• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

''بنگلہ دیش: خاموشی کی دیوار کے پیچھے ہوتا قتلِ عام''

شمولیت
اپریل 14، 2014
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
24
''بنگلہ دیش: خاموشی کی دیوار کے پیچھے ہوتا قتلِ عام''​
ریلیز کردہ: ادارہ السحاب برائے نشر واشاعت
ربیع الاول 1435ھ - 01 / 2014ء​
بسم الله، والحمدُ لله، والصلاةُ والسلام على رسول الله وآله وصحبه ومن والاه.​
اے دنیا بھر کے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد:
آج مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے لیکن عالم اسلام اس سے غافل ہے۔ جبکہ مغربی میڈیا قاتلوں سے گٹھ جوڑ کرکے اس قتلِ عام پر پردہ ڈال رہا ہے اور اس کے حقائق کو دہندلا کررہا ہے۔ یہ قتلِ عام بنگلہ دیش میں ہورہا ہے اور مسلمان اس سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔
بنگلہ دیش ایک ایسی سازش کا شکار ہے کہ جس میں بھارت کے ایجنٹ، بدعنوان پاکستانی فوج کے سربراہان اور فاسد واقتدار کے بھوکے وہ سیاست دان برابر کے شریک ہیں جو بنگلہ دیش اور پاکستان میں اپنی خواہشات نفسانی اور مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے ہر شے کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔
درحقیقت برصغیر کی امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان و بنگلہ دیش کے مسلمان بالخصوص اس کی قربانی بنے۔ آج بنگلہ دیش میں اسلام کے عقائد، نبی اسلام (محمد مصطفیٰ ﷺ) اور امت مسلمہ کے خلاف جن جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے وہ اُنہی بیجوں کا پھل ہے جو ان فاسد مجرموں نے بویا تھا، جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔
اصل مقصد پاکستان سے بنگلہ دیش کو الگ کرنا نہیں تھا، نہ ہی بنگلہ دیشی عوام پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کرنا تھا اور نہ ہی پاکستان کی فوجی آمریت سے چھٹکارا پانا مقصود تھا۔ ان میں سے کوئی بھی بات پیش نظر نہ تھی، اگرچہ ان مجرموں نے ان خوش نما اور دل فریب نعروں کا سہارا لیا، انہیں اپنی بیوقوفی یا بری نیت یا پھر ان دونوں چیزوں کی وجہ سے زبان زد عام کرایا اور ان کی تشہیر کی۔ لیکن یہ تمام امور حقیقی مقصد نہ تھے۔ بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ برصغیر کی امت مسلمہ کو کمزور کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور اسے باہمی جھگڑوں، تنازعات اور جنگوں میں الجھا کر زخموں سے چور چور کرکے ختم کرنا۔ پھر اس پر مستزاد امت مسلمہ کے قلب اور اس کی قوت کے راز ''عقیدۂ اسلام'' کو نشانہ بنانا تھا۔
آج پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان اور افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اس شیطانی منصوبے کے پیشگی اقدامات ہیں۔ اس گھناؤنی سازش میں دشمنان اسلام کے آلہ کار یہی مجرم لوگ ہیں، جن کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں۔ کل جن لوگوں نے بنگلہ دیش میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا آج وہی پاکستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام کررہے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو بنگلہ دیشیوں کے جان و مال کا دفاع کرنے کے بہانے سے پاکستان کے خلاف بھارت کے اتحادی بنے تھے آج وہی لوگ بنگلہ دیشی عوام کے مقدسات، عقائد، جان، مال، عزت اور آبرو پر حملہ آور ہیں۔
ان مجرموں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ساٹھ سال قبل برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کیلئے پاکستان بنایا تھا۔ لیکن آج ساٹھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان میں نہ شریعت ہے، نہ خودمختاری ہے اور نہ ہی عزت۔ پاکستانی حکومت، اس کی فوج، انٹیلی جنس، پولیس اور عدلیہ سب کرائے کے ایجنٹ فوجیوں کی طرح جنوبی ایشیا میں صلیبی حملے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اسی طرح آج کے بنگلہ دیش کو دیکھ لو، جس کے بارے میں ان مجرموں کا دعوی تھا کہ انہوں نے چالیس سال سے زائد عرصہ قبل بنگالی قوم کی آزادی، عزت اور شان و شوکت کے تحفظ کیلئے اسے بنایا تھا؛ تاہم آج یہی بنگلہ دیش ایک بڑے قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں مسلمانوں کی جان، مال، عزت، آبرو، عقائد اور مقدسا ت کو پامال کیا جارہا ہے۔ بلکہ وہاں (قتلِ عام کرکے) ان کی جانوں کو نکالا جارہا ہے، ان کو قید کیا جارہا ہے اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ صلیبی حملے کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاسکے جو اسلام کے خلاف عسکری، سیاسی اور نظریاتی جنگیں لڑرہا ہے۔
یہی بنگلہ دیش، جس کے بارے میں ان مجرموں نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے اسے اپنی آزادی دینے کی خاطر پاکستان سے الگ کیا تھا؛ آج وہی بنگلہ دیش بھارت کا ذلیل فرمانبردار میں تبدیل ہوچکا ہے۔
یہ اسلام دشمن پالیسیاں جو اسلامی عقائد، اس کے شعائر اور نبی کریمﷺ کی توہین پر مبنی ہیں، دراصل اس بھارت کی مکمل غلامی کا مظہر ہیں، جو امریکہ کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے، اس (کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کو کرنے) پر مبارکباد اس کے بعد دے رہا ہے، جب دونوں کے مفادات اسلام کیخلاف جنگ کرنے میں آپس میں مل چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ان دونوں کے تعلقات روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے اور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے تاکہ ہم ان مصائب، غلامیوں اور ذلتوں سے چھٹکارا پانے کی راہ پر چلنے کا آغاز کرسکے۔
اے دنیا بھر میں میرے مسلمان بھائیو! بنگلہ دیش میں آج ہزاروں مسلمانوں کا خون کسی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے بہایا جارہا ہے کہ وہ اسلام دشمن سیکولر حکومت اور ان چند سیکولر خواجہ سرا کے گٹھ جوڑ کے خلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلیں تھے، جو دینِ اسلام اور نبی اسلامﷺ کی شان میں علی الاعلان توہین اور گستاخی کررہے ہیں۔ اسی طرح اسلام کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہونے والے سینکڑوں داعیان و علماء کا گھیراؤ، ان کا تعاقب، چھاپے، گرفتاریوں، مقدمات، سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں کسی جرم کی جہ سے نہیں بلکہ صرف اس لیے دی جارہی ہیں کہ وہ صلیبی حملے کے ان آلہ کار ایجنٹوں کیخلاف کھڑے ہوئے، جن کو مغربی دنیا میں موجود مجرموں کے سرغنوں نے اسلام کی شکل بگاڑنے، اس کے نبیﷺ اور اس کے عقیدہ کا مذاق اڑانے کے لیے بلااجرت (بطور غلام) مسخر کرکھا ہے۔
بنگلہ دیش کے میرے مسلمان بھائیو! میں آپ کو اسلام کے خلاف جاری اس حملے کو روکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتا ہوں، جسے بھارت اور مغرب کے بڑے مجرموں نے اسلام، نبی اسلامﷺ اور عقیدۂ اسلام کے خلاف جاری رکھا ہوا ہے تاکہ وہ آپ لوگوں کو اس طاغوتی جابرانہ نظام کا غلام بناسکیں، جو بنی نوع انسان کو غلام بنانے، ان کے ذخائر چرانےاور ان کو اپنے جہنمی دیوہیکل جابرانہ آلات کے ذریعے ٹکروں میں بانٹنے کے لیے کوشاں ہے۔
میں آپ کو اسلام کی شریعت، اس کے احکام اور اس کے آداب (واخلاقیات) کی پابندی کرنے، ان کی حفاظت کرنے اور اپنے بچوں وبچیوں کو بھی اسے مضبوطی سے تھامنے پر پرورش کرنے کی طرف بلاتا ہوں۔ میں آپ کو سچے علماء کے گرد اکٹھا ہونے، ان کی حمایت وپشت پناہی کرنے اور ان کا تحفظ کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
میں آپ کو اسلام کے دفاع کیلئے دشمنان اسلام کے خلاف ایک عظیم عوامی دعوتی بیداری کی تحریک میں اپنی تمام ترجدوجہد اکٹھی کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
میں بنگلہ دیش کے معززعلمائے کرام کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس کردار کو نبھائیں جو اسلام نے ان پر فرض کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ"
اور جب اللہ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا۔ (آل عمران: ۱۸۷)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ"
"بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق انبیاء جو (اللہ کے) فرمانبردار تھے ' یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی۔ کیونکہ وہ کتاب اللہ کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا۔ اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔'' (المائدہ: ۴۴)
میں آپ کو شریعت کی حاکمیت مضبوطی سے پکڑنے اور اسے تمام دستوروں اور قوانین سے اس قدر بالاتر کرنے کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ لوگوں کی خواہشات پر حکمرانی کرنے والا ہوں نہ کہ ان کے مطابق اس پر حکم چلایا جائے اور نہ ہی اسے کسی اور مرجع کا تابع کیا جائے۔ میں آپ کو عظیم وسیع دعوتی عوامی بیداری کی تحریک میں امت مسلمہ کے عوام کی قیادت کرنے کی دعوت دیتا ہوں، جس کی لہریں نہ تھمیں اور نہ ہی وہ متحرک رہنے سے کبھی روکیں، اس وقت تک جب تک اسلام کی سرزمین پر اسلام کی شریعت محکوم کی بجائے حاکم نہ ہوجائے، حکم دیئے جانے کی بجائے حکم دینے والی نہ ہوجائے اور قیادت کیے جانے کی بجائے قیادت کرنے والی نہ ہوجائے۔
میں آپ کو مسلم عوام کے سامنے اس جمہوری نظام کے دھوکے اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی دعوت دیتا ہوں، جسے مغرب نے مسلمانوں کو اپناغلام بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر اس کے ذریعے سے کوئی ایسی حکومت آتی ہے، جس سے مغرب خوش ہوتا ہے تو وہ اس کی حوصلہ افزائی اور تائید کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے ذریعے سے کوئی ایسی حکومت آجائے جو مغرب اور دشمنان اسلام کی تھوڑی سی بھی خلاف ورزی کریں تو مغرب کے غلاموں کے ٹینک، توپیں، گولے اور گولیاں اس کے انتظار میں ہوتی ہے، جیساکہ بھی کچھ عرصہ پہلے مصر میں ہوا اور اس سے پہلے الجزائر میں ہوا۔
اے علمائے کرام! میں آپ کودعوت دیتا ہوں کہ آپ امت میں اپنے دین، اپنے نبیﷺ کی حرمت اور اپنے مقدسات کے دفاع کی خاطر اللہ کی راہ میں شہادت پانے کی محبت پر ابھاریں۔ آپ امت کو یہ سکھائیں کہ اللہ کے راستے میں جان دینا اللہ کی نافرمانی میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے۔ نیز ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کی قیمت کم اور تھوڑی ہے، بنسبت اس قیمت کے جو ظلم کے آگے سرجھکانے کی وجہ سے سہنی پڑتی ہے۔ اور آپ اپنی امت کو سکھائیں کہ جو کوئی آزادی کی خواہش رکھتا ہے تو اسے اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور آزادی کی قیمت موت ہے۔
الحاج ملک الشہبازؒ (میلکم ایکس):
ہم ان لوگوں کے ساتھ پرامن ہیں جو ہمارے ساتھ پرامن ہیں۔ لیکن ہم کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ پرامن نہیں ہیں جو ہمارے ساتھ پرامن نہیں ہے۔
نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ میں ہرگز نہیں کہوں گا کہ بہتری آرہی ہے۔ کوئی میری پیٹھ میں نو انچ تک خنجر گھونپ دے اور پھر چھ انچ باہر نکال کر کہے کہ بہتری آرہی ہے۔ اسے بہتری نہیں کہیں گے۔ وہ پورا خنجر بھی نکال لے تب بھی اسے بہتری نہیں کہیں گے۔ بہتری اس وقت آئے گی جب اس زخم پر مرہم رکھا جائے گا جس سے مجھے درد ہوا ہے۔
جب مجرم مجھ پر حملہ آور ہوں گے تو میں اپنا دفاع کرنے کے لیے ہر ضروری طریقہ استعمال کروں گا۔
آزادی کی کبھی بھیک نہیں مانگی جاتی۔ بلکہ آزادی کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
آپ کس قیمت کی بات کررہے ہیں؟
آزادی کی قیمت موت ہے!
میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ امت مسلمہ کو نبیﷺ کی اس حدیث پر عمل پیرا ہونے کی طرف بلائیں۔
"سيد الشهداء حمزة بن عبد المطلب ورجلٌ قام إلى إمامٍ جائرٍ فأمره ونهاه فقتله".
سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سید الشہداء ہیں اور وہ شخص بھی اس اعزاز کا حق دار ہے جو ظالم و جابر حکمران کے سامنے ڈٹ جائے اور اسے (نیکی کا) حکم دے اور (برائی سے) اسے روکے تو وہ اسے شہید کردے۔''
ڈاکٹر عبداللہ عزامؒ:
میرے بھائیوں!
اسلام کی دعوت کے راستے ناپسندیدہ مشکلات سے گھرے ہوئے اور خطرات سے پر ہیں۔ قید و بند، قتل، بے دخلی اور دربدر۔ لہذا جو کوئی بھی مبادی اٹھانا اور کوئی دعوت پہچانا چاہتا ہے تو وہ ان چیزوں کا سامنا کرنے کے لیے انہیں اپنے سامنے رکھیں۔ اور جو کوئی اس دعوت کو پھولوں کا بستر، نغمہ شیریں، یا بھرپور مجمع لگانے والا درس، یا لفاظی سے بھرپور خطبہ سمجھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ پیغمبروں، داعیوں اور ان کے پیروکاروں کی زندگیوں کا موازنہ اس وقت سے کرنا شروع کردے کہ جب سے یہ دین آیا ہے، بلکہ جب سے رسولوں کو مبعوث کیا گیا ہے ، اس وقت سے لیکر ہمارے آج تک۔
اے بنگلہ دیش کے علمائے اسلام!
آپ کو سیکولروں اور ملحدین کے ساتھ فکری دعوتی معرکہ لڑنا چاہیے تاکہ آپ ان کے عقائد وافکار کے باطل پن کو نمایاں کریں اور اپنی عوام کے لیے ان کی ناکامیوں، ان کی رسوائیوں، ان کے انحطاط اور اس گپ اندھیرے والے انجام کو بے نقاب کرنا ہوگا جس کی طرف یہ ملک کو لیکر جارہے ہیں۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ بنگلہ دیش میں امت مسلمہ کے لیے شریعت کی خوبیاں اور شریعت جس عدل وانصاف، آزادی، عزت وعفت، اخلاق واقدار کی حفاظت، اور انسانیت کا احترام کی طرف بلاتی ہے، اسے بیان کریں۔
اے علمائے اسلام! آپ امت کے قائدین ہیں۔ اگر آپ صحیح رہے تو امت صحیح رہے گی۔ اگر آپ ثابت قدم رہے تو امت بھی ثابت قدم رہے گی۔ پس اللہ سے اس امانت اور ذمہ داری کے بارے میں ڈریں جو آپ اٹھائے ہوئے ہیں اور عنقریب (روز قیامت) آپ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ خبردار رہیں کہ آپ کی طرف سے کبھی بھی اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
اے علمائے اسلام! اسلام کے جھنڈے تلے متحد، متفق اور مجتمع ہوجائیں۔ مغرب، ہندوستان، سیکولروں اور ملحدوں کے اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ساتھ اپنی امت کو بھی متحد کرلو۔ آپ حضرات ان کیخلاف متحد ہوجائیں قبل اس کے کہ یہ ظالم آپ کو بھی اپنے آقاؤں کا غلام بنالیں اور آپ کو آپ کے عقیدے، عزت، آزادی اور خودمختاری سے محروم کردیں۔ آ پ سب اپنے بیانات کو کلمہ توحید پر یکجا کرلیں۔
جماعت قاعدۃ الجہاد میں آپ کے بھائیوں نے ''وثیقہ نصرت اسلام'' دستاویز کو جاری کیا ہے جس میں انہوں نے امت مسلمہ کو اتحاد کی طرف بلایا ہے۔ میں اسے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ اسے دیکھ کر اس سے استفادہ کریں۔
بنگلہ دیش کے میرے مسلمان بھائیو! اللہ کی مدد اور اس کی قوت سے افغانستان میں امارت اسلامیہ کی فتح قریب ہے جو اسلام اور مومنوں کی فتح ہوگی اور دشمنان اسلام، بین الاقوامی مجرموں کے سرغنوں، ان کے اتحادیوں اور مشرق اسلامی میں موجود ان کے مقامی ایجنٹوں کے لیے اللہ کے حکم سے شکست ورسوائی ہوگی۔ لہذا! آپ سب اس مبارک امارت کی مدد اپنی استطاعت کے مطابق مال، جان، رائے، فکر اور دعوت سے کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ پس ثابت قدم رہیں، اور صبر کریں۔ پس بلاشبہ اللہ کی فتح قریب ہی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ ۝ فَقَالُوْا عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ۝ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ۝ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُيُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۝ وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَآ اِنَّكَ اٰتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَهٗ زِينَةً وَّاَمْوَالًا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۙرَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْــلِكَ ۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ۝ قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ ۝
اور موسیٰ نے کہا کہ بھائیو! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ رکھو، اگر تم (دل سے) فرمانبردار ہو۔ تو وہ بولے کہ ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھ سے آزمائش میں نہ ڈال اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش دے۔ اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی مسجدیں) ٹھہراؤ اور نماز پڑھو۔ اور مومنوں کو خوشخبری سنادو۔ اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور مال ودولت سے نواز رکھا ہے۔ اے پروردگار! (کیا)ان کا مال اس لیے ہے کہ یہ تیرے راستے سے گمراہ کردیں۔ اے پروردگار ان کے مال کو برباد کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ اللہ نے فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی؛ پس تم ثابت قدم رہنا اور بےعقلوں کے راستے پر نہ چلنا (سورۃ یونس: ۸۴ - ۸۹)
اے ہماری امت مسلمہ! بنگلہ دیش میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں، وہ مغربی میڈیا اور اس کے پیچھے عالم اسلام کے میڈیا کا مغرب، بھارت اور دشمنان اسلام کے سیاستدانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ بنگلہ دیش کی سڑکوں اور گلیوں میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا لیکن ان کے لئے کوئی ایک بھی حرکت میں نہیں آیا بلکہ میڈیا نے اسے معمولی واقعہ بناکر سرسری انداز میں نشر کیا اور حکومت کے بیانات نشر کرتے رہیں کہ مرنے والوں کی تعداد لگ بھگ ایک سو ہے۔ جبکہ ہزاروں مسلمانوں کے قتل کیے جانے کے باوجود بنگلہ دیش میں بدستور مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ تاہم مغرب حرکت میں نہیں آرہا اور بھارت اس پر خوشی کا اظہار کررہا ہے۔ پھر وہ سب فساد برپا کرنے والی بنگلہ دیشی کرپٹ حکومت کو فنڈ اور امداد دے رہے ہیں۔
مصر میں جب پانچ ہزار سے زائد مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور ان کی لاشیں سڑکوں پر جلادی گئیں تو امریکا نے پرامن رہنے اور مفاہمت کی طرف بلایا۔ لیکن جب افغانستان، کشمیر، عراق، فلسطین، فلپائن، گجرات، احمد آباد اور صومالیہ میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا تو تب کوئی حرکت میں نہیں آیا۔
مگر جب افغانستان، مالی اور صومالیہ کی عوام نے بیرونی جارحیت سے آزادی اور سیکولر حکمرانوں سے چھٹکارا پاکر شریعت کی حکمرانی قائم کرنا چاہی تو ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اور دنیا بھر کے بڑے مجرموں اور ان کے مقامی پٹھوؤں نے مل کر ان پر صلیبی حملے برپا کرنا شروع کردیئے۔ ان کے گھروں، دیہاتوں کو ملیامیٹ کردیا گیا، ان کے بچوں اور عورتوں کو شہید کیا گیا اور انہیں شریعت کی حکمرانی قائم نہیں کرنی دی گئی کیونکہ یہ آزادی کے دشمن دہشت گرد ہیں۔ لیکن جب سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور علی رجب حیدر جیسے لوگ اسلام، نبی اسلامﷺ اور عقائد اسلام کی توہین کرتے ہیں تو وہ ہیرو ہیں، ان کو تحفظ فراہم کرنا واجب ہے، ان کو انعامات اور ایوارڈوں سے نوازا جاتا ہے اور ان کا وائٹ ہاؤس، اور ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ہے۔ کیوں؟۔ اس لئے کہ وہ اس آزادی کی علامت ہیں جس کا مغرب اور دشمنان اسلام دفاع کرتےہیں۔ لیکن جو مسلمان گوانٹانامو اور سی آئی اے کے اعلانیہ وخفیہ عقوبت خانوں میں قید ہیں، وہ آزادی کے مستحق نہیں ہیں بلکہ ان کو تشدد وتعذیب کا نشانہ بنانا لازمی ہے، ان کو اپنے بنیادی (انسانی) حقوق سے محروم رکھنا اور ان کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے امریکی حکومت اپنی خواہشات کے مطابق جتنی مدت چاہے قید رکھ سکتی ہے ، کیونکہ وہ انسانوں کی نسل سے نہیں ہیں کہ جنہیں امریکہ انسانی حقوق دیں اور نہ ہی یہ ان کنونشن اور معاہدوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں جن کی بابت امریکا انسانوں والا برتاؤ کرنے کا پابند ہے۔ یہ قوت، تکبر اور گھمنڈ کی منطق ہے۔ یہ انسانی حقوق نہیں ہیں بلکہ یہ اسلام کیخلاف مسلمان انسان پر جارحیت مسلط کرنے کے انسانی حقوق ہیں۔ یہی وہ مغرب کا متکبرانہ رویہ ہے جسے امام اور وقت کے مجدد شیخ اسامہ بن لادنؒ نے بخوبی سمجھ لیا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے مغرب سے اس منطق کے ساتھ بات کی جسے وہ سمجھتا ہے اور جس کے ساتھ مانتا بھی ہے؛ یعنی ظلم اور سرکشی کے مقابلے میں طاقت کی منطق۔
مغرب کی نگاہ میں آزادی کا مطلب اس کا غلام ہونا ہے کہ طوطے کی طرح بس وہی دہراتے رہو جو وہ تم سے کہتا جائے اور تم صرف (ہر وقت) اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے میں لگے رہو۔ لیکن اگر تم لوگوں کو توحید، اسلام، جہاد، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شریعت کی حکمرانی قائم کرنے کی طرف بلاؤں گے تو تم دہشت گرد ہو اور تمہارا حل صرف بمباری، قتل اور جنگ ہے۔ آپ کو اپنی شریعت کے مطابق حکمرانی قائم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، چاہے آپ کے عوام کی اکثریت ہی کیوں نہ آپ کی تائید کرتی ہو۔
کیونکہ جمہوریت وہ یک طرفہ راستہ ہے جو آپ کو وہیں پہنچائے گی جہاں آپ مغرب کی خدمت کرسکیں۔ لیکن اگر آپ جمہوریت کے ذریعے مغرب کے مفادات کے خلاف کوئی کام کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ دہشت گرد ہیں۔جمہوریت کی حقیقت جو اس کے حامی چھپاتے ہیں کہ: یہ جمہوریت اکثریت کی مطلق العنانی ہے۔ پس اکثریت جو چاہتی ہے، جس طرف راغب ہوتی ہے، جو خواہشات رکھتی ہے اور جو فیصلے کرتی ہے؛ وہی حق، وہی قانون ہے اور وہی ہر صورت میں بجالانے والا واجب دین ہے۔ یہ اس خطرناک ترین اصول سے نکلنے والا نتیجہ ہے جو ان کے نزدیک ہے کہ بالادستی وحاکمیت اللہ کی نہیں بلکہ عوام کی ہے۔جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی دین، ایمان، اقدار اور اصول کو نہیں پہچانتی ہے۔ اس جمہوریت میں ہر چیز جائز ہے جب تک اسے اکثریت کے ووٹ حاصل ہوں۔
پس جمہوریہ برطانیہ یہ ہے جس نے صدیوں تک مسلم سرزمینوں پر قبضہ کیا، لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کے وسائل لوٹتا رہا۔
اسرائیل کو فلسطین دینے کا وعدہ کیا اور اسے صہیونیوں کے حوالے کرکے وہاں سے انخلاء کردیا۔
جمہوریہ امریکہ یہ ہے کہ اس نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے۔ جمہوریہ امریکا ہی نے ویت نام کو جلا ڈالا اور پچاس لاکھ انسانوں کا قتل کیا۔
جمہوریہ امریکا ہی مسلمانوں کے تیل چوری کررہا ہے اور ان کے ملکوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ یہی ہے جس نے عراق میں پچاس لاکھ بچوں کو قتل کیا۔ یہی ہے وہ جس نے افغانستان اور عراق پر صلیبی حملوں میں لاکھوں کو قتل کیا۔ یہی وہ جمہوریت والا امریکہ ہے جو اسرائیل کو وجود میں لایا، اسے اسلحہ دیکر مسلح کیا، اسے مال اور سپورٹ فراہم کی اور اس کا دفاع کرنے کا عہد کررکھا ہے۔ جمہوریہ امریکہ ہی وہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں ان تمام کنونشنز اور معاہدوں سے روگردانی کیں جن پر اس نے قیدیوں سے برتاؤ کرنے اور انہیں تشدد کا نشانہ نہ بنانے کے حوالے سے دستخط کررکھے تھے۔جمہوریت والا اسرائیل یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے، ان سے ان کے گھروں اور زمینوں کو زبردستی چھینتا ہے۔ جب اس کے خلاف فلسطینی مزاحمت کریں اور جہاد کریں تو اس کو یہ لوگ اور اس کی پشت پر موجود مغرب بھی مجرم دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔جمہوریہ بھارت یہ ہے کہ وہ کشمیر، گجرات، احمد آباد اور آسام میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کررہا ہے۔
یہ سارے جرائم چونکہ اکثریت کی رضامندی سے ہورہے ہیں، اس لیے دین جمہوریت کے مطابق یہ قانونی جائز ہیں۔
جمہوریت دین اسلام کے متضاد اور مخالف ایک دین ہے کیونکہ اسلام میں اطاعت اللہ کی شریعت کی ہے جبکہ جمہوریت میں اطاعت
اکثریت کی خواہشات کی ہے۔ اسلام میں بالادستی وحاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے جبکہ جمہوریت میں عوام کے لیے ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے کہ:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ
(سن رکھو کہ) اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (یوسف: ۴۰)
لہذا جس طرح نصرانی عقیدے کے ذریعے اسلام کی حکمرانی قائم کرنے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، بالکل اسی طرح جمہوریت کے ذریعے سے اسلام کی حکمرانی قائم کرنے تک پہنچنا ناممکن ہے۔ کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ آپ سے کوئی انسان کہے کہ نصرانی بن جاؤ تاکہ تم شراب اور زنا کو حرام قرار دینے تک پہنچ سکوں؟ اسی طرح یہ قبول کرنا ناممکن ہے کہ آپ سے کوئی انسان کہے کہ شریعت کی حاکمیت اور اللہ کی بالادستی کو چھوڑ کر اکثریت کی حاکمیت اور عوام کی بالادستی کو قبول کرلوں تاکہ تم اسلام کے احکام نافذ کرنے تک پہنچ سکوں۔
ہماری مظلوم ومقہور امت مسلمہ! بلاشبہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے وہ برما میں مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات سے زیادہ مختلف نہیں ہے، جہاں دشمنان اسلام اپنی حکومت کو مسلمانوں کی ہر ایک خون ریزی کرنے کے بعد مزید اقتصادی امداد اس ملک میں انسانی حقوق کی حالت کو بہتر بنانے کے بہانے سے نوازتے رہتے ہیں۔ جی ہاں ! مجرمانہ انسانی حقوق یہ ہے کہ مظلوم، مجبور اور مقہور مسلمان انسان پر سرکشی اور جارحیت کی جائے۔ انسانی حقوق یہ ہے کہ مسلمان انسان پر جارحیت کرتے ہوئے اسلام کیخلاف لڑا جائے۔ یہ انسانی حقوق کے فریب کی اصل حقیقت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں انسانی حقوق کے نعروں سے بے وقوف بنالیں گے، جبکہ ہمارا خون بہایا جارہا ہے اور ہماری حرمتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خاتون ''سوچی'' جسے وائٹ ہاؤس میں گرم جوشی سے استقبال اور نوبل انعام اس وجہ سے دیا گیا کہ اس نے برما میں نام نہاد انسانی حقوق کا دفاع کیا ہے جبکہ اس لیڈرکی اصل حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی اپنے ملک میں مسلمانوں کے ہونے والے قتلِ عام کے بارے میں منفی رویہ کو اختیار کررکھا تھا۔بلاشبہ برما میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس کی امریکہ بھی خاموشی کے ساتھ حوصلہ افزائی کررہا ہے اور مبارکباد یہ کہہ کر دے رہا ہے کہ: ''برما بھی امریکہ کے اختیار کردہ اور اس کے بنائے ہوئے انسانی حقوق اور جمہوریت کی راہ پر پیش قدمی کررہا ہے''۔اسرائیل کے لیے انسانی حقوق یہ ہے کہ فلسطینی انسان کو قتل کرنا۔ امریکہ کے لیے انسانی حقوق یہ ہے کہ عراق، افغانستان اور یمن پر بمباری کرنا۔ فرانس کے لیے انسانی حقوق مالی پر بمباری کرکے اس پر قبضہ جمانے میں ہے۔
بیشک امریکا اپنی مجرمانہ خاموشی، رضامندی اور تائید کے ساتھ برما میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس میں برابر کا شریک ہے۔اگر امریکہ اور مغرب کی تائید وحمایت نہ ہوتی تو بنگلہ دیش میں موجود اس کے پٹھوؤں کبھی بھی نبیﷺ کو گالیاں دینے کی جرأت نہیں کرتے۔
ہم پر لازم ہے کہ ہم سوڈان اور انڈونیشیا میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر مغرب کے رونے دھونے اور بنگلہ دیش، برما، فلپائن، ہندوستان، افغانستان، کشمیر، عراق، یمن، صومالیہ، مالی، فلسطین اور مصرمیں مسلمانوں کے قتلِ عام پر مغرب کے مکمل خاموش اور بہرہ بنے رہنے کے درمیان مواز نہ کریں تاکہ ہمیں یہ سمجھ آجائیں کہ حقوق انسانی صرف ان (کافروں) کے انسانوں کے حقوق ہیں، ہمارے (مسلمان) انسانوں کے حقوق نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش اور برما میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اس سے بالکل مختلف نہیں ہے جو قتلِ عام وظلم مسلمانوں کے ساتھ کشمیر میں ہورہا ہے اور جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں، آسام میں، گجرات اور احمدآباد میں ہورہا ہے۔ پس کیا یہ ممکن ہے کہ جنوبی اور مشرقی ایشیا میں مسلمانوں کیخلاف جو مظالم ہورہے ہیں، وہ بغیر کسی پلاننگ اور تدبیر کے غیر دانستہ طور پر اتفاقیہ ہے یا یہ ایک رچائی ہوئی سازش ہے جس میں مغرب، دہلی اور بیجنگ کی اسلام دشمن قوتیں باہم شراکت دار ہیں؟ پھر اگر ہم ان واقعات کی کڑیاں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور افغانستان، عراق، شام، فلسطین، یمن، صومالیہ، مالی اور گزشتہ چند عرصہ قبل مصر میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، ان سے جوڑیں تو اس سے ہمارے سامنے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
دنیا بھر کے میرے مسلمان بھائیوں! ہم پر لازم ہے کہ ہم حتی المقدور ہرممکن جدوجہد کرکے بنگلہ دیش، ہندوستان، برما اور سری لنکا میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں پر سے ظلم کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہیں۔ دین کی غیرت رکھنے والے داعیان، مصنفوں، صحافیوں، نشرواشاعت والوں اور اہل رائے (مفکرین) پر لازم ہے کہ وہ ان مظالم کو نمایاں کریں اور لوگوں کے سامنے بے نقاب کریں تاکہ لوگ ان ممالک کی حکومتوں پر مسلمانوں کیخلاف جرائم روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ مخیر حضرات، مالداروں اور مسلمانوں کے معاملات کو سپورٹ کرنے والے تاجروں پر لازم ہے کہ وہ برما میں موجود اپنے بھائیوں کے لیے وہ کچھ فراہم کریں جس سے وہ اپنی ضروریات کو پورا اور فاقوں کو ختم کرسکیں۔
کشمیر، گجرات، آسام اور احمدآباد کے ہمارے اہل خانہ اور ہمارے مسلمان بھائی جو قابل نفرت ہندو کے قبضے کے تحت جی رہے ہیں، پس
میں ان سے یہ کہوں گا کہ: شاید وہ جرائم جن کو آپ بھارت اور کشمیر میں دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، وہ آپ کے سامنے قومیت پرستی والی جمہوریت کی پکار کے جھوٹ اور فریب کو ثابت کررہے ہیں جو آپ کو ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک ایسے جمہوری قومی نظام میں حصہ لینے کی طرف بلارہا ہے جو مسلمان اور ہندو کو یکجا کرتا ہے۔ شاید کہ آپ اب تک اس حقیقت کو سمجھ چکے ہوں گے کہ یہ نظام مسلمانوں اور ہندوؤں کو یکجا اس لیے کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کو آسان شکار بناکر ہندوؤں کے سامنے پیش کرسکیں۔
بغض انگیز ہندو کے قبضے کی آگ میں رہنے والے میرے معزز بھائیواور ہمارے اہل خانہ مسلمانو! ہم لازم ہے کہ ہم عقیدہ الولاء والبراء کو مضبوطی سے پکڑیں اور اللہ معبود برحق سبحانہ وتعالی کے اس ارشاد کو یاد رکھیں:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَيْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ۝ اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ۝
اے مومنو! اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔ تم تو انکو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ لوگ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ وہ پیغمبر کو اور تمہیں اپنے پروردگار، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علی الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ اگر یہ کافر تم پر قدرت پالیں تو تمہارے دشمن ہو جائیں اور ایذا کے لئے تم پر ہاتھ (بھی) چلائیں اور زبانیں (بھی) اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ۔ (الممتحنہ: ۱۔۲)
اور اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا:
لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۝ اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۝
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تو ان لوگوں کیساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔ (الممتحنہ: ۸۔۹)
اور ہمیں اللہ سبحانہ وتعالی کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۝ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا ۝
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔ جو مومن ہیں سو وہ تو اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مدد گاروں سے لڑو (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ بود ہوتا ہے۔ (النساء: ۷۵ ۔ ۷۶)
ہندستان کی ظالم و غاصب و مجرم حکومت سے یہ کہوں گا کہ جرائم بغیر قیمت چکائے ایسے ہی گزر نہیں جاتے ہیں۔ پس جو کوئی کانٹا بوئے گا تووہ پھولوں کی فصل نہیں کاٹے گا۔ بیشک حق اپنے اصل مالکان کی طرف لوٹ کر ہی رہے گا چاہے کچھ عرصہ بعد ہی کیوں نہ
ایسا ہو۔ بے شک اللہ تعالی نے سچ فرمایا:
وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ
اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں (الشعراء: ۲۲۷)
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين،
ہمارا آخری کلام یہ ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
وصل اللهم على سيدنا محمدٍ وآله وصحبه وسلم،
درودہو، جناب محمد، ان کے آل پر اور ان کے ساتھیوں پر بہت زیادہ درودوسلام۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 
Top