عبداللہ ہندی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 04، 2016
- پیغامات
- 203
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 27
اوپر جو میں نے حدیث لکھی ہے۔ مجھے اُس کے کوئی صحیح الفاظ بتا دے۔
سود کی رقم کا مصرف
س
میرے پاس بینکوں کے ذریعہ آکر بہت زیادہ سود جمع ہوگیا ہے۔ اب اس کا درست مصرف کیا ہوسکتا ہے۔ ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔
ج
سود کی یہ رقم ثواب کی نیت کیے بغیر کسی مستحق زکوۃ فقیر کو دے دیں۔ واللہ أعلم
پاکستان کے دارالعلوم دیوبند''جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی'' کا فتوی
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/sood-ki-raqam-ka-masraf/2014-08-18
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرے یہاں ایک استاد محترم ہیں ان سے کسی نے سوال کیا تھا کے ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا ہے کے نا ان کی نیت تھی سود لینے کی نا انہوں نے سود کا ایگریمینٹ کیا نا سائن کیا نا سود لیا جانے ا جانے میں وہ کسی ایسی سکیم کا حصہ تھے کے ان کو ان کی اصل رقم کے علاوہ سود بھی مل رہا تھا نشاندہی کی گئی تو تصدیق ہوگئی کے یہ واقعی سود ہے تو اس پر استاد محترم سلفی صاحب نے کہا تھا اگر نیت نا تھی جانے انجانے میں سودی رقم پاس آگئی ہے تو اس کو ایسے بندے پر لگا دیں جس کی جان جارہی ہو اور وہ اس رقم سے بچ جائے اسی آیت کریمہ کی دلیل سے بس اسی ایک مصرف کو یہ رقم دی جاسکتی ہے باقی جن کا آپ نے زکر کیا ان کے لیئے صدقہ زکوتہ خیرات ہے ناکہ سودی رقم
یہاں پر ایک بات غور طلب ہے کیا یہ فتوی مطلق طور پر ہوش ہواس میں جانتے بوجھتے نیت اور دل سے سود لینے کے لیئے ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں جب ایک شخص کو معلوم ہے کے یہ سود ہے جنگ ہے لعنت ہے تو وہ لے ہی کیوں رہا گویا وہ اللہ کے فرمان کو اگنور کر کے لے رہا جب اللہ نے حکم دیا چھوڑ دو تو کیوں لے رہا کیا اس کی نیت زکوتہ چوری ہے صدقہ سے اپنی اصل رقم کو بچانا ہے ؟؟
یہ تو اللہ ہی نیت جانتا ہے پر اصول یہ ہے کے جو مصارف آپ نے بتائے ان پر صدقہ زکوتہ لاگو ہے وہ مصارف صدقہ زکوتہ والے ہیں ناکہ سودی رقم واضح فرمان ہے باقی سود کو چھوڑ دو
دوسری بات یہ فتوی اس شخص کے لیئے ہے یعنی سودی رقم وہ دے سکتا ہے جو سود کو سود سمجھے لعنت سمجھے اس کی لینے کی نیت بھی نا تھی اس نے ایگریمینٹ بھی نہیں کیا اس نے سائن بھی نہیں کیا اس نے لیا بھی بہیں غلطی جانے انجانے میں اس کو یہ سودی رقم ملتی رہی بعد میں پتا چلا تو ایسا شخص ایسے مرنے والے کو دے سکتا ہے جس کی جان بچے یہ ہی آیت میں اللہ کا حکم ہے
میرے نزدیک بھی یہ ہی ایک مصرف درست ہے باقی @مقبول احمد سلفی ۔۔۔ استاد محترم آپ رہنمائ فرما دیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ دین کی بصیرت رکھنے والے علماء ہردور میں آتے رہےہیں اور جب جب جس جس دور میں نئے نئے مسائل پیدا ہوتے رہے وہ انہیں اپنی بصیرت سے حل کرتے رہے ، سودی بنکنگ نظام بھی جدید پیداوار ہے ، اس کا استعمال آج کے معاشرہ میں ناگزیر سا ہوگیا ہے ۔ لین دین کے اکثرامور اس سے وابستہ ہیں ایسے میں بنک کا سہارا لینا ضرورت وقت ہے ۔
اگر بنک میں سود نہ لینے کا آبشن ہو تو اکاؤنٹ کھولتے وقت نہ لینے کا آبشن اختیار کیا جا سکتا ہے مگر وہ آبشن نہ ہو تو چونکہ سود آدمی کے اپنے اکاؤنٹ میں اصل مال کے ساتھ ہوتا ہے وہ کس طرح اپنے اکاؤنٹ کا پیسہ چھوڑ سکتا ہے ؟ نہیں نکالے گا تو اکاؤنٹ میں پڑا رہے گا۔
بہرکیف! اکثرعلماء نے سودی پیسہ نکالنے کا جواز ذکر کیا ہے تاہم وہ علماء اپنے اپنے حساب سے صرف کرنے کے مناسب طریقے بتائے ہیں ۔ جوبات آپ نے ذکر کی ہے کہ فلاں صاحب کو بغیر علم کے سودی پیسہ ملتا رہا ، اس بات پر جھوٹ کا گمان ہوتا ہے ۔ آج ساری چیزیں واضح ہیں ، ایک شخص کو اپنا پیسہ معلوم ہے ، اس سے زائد ملنے والا پیسہ کیسے معلوم نہیں ہوگا؟ اور جہاں بھی جس ادارے سے بھی جڑا ہو اس کے اصول وضوابط پورے سماج اور دنیا والوں کے سامنے ہوتے ہیں بلکہ اب تو اکثر چیزیں آن لائن ہوگئی ہیں ۔
اس کے بعد جس مصرف کا ذکر کیا گیاہے یہ ان کی اپنی سمجھ ہے ، وہ اپنی سمجھ کو دین کے تمام اہل علم پر تھوپ نہیں سکتے ہیں ، یہ بات بالکل آسانی سے عقل میں آنےوالی ہے کہ ایک شخص کے پاس سودی پیسہ ہے ، اس سے جلدازجلدنجات پانا چاہتا ہے ، وہ کس قسم کے مرنے والے آدمی کو تلاش کرے پھر اس پیسے سے نجات حاصل کرے گا؟ اس کے سامنےمجبور ومسکین کے واسطے جومناسب مصرف ہوگا اس میں صرف کرکے جلدی سے چھٹکارا حاصل کرلے گا کیونکہ اسے دیر تک اپنے پاس باقی رکھنا بالکل بھی صحیح نہیں ہے ۔