ایف بی آئی کے ذکر پر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ:
- کیا کسی غیر مسلم ملک کا مسلم شہری شرعاً اپنے ملک کے سرکاری اداروں، فوج، پولس یا دیگر اداروں میں ملازمت نہیں کرسکتا؟ غیر مسلم ممالک کے اس طرح کے ادارے تو کسی نہ کسی طرح مسلم دشمنی میں پیش پیش ہوتے ہی ہیں۔
- اسی طرح کیا کسی مسلم ملک کا کوئی مسلم شہری اپنے ہی ملک یا بیرون ملک کسی کثیر القومی اداروں میں ملازمت نہیں کرسکتا، جبکہ یہ ادارے آفیشلی کوئی ”غیر شرعی بزنس“ نہ بھی کرتے ہوں تو بالواسطہ کسی نہ کسی طرح مسلم امت کے خلاف فنڈنگ یا خفیہ کام تو کر ہی رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ دنیا کے بیشتر یا تمام بڑے بڑے کثیر القومی ادارے یہودی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں یا یہودی مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔
سوال :
كيا كفار مالكوں كى كمپنى ميں ملازمت كرنا كفار سے دوستى شمار ہوتى ہے ؟
جواب :
الحمد للہ۔۔۔ أما بعد :
كفار كے ہاں كام اورملازمت كرنا اور تجارت ميں ان سے مشاركت كرنا كفار كے ساتھ دوستى ميں شمار نہيں ہوتا، البتہ مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اشخاص، اور كام و ملازمت اورتجارت كى قسم و نوع اختيار كرنے ميں بہترى اختيار كرے.
اور مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ اس كے كام، يا پھر تجارت حرام اشياء ميں ہو، اور نہ ہى اس كے ليے يہ حلال ہے كہ وہ كفار سے قلبى لگاؤ اور دوستى لگائے، اور اس كے ليے يہ بھى جائز نہيں كہ وہ مطلقا كفار كى مدح ثنائى كرتا پھرے.
بلكہ اس پر واجب ہے كہ وہ صدق وسچائى اختيار كرے، اور اپنے معاملے اور كام ميں پختگى اختيار كرے، تاكہ وہ مسلمانوں كے اخلاق كے ليے ايك اچھا اور بہترين نمونہ بن سكے.
شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور حرام موالاۃ و دوستى ميں سے يہ بھى ہے كہ:
مسلمانوں كے خلاف كفار كى مدد و تعاون، يا جس پر وہ كفار ہيں اس كا دفاع كرتے ہوئے ان كے دفاع ميں ايسى بات كہنا جو انہيں برى كرے، اورجس ميں انہيں عزت و تكريم ملے، يہ سب حرام موالاۃ و دوستى ميں سے ہے، جس كى بنا پر ايك مسلمان ارتداد تك جا پہنچتا ہے، اللہ معاف كرے.
فرمان بارى تعالى ہے:
{اور جو كوئى بھى ان سے دوستى لگائے گا وہ انہى ميں سے ہے، بلا شبہ اللہ تعالى ظالموں كى قوم كو ہدايت نہيں ديتا} المائدۃ ( 51 ).
ليكن معاملات ميں جو ہمارے ليے كفار كے ساتھ جائز ہے وہ مباح اور جائز لين دين اور معاملات ہيں، ہم ان كے ساتھ تجارتى لين دين كرينگے، اور ان سے مال اور سامان منگوائيں گے، اور منافع بخش اشياء كا آپس ميں تبادلہ كرينگے، اور ان كے تجربات سے فائدہ حاصل كرينگے، اور ان ميں سے ايسے اشخاص مزدورى كے ليے منگوائے گے جو كام كر سكيں، مثلا انجينئر، يا اس كے علاوہ دوسرے مباح تجربات والے كام.
ہمارے ليے ان كے ساتھ جو كچھ جائز ہے يہ اس كى حدود ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ بچاؤ اور احتياط بھى كرنا ضرورى ہے، يہ كہ انہيں مسلمان ممالك ميں طاقت و زور حاصل نہيں ہونا چاہيے، بلكہ وہ صرف اپنے كام تك ہى محدود رہيں، اور نہ ہى اس كافر كو مسلمانوں پر كوئى طاقت اور كنٹرول ہونا چاہيے، يا كسى ايك مسلمان شخص پر بھى، بلكہ اس پر مسلمانوں كا كنٹرول ہو.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 2 / 252 ).
مسلمانوں ميں سے كام والوں كو اپنے كام اور اپنے ملازمين كے بارہ ميں اللہ تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے، اور انہيں چاہيے كہ وہ مباح اور جائز كام كريں، اور اپنے ملازمين اور كام كرنے والوں كو بغير كمى كيے پورے اور مكمل حقوق ادا كريں، اور مسلمان ملازمين اور كام كرنے والوں كو كفار كے ہاں منتقل كرنے كا باعث اور سبب نہ بنيں.
بہت سے مسلمانوں كا يہ خيال اور رائے ہے كہ كافر كے ہاں جو تنخواہ اور امتازى حيثيت اسے حاصل ہوتى ہى وہى اسے كفار كے ہاں كام كرنے پر ابھارتى ہے؛ كيونكہ وہ يہ محسوس كرتا ہے كہ اسے وہى كچھ حاصل ہو گا جس كا وہ مستحق ہے، ايسا كرنے ميں بہت سے مفاسد اور خرابياں ہيں جن ميں يہ بھى ہے كہ ايسا كرنے ميں ان كفار كى مدح سرائى اور ان كے اخلاق اور صفات اور ان كےمعاملات كى تعريف ہے، جو ان كے ساتھ دوستى ميں لے جائےگا، اور اس كے بعد بہت سے لوگوں كے ليے ان كے دين ميں بھى فتنہ كا باعث ہو گا.
الاسلام سوال وجواب ۔
یہ ایک اور
فتوی ہے عربی میں جس میں اس حوالے سے بہترین تفصیل موجود ہے ۔ اگر کوئی ساتھی اس کا مکمل عربی ترجمہ نہ سہی خلاصہ ہی بیان کردے تو بہت مفید رہے گا ۔