• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلا عربی متن والے تراجم ِ قرآن کی افادیت

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بلا عربی متن والے تراجم ِ قرآن کی افادیت

لوحِ محفوظ میں موجود قرآن مجید کو پہلے لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا پھر یہی قرآن مجید حرف بہ حرف رحمۃ اللعالمین ﷺ پر بتدریج نازل کیا گیاہے۔ اِس آخری الہامی کتاب کے بعد چونکہ قیامت تک نہ توکوئی نبی یا رسول آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی آسمانی صحیفہ نازل ہونے والا ہے۔ اس لےے اس قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے کہ : (ترجمہ)اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاو¿، اپنے سارے ہم نواو¿ں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھاو¿۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، اور یقینا" کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لےے ۔(سو رة البقرہ: ۳۲۔۴۲)
اسی طرح جب نزولِ قرآن کے ابتدائی ایّام میں حضرت محمد ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی پہنچائی ہوئی وحی کو یاد رکھنے کیے لےے اسے جلدی جلدی دُہرایا کرتے تھے تو اللہ عز و جل کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ (ترجمہ): اے نبی ﷺ! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لےے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ (القیامة: ۷۱۔۶۱) آج نہ صرف ہر مسلمان کا یہ جزو ایمان ہے کہ اس وقت جو عربی قرآن مجید دنیا میں موجود ہے، وہ حرف بہ حرف وہی ہے جو تقریبا" چودہ سو سال پہلے حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا تھا بلکہ دنیا بھر کے غیر مسلم محققین بھی تاریخی شہادتوں سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود حرف بہ حرف اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔ قرآن کا یہ معجزہ تاقیا مت باقی رہنے والا ہے۔ کسی انسان کی یہ مجال نہیں کہ اصل قرآن میں تحریف یا ملا وٹ کر سکے۔
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا، اُس نے یقینا" مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کبھی میری شکل میں نہیں آسکتا (صحیح بخاری حدیث۔١١٠) ۔ محدثین اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شیطان کسی کے خواب میں آکر یہ بہکا بھی نہیں کہہ سکتا کہ نعو ذُ با للہ وہی رسولِ عربی ہے اوراُس کی فلاں فلاں ہدایت پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا اس بات پر اجمائے اُمت ہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان ایسا کوئی خواب دیکھے تو اُس خواب پر عمل کرنے سے پہلے تعلیماتِ قرآن و حدیث سے اس کی تصدیق ضرور کر لے۔
عین یہی بات قرآن پر بھی صادق آتی ہے۔یہ تو صحیح ہے کہ قرآن مجید تا قیامت اِس دنیا میں اپنی اصل حالت میں بلا تحریف موجود رہے گا، خواہ حفاظ کے سینوں میں محفوظ رہے یاکاغذ کے نسخوں پر۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی انسانی خطا یا شیطانی چال کے باعث ، اغلاط سے پُر کوئی نسخہ قرآن دنیا میںکہیں سامنے نہ آسکے۔ اور جہاں تک غیر عربی زبان میں قرآن کے تراجم کا تعلق ہے، اول تو کوئی ترجمہ، خواہ کتنا ہی مصدقہ اور لفظ بہ لفظ ہی کیوں نہ ہو، قرآن کریم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ تلاوت ِ کلام پاک ہو یا نماز میں اس کی قرا¿ت، عربی قرآن کے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں۔ البتہ عربی زبان سے نا واقف لوگوں کے لےے ترجمہ قرآن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کی روشنی، عالمِ عرب کی حدود سے باہر پھیلی تو پیغامِ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لےے دنیا کی ہر اہم زبان میں قرآن مجید کے تراجم کےے گئے۔ بلکہ ایک ایک زبان میں کئی کئی تراجم بھی کےے گئے۔
ابتدا میںعربی آیات کی سطور کے نیچے متعلقہ زبان میں لفظی ترجمہ لکھا جاتا رہا۔ جب یہ لفظی ترجمہ قرآن کے درست مفہوم کوادا کرنے سے قاصر رہا تو بعد ازاں بامحاورہ ترجمہ کی روایت ڈالی گئی۔ تراجم میں اجتہاد کا یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ کبھی عربی متن کا ترجمہ حاشیہ میں لکھا گیا تو کبھی صفحہ کو عرضا" دو حصوں میں تقسیم کرکے عربی آیات کے بالمقابل تراجم لکھے گئے ۔ کبھی صفحہ کو طولا" دو حصہ میں تقسیم کر کے اوپر عربی اور نیچے ترجمہ کتابت کیا گیا۔ بلکہ کئی معتبر مترجمین و مفسرین نے تو ایک صفحہ پرعربی متن اور اس کے بالمقابل صفحہ پر ترجمہ لکھنے کا رواج بھی ڈالا۔تراجمِ قرآن کی تازہ ترین شکل، عربی متن کے بغیر ترجمہ کا مختلف زبانوں میں چھاپا جانا ہے۔ یہا ںیہ واضح رہے کہ جب کبھی بھی اور جس ہئیت میں بھی ترجمہ کو شائع کیا گیا، اسے کبھی بھی نہ تو اصل عربی متن کا متبادل سمجھا گیا اور نہ ہی ترجمہ کی خواندگی کو تلاوتِ قرآن سمجھا گیا۔تراجم کی کثرت کے باجود عجمی مسلمانوں نے بھی تلاوتِ قرآن کے لےے ہمیشہ عربی متن ہی کو استعمال کیا، خواہ وہ اس کے معنی و مطالب سے قطعا" ناواقف ہی کیوں نہ ہوں۔ ترجمہ کی خواندگی کو ہمیشہ صرف اور صرف قرآن فہمی کے لےے ہی استعمال کیا جاتارہا ہے۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
(۱) عربی متن والا قرآن ہی اصل قرآن مجید ہے۔ کسی بھی زبان میں اور کوئی بھی ترجمہ، خواہ وہ کتنا ہی مصدقہ کیوں نہ ہو، اصل عربی قرآن کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ گویا تلاوتِ کلام پاک ہو یا نمازوں میں قرا¿ت کا معاملہ، ہمیشہ صرف اور صرف عربی قرآن ہی پڑھا جائے گا۔
(۲) اصل عربی قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہو ہے۔حتیٰ کہ رسولِ عربی ﷺ کو بھی اس کی حفاظت سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اصل عربی قرآن میں تحریف کرسکے۔ نہ گذشتہ ١٤ صدیوں میں ایسا ہوسکا ہے اور نہ تا قیامت کبھی ایسا ہوسکتا ہے۔
(۳) تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کسی اور عربی یا عجمی کتاب کو قرآن کے طور پر پیش کرکے مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوسکتاہے۔
قرآن کو سمجھنے سمجھانے کے لےے دیگر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ کوشش جاری رہے گی۔انسانی کاوش ہونے کے سبب ایک ہی زبان کے مختلف تراجم کہیں کہیں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور باہم متضاد بھی۔ لیکن قرآنی الفاظ و آیات کے ایسے ترجموں کو جو باہم مختلف یا متضاد ہونے کے باوجود قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے یکسر خلاف نہ ہوں، بالکلیہ مسترد نہیں کیاجاسکتا ۔ ہاںاگر کوئی ترجمہ یا مفہوم قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے برعکس ہو تو اسے بلا شبہ مسترد کردیا جائے گا۔جیسے خاتمۃ النبیّین کا وہ مفہوم و مطلب جو قادیانی حضرات بیان کرتے ہیں، پوری اُمت مسلمہ کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ دلچسپ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قادیانی حضرات بھی اپنے ترجمہ میں وہی عربی قرآن شائع کرتے ہیں، جو متفقہ طور پردرست ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراجمِ قرآن کی کتابوں میں ساتھ ساتھ عربی عبارت کے لکھنے یا نہ لکھنے سے ترجمہ کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔قرآن وحدیث میںجہاں غیر عربی زبانوں میں ترجمہ کو منع نہیں کیا گیا وہیں ایسی کوئی شرط بھی نظر نہیں آتی کہ ترجمہ قرآن کے ساتھ لازما" عربی عبارت بھی درج کی جائے۔
ترجمہ کے ساتھ لازما" عربی عبارت لکھے جانے کی احتیاط علمائے کرام نے وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی تھی، جو اپنی جگہ بالکل درست تھی ۔کیونکہ آج سے محض سو سال قبل تک ہر چھپی ہوئی عبارت نہ صرف یہ کہ مصدقہ تصور کی جاتی تھی بلکہ عام قارئین کے لئے یہ ممکن بھی نہ تھا کہ وہ چھپی ہوئی عبارت کے مصدقہ ہونے کو چیک کر سکے۔ لیکن آج صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک علمی انقلاب آچکا ہے۔دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے اس قدر فروغ پا لیا ہے کہ دنیا کا ہر علم محض جنبشِ انگلی سے کمپیوٹر اسکرین کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ ایسے میں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآنی علم کو بھی سہل الحصول بنانے کی غرض سے متعدد جدتیں اختیارکی ہیں۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیم میںبذریعہ انٹر نیٹ، جدید سرچ انجن کی بدولت قرآن کے الفاظ و معنی کے مطلوبہ مواد کی سُرعت و سہولت کے ساتھ دستیابی کو ممکن بنایا گیا ہے تو دوسری جانب پرنٹ میڈیم یعنی جرائد اور کتب کے روایتی تصورات میں بھی تبدیلی پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عربی متن پر مشتمل قرآن پاک کے پروٹوکول کا ایک خاص معیار بنا ہوا ہے، جس پر ہم لوگ اکثر اوقات پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا عملا" ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کی تعلیمات سے دور رہ کر ہی گذارتے ہیں۔ ایسے میں بلا عربی متن والے تراجمِ قرآن پر مبنی کتب کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے لئے کسی خاص اہتمام جیسے وضو وغیرہ کی شرعا" ضرورت نہیں پڑتی اور ہم شب و روز کی مختلف گہما گہمی میں جب اور جہاں چاہیں ،دیگر کتابوں کی طرح ان تراجم قرآن سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس پس منظر میں قرآن کے عربی متن کے بغیر محض ترجموں پر مبنی کتب فروغ پاتی جارہی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں عربی اور انگریزی کے ایسے کئی تراجم شائع ہوچکے ہیں، جن میں عربی متن کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے کرام اپنی سابقہ رائے سے رجوع فرمائیں۔ عربی عبارت کے ساتھ ترجمہ شائع کرنا بلا شبہ افضل ہے لیکن بلا عربی متن والے ترجموں کے ذریعہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک پیغامِ قرآن کی آسان رسائی کی بھی ہمت افزائی کی جانی چاہےے تاکہ مملکت کے اہم مناصب تک پہنچنے والے یہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی قرآنی تعلیمات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور آگاہ ہو سکیں۔
پیغامِ قرآن پبلی کیشن کی جانب سے ایک ایسی ہی کاوش پیغامِ قرآن کے نام سے عوام کے سامنے آئی ہے۔ قرآن مجیدکے مستند اوربامحاورہ اردو مفہوم کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں سے مزین اس کتاب کی مقبولیت اور مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں متعدد بامحاورہ تراجمِ قرآن کی موجودگی کے باوجودآج ایک عام اردو دا ں قاری کو قرآن کے ترجمہ کے مطالعہ کے دوران ایک نامانوس سی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب و رسائل کو آسانی کے ساتھ پڑھنے کی اہلیت رکھنے والا قاری بھی جب قرآن کا مطالعہ ترجمہ کے ساتھ شروع کرتا ہے تو چندصفحات کے مطالعہ کے بعد ہی اس کی توجہ بھٹکنے لگتی ہے۔پیغامِ قرآن درحقیقت قارئین کی اسی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔ اگرآپ کثیر المطالعہ ہیں تو پیغامِ قرآن کے اس نسخہ کو بآسانی چند نشستوں میں ختم کرسکتے ہیں۔ دراصل ہم یا تو ایک ہی موضوع پر لکھی گئی کتاب کو روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں یا پھر ایسے کتب و جرائد کو جس کے متنوع موضوعات کی درجہ بندی واضح طور پر دکھائی دے۔ کتاب کے آغاز میں روایتی طور پر فہرستِ مضامین موجود ہو۔ ہر باب کے طویل متن کو مختصر نثر پاروں میں تقسیم کیا گیا ہو اور قارئین کی دلچسپی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ذیلی عنوانات یا سرخیاں بھی دی گئی ہوں۔ جب کہ تقریری اندازِبیان میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی سورتوں کو تحریرِ مسلسل میں مرتب کیا گیا ہے۔ گویا قرآن اپنی بصری ہیئت میں بھی ان عام کتابوں جیسی نہیں ہے، جنہیں ہم روز و شب روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں۔
پیغامِ قرآن کے اصل متن اور ایک عام بامحاورہ ترجمہ قرآن میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ پیغامِ قرآن میں آیات کی ترتیب کو تبدیل کیے بغیر ہر پارے کی جملہ آیات کو مختلف پیراگراف میں تقسیم کرکے ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور پارہ کے آغاز میں ایسے تمام ذیلی عنوانات کی فہرست بھی دی گئی ہے ،تاکہ قارئین کو دورانِ مطالعہ کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہ ہو اور وہ پیغامِ قرآن کو بھی اسی سہولت کے ساتھ پڑھ سکیں جس کے وہ عام مطالعہ کے دوران عادی ہیں۔ ہر پیراگراف کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ بھی درج ہے تاکہ پیغامِ قرآن کے مطالعہ کے دوران اگر کہیںمزیدوضاحت کی ضرورت محسوس ہو تو قرآن پاک کے اصل عربی متن اور دیگر تراجم و تفاسیر سے بآسانی رجوع کیا جاسکے۔
اللہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغامِ قرآن کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس عظیم کام میں مصروفِ عمل افراد اوراداروں کی دامے ،درمے، قدمے، سخنے معاونت کی توفیق بھی دے۔ آمین ثمّ آمین۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
محترم بھائی! آپ کی پوری تحریر میں نے پڑھی لیکن میں معذرت خواہ ہوں کہ مجھے بلا عربی متن ترجمہ قرآن کی افادیت واضح نہیں ہو سکی۔

تراجمِ قرآن کی کتابوں میں ساتھ ساتھ عربی عبارت کے لکھنے یا نہ لکھنے سے ترجمہ کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔
واقعی ہی ترجمہ کے مصدّقہ ہونے یا نہ ہونے کا تعلق عربی عبارت لکھنے یا نہ لکھنے سے نہیں ہے۔
لیکن!
عربی عبارت کے بغیر ترجمہ میں غلطی کی فوری نشاندہی ممکن نہ رہے گی اور اس سے قرآن کے نام پر غلط مفہوم پھیلنے کی امکان بڑھتا رہے گا !!!

ترجمہ کے ساتھ لازما" عربی عبارت لکھے جانے کی احتیاط علمائے کرام نے وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی تھی، جو اپنی جگہ بالکل درست تھی ۔کیونکہ آج سے محض سو سال قبل تک ہر چھپی ہوئی عبارت نہ صرف یہ کہ مصدقہ تصور کی جاتی تھی بلکہ عام قارئین کے لئے یہ ممکن بھی نہ تھا کہ وہ چھپی ہوئی عبارت کے مصدقہ ہونے کو چیک کر سکے۔ لیکن آج صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک علمی انقلاب آچکا ہے۔دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
سو سال پہلے عامی کیلئے چھپی ہوئی عبارت کے مصدّقہ ہونے کو چیک کرنا ممکن کیوں نہ تھا؟ اور آج کیسے ممکن ہے؟؟؟
اگر میں یہاں ایک بات لکھ دوں تو کیا ایک عامی شخص آج کے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کے وسائل کی بناء اس کے مصدقہ ہونے کو بذات خود (کسی سے پوچھے بغیر) چیک کر سکتا ہے؟؟؟ نہیں!

آج سے سو سال پہلے بھی صرف لکھی ہوئی شے حجت نہ تھی اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔
سو سال پہلے بھی لکھی ہوئی شے عامی کیلئے تب ہی حجت ہوتی تھی جب وہ علماء کرام سے اس کے متعلق معلومات حاصل کر لیتا تھا۔
آج بھی یہی صورتحال ہے۔ بلکہ آج تو ایس ایم ایس اور ای میلز پر غیر مصدقہ باتیں اتنی پھیل رہی ہیں کہ الحفیظ والامان!

تب پھر سو سال پہلے یہ پابندی ضروری کیوں تھی اور آج کیوں نہیں؟؟؟

ہمارے ہاں چونکہ عربی متن پر مشتمل قرآن پاک کے پروٹوکول کا ایک خاص معیار بنا ہوا ہے، جس پر ہم لوگ اکثر اوقات پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا عملا" ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کی تعلیمات سے دور رہ کر ہی گذارتے ہیں۔ ایسے میں بلا عربی متن والے تراجمِ قرآن پر مبنی کتب کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے لئے کسی خاص اہتمام جیسے وضو وغیرہ کی شرعا" ضرورت نہیں پڑتی اور ہم شب و روز کی مختلف گہما گہمی میں جب اور جہاں چاہیں ،دیگر کتابوں کی طرح ان تراجم قرآن سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
محترم بھائی! یہ ’سب سے بڑی افادیت‘ تو عربی متن والے تراجم میں بھی ہے کہ عربی متن والے تراجم قرآن کو پڑھنے یا چھونے کیلئے بھی کسی خاص اہتمام مثلاً وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے، اور کافر بھی اسے چھو سکتا ہے۔

پھر بغیر متن والے ترجمہ کا فائدہ؟؟؟

تفصیل کیلئے یہ فتویٰ ملاحظہ فرمائیں جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
سوال: میرے پاس قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ موجود ہے؟ کیا اسے کافر چھو سکتا ہے؟
جواب: الحمد للہ! اس میں کوئی حرج نہیں کہ کافر قرآن کریم کے انگریزی یا دیگر ترجموں کو چھوئے، کیونکہ ترجمہ قرآن کریم کے معانی کی تفسیر ہوتا ہے، تو اگر اسے کافر یا بے وضوء شخص چھو لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ ترجمہ کا حکم قرآن کا نہیں، بلکہ اس کا حکم کتبِ تفسیر کا ہے۔ اور کافر یا بے وضو شخص کے کتبِ تفسیر اور اسی طرح کتبِ حدیث، کتبِ فقہ اور کتبِ عربی لغت وغیرہ کو چھونے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ ولی التوفیق!
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز﷫

عربی عبارت کے ساتھ ترجمہ شائع کرنا بلا شبہ افضل ہے لیکن بلا عربی متن والے ترجموں کے ذریعہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک پیغامِ قرآن کی آسان رسائی کی بھی ہمت افزائی کی جانی چاہیے تاکہ مملکت کے اہم مناصب تک پہنچنے والے یہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی قرآنی تعلیمات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور آگاہ ہو سکیں۔
بھائی! اگر ایسے لوگوں تک بغیر عربی متن ترجموں کی رسائی ہو سکتی ہے تو عربی متن کے ساتھ ترجموں کی رسائی کیوں ممکن نہیں۔

بغیر عربی متن کے ترجمہ پر یہاں ایک مرتبہ کچھ لکھا تھا وہ بھی ملاحظہ کر لیجئے!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
محترم بھائی! آپ کی پوری تحریر میں نے پڑھی لیکن میں معذرت خواہ ہوں کہ مجھے بلا عربی متن ترجمہ قرآن کی افادیت واضح نہیں ہو سکی۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ عربی متن کو براہ راست پڑھ کر سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن آج کے اردواور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت نہ صرف یہ کہ عربی سے ناواقف ہیں بلکہ دینی علم سے بھی دورہے۔ ایسے لوگ عربی متن والے تراجم کو بھی (غلط یا صحیح) بلا وضو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اور ہمارے عام مسلمان دن بھر میں کتنی دیر با وضو ہوتے ہیں، اس کا آپ کو بھی اندازہ ہوگا۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اب عربی متن کے بغیر اردو، انگریزی سمیت بہت سے دیگر زبانوں میں تراجم شائع ہو رہے ہیں۔ ایسے تراجم کی افادیت بھی ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے، علمائے کرام اور عربی جاننے والوں کے لئے نہیں۔

واقعی ہی ترجمہ کے مصدّقہ ہونے یا نہ ہونے کا تعلق عربی عبارت لکھنے یا نہ لکھنے سے نہیں ہے۔
لیکن!
عربی عبارت کے بغیر ترجمہ میں غلطی کی فوری نشاندہی ممکن نہ رہے گی اور اس سے قرآن کے نام پر غلط مفہوم پھیلنے کی امکان بڑھتا رہے گا !!!
ترجمہ میں غلطی کا امکان تو ہمیشہ سے تھا اور آئندہ بھی رہے گا خواہ اس کی نشاندہی فوری ممکن ہو یا نہ ہو۔ ویسے یہ ایک دلچسپ اور تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ جب پہلے پہل قرآن کے عربی متن کا غیر عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا ( گوعربی متن بھی ساتھ تھا اور ترجمہ بھی لفظی تھا) تب بھی ’’علما ء ‘‘ نے ’’کلام اللہ‘‘ کے ترجمہ کو حرام قرار دیا تھا ۔ جبکہ آج جتنے بھی ترجمے شائع ہورہے ہیں، بیشتر ’’علماء کرام‘‘ ہی کے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کے بہت سے علماء (سارے نہیں) ’’دوسرے علماء‘‘ کے ترجمہ کو ’’غلط‘‘ اور صرف اپنے ترجمہ کو ’’صحیح‘‘ قرار دیتے ہیں۔ آج شاید ہی کوئی معروف عالم دین قرآن کے ترجمہ کو حرام قرار دیتا ہو۔ آج سارا زور اس بات پر ہے کہ متن کے بغیرترجمہ شائع کرنا حرام ہے۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں علمائے کرام اپنے اس فتویٰ سےبھی سابقہ فتویٰ کی طرح رجوع کر لیں۔ کیونکہ عربی متن کے بغیر قرآن کے تراجم دنیا بھر میں شائع ہورہے ہیں اور عوام الناس مین مقبول بھی ہورہے ہیں۔

سو سال پہلے عامی کیلئے چھپی ہوئی عبارت کے مصدّقہ ہونے کو چیک کرنا ممکن کیوں نہ تھا؟ اور آج کیسے ممکن ہے؟؟؟
اگر میں یہاں ایک بات لکھ دوں تو کیا ایک عامی شخص آج کے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کے وسائل کی بناء اس کے مصدقہ ہونے کو بذات خود (کسی سے پوچھے بغیر) چیک کر سکتا ہے؟؟؟ نہیں!

آج سے سو سال پہلے بھی صرف لکھی ہوئی شے حجت نہ تھی اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔
سو سال پہلے بھی لکھی ہوئی شے عامی کیلئے تب ہی حجت ہوتی تھی جب وہ علماء کرام سے اس کے متعلق معلومات حاصل کر لیتا تھا۔
آج بھی یہی صورتحال ہے۔ بلکہ آج تو ایس ایم ایس اور ای میلز پر غیر مصدقہ باتیں اتنی پھیل رہی ہیں کہ الحفیظ والامان!

تب پھر سو سال پہلے یہ پابندی ضروری کیوں تھی اور آج کیوں نہیں؟؟؟
آج انٹر نیٹ کی بدولت ہر شخص کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کا کسی بھی زبان میں یا کئی زبانوں میں بہت سارے ترجمہ چند منٹوں میں حاصل کر کے کسی بھی ’’مخصوص ترجمہ‘‘ کو چیک کرسکتا ہے۔ آن لائن عربی لغت سے استفادہ کرسکتا ہے۔ مختلف مستند قرآنی ویب سائٹ کا موازنہ کرسکتا ہے۔ مختلف آن لائن علمائے کرام سے ای میل کے ذریعہ مشاورت کرسکتا ہے۔ یہ ساری ’’سہولیات‘‘ آج ایک عامی کو بھی حاصل ہیں، جو کل نہیں تھیں۔

محترم بھائی! یہ ’سب سے بڑی افادیت‘ تو عربی متن والے تراجم میں بھی ہے کہ عربی متن والے تراجم قرآن کو پڑھنے یا چھونے کیلئے بھی کسی خاص اہتمام مثلاً وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے، اور کافر بھی اسے چھو سکتا ہے۔
پھر بغیر متن والے ترجمہ کا فائدہ؟؟؟
گو اس معاملہ میں علمائے کرام دو واضح گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ صرف عربی قرآن مجید ہو یا عربی قرآن مع ترجمہ و حاشیہ، انہیں بلا وضو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا جبکہ دوسرا گروپ اس کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن علماء کی اس ’’متضاد رائے‘‘ کے بوجود ’’زمینی حقائق‘‘ یہ ہیں کہ عامی مسلمانوں کی بھاری اکثریت، قرآن کے عربی متن بمعہ ترجمہ کو بلا وضو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو مسلمانوں کے کسی بھی پبلک مقام پرکوئی سروے کرکے دیکھ لیں
سوال: میرے پاس قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ موجود ہے؟ کیا اسے کافر چھو سکتا ہے؟
جواب: الحمد للہ! اس میں کوئی حرج نہیں کہ کافر قرآن کریم کے انگریزی یا دیگر ترجموں کو چھوئے، کیونکہ ترجمہ قرآن کریم کے معانی کی تفسیر ہوتا ہے، تو اگر اسے کافر یا بے وضوء شخص چھو لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ ترجمہ کا حکم قرآن کا نہیں، بلکہ اس کا حکم کتبِ تفسیر کا ہے۔ اور کافر یا بے وضو شخص کے کتبِ تفسیر اور اسی طرح کتبِ حدیث، کتبِ فقہ اور کتبِ عربی لغت وغیرہ کو چھونے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ ولی التوفیق!
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز﷫
گو اس فتویٰ میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ آیا اس انگریزی ترجمہ کے ساتھ، عربی متن بھی موجود ہے یا نہیں۔ لیکن سلسلہ کلام کے پس منظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسا ترجمہ، جس میں عربی متن بھی موجود ہو، اس فتویٰ کی رو سے بلا وضو بھی چھوا جا سکتا ہے اور کافر کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
اس فتویٰ میں بین السطور غالبا" یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صرف عربی متن کو بلا وضو نہیں چھوا جاسکتا (تصحیح کیجئے، اگر میں نے سمجھنے میں غلطی کی ہو) اور کم از کم کسی کافر کو تو صرف عربی متن والا قرآن نہیں دیا جاسکتا (تصحیح کیجئے، اگر میں نے سمجھنے میں غلطی کی ہو)۔ اگر یہ دوسری والی بات درست ہو یعنی کافر کو عربی مصحف قرآن نہیں دیا جاسکتا تو ازراہِ کرم یہ بتلائیے کہ ان لاکھوں عربی زبان بولنے والے ’’غیر مسلموں‘‘ کو کون سا قرآن دیا جائے۔ اِن کی تو مادری زبان ہی عربی ہے۔ کیا انہیں غیر عربی ترجمہ دیا جائے؟ یا عربی قرآن کا عربی مین ’’ترجمہ‘‘ کرکے دیا جائے؟؟؟

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: یوسف ثانی پیغام دیکھیے
عربی عبارت کے ساتھ ترجمہ شائع کرنا بلا شبہ افضل ہے لیکن بلا عربی متن والے ترجموں کے ذریعہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک پیغامِ قرآن کی آسان رسائی کی بھی ہمت افزائی کی جانی چاہیے تاکہ مملکت کے اہم مناصب تک پہنچنے والے یہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی قرآنی تعلیمات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور آگاہ ہو سکیں۔
بھائی! اگر ایسے لوگوں تک بغیر عربی متن ترجموں کی رسائی ہو سکتی ہے تو عربی متن کے ساتھ ترجموں کی رسائی کیوں ممکن نہیں۔
وجہ اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ عامی مسلمانوں کی بھاری اکثریت عربی متن والے قرآن کے تحائف کو اکثر اوقات (صحیح یا غلط) ’’قبول‘‘ نہیں کرتے۔

آخر میں آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر اس تحریرکا تجزیہ کیا۔ اللہ آپ کو اس کی جزا دے آمین۔ ویسے خود اسی فورم میں عربی متن کے بغیر محض ترجمہ (یا پیغام قرآن) بھی شائع کیا گیا ہے۔ کیا کاغذی اشاعت اور نیٹ اشاعت کے فتاویٰ الگ الگ ہیں؟ ویسے متذکرہ بالا ’’پیغام قرآن‘‘ (بغیر عربی متن) کے مختلف ایڈیشن ’’مرید کے کے ایک ذمہ دار‘‘ (نام میں کیا رکھا ہے، ابتسامہ) کو بھی بھیجا گیا۔ موصوف کے کئی خط بھی موصول ہوئے مگر انہوں نے عربی متن کی غیر موجودگی کا ’’شکوہ‘‘ تک نہیں کیا، ’’اعتراض‘‘ تو دور کی بات ہے۔ بلکہ انہوں نے اسی کتاب کے ’’انگریزی ایڈیشن‘‘ کی بھی فرمائش کی، جو فی الحال زیر تالیف ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ویسے اس موضوع کو دیگر علماء کے سامنے بھی رکھنا چاہیے ۔ فورم پر جو علماء کی مشاورت کے لیے ایک مخصوص جگہ ہے اس میں اس موضوع کو منتقل کرنا چاہیے ۔
اور یوسف ثانی بھائی نے جو یہ کہا ہے کہ :

ویسے خود اسی فورم میں عربی متن کے بغیر محض ترجمہ (یا پیغام قرآن) بھی شائع کیا گیا ہے۔ کیا کاغذی اشاعت اور نیٹ اشاعت کے فتاویٰ الگ الگ ہیں؟ ویسے متذکرہ بالا ’’پیغام قرآن‘‘ (بغیر عربی متن) کے مختلف ایڈیشن ’’مرید کے کے ایک ذمہ دار‘‘ (نام میں کیا رکھا ہے، ابتسامہ) کو بھی بھیجا گیا۔ موصوف کے کئی خط بھی موصول ہوئے مگر انہوں نے عربی متن کی غیر موجودگی کا ’’شکوہ‘‘ تک نہیں کیا، ’’اعتراض‘‘ تو دور کی بات ہے۔ بلکہ انہوں نے اسی کتاب کے ’’انگریزی ایڈیشن‘‘ کی بھی فرمائش کی، جو فی الحال زیر تالیف ہے۔
اگر چہ دلیل اور حق کا معیار نہیں ہے لیکن بہر صورت قابل غور ضرور ہے ۔
یوسف ثانی بھائی سے گزارش ہےکہ وہ جن سے مرید کے میں نظر ثانی کرواتے ہیں ان سے اس سلسلے میں اپنی اس تحریر کی بھی نظر ثانی کروائیں اور جو اس پر ملاحظات ہیں ان کی نظر کریں تاکہ کوئی بات کھل سکے ۔
جزاکم اللہ خیرا ۔
 
Top