ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 574
- ری ایکشن اسکور
- 184
- پوائنٹ
- 77
بنا دانتا جانور کی قربانی کا حکم؟
شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ (١٩٩٤م) فرماتے ہیں :
✺ «حنفیہ کے نزدیک قربانی کے جانور میں عمر کا اعتبار ہے دودھ کے دانت گرنے کا لحاظ نہیں ہے، اس لئے ان کے نزدیک ایک سال کے بکر ے دوسال کی گائے بھینس پانچ سال کے اونٹ کی قربانی جائز ہے ، اگرچہ وہ ادنت ہوں.
☚ لیکن حق وصواب یہ ہے کہ قربانی کے جانور میں دودھ کے دانت (دندان پیش) کے گرنے اور اس کی جگہ پر دوسرے دانت کے نکلنے کا اعتبار ہے، عمر اور سن کالحاظ نہیں ہے.
☚ اس لئے ادنت بکرے گائے اونٹ کی قربانی جائز نہیں ہوگی خواہ ان کی عمر کچھ بھی ہو.
✺ تمام اہل لغت، شراح حدیث اصحاب، غریب الحدیث؛
❍ ابن الاثیر الجزری،
❍ ابن قتیبہ زمخشری،
❍ ازہر فیومی،
❍ مجدالدین فیروز آبادی جوہری،
❍ صاحب لسان العرب،
❍ صاحب تاج العروس،
❍ مطرزی حنفی صاحب المغرب،
❍ ابن سیدہ اصمعی،
❍ ابو زید الانصاری،
❍ ابو زید الکلابی،
❍ ابو عبید ابن عبدالبر زرقانی دادوی،
❍ ابو الولید الباجی،
❍ حافظ ابن حجر صاحب،
❍ صراح سندی حنفی،
❍ ابن عابدین شامی حنفی،
❍ شیخ شیخ عبد الحق دہلوی حنفی دمیری وغیرہ نے بتصریح لکھا ہے کہ؛
☚ مسنہ اور ثنیہ ایک چیز ہے اور اس کا معنی ہے وہ جانور جس کے اگلے دونوں دانت ثنایا (دندان پیشین) گرچکے ہوں.
☚ پس قربانی کے جانور میں دندان پیشین کے گرنے کا ہی لحاظ ہوگا عمر کا اعتبار نہیں ہوگا.
✪ اور چوں کہ واقع میں ایسا ہوتا ہے کہ بکرے کے دودھ والے اگلے دونوں دانت اس وقت گرتے ہیں؛
◈ جب وہ ایک برس کاہوکر دوسرے برس میں داخل ہوچکا ہوتا ہے،
◈ اور گائے کے تیسرے برس میں،
◈ اور اونٹ کے چھٹے برس میں داخل ہونے کے بعد گرتے ہیں.
❍ جیسا کہ صاحب لسان العرب جوہری ابن سیدہ فیومی صاحب صراح وغیرہ لکھتے ہیں: "ويكون ذلك (أي إلقاء الثنية) في الظلف والحافر في السنة الثالثة وفي الخف في السنة السادسة(وفي المعز في الثانية)".
☜ اس لئے بعض لوگوں کو اس سے یہ غلط فہمی ہوگی کہ قربانی کے جانور مسنہ اور ثَنِی کے معنی ومفہوم میں عمر کا لحاظ ہوگا.
☚ حالانکہ کہ ان اصحاب لغت کا مقصود مسنہ اور ثنی کا معنی بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے مفہوم کے تحقق کا غالبی وقت وزمانہ کا بیان کرنا مقصود ہے اور دندان پیش کے گرنے میں موسم اور آب وہوا اور محل وقوع کا کافی دخل ہے، اختلاف آب وہوا وموسم کی وجہ سے یہ دانت ایک ہی قسم کے جانور میں بہت آگے پیچھے گرتے ہیں، اس لئے وقت بیان کرنے میں یہ اصحاب لغت "ویکون ذلک في الظلف" الخ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اور اس لئے ان کے درمیان وقت کے بیان کرنے میں اختلاف بھی ہے،
◈ اور چنانچہ کچھ لوگ ثنیہ کی عمر ذوات ظلف وحافر دونوں میں تیسرا سال بتاتے ہیں اور مطرزی حنفی صاحب المغرب ذوات ظلف میں تیسرا سال اور ذوات حافر میں چوتھا سال بتاتے ہیں.
☚ بہر حال قربانی کے جانور میں عمر کا لحاظ غلط فہمی پر مبنی ہے اور حنفیہ میں صاحب ہدایہ وغیرہ نے اس بارے میں تقلیداً جو کچھ لکھا ہے اسی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں، اور فتاوی نذیریہ میں محولہ فتوی بھی اسی ناقص تحقیق پر مبنی ہے۔
☚ اہل حدیث کسی بڑے سے بڑے عالم کے غیر تحقیقی اور بے دلیل فتوی وقول کو قابل عمل نہیں سمجھتے.
⇚ سوال میں مذکور مولوی صاحب کا اپنے تحریری فتوی کے خلاف لوگوں کو زبانی فتوی دینا اس کی شناعت ایک عامی اور غبی آدمی بھی سمجھ سکتا ہے.
⇦ والله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم».
[فتاوی شیخ الحدیث مبارکپوری: ٢/ ٣٩٨، ٣٩٩]
مزید ایک جگہ لکھتے ہیں :
✺ «ادنت جانور کی قربانی جائز نہیں ہے؛
⇚ خواہ وہ دو سال کا ہو یا اس سے بھی زیادہ دن کا، اور خواہ وہ قربانی کی نیت سے گھر کا پالا ہوا ہو یا خریدا ہوا ہو، بہر حال اس کی قربانی درست نہیں.
❐ لقوله ﷺ: "لا تذبحوا الا مسنة" ((مسلم شريف))
☚ اگر وسعت ہو تو دوسرا دانتا ہوا جانور خرید کر قربانی کرنی چاہئے، اور ایسی صورت میں کہ قربانی کی نیت سے گھر کا پالا ہوا جانور جو ایک سال سے زائد عمر کا ہے قربانی کے دنوں میں دانت رہ جائے، اور اس کے مالک کو دوسرا دانتا ہوا جانور خریدنے کی وسعت نہیں ہے، تو اس کے ذمہ قربانی ہی نہیں.
☚ کیونکہ قربانی صرف " مسنہ " کی درست ہے، اور اس کی وسعت اور ادنت جانور ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہے.
✺ اور اگر اس پلے ہوئے بنا دانتا جانور کی آئندہ بقرہ عید تک اور مسنہ ہونے تک نگہداشت اور پرورش مشکل ہو تو دانتے ہوئے جانور سے اس کا بدل لینا یا فروخت کردینا جائز ہے، پھر حاصل شدہ پوری قیمت کا دانتا ہوا جانور خرید کر قربانی کرے، یا اس سے کم کا دونوں جائز ہے، لیکن فاضل رقم کو صدقہ کردینا چاہئے.
❶ عن حبيب بن أبي ثابت عن حكيم بن حزام، يشتَري لَه أضحيَّةً بدينارٍ فاشترَى أضحيَّةً فأُربِحَ فيها دينارًا فاشترَى أُخرَى مَكانَها فجاءَ بالأضحيَّةِ والدِّينارِ إلى رسولِ اللَّهِ ﷺ فقالَ "ضحِّ بالشَّاةِ وتصدَّق بالدِّينارِ".
((ضعيف الترمذي: ١٢٥٧، علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے، امام شوکانی کہتے ہیں منقطع وله طريق ثانية فيها مجهول، "نيل الأوطار ٦/٥"))
❷ عنِ ابنِ عباسٍ في الرجلِ يشتري البدَنَةَ أوْ الأضحيَةَ فَيَبيعُهَا ويَشْتَرِي أَسْمَنَ مِنْها فذَكَر رخصةً. رواه الطبراني في الأوسط ، ورجاله ثقات ((مجمع الزوائد:٣/ ٣٢١))
✺ کسی جانور کے قربانی کی نیت سے پالنے یا اس نیت سے خریدنے سے قربانی کے لئے اس کے متعین ولازم ہوجانے پر اور اس کی بیع و تبدیلی کے عدم جواز پر کوئی قرآنی یا حدیثی نص نہیں ہے.
☚ جو لوگ عدم جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل صرف قیاس علی الہدی ہے ، لیکن "ہدی" اور "اضحیہ" میں جو فرق ہے، وہ مخفی نہیں، پھر یہی مانعین بعض صورتوں میں تبدیلی یا بیع کے جواز کے بھی قائل ہیں کما لا یخفی.
☚ اگر مخصوص جانور کی جو "مسنہ" ہو قربانی کرنے کی نذر مان لی جائے تو قربانی کے لئے متعین و لازم ہوجائے گا اور اس کی بیع یا تبدیلی درست نہیں ہوگی. (ھذا ما عندي والله أعلم )».
[فتاوی شیخ الحدیث مبارکپوری: ٢/ ٣٩٦، ٣٩٧]
•┈┈┈••⊰✵⊱••┈┈┈•