عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
بنی اسرائیل پر ۴۰ برس سایہ رہا یا بارش؟
ابن آدم
قرآنِ کریم کی آیت﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْکُمُ الْغَمَامَ﴾ کی تفسیر ان دنوں بعض مفسرین نے اس طرز پر کی ہے جو تفسیرسلف کے مخالف ہے۔چنا نچہ ایک نامور مفسرآیت ِکریمہ ﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْکُمُ الْغَمَامَ﴾ (البقرة:۵۷) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”فکيف يکون المراد الظلّ المعروف“ سے اشارہ کرتے ہیں کہ جو معنی صحابہ نے کئے ہیں کہفی واد التيه أی أرسلنا السماء عليکم مدرارا لأن بني إسرائيل أقاموا فی واد التيه أربعين سنة فکيف يکون المراد الظل المعروف فافهم لقوله تعالی ﴿فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أرْبَعِيْنَ سَنَةً﴾
”ہم (اللہ) نے جنگل میں بنی اسرائیل پر بارش اُتاری … جو لوگ سایہ کا معنی کرتے ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ بنی اسرائیل جنگل میں چالیس سال ٹھہرے تو سایہ کا معنی کیسے صحیح ہوسکتا ہے اللہ فرماتا ہے ﴿فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أرْبَعِيْنَ سَنَةً﴾ یعنی شام کی زمین ان پر چالیس سال حرام ہے۔“
… وہ غلط ہیں۔”بنی اسرائیل بیابان میں جب گرمی سے تنگ آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ابر کا ٹھنڈا سایہ کیا اور یہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا“
غلط ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے، اس میں دو احتمال ہیں: یا تو یہ مطلب ہے کہ بنی اسرائیل جنگل میں چالیس سال رہے تو اتنی مدت ابر کا سایہ ہونا عادةً ناممکن ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ابر کا سایہ تو ان پر آرام کی خاطر ہوا تھا اور چایس سال تک ابر کا سایہ رہنا باعث ِراحت نہیں بلکہ باعث ِتکلیف ہے کیونکہ کسی وقت انسان کا دل دھوپ کو بھی چاہتا ہے۔ اگر پہلا احتمال ہو تو تمام معجزات سے اِنکار لازم آئے گا کیونکہ معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جو عادةً ناممکن ہے ۔ اس کے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ وہاں کثرت سے بارش ہونا ، یہ بھی عادة ًناممکن ہے کیونکہ اس ملک (مصر کے علاقہ) میں بارش نہیں ہوتی۔
اگر دوسرا احتمال ہو تو یہ بھی صحیح نہیں،
اوّلاً : اس لئے کہ جن ملکوں میں بارہ مہینے گرمی رہتی ہے یا متوسط ہیں، ان میں بارہ مہینے سایہ باعث ِراحت ہے۔
ثانیاً : ا س لئے کہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا کہ سایہ تمام جنگل میں تھا۔ممکن ہے کہ بہت جگہ دھوپ ہو بلکہ ظاہر یہی ہے کہ کیونکہ تمام جنگل میں سایہ کی کیا ضرورت تھی، صرف ان کے ڈیروں پرسایہ ہونا کافی تھا تو اگر کسی وقت ان کا دل دھوپ کو چاہتا تھا تو دھوپ سے یہی فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔
ثالثا ً: اسلئے کہ جو اعتراض آپ سلف کی تفسیر پرکرتے ہیں ، وہی اعتراض آپ کی تفسیر پر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ جس طرح بارہ مہینے ابر کا سایہ باعث ِتکلیف ہے، اسی طرح بارہ مہینے بارش بھی باعث ِتکلیف ہے بلکہ سایہ تو انسان برداشت کرسکتا ہے، بارش کو برداشت کرنا مشکل ہے۔اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ وقتاً فوقتاً حسب ِضرورت ان پر بارش ہوتی تھی تو یہی ابر کے سایہ کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔
رابعاً : اس لئے کہ بارش کے اصل فائدہ (یعنی اناج وغیرہ کا پیدا ہونا) سے تو وہ محروم تھے، اسی واسطے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا
اگر یہ چیزیں وہاں پیدا ہوتیں تو موسیٰ علیہ السلام کو دعا کے لئے نہ کہتے اور موسیٰ علیہ السلام ان کو یہ جوا ب نہ دیتے کہ ان چیزوں کے لئے خدا سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیزیں شہروں میں مل سکتی ہیں۔ جب بارش کے اصل فائدہ سے محروم تھے تو بارش کیوں ہوتی تھی؟﴿لَنْ نَّصْبِرَ عَلیٰ طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الاَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا …الاية﴾ یعنی ”ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، خدا سے دعا مانگ کہ ہمارے لئے ساگ، ککڑی، گیہوں اورمسور وغیرہ زمین سے پیدا کرے“