۔ یہاں تک کہ ساتویں صدی ہجری میں جب تاتاریوں کا سیلاب قریب قریب پورے عالم اسلام کو غرقاب کر چکا تھا اور بغدا د کے دارِ خلافت کو تہس نہس کر چکا تھا تو صرف شام کا کچھ خطہ اور مصر باقی رہ گیا تھا جو ابھی تک مسلم قلمرو کا حصہ تھے۔ تاتاریوں کی وحشی یلغار کے سامنے ’ممالیک‘ اب عالم اسلام کی آخری امید رہ گئے تھے۔ تب سلطان العلماءعز الدین بن عبد السلامؒ کے زیر تحریک، مملوک سلطان سیف الدین مظفر قطز کی قیادت میں مصر سے اسلام کا ایک لشکر اٹھتا ہے اور ہلاکو کے نائب کتبغا کے زیر قیادت شام میں پیش قدمی کرتی ہوئی تاتاری افواج سے مقابلہ کیلئے فلسطین کے تاریخی مقام ’عین جالوت‘ کا انتخاب کرتا ہے۔ معرکۂ عین جالوت کے نتیجہ میں پہلی بار مسلم دنیا ’اہل اسلام کے ہاتھوں تاتاریوں کو شکست فاش‘ ہونے کی خبر سنتی ہے، ورنہ تاحال تاتاریوں کیلئے ’شکست‘ کا لفظ سننے کی حسرت تک مسلم دلوں میں کبھی پوری نہ ہو پائی تھی۔ معرکۂ عین جالوت کی بابت ہی سلطان قطز کا یہ تاریخی نعرہ مشہور ہے ’وا اسلاماہ!!!‘ کہ ’ہائے، اسلام گیا!‘۔ اسی معرکہ کی بابت، جوکہ رمضان میں جمعۃ المبارک کے روز ہوا، اور جس کا نتیجہ جاننے کے انتظار میں پورا عالم اسلام دم سادھ کر بیٹھا تھا، مشہور ہے کہ سلطان نے نماز جمعہ کے وقت تک معرکہ شروع نہ ہونے دیا، جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام میں شرق تا غرب مسجدیں لشکر اسلام کی نصرت کے لئے دعاگو ہوجائیں تو معرکہ تب شروع ہو! اس سے چند عشرے بعد قازان کی قیادت میں تاتاری سیلاب کا ایک اور زوردار ریلہ شام کا رخ کرتا ہے اور شقحب کے مشہور معرکہ میں مسلم افواج کے ہاتھوں منہ کی کھا کر لوٹتا ہے۔ اس معرکۂ شقحب کے روحِ رواں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہوتے ہیں! یوں بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شام اور خصوصا فلسطین وہ ارضِ رباط ہے جہاں تاریخ اسلام کے پر آشوب ترین دور میں، ایک صدی کے اندر اندر، عالم اسلام پر چڑھ آنے والی دو بدترین کافر افواج کے گھٹنے لگے؛ ایک یورپ کے قلب سے اٹھنے والا صلیبی طوفان اور دوسرا صحرائے گوبی سے اٹھنے والا تاتاری ٹڈی دل۔ دونوں ’جہادِ شام‘ کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوئے اور یوں یہی خطہ پورے عالم اسلام میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دینے کا منبع بنا! تاریخ اگر اپنا آپ دہراتی ہے تو کیا معرکۂ کفر و اسلام کا حالیہ ڈراپ سین بھی کہیں ارضِ فلسطین میں اور موجودہ دور کی جہادی تحریکوں کے ہاتھوں تو نہیں ہونے والا!؟ تاریخ انسانی کے دو نہایت عظیم شر، صیہونیت اور صلیبیت جو عالم اسلام کے خلاف صدیوں کا بغض پال کر ایک خاص تیاری اور خاص ایجنڈے کے ساتھ اس بار آئے ہیں.... اس عالمی مملکتِ کفر کے خاتمہ کے سلسلہ میں کیا یہی ’ارضِ رباط‘ پھر سے کسی خدائی تدبیر کے ظہور میں آنے کیلئے ”میدان“ بننے والی تو نہیں، بلکہ بن نہیں چکی!؟ جس کے نتیجہ میں قدسیوں کی لازوال مملکت، ایک وقتی تعطل کے بعد، ہر بار کی طرح ایک بار پھر اپنی تاریخی شان و شوکت کے ساتھ بحال ہوجائے اور صدیوں تک کے لئے اسلام کے قلعے یہاں پھر سے ناقابلِ تسخیر ہو جائیں؟!
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
دو دن پہلے واٹس ایپ پر ایک تحریر موصول ہوئی ، صاحب تحریر کا نام نہیں لکھا ہوا ، ابھی آپ کی تحریر کے عنوان سے لگا ، شاید آپ کی ہو ، لیکن دیکھنے سے معلوم ہوا ، کہ دونوں تحریروں میں فرق ہے، افادہ عام کی خاطر یہاں نقل کی جاتی ہے :
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
مئی 15، 2015
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
13
بلاد شام –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سوریا)

تحریر : مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

بلاد شام کی تاریخ
بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہےوہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔پہلی عالمی جنگ عظیم تک یہ چاروں ممالک ملک شام سے شامل تھا۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور 1920موجودہ شام بنام سوریاوجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے ۔ اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے ۔
موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ملک شام کی بات ہوتو اس سے چاروں ممالک(سوریا،لبنان،فلسطین،اردن) مراد ہوں گے ۔ یہاں اسی پس منظر میں تحریر ہوگی ۔بلاد شام میں فلسطین کا شہر بیت المقدس اور سوریا کا شہر دمشق تاریخی اور شرعی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
مسجد اقصی کے بےشمار فضائل ہیں،یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد بنائی گئی اس کے بنانے والے انبیاء ہیں ۔نبی ﷺ نےمعراج میں اس کا سفر کیا اور زیارت کے طور پر یہاں پر سفر کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ یہاں پر ایک وقت کی نماز ڈھائی سو نماز کے برابر ہے ۔ یہاں پر اللہ تعالی نے بے پناہ برکت رکھی ہے اور یہ مقدس سرزمین ہے ۔
نبی ﷺ نے نبوت سے پہلے دومرتبہ ملک شام کا سفر کیا ۔ایک مرتبہ اپنے چچا کے ساتھ جو بحیرہ راہب کےواقعہ کے ساتھ معروف ہے ۔ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا مال لیکر تجارت کی غرض سے ۔
یہ شام ہمیشہ علم وفن اور نور نبوت سے منور رہا ہے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھیجے کے ساتھ عراق سے شام کا سفر کیااور یہیں سے اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہ اوراسماعیل علیہ السلام کو لق ودق صحرا میں چھوڑنے کے لئے سفر کیا تھا۔ آپ کے بعد اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، الیسع علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، یحی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام آئے۔
نبی ﷺ نے اسامہ بن زید کو ایک لشکر دے کراس کی طرف روانگی کا حکم دیا تھا مگر عین وقت پر آپ کی بیماری کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا ۔ آپ کی وفات کے بعد بغیر تاخیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ کو لشکر کے ساتھ روانہ کیااور فتح یابی سے ہمکنار ہوا۔ عہد فاروقی میں بیت المقدس فتح ہوگیا۔
اسی سرسبزوشاداب سرزمین میں امام نووی شارح صحیح مسلم ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، حافظ ابن عساکر اورحافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ جیسے علماء وفضلاء پیدا ہوئے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء ، بہت سارے علماء ومحدثین اور بہت سارے صحابہ کرام مدفون ہیں ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں بلاد شام کی فضیلت
قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص شام کی فضیلت سے متعلق ہیں ، مختصرا چند فضائل یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) بابرکت سرزمین : مسجد اقصی اور اس کے ارد گرد اللہ نے برکت رکھی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء:1)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ۔یقینا اللہ تعالی ہی خوب سنے دیکھنے والا ہے ۔
اور نبی ﷺ سے پورے شام کے لئے دعائے برکت کرنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے دعا کی :
اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا (صحيح البخاري:7094)
ترجمہ: اے اللہ! ہمیں برکت عطا فرما ہمارے شام میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔

(2) ایمان والی سرزمین :
نبی ﷺ نے فرمایا:
بَينا أنا نائمٌ رأيتُ عمودَ الكتابِ احْتُمِلَ مِن تحتِ رأسي فعُمِدَ بهِ إلى الشَّامِ ، ألا وإنَّ الإيمانَ حين تقعُ الفتنُ بالشَّامِ .(صحيح الترغيب:3094)
ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ کتاب(دین) کا ایک بنیادی حصہ لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔

(3) میدان حشر: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا ترجمہ: رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ : عليكُم بالشَّامِ(صحيح الترمذي:2217)
ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں'، آپ نے فرمایا:' تم شام چلے جانا۔

(4) اہل شام کے لئے فرشتے پربچھاتے ہیں:نبی ﷺ کا فرمان ہے :
طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها(صحيح الترمذي:3954)
ترجمہ: مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں۔

(5) نومسلموں کے ذریعہ دین کی مدد : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إذا وقعتِ الملاحِمَ، بعثَ اللَّهُ بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللَّهُ بِهمُ الدِّينَ(صحيح ابن ماجه:3319)
ترجمہ: جب جنگیں ہوں گی تو اللہ تعالی موالی(نومسلموں )کاایک لشکر کھڑا کرے گا۔ ان کے گھوڑے عرب کے بہترین گھوڑے ہوں گے اور ان کا اسلحہ سب سے عمدہ ہوگا۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے دین کی مدد کرے گا۔
بعض روایت میں الفاظ ہیں "
اذا وقعتِ الملاحمُ بعث اللهُ من دمشقَ بعثًا من الموالي أكرمُ العربِ فرسًا وأجودُهم سلاحًا يُؤَيِّدُ اللهُ بهمُ الدِّينَ"یعنی دمشق سے نومسلموں کا ایک لشکر کھڑا کرے گا۔ اس روایت کو شیخ البانی نے فضائل الشام ودمشق میں صحیح کہا ہے ۔

(6) اہل شام کے حق پرست جماعت کو اللہ کی مدد:
قرہ بن ایاس المزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ(صحيح الترمذي:2192)
ترجمہ: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا سکتے ہیں۔

(7) شام ارض مقدس اور بوقت خلافت قرب قیامت کا سبب ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ(صحيح أبي داود:2535)
ترجمہ: اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے ۔

(8) نزول عیسی علیہ السلام اور قتل دجال : نبی ﷺ نے فرمایا:
ينزل عيسى بن مريم ، عند المنارة البيضاء شرقي دمشق فيدركه عند بًاب لد فيقتله(صحيح أبي داود:4321)
ترجمہ: دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ‘ پس وہ (دجال کو) اس باب لد کے پاس پائیں گے اور اس کا کام تمام کر دیں گے ۔

ان کے علاوہ اور بھی شام کے فضائل وخصوصیات ہیں مثلا یہ مومنوں کا مسکن ، بہترین بندوں کی سرزمین ، مال غنیمت اور رزق کی جگہ ہے جنہیں بخوف طوالت چھوڑ دیا گیا۔

موجودہ شام (سوریا) کے حالات
ارض مقدس بلاد شام کا ایک حصہ موجودہ شام (سوریا)اس وقت آگ وخون کی لپیٹ میں ہے ۔ یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں ڈھائی لاکھ لوگ مرچکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔سوریا کے اکثر شہر خصوصا درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں ۔حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کا ظالم فوجی مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکاٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصے پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اکیس مہینوں میں 60 ہزار شامی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لاپتہ،کتنے فرار، کتنے اسپتال میں اورکتنے اعدادوشمار سے باہر ہوں گے ۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں ۔ مسلم حکمراں ، مسلم تنظیمیں اور مسلم ذمہ داران بھی غفلت کی لمبی چادر تانے سورہے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے شامی بھائیوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے اسی وقت اقدام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کی ہرطرح سے امداد دینی ہوگی ۔ خوابیدہ ضمیرذمہ داروں کو جگانا ہوگا۔ ظالم حکمرانوں کو سبق سکھانا ہوگا۔ ظلم کو ہوادینے والوں، اتحاد کو توڑنے اور انتشار وانارکی کو پھیلانے والوں کا گلا دباہوگا۔ مظلوم بھائیوں کے لئے کثرت سے دعا کریں اور امداد کی جو صورت آپ کو نظر آئے پیش کرنے میں دریغ نہ کریں خواہ قنوت نازلہ یا دعائے نیم شبی کے ذریعہ ہی سہی۔
یااللہ !شامی مسلمان کی غیبی مدد فرما، مسلم خواتین کی عزت وآبروکی حفاظت فرما، ظالموں کو فرشتوں اور پاکباز مجاہدوں کے ذریعہ نیست ونابود کردے، رذیل اقوام جو شامی مسلمانوں کی تباہی پہ تلےہیں انہیں خاکستردے۔ اور پورے جہان کے مسلمانوں کو اپنی پناہ میں لے لے ۔ آمین یارب العالمین۔
 
شمولیت
مئی 15، 2015
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
13
دو دن پہلے واٹس ایپ پر ایک تحریر موصول ہوئی ، صاحب تحریر کا نام نہیں لکھا ہوا ، ابھی آپ کی تحریر کے عنوان سے لگا ، شاید آپ کی ہو ، لیکن دیکھنے سے معلوم ہوا ، کہ دونوں تحریروں میں فرق ہے، افادہ عام کی خاطر یہاں نقل کی جاتی ہے :
ارض شام ، ایک تاریخی پس منظر
تاریخ میں جس خطے کو ’بلادِ شام‘ کہا جاتا ہے اس کے چار اقلیم ہیں، حالیہ سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن، جوکہ اس وقت چار الگ الگ ملک ہیں۔ خطۂ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے اور محدثین نے رسول اللہ ﷺ سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے لاتعداد مناقب روایت کئے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی اہل علم نے آیات اور مستند احادیث پر مشتمل، سرزمین شام کی فضیلت پر باقاعدہ تصانیف چھوڑی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا بخاری میں مروی ہے: اللہم بارک لنا فی شامنا (صحیح بخاری حدیث رقم: 990 ) ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما“۔ مزید برآں کئی احادیث سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ خطۂ شام طائفۂ منصورہ(1) کا مسکن بنا رہے گا، مثلا حدیث: لایزال أھل الغرب ظاھرین علی الحق حتی تقوم الساعۃ (صحیح مسلم حدیث رقم 5067) ”شام کی جہت والے لوگ بالاتر رہیں گے، حق پر رہتے ہوئے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کا یہ فرما دینا: اِذا فسد أھل الشام فلا خیر فیکم، لا تزال طائفۃ من أمتی منصورین لا یضرہم من خذلہم حتیٰ تقوم الساعۃ (مسند احمد حدیث رقم 15635، عن معاویۃ بن قرۃ)(2) ”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔ اسی طرح کے نبوی اخبار و آثار کے پیش نظر صحابہ کی بہت بڑی تعداد خاص شام کو مسکن بنا کر رہی اور شام ومابعد خطوں میں جہاد کرنا صحابہ کو سب سے زیادہ مرغوب تھا۔ مدینہ یا عمومی طور پر جزیرۂ عرب کے بعد اگر کوئی خطہ ہے جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ وہاں اصحابِ رسول اللہ کی سب سے بڑی تعداد دفن ہے تو وہ بلاد شام ہی ہے۔ پس یہاں جگہ جگہ انبیاءؑ مدفون ہیں، جوکہ مخلوق میں برگزیدہ ترین ہیں اور یا پھر خاتم المرسلین کے اصحابؓ جوکہ انبیاءکے بعد برگزیدہ ترین ہیں۔ اور جہاں تک تابعین وما بعد ادوار کے اولیاءوصلحاء، ائمۂ وعلماء، شہداءاور مجاہدین، قائدین اور سلاطین اور عجوبۂ روزگار مسلم شخصیات کا تعلق ہے، تو خطۂ شام کے حوالے سے وہ تو شمار سے باہر ہے۔ یوں سمجھئے شام ہمیشہ ہیروں موتیوں سے بھرا رہا ہے! کئی ایک نصوص کی رو سے شام ہی ارض محشر ہے(3)۔ شام کا ایک تاریخی حوالہ اہل اسلام کے ہاں ’ارضِ رِباط‘(4) رہا ہے.... اسلامی فتوحات سے پہلے دراصل شام ہی دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کا پایۂ تخت رہا ہے۔ یہیں سے بیٹھ کر رومن سیزر ایشیا، یورپ اور افریقہ کے ایک بڑے خطے پر قائم اپنی ایمپائر کا انتظام وانصرام کرتا تھا، جوکہ اس جگہ کی جغرافیائی اہمیت کی ایک واضح دلیل ہے۔رومن طنطنہ و جبر کا سکہ کوئی چوتھائی دنیا پر یہیں سے چلایا جارہا تھا۔ اسلام کے شیر جزیرۂ عرب سے نکلے تو مغربی سمت سب سے پہلا ہلہ ظلم کے اسی راج گھاٹ پر بولا گیا۔ چنانچہ بیرونی فتوحات میں انبیاءکی یہ سرزمین اہل اسلام کیلئے پہلا خدائی تحفہ تھا۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی مجاہد سپاہ کے ہاتھوں یرموک کی فیصلہ کن شکست کے بعد سیزر ہریکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتا ہوا رخصت ہوا ’سلام اے ارض شام، جس کے بعد کبھی ملنا نہیں‘.... اور اس کے ساتھ ہی یہ خطہ اذانوں کی گونج میں عدل فارقی کا نظارہ کرنے لگا! شام کا مسلم افواج کے ہاتھوں میں آنا تھا کہ ایشیا اور افریقہ میں پھر رومنز کے باقی مقبوضات پکے پھل کی طرح ایک ایک کر کے عمر فاروقؓ کی جھولی میں گرنے لگے اور تکبیروں کی گونج میں مغرب کی جانب پیش قدمی کرتی ہوئی مسلم افواج مصر سے بڑھتی ہوئی افریقہ کے ایک بڑے علاقے تک صبح صادق کی طرح پھیل گئیں۔ بلکہ کچھ ہی دیر بعد بحر ابیض کے ساحلوں پہ بڑھتی ہوئی پورے شمالی افریقہ پر حاوی ہوگئیں، یہاں تک کہ قیروان، مراکش سے اِدھر کہیں رکنے کا نام نہ لیا، جہاں شمال کی جانب بحر ابیض کے دوسرے پار اندلس (یورپ) رہ جاتا تھا تو مغرب کی جانب خشکی ختم، بحر اوقیانوس Atlantic Ocean شروع ہوجاتا تھا، جس کی بابت اُس وقت کے لوگوں کا خیال تھا کہ دنیا یہاں پر ختم ہوجاتی ہے! اس سے کوئی دو عشرے بعد یہیں شام سے بیٹھ کر امیر معاویہؓ نے بحر ابیض کو، جس کا دوسرا نام کسی وقت ’بحرِ روم‘ ہوا کرتا تھا، اسلام کے بحری بیڑوں کی آماج گاہ بنا دیا اور قبرص اور سلسلی ایسے اسٹریٹجک جزیروں کو زیر نگین کرتے ہوئے سیزر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ پر چڑھائی کیلئے موحدین کے لشکر روانہ کئے۔ چند عشرے بعد یہیں سے بیٹھ کر خلیفہ ولید بن عبد الملک اندلس کا خراج وصول کرنے لگا۔ چنانچہ مغرب کی جانب ہونے والی تمام تر اسلامی توسیع کیلئے ارض شام ایک گیٹ وے بنا رہا۔ اس کے بعد کوئی تین صدی تک رومنوں کی بائزنٹینی ایمپائر کے ساتھ عباسی خلفاءاور بعد ازاں کچھ علاقائی امارتوں کی مسلسل جنگ رہی تو اس کا بیس کیمپ بڑی حد تک شام ہی رہا۔ اس لحاظ سے، شام مجاہدین سے کبھی خالی نہ رہا۔ اسلام کے دور عروج میں بھی شہادت کے متلاشی صدیوں تک اسی جگہ کو اپنا مستقر بناتے رہے۔ پھر جب مسلم قوت کے کمزور پڑجانے کے بعد صلیبی یلغاریں شروع ہوئیں تو یہی خطہ جو کبھی بندگانِ صلیب پر عرصۂ حیات تنگ کر کے رہا تھا اب ان کی دست درازی کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ہدف تھا۔ پانچویں صدی ہجری میں بیت المقدس اور فلسطین کا ایک بڑاحصہ مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتا رہا اور بقیہ شام لینے کیلئے صلیبی افواج ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں، جس کے بعد ان صلیبی قوتوں کا اگلا ہدف یہ تھا کہ عالم اسلام کے دیگر خطے بھی تاراج کر دیں، بلکہ ان کا ایک بدبخت رینالڈ ڈی شاتیلون، جوکہ کرک کا صلیبی بادشاہ تھا، اور مصر سے آنے والے حجاج کے قافلے لوٹنے کیلئے بہت آگے تک جایا کرتا تھا، علی الاعلان بکتا تھا کہ وہ مدینہ پہنچ کر پیغمبرِ اسلام کی قبر اکھاڑنے سے کم کسی بات پر رکنے والا نہیں۔ یہی وہ خبیث النفس تھا جس کی بابت صلاح الدین نے قسم کھا کر نذر مانی تھی کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے جہنم رسید کرے گا۔ چنانچہ اب ایک بار پھر، پوری عیسائی دنیا کے مدمقابل پورے عالم اسلام کی جنگ یہیں پہ مورچہ زن ہو کر لڑی جانے لگی۔ چھٹی صدی ہجری میں عماد الدین، نور الدین اور پھر صلاح الدین کے گھوڑے اسی ارض شام میں دوڑائے گئے کہ بالآخر اللہ نے بیت المقدس مسلمانوں کو واپس دیا۔ حطین کا وہ تاریخی میدان فلسطین ہی میں واقع ہے جہاں پر صلاح الدین کی مجاہد سپاہ نے عالم صلیب کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور جس میں سات صلیبی بادشاہ قید کر کے صلاح الدین کی سرکار میں پیش کئے گئے تھے۔ صلاح الدین کی جانب سے رینالڈ کہ گستاخِ رسول اور آخری درجے کا بد عہد تھا کو چھوڑ کر باقی چھ کی جان بخشی کر دی گئی تھی۔ ’حطین‘ درحقیقت سات عشرے سے مسلسل جاری جہادی عمل کا نقطۂ عروج تھا۔ مگر اس کے بعد بھی کوئی دو سو سال تک ایوبی سلاطین اور پھر ممالیک، صلیبی حملوں کے مدمقابل یہیں پر معرکہ آرا رہے اور امت کے لئے خدائی نصرت کا ذریعہ بنتے رہے۔ چنانچہ شام خصوصاً فلسطین کے علاوہ شاید ہی کوئی خطہ ہو جس کو اتنی صدیاں اس تسلسل اور اس شدت کے ساتھ ’ارضِ رِباط‘ بنا رہنے کا شرف حاصل رہا ہو، اور وہ بھی امت کے ایک نہایت فیصلہ کن محاذ کے طور پر۔ یہاں تک کہ ساتویں صدی ہجری میں جب تاتاریوں کا سیلاب قریب قریب پورے عالم اسلام کو غرقاب کر چکا تھا اور بغدا د کے دارِ خلافت کو تہس نہس کر چکا تھا تو صرف شام کا کچھ خطہ اور مصر باقی رہ گیا تھا جو ابھی تک مسلم قلمرو کا حصہ تھے۔ تاتاریوں کی وحشی یلغار کے سامنے ’ممالیک‘ اب عالم اسلام کی آخری امید رہ گئے تھے۔ تب سلطان العلماءعز الدین بن عبد السلامؒ کے زیر تحریک، مملوک سلطان سیف الدین مظفر قطز کی قیادت میں مصر سے اسلام کا ایک لشکر اٹھتا ہے اور ہلاکو کے نائب کتبغا کے زیر قیادت شام میں پیش قدمی کرتی ہوئی تاتاری افواج سے مقابلہ کیلئے فلسطین کے تاریخی مقام ’عین جالوت‘ کا انتخاب کرتا ہے۔ معرکۂ عین جالوت کے نتیجہ میں پہلی بار مسلم دنیا ’اہل اسلام کے ہاتھوں تاتاریوں کو شکست فاش‘ ہونے کی خبر سنتی ہے، ورنہ تاحال تاتاریوں کیلئے ’شکست‘ کا لفظ سننے کی حسرت تک مسلم دلوں میں کبھی پوری نہ ہو پائی تھی۔ معرکۂ عین جالوت کی بابت ہی سلطان قطز کا یہ تاریخی نعرہ مشہور ہے ’وا اسلاماہ!!!‘ کہ ’ہائے، اسلام گیا!‘۔ اسی معرکہ کی بابت، جوکہ رمضان میں جمعۃ المبارک کے روز ہوا، اور جس کا نتیجہ جاننے کے انتظار میں پورا عالم اسلام دم سادھ کر بیٹھا تھا، مشہور ہے کہ سلطان نے نماز جمعہ کے وقت تک معرکہ شروع نہ ہونے دیا، جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام میں شرق تا غرب مسجدیں لشکر اسلام کی نصرت کے لئے دعاگو ہوجائیں تو معرکہ تب شروع ہو! اس سے چند عشرے بعد قازان کی قیادت میں تاتاری سیلاب کا ایک اور زوردار ریلہ شام کا رخ کرتا ہے اور شقحب کے مشہور معرکہ میں مسلم افواج کے ہاتھوں منہ کی کھا کر لوٹتا ہے۔ اس معرکۂ شقحب کے روحِ رواں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہوتے ہیں! یوں بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شام اور خصوصا فلسطین وہ ارضِ رباط ہے جہاں تاریخ اسلام کے پر آشوب ترین دور میں، ایک صدی کے اندر اندر، عالم اسلام پر چڑھ آنے والی دو بدترین کافر افواج کے گھٹنے لگے؛ ایک یورپ کے قلب سے اٹھنے والا صلیبی طوفان اور دوسرا صحرائے گوبی سے اٹھنے والا تاتاری ٹڈی دل۔ دونوں ’جہادِ شام‘ کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوئے اور یوں یہی خطہ پورے عالم اسلام میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دینے کا منبع بنا! تاریخ اگر اپنا آپ دہراتی ہے تو کیا معرکۂ کفر و اسلام کا حالیہ ڈراپ سین بھی کہیں ارضِ فلسطین میں اور موجودہ دور کی جہادی تحریکوں کے ہاتھوں تو نہیں ہونے والا!؟ تاریخ انسانی کے دو نہایت عظیم شر، صیہونیت اور صلیبیت جو عالم اسلام کے خلاف صدیوں کا بغض پال کر ایک خاص تیاری اور خاص ایجنڈے کے ساتھ اس بار آئے ہیں.... اس عالمی مملکتِ کفر کے خاتمہ کے سلسلہ میں کیا یہی ’ارضِ رباط‘ پھر سے کسی خدائی تدبیر کے ظہور میں آنے کیلئے ”میدان“ بننے والی تو نہیں، بلکہ بن نہیں چکی!؟ جس کے نتیجہ میں قدسیوں کی لازوال مملکت، ایک وقتی تعطل کے بعد، ہر بار کی طرح ایک بار پھر اپنی تاریخی شان و شوکت کے ساتھ بحال ہوجائے اور صدیوں تک کے لئے اسلام کے قلعے یہاں پھر سے ناقابلِ تسخیر ہو جائیں؟!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس سے ملتی جلتی ایک اور تحریر ہے جو 25 اگست 2014 کو محدث فورم پر پیش کی گئی تھی، تحریر: عيسى القدومي ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی کا ہے جو انہوں نے کسی فورم پر ستمبر 2013 کو پوسٹ کی تھی، اسے بھی اسی دھاگہ میں دوبارہ معلومات کے لئے پیش کرتا ہوں۔
-------------------

ملک شام میں اسلام کا مستقبل
سرزمین شام کو مبارک سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس خطہ زمین کی برکات اور رحمتوں کی جانب اشارہ کیا گیا، اس سرزمین پر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے قدم پڑے، بلکہ یہ سرزمین پیغامات الِہی کا سرچشمہ رہی، اور اللہ کے رسولوں کا ماوی ومسکن بنی، تاریخ میں جس خطے کو ’بلادِ شام‘ کہا جاتا ہے اس کے چار اقلیم ہیں، حالیہ سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن، جوکہ اس وقت چار الگ الگ ملکوں میں منقسم ہے۔ خطۂ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، بلکہ احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہے اور محدثین عظام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے بےشمار مناقب وفضائل نقل کیے ہیں۔

بیرونی اسلامی فتوحات میں انبیاء کی یہ سرزمین اہل اسلام کیلئے پہلا خدائی تحفہ تھی۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے لشکر کے ہاتھوں یرموک کی فیصلہ کن شکست کے بعد سیزر ہریکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتا ہوا رخصت ہوا تھا’ سلام تجھے اے ارض شام! اب کبھی تجھ سے ملاقات ممکن نہیں‘ اور اس کے ساتھ ہی یہ خطہ اذانوں کی گونج میں عدل فارقی کا نظارہ کرنے لگا!

سرزمین شام قرآن میں:

ارض مبارکہ: قرآن مجید میں بلاد شام کو ارضِ مبارکہ کہا گیا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اپنی کتاب ''مناقب الشام واھلہ'' کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: کتاب وسنت اور آثار علماء سے شام اور اس کے باشندوں کے فضائل ومناقب ثابت ہیں، یہ وہ ملک ہے، جو تاتاریوں کے حملے میں مسلمانوں کی ترغیب کا باعث بنا، اور مسلمانوں نے مصر کی جانب راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے دمشق میں ہی پناہ لی۔ اھ،

فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ
اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی۔
(الأنبياء:71)

حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: آیت میں برکت والی سرزمین سے مراد ارض شام ہے، یہی روایت مجاہد، ابن زید اور ابن جریج سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے لیے ارض مبارکہ کو نجات گاہ بنایا تھا، اور بلاد شام سے سرزمین فلسطین کا انتخاب فرمایا،


شیخ سعدیؒ آیت بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "آیت میں برکت والی زمین سے مراد شام ہے، کیونکہ اکثر انبیاء کا تعلق اسی سرزمین سے تھا، اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کے لیے مقام ہجرت بنایا، اور اسی سرزمین میں اس کے گھروں میں سے ایک گھر بیت المقدس ہے"۔


مسجد اقصی اُسی سرزمین میں واقع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بابرکت بنایا،


ارشاد باری تعالیٰ ہے:


سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے


اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کو اپنی قوم کے ساتھ سرزمین شام کی جانب جانے کا حکم دیا تھا، لیکن قوم نے داخل ہونے سے انکار کیا :

ارشاد ہے:


يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو

بلاد شام اللہ کے نیک بندوں کی میراث ہے، ارشاد باری ہے :

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا
اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس سرزمین کے مشرق مغرب کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہواؤں کو ارض مبارک یعنی شام کی جانب رخ کرنے کا حکم دیں،

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔

ابن جریر طبری کہتے ہیں: سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ارض مبارک کی ہوائیں چلتی تھیں، اور ارض مبارک سے مراد ملک شام ہے،

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سِینِین کی اور اس امن والے شہر کی.

بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیت میں لفظ تین سے مراد بلاد شام ہے اور لفظ زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سرزمین شام کو سچائی کا ٹھکانہ قرار دیا، ارشاد ربانی ہے:

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا۔

ابن کثیر ؒ نے آیت کی تفسیر میں کہا کہ مبوا صدق سے مراد بلاد مصر وشام ہے جو بیت المقدس کے اردگرد واقع ہے، اور طبری نے قتادہ کے حوالے سے کہا: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شام اور بیت المقدس میں ٹھکانہ عطا کیا تھا،


بلاد شام احادیث رسول صلی اللہ علیہ میں:

شام میں سکونت اختیار کرنے کی وصیت:

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے: فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اخیر زمانے میں حضر موت سے تم پر ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکھٹا کرے گی، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے وقت آپ کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کا رخ کرنا۔
(رواه الترمذي وصححه الألباني)

حضرت عبداللہ بن حوالہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہو جائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہو گا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ ﷲ تعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘
(أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب : فی سکنی الشام، 3 : 4، رقم : 2483)

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام سے متعلق وصیت فرماتے ہوئے فرمایا: تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا
(رواه أبو داود وأحمد، بسند صحيح.)



خطۂ شام طائفۂ منصورہ کا مسکن:

حضرت معاویہ بن ابوسفیان ؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جائے کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے ۔
(متفق علیہ)

مالک بن یخامر کہتے ہیں: میں نے حضرت معاذ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہوگا۔

اور ایک روایت میں ہے:

میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا، حتی کہ ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائی کرے گا۔ یہ بات مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین میں باب لد کے پاس مسیح دجال کا سامنا کریں گے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام کو قیامت تک اللہ کے حکم کے قائم کرنے اور قیامت تک ان میں طائفہ منصورہ کے وجود کی وجہ سے امتیازی طور پر ذکر فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل شام سے متعلق اس طرح فرمانا ان میں دائمی کثرت وقوت کے ہونے کی دلیل ہے، اہل شام کے علاوہ اسلام کی کسی زمین کے باشندوں میں یہ وصف بیان نہیں کیا گیا، حالانکہ سرزمین حجاز ایمان کا اصل مرکز ہے، لیکن آخری زمانے میں وہاں بھی علم، ایمان، نصرت اور جہاد کم ہوجائے گا، یمن ، عراق اور مشرق میں بھی یہی صورتحال ہوگی، لیکن شام میں علم وایمان باقی رہے گا اور اس کے لیے لڑنے والوں کو ہر وقت تائید ونصرت حاصل رہے گی۔
مجموع الفتاوی (4/449)


ملک شام پر فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں:

صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: آپ نے فرمایا: شام کیلئے بھلائی ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے۔ آپ نے فرمایا: اس لئے کہ رحمن کے فرشتے ان پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔
(رواہ الترمذی وصححہ الالبانی)


فتنوں کے دور میں ایمان شام میں ہو گا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھر سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔
(رواه الإمام أحمد وصححه الألباني.)


جب اہل شام فساد کا شکار ہو جائیں تو پھر مسلمانوں میں کوئی خیر نہیں :

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے“۔
( رواه الإمام أحمد وصححه الألباني. )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارض مقدس کے رہنے والوں کے فساد کا شکار ہونے پر امت کے خیر کی نفی فرمائی، لہذا ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ضروری ہے، مقدس مکان کے ساتھ مقدس عمل کا اجتماع کیا ہی خوبصورت ہوگا۔


اہل شام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے کہا : اور ہمارے نجد میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں ؟ صحابہ کا ارادہ تھا کہ آپ اہل نجد کے لیے بھی دعا کریں، لیکن آپ نے ان کے لیے دعا نہیں فرمائی، البتہ یہ فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہیں سے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی۔



جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ دمشق میں ہوگا:

حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈ ہیڈ کواٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ”الغوطہ“ کے مقام پر ہوگا۔
(سنن ابی داود، مستدرک حاکم)


شام سرزمین ہے حشر کی اور نشر کی:

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام حشر اور نشر کی سرزمین ہے۔

لہذا سرزمین شام ہی مقدس اور مبارک سرزمین ہے، اللہ کی زمین میں یہی خطہ زمین اللہ کی بہترین زمین ہے، یہ سرزمین جہاد ورباط ہے، یہ اللہ کے بندوں کی جماعت کا مرکز ہے، اللہ کے بندوں کی یہی جماعت طائفہ منصورہ ہے۔


آخری زمانے میں بلاد شام خلافت اسلامیہ کا مرکز ہوگا:

ابوحوالہ ازدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر یا میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر فرمایا: اے ابن حوالہ ! جب دیکھو کہ ارض مقدسہ میں خلافت قائم ہوچکی تو اس دن زلزلے، بلائیں، مصیبتیں، بڑے بڑے حادثات، اور قیامت لوگوں سے اس سے زیادہ قریب ہونگے جتنا میرا ہاتھ تمہارے سرسے قریب ہے۔
صحيح الجامع.


ارض مبارکہ میں عمارت کا حقدار کون؟

ارض مبارکہ میں عمارت کے حقدار صرف موحدین مسلمان ہونگے، اور یہ سرزمین قیامت تک مسلمانوں کی چھاونی اور شہر جہاد ہوگا، لہذا احادیث میں اس سرزمین میں رہائش اختیار کرنے، دعوت توحید کو عام کرنے اور اس میں رہائش پذیر اہل حق کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ترغیب دی گئی ہے۔


عسقلان شام کی سرحدوں میں سے ایک سرحد ہے:

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے نبوت ورحمت ہوگی، پھر خلافت اور رحمت ہوگی ، پھر ملوکیت اور رحمت ہوگی، پھر لوگ اس پرگدھوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے، لہذا (اس وقت) تم پر جہاد لازمی ہوگا، اور تمہارا رباط میں جہاد کرنا افضل ہوگا، اور تمہارا افضل رباط عسقلان ہوگا۔
(اخرج الطبرانی فی المعجم الکبیر، سلسلہ الصحیحہ:3270)

رِباط‘ کا مطلب ہے آدمی کا حالتِ جنگ کیلئے کسی جگہ پر تیار اور حاضر پایا جانا۔ اس کیفیت میں ہونا کہ جنگ اب چھڑ سکتی۔ یا یہ کہ آدمی کو کسی جھڑپ کیلئے ابھی طلب کر لیا جائے گا یا ذرا ٹھہر کر۔ جنگ کے لئے آدمی کا محاذ پر ہونا اور مورچہ زن ہو رہنا۔

ایک حدیث میں ہے:

رِبَاطُ یَوْمٍ فی سبیل اللہ خیرٌ مّنَ الدُّنُیَا وَمًا عَلَیْہَا
اللہ کے راستے میں ایک دن کا رباط دنیا وما فیہا سے بہتر ہے“۔
(متفق علیہ)”


عسقلان ایک مشہور جگہ ہے، تاریخ میں اسے عروس الشام کہا گیا ہے، اور فلسطین کے شہروں سے متعلق انسائیکلوپیڈیا میں تحریر ہے:عسقلان اپنی طویل تاریخ میں معیشت کا حامل ایک ساحلی شہر شمار کیا جاتا رہا، اس کی سمندری بندرگاہ اور فلسطین ومصر کی سرحدوں سے قریب اس کے اسٹرٹیجک جائے وقوع کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے، سمندر سے گذرنے والے تمام تجارتی اور جنگی قافلوں کو اسی شہر سے گذرنا پڑتا ہے۔ تاریخ میں کوئی بھی لشکر عسقلان پر کنٹرول حاصل کیئے بغیر فلسطین کو فتح نہیں کر سکا، اسی طرح اسلامی ادوار میں بھی عسقلان کی اہمیت میں کمی نہیں آئی۔

مذکورہ بالا حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی عظیم دلیل ہے، جس میں آپ نے فرمایا کہ " پھر قومیں اقتدار پر گدھوں کی مانند ٹوٹ پڑیں گی" مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی جانب یہ آپ کا اشارہ تھا کہ مسلمان اختلاف اور آپسی خلفشار کی وجہ سے اقتدار کے لیے لڑیں گے، اس وجہ سے آپ نے فرمایا: "تمہارا افضل رباط عسقلان ہے" جس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یہ رباط بلاد شام ہے اور بلاد شام کو کفار للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے، بلاد شام کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سرزمین ہر زمانے میں اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل رہی، اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے سے مراد فلسطین کے شمالی وجنوبی اور مشرقی تمام علاقوں تک اپنا کنٹرول آسان کرنا ہے۔


غنائم اور رزق کی سرزمین:

ابو امامۃ الباھلی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔
(ترمذی اور اس کو البانی نے صحیح الجامع میں صحیح کہا ہے)


بالآخر انجام کار مسلمانوں کے ہی حق میں ہوگا :

اللہ تعالیٰ کی سنتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انجام کار مسلمانوں کے حق میں ہوگا، گرچہ اس کے لئے ایک زمانہ بھی لگ سکتا ہے یا پھر بہت بھی ہوسکتا ہے، اللہ کا دین چاہے ہمارے ذریعے یا کسی اور کے ذریعے ضرور غالب ہو کر رہے گا،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون
اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگر چہ مشرک برا مانیں۔

اللہ تعالیٰ نے مومنین سے دشمنوں کےمقابلے مدد کا وعدہ فرمایا ہے، لیکن اس مدد کی آمد ممکن ہے بندوں کی نظر میں معجل ہو یا موخر، بہر حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارض مقدس کی اصل بنیاد اسلام قرار دیا ہے، اسلام ہی ارض مقدس کا مستقبل اور زندگی ہے، ارض مقدس کی ترقی وخوشحالی اور اس سرزمین میں امن وامان دین اسلام کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور اس سرزمین کے باشندے توحید، نماز اور فرائض اسلامی کی ادائیگی میں نمایاں رہیں گے، معاصی سے بچنے والے ہوں گے، سجد ہ ریز پیشانیوں ، متحدہ قلوب اور باوضو ہاتھوں میں اللہ کی مدد آکر رہے گی،

ارشاد باری تعالی ہے:

وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم، وليبدلنهم من بعد خوفهم أمناً يعبدونني لا يشركون بي شيئاً فمن كفر بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں۔
(النور: 55)

تحریر: عيسى القدومي
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 
Last edited:
Top