وعلیکم السلامالسلام و علیکم -
نماز دین کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ اس کو ترک کرنے والا اسلام سے خارج ہو جاتا ہے- نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے عقیدہ توحید کے بعد جس فعل پر سب سے زیادہ زور دیا وہ نماز ہے :
نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ :
من ترك الصلاة متعمدًا فقد كفر جهرًا. (صحیح)
جس نے جان بوجھ کر نماز کو چھوڑا اس نے اعلانیہ کفر کا ارتکاب کیا -
عن أم أيمن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تترك الصلاة، فإن من ترك الصلاة متعمدًا فقد برئت منه ذمة الله ورسوله. (وقال الألباني في صحيح الترغيب: صحيح لغيره).
ام ایمن فرماتی ہیں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : نماز مت چھوڑو - جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ (ترک) کردیتا پس اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں (یعنی وہ قیامت کے دن شفاعت کی امید نہ رکھے)-
قرآن میں بھی ایسے بے نمازیوں کے بارے میں ہے کہ باوجود قیامت کے دن جب الله کچھ لوگوں کو کچھ گنہگاروں کی سفارش کا حق دے گا -لیکن ان بے نمازیوں کے حق میں ان کی سفارش بھی کام نہ آئے گی -
فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ -عَنِ الْمُجْرِمِينَ- مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ-قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ-وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ-وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ-وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ-حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ-فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ- سوره المدثر ٤٨-٤٠
جنّتی جنّت کے باغوں میں ہو ں گے ایک دوسرے سے پوچھیں گے-گناہگارو ں کی نسبت- کہ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا ؟؟ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے-اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے-اور ہم بہانے بناتے تھے بہانے بنانے والوں کے ساتھ -اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے-یہاں تک کہ ہمیں موت آ پہنچی- پس ان کو کسی سفارش کرنے والے کی سفارش نفع نہ دے گی-
نماز کا قائم کرنا ہر شخص پر فرض ہے - چاہے مرد ہو، عورت ہو (بشرط ہے کہ مسلمان اور بالغ ہو)- امیر ہو غریب ہو ، حاکم ہو یا محکوم ہو (یعنی عام عوام ہو) - تندرست ہو یا بیمار ہو - امن میں ہو یا حالت جنگ میں ہو- قید میں ہو یا آزاد ہو ہر حالت میں نماز فرض ہے -
(صرف دماغی طور پر مجنون انسان یا بیہوش انسان یا جس انسان کو جبر کرکے نماز کے لئے روک دیا جائے اس پر نماز فرض نہیں) -کیوں کہ الله کا قرآن میں فرمان ہے کہ:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا سوره البقرہ ٢٨٦
"الله کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا"
لیکن جب وہ ان حالتوں سے باہر آجائے تو اس پر نماز فرض ہو جائے گی -
جیسے نماز کا قائم کرنا ایک انفردی فعل ہے -اس طرح پورے معاشرے کی اصلاح کی خاطر حکومت وقت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ معاشرے میں نماز کا نظام قائم کرے جس حد تک ممکن ہو -ملاحظه ہو نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کا فرمان عالی شان :
عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں، اور جن کے لئے تم دعا کرتے ہو اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صل الله علیہ وآ لہ وسلم کیا ایسے موقع پر ہم ان کو قتل نہ کردیں؟ آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے، مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(مسلم:1855)۔
یعنی اگر حاکم فاسق و فاجر ہو لیکن معاشرے میں نماز قائم کرتا ہو تو اس کے خلاف خروج جائز نہیں - بصورت دیگر اگر حاکم وقت معاشرے میں نماز قائم کرنے والا نہ ہوتو اس کے خلاف بغاوت جائز ہوجاتی ہے-اور اس کا قتل واجب ہو جاتا ہے- کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ :
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ oلا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
کہہ دیجئے ،کیا اﷲ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ تم مذاق کرتے ہو،معذرت نہ کرو تحقیق تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے -
یہاں مذاق سے مراد یہ ہے کہ صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی استہزاء ہو سکتا ہے اور اس کے ذریے بھی قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا مذاق بنایا جا سکتا ہے- یعنی یہ کہ الله کے واضح فرمان کو پس پشت ڈال دینا - جیسا کہ سوره المدثر میں الله نے جہنمی بے نمازیوں کا قول نقل کیا ہے کہ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ - ہم بہانے بناتے تھے بہانے بنانے والوں کا ساتھ -
یا جیسے قرآن میں اللہ کا فرمان کہ :
إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى
''بے شک جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے بعد مرتد ہوگئے
-
ان آیات کے مصداق یہی حکمران طبقہ ہے جو الله کے واضح حکامات کو جاننے کے باوجود ان کو معاشرے میں نافذ کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچتا ہے- اور اس صورت میں وہ مرتدین کے زمرے میں آ جاتا ہے - اور اسلام سے خارج ہو جاتا ہے - جس کی بنا پر رسول اللہ صل الله علیہ وآ لہ وسلم نے ایسے فاسق حکمرانوں کے قتل کی اجازت دی ہے -
باقی یہ بات کہ ایک معاشرے کو اصلاحی و اسلامی بنانے کے لئے اگر ایک حکمران تعزیری سزاؤں کا نفاذ کرتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں- بلکہ یہ اس کا فرض ہے - گناہوں کی بہت سی ایسی اقسام ہیں جن کا احاطہ اگرچہ الله نے قرآن میں نہیں کیا لیکن ان پر سزا کا اطلاق حاکم وقت کی ثواب دید پر چھوڑ دیا کہ وہ جو فیصلہ کردے اس کو مانا جائے -(بشرط ہے کہ اس گناہ کی سزا کسی قران یا سنّت نبوی کی نص سے ثابت نہ ہو) - جیسا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے -
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ سوره النساء59
اے ایمان والو الله کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں-
مثال کے طور پر:
جیسے ہم جنس پرستی کی سزا -
فحاشی و بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا -
ہیجڑے پن کی سزا-
شراب بنانے اور بیچنے والوں کی سزا
بھتہ خوری کرنے والوں کی سزا -
زخیرہ اندوزی کرنے والے کی سزا -
مختلف ذریے یا چیزوں سے لوگوں کو دھوکہ دینے والوں کی سزا -
یا پھر جیسے جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والوں کی سزا -(کیوں کہ نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کے دور میں نماز نہ پڑھنے والے کو کافر ہی سمجھا جاتا تھا)- ورنہ منافقین بھی نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کے پیچھے نماز نہیں چھوڑتے تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ نماز کے معاملے میں کاہلی و سستی دکھاتے تھے اور الله کا ذکر بہت کم کرتے تھے - قرآن میں الله نے ان منافقین کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا سوره النسا ء ١٤٢
بے شک منافق الله کو فریب دیتے ہیں اور وہی ان کو فریب دے گا اور جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو سست بن کر کھڑے ہوتے ہیں لوگو ں کو دکھا تے ہیں اور الله کو بہت کم یاد کرتے ہیں-
لہٰذا جن معاملات میں قرآن و حدیث کی نص سے کچھ ثابت نہ ہو اور نہ خلفاء راشدین کی سنّت سے ثابت ہو ایسی صورت میں حاکم وقت اپنے اجتہاد سے جو بھی تعزیری حکم جاری کرے گا -وہ قابل اطاعت ہو گا - (واللہ اعلم)-
مذکورہ عربی فورم پر بات تارک جماعت کی ہو رہی ہے نا کہ تارک الصلاہ کی
میری پوسٹ دوبارہ پڑہ لیں
وضاحت : میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ حاکم وقت تعزیرا تارک الجماعہ کو سزا دے سکتا ہے لیکن مصری ممبر اس عربی فورم پر یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ اس طرح کی تعزیر (یعنی تارک جماعت کو تعزیرا سزا دینا ) کی کوئی مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بتاو