• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلا عذر جماعت چھوڑنے پر کوڑے مارنے کا حکم

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام و علیکم -

نماز دین کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ اس کو ترک کرنے والا اسلام سے خارج ہو جاتا ہے- نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے عقیدہ توحید کے بعد جس فعل پر سب سے زیادہ زور دیا وہ نماز ہے :
نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ :

من ترك الصلاة متعمدًا فقد كفر جهرًا. (صحیح)
جس نے جان بوجھ کر نماز کو چھوڑا اس نے اعلانیہ کفر کا ارتکاب کیا -

عن أم أيمن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تترك الصلاة، فإن من ترك الصلاة متعمدًا فقد برئت منه ذمة الله ورسوله. (وقال الألباني في صحيح الترغيب: صحيح لغيره).
ام ایمن فرماتی ہیں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : نماز مت چھوڑو - جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ (ترک) کردیتا پس اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں (یعنی وہ قیامت کے دن شفاعت کی امید نہ رکھے)-

قرآن میں بھی ایسے بے نمازیوں کے بارے میں ہے کہ باوجود قیامت کے دن جب الله کچھ لوگوں کو کچھ گنہگاروں کی سفارش کا حق دے گا -لیکن ان بے نمازیوں کے حق میں ان کی سفارش بھی کام نہ آئے گی -

فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ -عَنِ الْمُجْرِمِينَ- مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ-قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ-وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ-وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ-وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ-حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ-فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ- سوره المدثر ٤٨-٤٠
جنّتی جنّت کے باغوں میں ہو ں گے ایک دوسرے سے پوچھیں گے-گناہگارو ں کی نسبت- کہ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا ؟؟ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے-اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے-اور ہم بہانے بناتے تھے بہانے بنانے والوں کے ساتھ -اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے-یہاں تک کہ ہمیں موت آ پہنچی- پس ان کو کسی سفارش کرنے والے کی سفارش نفع نہ دے گی-

نماز کا قائم کرنا ہر شخص پر فرض ہے - چاہے مرد ہو، عورت ہو (بشرط ہے کہ مسلمان اور بالغ ہو)- امیر ہو غریب ہو ، حاکم ہو یا محکوم ہو (یعنی عام عوام ہو) - تندرست ہو یا بیمار ہو - امن میں ہو یا حالت جنگ میں ہو- قید میں ہو یا آزاد ہو ہر حالت میں نماز فرض ہے -

(صرف دماغی طور پر مجنون انسان یا بیہوش انسان یا جس انسان کو جبر کرکے نماز کے لئے روک دیا جائے اس پر نماز فرض نہیں) -کیوں کہ الله کا قرآن میں فرمان ہے کہ:

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا سوره البقرہ ٢٨٦
"الله کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا"

لیکن جب وہ ان حالتوں سے باہر آجائے تو اس پر نماز فرض ہو جائے گی -

جیسے نماز کا قائم کرنا ایک انفردی فعل ہے -اس طرح پورے معاشرے کی اصلاح کی خاطر حکومت وقت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ معاشرے میں نماز کا نظام قائم کرے جس حد تک ممکن ہو -ملاحظه ہو نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کا فرمان عالی شان :

عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں، اور جن کے لئے تم دعا کرتے ہو اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صل الله علیہ وآ لہ وسلم کیا ایسے موقع پر ہم ان کو قتل نہ کردیں؟ آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے، مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(مسلم:1855)۔

یعنی اگر حاکم فاسق و فاجر ہو لیکن معاشرے میں نماز قائم کرتا ہو تو اس کے خلاف خروج جائز نہیں - بصورت دیگر اگر حاکم وقت معاشرے میں نماز قائم کرنے والا نہ ہوتو اس کے خلاف بغاوت جائز ہوجاتی ہے-اور اس کا قتل واجب ہو جاتا ہے- کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ :

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ oلا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
کہہ دیجئے ،کیا اﷲ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ تم مذاق کرتے ہو،معذرت نہ کرو تحقیق تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے -

یہاں مذاق سے مراد یہ ہے کہ صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی استہزاء ہو سکتا ہے اور اس کے ذریے بھی قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا مذاق بنایا جا سکتا ہے- یعنی یہ کہ الله کے واضح فرمان کو پس پشت ڈال دینا - جیسا کہ سوره المدثر میں الله نے جہنمی بے نمازیوں کا قول نقل کیا ہے کہ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ - ہم بہانے بناتے تھے بہانے بنانے والوں کا ساتھ -

یا جیسے قرآن میں اللہ کا فرمان کہ :
إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى
''بے شک جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے بعد مرتد ہوگئے
-
ان آیات کے مصداق یہی حکمران طبقہ ہے جو الله کے واضح حکامات کو جاننے کے باوجود ان کو معاشرے میں نافذ کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچتا ہے- اور اس صورت میں وہ مرتدین کے زمرے میں آ جاتا ہے - اور اسلام سے خارج ہو جاتا ہے - جس کی بنا پر رسول اللہ صل الله علیہ وآ لہ وسلم نے ایسے فاسق حکمرانوں کے قتل کی اجازت دی ہے -

باقی یہ بات کہ ایک معاشرے کو اصلاحی و اسلامی بنانے کے لئے اگر ایک حکمران تعزیری سزاؤں کا نفاذ کرتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں- بلکہ یہ اس کا فرض ہے - گناہوں کی بہت سی ایسی اقسام ہیں جن کا احاطہ اگرچہ الله نے قرآن میں نہیں کیا لیکن ان پر سزا کا اطلاق حاکم وقت کی ثواب دید پر چھوڑ دیا کہ وہ جو فیصلہ کردے اس کو مانا جائے -(بشرط ہے کہ اس گناہ کی سزا کسی قران یا سنّت نبوی کی نص سے ثابت نہ ہو) - جیسا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے -

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ سوره النساء59
اے ایمان والو الله کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں-

مثال کے طور پر:
جیسے ہم جنس پرستی کی سزا -
فحاشی و بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا -
ہیجڑے پن کی سزا-
شراب بنانے اور بیچنے والوں کی سزا
بھتہ خوری کرنے والوں کی سزا -
زخیرہ اندوزی کرنے والے کی سزا -
مختلف ذریے یا چیزوں سے لوگوں کو دھوکہ دینے والوں کی سزا -

یا پھر جیسے جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والوں کی سزا -(کیوں کہ نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کے دور میں نماز نہ پڑھنے والے کو کافر ہی سمجھا جاتا تھا)- ورنہ منافقین بھی نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کے پیچھے نماز نہیں چھوڑتے تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ نماز کے معاملے میں کاہلی و سستی دکھاتے تھے اور الله کا ذکر بہت کم کرتے تھے - قرآن میں الله نے ان منافقین کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا سوره النسا ء ١٤٢
بے شک منافق الله کو فریب دیتے ہیں اور وہی ان کو فریب دے گا اور جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو سست بن کر کھڑے ہوتے ہیں لوگو ں کو دکھا تے ہیں اور الله کو بہت کم یاد کرتے ہیں-

لہٰذا جن معاملات میں قرآن و حدیث کی نص سے کچھ ثابت نہ ہو اور نہ خلفاء راشدین کی سنّت سے ثابت ہو ایسی صورت میں حاکم وقت اپنے اجتہاد سے جو بھی تعزیری حکم جاری کرے گا -وہ قابل اطاعت ہو گا - (واللہ اعلم)-
وعلیکم السلام
مذکورہ عربی فورم پر بات تارک جماعت کی ہو رہی ہے نا کہ تارک الصلاہ کی
میری پوسٹ دوبارہ پڑہ لیں
وضاحت : میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ حاکم وقت تعزیرا تارک الجماعہ کو سزا دے سکتا ہے لیکن مصری ممبر اس عربی فورم پر یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ اس طرح کی تعزیر (یعنی تارک جماعت کو تعزیرا سزا دینا ) کی کوئی مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بتاو
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
امید کی جانی چاہیے کوڑے مارنے سے پہلے دعوت اور نرمی کے ذریعےاس شخص کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ہو گی (اگر چہ اس کا امکان کم ہے)۔ صاحبان اختیار کو اس طرح کی سزا دیتے وقت دیکھنا چاہیے کہ وہ اس شخص کی دین سے دوری کا سبب نہ بن جائیں۔ مجھے یاد ہے کچھ سال پہلے میں تبوک میں تھا، وہاں کچھ لوگ نماز مغرب کے وقت جماعت سے لیٹ ہو گئے۔ ان کا تعلق بھی مصر سے تھا۔ وہ حکومتی اہلکاروں کی پکڑ میں آ گئے جو ان کے ساتھ بڑی درشتی اور بد تمیزی سے پیش آئے اور جاتے ہوئے نہ صرف ان کے اقامے لے گئے بلکہ وہاں کام کرنے والے ایک کرسچن کا اقامہ بھی ضبط کر لیا۔ یہ وہی لوگ تھے جنہیں میں عمومًا جماعت کی پہلی صف میں دیکھا کرتا تھا لیکن اس دن وہ ردعمل کا شکار ہو کر مسجد ہی نہیں گئے۔
امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اہل شام میں سے ایک شخص تھے جو جہاد و قتال میں بڑی بہادری دکھایا کرتے تھے۔ امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کچھ عرصہ نہیں دیکھا تو ان کے بارے دریافت کیا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو شراب کے عادی ہو چکے ہیں۔ دو جمع دو چار کرنے والا کوئی ہوتا تو اسی وقت کوڑے مارنے کا حکم جاری کر دیتا لیکن وہ امیر المومنین تھے، وہ جانتے تھے کہ ہر شخص پر سختی کارگر نہیں ہوتی۔ اسی وقت کاتب کو بلایا اور خط لکھنے کا حکم دیا:
’’ عمر بن الخطاب کی جانب سے فلاں بن فلاں کی طرف!
تم پر سلامتی ہو۔ اما بعد، میں تمہارے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، وہ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘
پھر اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’اپنے بھائی کے لیے اللہ سے دعا کرو۔ ۔ ۔‘‘
جب ان صاحب کو یہ خط ملا تو ان پر اس کا شدید اثر ہوا۔ شراب نوشی سے توبہ کر لی۔ عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو فرمایا’’ جب تم اپنے کسی بھائی کو غلطی میں مبتلا ہوتے دیکھو تو اسے (اچھے طریقے سے) روکو اور اللہ سے دعا کرو کہ اسے توبہ کی توفیق دے اور اس کی توبہ قبول فرمائے، خبردار، اس کے مقابلے میں شیطان کے مددگار نہ بننا‘‘۔
جہاں نرمی سے کام چلتا ہو وہاں سختی کرنے سے الٹا نقصان ہوتا ہے۔
والسلام علیکم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام
مذکورہ عربی فورم پر بات تارک جماعت کی ہو رہی ہے نا کہ تارک الصلاہ کی
میری پوسٹ دوبارہ پڑہ لیں
وضاحت : میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ حاکم وقت تعزیرا تارک الجماعہ کو سزا دے سکتا ہے لیکن مصری ممبر اس عربی فورم پر یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ اس طرح کی تعزیر (یعنی تارک جماعت کو تعزیرا سزا دینا ) کی کوئی مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بتاو

السلام و علیکم محترم -

جب ہم تارک جماعت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد تارک الصلاة ہی ہوتا ہے -اگر ہم قرآن اور احادیث نبوی پر غور کریں تو نماز کی قبولیت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ہی مشروط ہے -صرف چند ایک استثنائی صورتیں ہیں جن میں جماعت کے بغیر انفردی نماز کی اجازت دی گئی ہے -
ویسے بھی حاکم وقت کی طرف سے تارک جماعت پر سزا کا اطلاق اس وقت ممکن ہے جب اس کو یقین ہو کہ جس کو سزا دی جا رہی ہے وہ واقعی میں تارک جماعت ہے - اور ظاہر ہے اس چیز کا پتا جب ہی چلے گا جب مسجد میں لوگوں کی آمد و رفت پر نظر رکھی جائے گی - گھر میں انفردی نماز پڑھنے والے کے بارے میں یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ گھر میں پوری پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتا ہے - اس لئے نماز با جماعت ہی انسان کی اصل نماز تصور کی جاتی ہے-

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے تارک جماعت کو کیا سزا دی تو ان کا دور خیرالقرون کا دور تھا اور اس دور میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے نماز قائم کرنے کا ایک ایسا نظام مرتب کیا تھا کہ شاز و نادر ہی کوئی جماعت کی نماز چھوڑتا تھا - حتیٰ کہ منافقین کو بھی جماعت کی نماز قضا کرنے کی جرّت نہیں ہوتی تھی -اور یہ بھی ایک امر ہے کہ وہ پاک ہستیاں لوگوں کی ٹوہ میں بھی نہیں رہتی تھیں - کہ کون غلطی کرے اور کس پر سزا نافذ کی جائے- البتہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو تنبیہ کردیتے تھے -

حضرت عمر رضی الله عنہ اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کی نماز کے بارے میں نگرانی رکھتے تھے اور کوتاہی کی صورت میں صرف تنبیہ کردیتے تھے-ایک مرتبہ ایک تابعی سے رمضان کے مہینے میں فجر کی نماز چھوٹ گئی - جب وہ ظہر کی نماز کے لئے آے تو نماز کا بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم فجر کی نماز میں کہاں غائب تھے ؟؟ تو ان صاحب نے کہا کہ امیر المومنین یہ چوں کہ رمضان کا مہینہ ہے تو ساری رات عبادت میں گزاری اور فجر سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا اورآ نکھ لگ گئی اس لیے با جماعت نماز چھوٹ گئی - اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ "تمھارے لئے یہ بہتر تھا کہ تم ساری رات سوتے رہتے اور فجر کی نماز ہمارے ساتھ پڑھتے (یعنی جماعت کا ثواب ساری رات کی عبادت سے افضل ہے جو تم نے گنوا دیا ) (مستدرک حاکم- )

غرض یہ حاکم وقت کی ثواب دید پر ہے کہ وہ تارک جماعت پر کیا تعزیری حکم لگاتا ہے - یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک آدھ نماز چھوڑنے والا تارک الصلاة نہیں ہو گا - بلکہ تارک الصلاة تو وہ انسان ہے جو کبھی کبھار ہی نماز پڑھتا ہے جیسے ہمارے ملک میں لوگ صرف جمعہ کی نماز پر ہی اکتفہ کرلیتے ہیں اور پھر بڑے زور شور سے اپنے آپ کو مسلمان گردانتے ہیں -میرے خیال میں ایسے لوگوں کو کوڑے مارنا حاکم وقت کے لئے باعث ثواب ہونا چاہیے - (واللہ اعلم )
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام و علیکم محترم -
جب ہم تارک جماعت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد تارک الصلاة ہی ہوتا ہے -اگر ہم قرآن اور احادیث نبوی پر غور کریں تو نماز کی قبولیت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ہی مشروط ہے -صرف چند ایک استثنائی صورتیں ہیں جن میں جماعت کے بغیر انفردی نماز کی اجازت دی گئی ہے -
ویسے بھی حاکم وقت کی طرف سے تارک جماعت پر سزا کا اطلاق اس وقت ممکن ہے جب اس کو یقین ہو کہ جس کو سزا دی جا رہی ہے وہ واقعی میں تارک جماعت ہے - اور ظاہر ہے اس چیز کا پتا جب ہی چلے گا جب مسجد میں لوگوں کی آمد و رفت پر نظر رکھی جائے گی - گھر میں انفردی نماز پڑھنے والے کے بارے میں یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ گھر میں پوری پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتا ہے - اس لئے نماز با جماعت ہی انسان کی اصل نماز تصور کی جاتی ہے-

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے تارک جماعت کو کیا سزا دی تو ان کا دور خیرالقرون کا دور تھا اور اس دور میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے نماز قائم کرنے کا ایک ایسا نظام مرتب کیا تھا کہ شاز و نادر ہی کوئی جماعت کی نماز چھوڑتا تھا - حتیٰ کہ منافقین کو بھی جماعت کی نماز قضا کرنے کی جرّت نہیں ہوتی تھی -اور یہ بھی ایک امر ہے کہ وہ پاک ہستیاں لوگوں کی ٹوہ میں بھی نہیں رہتی تھیں - کہ کون غلطی کرے اور کس پر سزا نافذ کی جائے- البتہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو تنبیہ کردیتے تھے -

حضرت عمر رضی الله عنہ اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کی نماز کے بارے میں نگرانی رکھتے تھے اور کوتاہی کی صورت میں صرف تنبیہ کردیتے تھے-ایک مرتبہ ایک تابعی سے رمضان کے مہینے میں فجر کی نماز چھوٹ گئی - جب وہ ظہر کی نماز کے لئے آے تو نماز کا بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم فجر کی نماز میں کہاں غائب تھے ؟؟ تو ان صاحب نے کہا کہ امیر المومنین یہ چوں کہ رمضان کا مہینہ ہے تو ساری رات عبادت میں گزاری اور فجر سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا اورآ نکھ لگ گئی اس لیے با جماعت نماز چھوٹ گئی - اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ "تمھارے لئے یہ بہتر تھا کہ تم ساری رات سوتے رہتے اور فجر کی نماز ہمارے ساتھ پڑھتے (یعنی جماعت کا ثواب ساری رات کی عبادت سے افضل ہے جو تم نے گنوا دیا ) (مستدرک حاکم- )

غرض یہ حاکم وقت کی ثواب دید پر ہے کہ وہ تارک جماعت پر کیا تعزیری حکم لگاتا ہے - یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک آدھ نماز چھوڑنے والا تارک الصلاة نہیں ہو گا - بلکہ تارک الصلاة تو وہ انسان ہے جو کبھی کبھار ہی نماز پڑھتا ہے جیسے ہمارے ملک میں لوگ صرف جمعہ کی نماز پر ہی اکتفہ کرلیتے ہیں اور پھر بڑے زور شور سے اپنے آپ کو مسلمان گردانتے ہیں -میرے خیال میں ایسے لوگوں کو کوڑے مارنا حاکم وقت کے لئے باعث ثواب ہونا چاہیے - (واللہ اعلم )
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محمد علی جواد بھائی! کیا حال ہیں؟
برادر محترم! آپ کا نقطہ نظر کہ نماز باجماعت کے علاوہ اکیلے پڑھی گئی نماز کی کوئی وقعت نہیں، اور وہ ناقابلِ قبول ہے، یہ نقطہ نظر میری تحقیق کے مطابق درست نہیں، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اکیلے پڑھی گئی نماز کا بھی کچھ نہ کچھ ثواب ہو گا تو پھر بتائیے کہ کیا اگر نماز نہ ہو تو کچھ نہ کچھ ثواب کیسے ہو گا؟
آپ کی اس بارے میں کیا علمی رائے کا منتظر ہوں۔ اور آپ کا دوسرا نقطہ نظر کہ بے نمازی کفر اکبر کا مرتکب ہے، اس پر بات ہو چکی ہے۔ اور الحمدللہ میں نے مضبوط دلائل دئیے تھے جس سے آپ نے بھی اتفاق کیا تھا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محمد علی جواد بھائی! کیا حال ہیں؟
برادر محترم! آپ کا نقطہ نظر کہ نماز باجماعت کے علاوہ اکیلے پڑھی گئی نماز کی کوئی وقعت نہیں، اور وہ ناقابلِ قبول ہے، یہ نقطہ نظر میری تحقیق کے مطابق درست نہیں، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اکیلے پڑھی گئی نماز کا بھی کچھ نہ کچھ ثواب ہو گا تو پھر بتائیے کہ کیا اگر نماز نہ ہو تو کچھ نہ کچھ ثواب کیسے ہو گا؟
آپ کی اس بارے میں کیا علمی رائے کا منتظر ہوں۔ اور آپ کا دوسرا نقطہ نظر کہ بے نمازی کفر اکبر کا مرتکب ہے، اس پر بات ہو چکی ہے۔ اور الحمدللہ میں نے مضبوط دلائل دئیے تھے جس سے آپ نے بھی اتفاق کیا تھا۔
وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ارسلان بھائی -

جی میں ٹھیک ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ بھی بخیریت ہونگے -

آپ نے جو مسلہ اٹھایا ہے اس میں علماء کرام میں اختلاف ہے - کچھ کے نزدیک انفردی نماز بھی الله کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے لیکن ثواب کی کمی کے ساتھ - اور کچھ کے نزدیک نماز ادا تو ہو جاتی ہے لیکن ثواب کے بغیر ادا ہوتی ہے - جیسے قرآن میں اکثر مقامات پر ہے کہ قیامت کے دن لوگ نیک اعمال لے کر الله کے حضور حاضر ہونگے لیکن ان کے وہ نیک اعمال الله کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہونگے - جن علماء کے نزدیک انفرادی نماز مقبول نہ ہونے کا فتویٰ ہے وہ کہتے ہیں کہ ٢٧ درجے والی حدیث کا حکم اس وقت کا تھا جب نماز نئی نئی مسلمانوں پر فرض ہوئی تھی - اور نبی کریم کا فرمان کہ "جماعت کی نماز انفردی نماز سے ٢٧ درجہ افضل ہے" یہ جماعت کی نماز کی ترغیب کے لئے تھا - کیوں کہ بعد میں جماعت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی جتنی بھی احادیث وعید کے طور پر بیان ہوئی ہیں وہ متواترکے درجے پر ہیں- یہاں تک کے اللہ کے نبی نے ایک نابینا شخص کو بھی اذان کی آواز سننے پر جماعت کی نماز پڑھنے کی تاکید کی- جب کہ نابیناپن ایسا عذر ہے کہ اگر انسان اپنے گھر پر بھی نماز پڑھ لے تو کوئی مضائقہ نہیں- اس طرح مرد حضرات کے لئے بغیر کسی عذر کے عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں نا آنے پر رسول الله صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی طرف سے ان کے گھروں کو جلانے کی وعید بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ جماعت نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے - البتہ جو عذر احادیث میں انفردی نماز کے جائز ہونے کے لئے بیان ہوے ہیں ان کو مد نظر رکھ کر مرد حضرات گھروں میں اکیلے نماز پڑھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں (واللہ اعلم)-

اگر میں اپنے تجزیے میں غلط ہوں تو کوئی بھی ممبر میری تصیح کردے تو نوازش ہو گی -
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ارسلان بھائی -

جی میں ٹھیک ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ بھی بخیریت ہونگے -

آپ نے جو مسلہ اٹھایا ہے اس میں علماء کرام میں اختلاف ہے - کچھ کے نزدیک انفردی نماز بھی الله کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے لیکن ثواب کی کمی کے ساتھ - اور کچھ کے نزدیک نماز ادا تو ہو جاتی ہے لیکن ثواب کے بغیر ادا ہوتی ہے - جیسے قرآن میں اکثر مقامات پر ہے کہ قیامت کے دن لوگ نیک اعمال لے کر الله کے حضور حاضر ہونگے لیکن ان کے وہ نیک اعمال الله کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہونگے - جن علماء کے نزدیک انفرادی نماز مقبول نہ ہونے کا فتویٰ ہے وہ کہتے ہیں کہ ٢٧ درجے والی حدیث کا حکم اس وقت کا تھا جب نماز نئی نئی مسلمانوں پر فرض ہوئی تھی - اور نبی کریم کا فرمان کہ "جماعت کی نماز انفردی نماز سے ٢٧ درجہ افضل ہے" یہ جماعت کی نماز کی ترغیب کے لئے تھا - کیوں کہ بعد میں جماعت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی جتنی بھی احادیث وعید کے طور پر بیان ہوئی ہیں وہ متواترکے درجے پر ہیں- یہاں تک کے اللہ کے نبی نے ایک نابینا شخص کو بھی اذان کی آواز سننے پر جماعت کی نماز پڑھنے کی تاکید کی- جب کہ نابیناپن ایسا عذر ہے کہ اگر انسان اپنے گھر پر بھی نماز پڑھ لے تو کوئی مضائقہ نہیں- اس طرح مرد حضرات کے لئے بغیر کسی عذر کے عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں نا آنے پر رسول الله صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی طرف سے ان کے گھروں کو جلانے کی وعید بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ جماعت نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے - البتہ جو عذر احادیث میں انفردی نماز کے جائز ہونے کے لئے بیان ہوے ہیں ان کو مد نظر رکھ کر مرد حضرات گھروں میں اکیلے نماز پڑھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں (واللہ اعلم)-

اگر میں اپنے تجزیے میں غلط ہوں تو کوئی بھی ممبر میری تصیح کردے تو نوازش ہو گی -
الحمدللہ
جزاک اللہ خیرا۔۔۔ آپ کی بات میں وزن ہے بھائی۔۔۔۔ یہ باتیں مجھے آپ کے تفصیل سے بیان کرنے پر آج معلوم ہوئی ہیں۔
اچھا مجھے یہاں مزید معلومات بتائیں کہ:
نابینا صحابی والی حدیث کے متعلق میرے ذہن میں چند باتیں ہیں، ان میں سے یہ کہ اس دور میں اسپیکرز نہیں ہوتے تھے، اور ایسے اذان دی جاتی تھی، تو نابینا صحابی کو اذان کی آواز پہنچ جاتی تھی، تو اس کا مطلب ہے کہ نابینا صحابی کا گھر مسجد سے قریب ہو گا، اور اس دور میں ہماری طرح بڑی بڑی گلیاں اور بلڈنگز بھی نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ راستہ بھی صا ف اور سیدھا ہو، شاید اسی لئے صحابی کے لئے مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہو۔

لیکن ہمارے ہاں اسپیکرز ہیں، میں جہاں رہتا ہوں وہاں سے اہلحدیث مسجد تقریبا آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر ہو گی، اگر اسپیکرز میں اذان نہ دی جائے تو ہمیں بالکل پتہ نہ چلے، اور اسپیکرز میں بھی اذان اس وقت صاف سنائی دیتی ہے جب خاموشی ہو، ورنہ تو اکثر پتہ نہیں چلتا بلکہ تھوڑا تھوڑا سا پتہ چلتا ہے ،اور وہ بھی نماز کا وقت یاد ہونے کی وجہ سے؟

محمد علی جواد بھائی! اس بارے میں بتائیں کہ اگر اس طرح استدلال کیا جائے تو کیا درست ہو گا؟ یہ میں معلومات حاصل کرنے کے لئے پوچھ رہا ہوں، ناکہ ابھی میرا یہ پختہ موقف ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
الحمدللہ
جزاک اللہ خیرا۔۔۔ آپ کی بات میں وزن ہے بھائی۔۔۔۔ یہ باتیں مجھے آپ کے تفصیل سے بیان کرنے پر آج معلوم ہوئی ہیں۔
اچھا مجھے یہاں مزید معلومات بتائیں کہ:
نابینا صحابی والی حدیث کے متعلق میرے ذہن میں چند باتیں ہیں، ان میں سے یہ کہ اس دور میں اسپیکرز نہیں ہوتے تھے، اور ایسے اذان دی جاتی تھی، تو نابینا صحابی کو اذان کی آواز پہنچ جاتی تھی، تو اس کا مطلب ہے کہ نابینا صحابی کا گھر مسجد سے قریب ہو گا، اور اس دور میں ہماری طرح بڑی بڑی گلیاں اور بلڈنگز بھی نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ راستہ بھی صا ف اور سیدھا ہو، شاید اسی لئے صحابی کے لئے مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہو۔

لیکن ہمارے ہاں اسپیکرز ہیں، میں جہاں رہتا ہوں وہاں سے اہلحدیث مسجد تقریبا آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر ہو گی، اگر اسپیکرز میں اذان نہ دی جائے تو ہمیں بالکل پتہ نہ چلے، اور اسپیکرز میں بھی اذان اس وقت صاف سنائی دیتی ہے جب خاموشی ہو، ورنہ تو اکثر پتہ نہیں چلتا بلکہ تھوڑا تھوڑا سا پتہ چلتا ہے ،اور وہ بھی نماز کا وقت یاد ہونے کی وجہ سے؟

محمد علی جواد بھائی! اس بارے میں بتائیں کہ اگر اس طرح استدلال کیا جائے تو کیا درست ہو گا؟ یہ میں معلومات حاصل کرنے کے لئے پوچھ رہا ہوں، ناکہ ابھی میرا یہ پختہ موقف ہے۔
جزاک الله -

بہت شکریہ -آپ کی عزت افزائی کا - ویسے یہ میرا اپنا تجزیہ ہے جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ کچھ علماء انفرادی نماز کی قبولیت کے قائل بھی ہیں - لیکن میرا موقف ہے کہ انفرادی نماز پڑھنے والے کی نماز الله کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی - اس کی وجہ یہ ہے کہ -اگر انفرادی نماز الله کی بارگاہ میں قبول ہوتی تو مرد حضرات کے لئے اس کے پڑھنے پر الله کے رسول کی وعید نہ ہوتی -کیوں کہ جس عمل پر ثواب مرتب ہو- چاہے ثواب کم ہی کیوں نہ ہو اس پر وعید کا جواز کیسا ؟؟ (واللہ ا اعلم)-

باقی آپ نے اسپیکرز کے متعلق پوچھا ہے تو یہ آج کل کی ایک سہولت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے - اگر اسپپکر پر اذان نہ بھی سنائی دے (مسجد دور ہونے کی صورت میں یا لوڈشیڈنگ کی صورت میں) تو بھی گھڑیاں موجود ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری تقریبا تمام مسجدوں میں ٹائم کی پابندی کے ساتھ نماز پڑھائی جاتی ہے - تو جماعت میں کوتاہی صحیح نہیں - ہاں اگر نہ اذان سنای دے اور نہ آپ کے پاس گھڑی ہو اس صورت میں اگر کوشش کے باوجود جماعت نکل جاتی ہے تو الله مہربانی کرنے والا ہے-

یہ بات ذہن میں رہے کہ نماز رہ جانے اور نماز چھوڑ دینے میں فرق ہے - نماز باجماعت رہ جانے پر الله کی طرف سے قوی امید ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں سے در گزر کرے گا اور معاف کردے گا - لیکن نماز باجماعت چھوڑ دینے پر عذاب کا اندیشہ ہے (واللہ ا اعلم)-

خوش رہیں-
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک الله -

بہت شکریہ -آپ کی عزت افزائی کا - ویسے یہ میرا اپنا تجزیہ ہے جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ کچھ علماء انفرادی نماز کی قبولیت کے قائل بھی ہیں - لیکن میرا موقف ہے کہ انفرادی نماز پڑھنے والے کی نماز الله کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی - اس کی وجہ یہ ہے کہ -اگر انفرادی نماز الله کی بارگاہ میں قبول ہوتی تو مرد حضرات کے لئے اس کے پڑھنے پر الله کے رسول کی وعید نہ ہوتی -کیوں کہ جس عمل پر ثواب مرتب ہو- چاہے ثواب کم ہی کیوں نہ ہو اس پر وعید کا جواز کیسا ؟؟ (واللہ ا اعلم)-

باقی آپ نے اسپیکرز کے متعلق پوچھا ہے تو یہ آج کل کی ایک سہولت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے - اگر اسپپکر پر اذان نہ بھی سنائی دے (مسجد دور ہونے کی صورت میں یا لوڈشیڈنگ کی صورت میں) تو بھی گھڑیاں موجود ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری تقریبا تمام مسجدوں میں ٹائم کی پابندی کے ساتھ نماز پڑھائی جاتی ہے - تو جماعت میں کوتاہی صحیح نہیں - ہاں اگر نہ اذان سنای دے اور نہ آپ کے پاس گھڑی ہو اس صورت میں اگر کوشش کے باوجود جماعت نکل جاتی ہے تو الله مہربانی کرنے والا ہے-

یہ بات ذہن میں رہے کہ نماز رہ جانے اور نماز چھوڑ دینے میں فرق ہے - نماز باجماعت رہ جانے پر الله کی طرف سے قوی امید ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں سے در گزر کرے گا اور معاف کردے گا - لیکن نماز باجماعت چھوڑ دینے پر عذاب کا اندیشہ ہے (واللہ ا اعلم)-

خوش رہیں-
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈيوٹى كى بنا پر نماز باجماعت ترك كرنا

ميرے والد صاحب بعض اوقات كام كى زيادتى كى بنا پر تراويح اور نماز فجر كے ليے نہيں جاتے، كيا ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

يہ علم ميں رہے كہ ميرے والد صاحب كى عادت ہے كہ رمضان ميں وہ تراويح كى نماز نہيں چھوڑتے الا يہ كہ مريض ہوں، اور الحمد للہ وہ دين پر عمل پيرا ہيں، ليكن اب بعض اوقات كام كى زيادتى كى بنا پر نماز كے ليے نہيں جاتے ؟

الحمد للہ:

نماز پنجگانہ سب اوقات ميں باجماعت ادا كرنى واجب ہے،

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿اور جب آپ ان ميں ہوں تو انہيں نماز پڑھائيں، ان ميں سے چاہيے كہ ايك گروہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے، اور وہ اپنے ساتھ اسلحہ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر چكيں تو يہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں ﴾النساء ( 102 ).
اس آيت ميں جب اللہ تعالى نے حالت جنگ ميں نماز باجماعت واجب كى ہے تو پھر امن و سلامتى كى حالت ميں كيسے نہيں ؟

امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں نے ارادہ كيا كہ لكڑياں اكٹھى كرنے كا حكم دوں پھر نماز كے ليے اقامت كا حكم دوں اور نماز كى اقامت كہى جائے اور ايك شخص كو نماز كى امامت كے ليے كہوں، اور ميں ان لوگوں كے پيچھے جاؤں جو نماز ميں حاضر نہيں ہوتے اور انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كردوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 608 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1040 ).
اور صحيح مسلم ميں ہے كہ:

ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا كہنا لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے والا كوئى نہيں، اور اس نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت مانگى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رخصت دے دى، جب وہ جانے لگا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور پوچھا:

كيا تم نماز كى اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ميں كہا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر آيا كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1044 ).
اس ليے مسلمان شخص كو ہميشہ نماز بنچگانہ باجماعت ادا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور دنياوى شغل و معاملات اسے نماز باجماعت ادا كرنے سے مشغول كرتے ہوئے پيچھے نہ ركھيں.

فرمان بارى تعالى ہے:

﴿اے ايمان والو تمہيں تمہارے مال اور اولاد اللہ تعالى كے ذكر سے غافل نہ كرديں، اور جو كوئى بھى ايسا كرے گا وہى خسارہ پانے والوں ميں سے ہے﴾ المنافقون ( 9 ).
اس ليے آپ اپنے والد كو نصيحت كريں، اور ان صحيح دلائل كو حكمت كے سامنے ان كے سامنے ركھيں اور وعظ كريں.

نماز پنجگانہ باجماعت ادا كرنے ميں حكم يہى ہے، ليكن تراويح كا معاملہ آسان ہے، كيونكہ مسلمان شخص كے ليے نماز تراويح گھر ميں ادا كرنا جائز ہيں، اگرچہ مسجد ميں باجماعت تراويح ادا كرنا افضل ہيں.

مسلمان اپنے آپ كو دنياوى كاموں ميں اتنا نہ كھپا دے كہ وہ اس كى عبادت اور نماز پر ہى غالب آجائيں اور اسے اس سے غافل كرديں، اللہ سبحانہ وتعالى نے مومنوں كا وصف بيان كيا ہے كہ تجارت اور خريدوفروخت انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز كى ادائيگى سے غافل نہيں كرتى.

فرمان بارى تعالى ہے:

﴿ان گھروں ميں جنہيں بلند كرنے اور جن ميں اپنے نام كى ياد كا اللہ تعالى نے حكم ديا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالى كى تسبيح بيان كرتے ہيں، ايسے لوگ جنہيں تجارت اور خريدوفروخت اللہ تعالى كے ذكر سے اور نماز كے قائم كرنے سے اور زكاۃ ادا كرنے سے غافل نہيں كرتى، وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور بہت سى آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائيں گى، اس ارادے سے كہ اللہ تعالى انہيں ان كے اعمال كا بہترين بدلہ دے، بلكہ اپنے فضل سے كچھ زيادتى عطا فرمائے، اللہ تعالى جسے چاہے بے شمار روزياں ديتا ہے ﴾النور ( 36 - 38 ).
ان آيات كے اختتام ميں اللہ تعالى نے فرمايا:

﴿اور اللہ تعالى جسے چاہے بے شمار روزياں ديتا ہے﴾.

جو كہ ايك ايسے امر كى طرف اشارہ ہے جسے اپنے رب كى اطاعت و فرمانبردارى سے غافل ہو كر اپنا وہ وقت بھى تجارت اور كام كاج ميں صرف كرنے والے ليے سمجھنا بے حد ضرورى ہے كہ رزق اللہ تعالى كے ہاتھ ميں ہے، وہ جسے چاہے بغير حساب رزق عطا فرماتا ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اسے بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" اے لوگو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور اس سےڈر جاؤ اور كمانے ميں اچھائى اور بہترى پيدا كرو، كيونكہ كوئى بھى جان اس وقت تك مرے گى نہيں جب تك كہ وہ اپنا رزق پورا نہيں كرليتى، اور اگر وہ رزق اس سے كچھ ليٹ ہو رہا ہے، تو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور حاصل كرنے ميں اچھائى اور بہترى پيدا كرو، جو حلال ہے اسے لے لو، اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو"

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2144 ) نے اسے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1698 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
لہذا حصول رزق كے ليے اسباب صرف كرنے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ كام كاج ميں مبالغہ نہ كرے كہ اس كى عبادت كا وقت بھى اسى كام كاج ميں صرف ہو جائے، اور اس كى صحت اور بچوں كى تربيت كا وقت بھى كام كاج ميں صرف ہوتا رہے، اسے صحيح اور قرب اختيار كرنا چاہيے.

ہميں اميد ہے كہ ہم نے جو كچھ كہا ہے اس پر وقف كرينگے اور حقيقتا اس پر غور و فكر كرينگے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ انہيں اچھے اور بہترين اقوال و اعمال اور اخلاق اپنانے كى توفيق نوازے، اور انہيں بہترين پاكيزہ اور بابركت رزق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
Top