عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
بوند بوند پانی
تحریر:سید محمد عابد
پانی انسان کے لئے خدا کی طرف سے فراہم کردہ عظیم نعمت ہے، پانی کے بغیر انسان کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ انسان جب پانی پیتا ہے تو اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام انسان، چرند، پرند، جانور اورپودوں کی نشوونما کے لئے پانی لازمی ہے۔ پانی جہاں زرعی اجناس کی پیداوار کے لئے ضروری ہے وہیں پانی سے بجلی کی پیداوار بھی حاصل کی جاتی ہے۔ پانی انسانوں کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ آکسیجن۔۔۔ خدا نے انسان کو آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے پیدا کیا، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانی انسان کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ انسانی جسم کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ ایک عام انسان کے جسم میں پینتیس سے پچاس لیٹر تک پانی ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کنوﺅں اور دریاﺅں کے پانی کو روز مرہ زندگی میں استعمال کیا کرتا تھا۔ آج کے دور میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے دریاﺅں اور ندی نالوں کے پانی کو بڑے آبی ذخیروں میں محفوظ کیا جاتا ہے اور پانی کو ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک پانی کو بڑے آبی ذخائر میں محفوظ کر کے اسے اپنی ضروریات کے تحت استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی بجلی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دو بڑے ڈیمز منگلا اورتربیلا موجود ہیں۔ منگلا ڈیم کی تعمیر ضلع میرپور میں 1967ءمیں کی گئی، ڈیم چار سو چون فیٹ اونچا اور دس ہزار تین سو فیٹ لمبا ہے جبکہ ڈیم میں دس پاور جنریشن پلانٹ نصب ہیں جن سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں دوسرا تعمیر ہونے والا ڈیم تربیلا ڈیم تھا جو کہ صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) کے ضلع ہری پور میں 1971ءمیں تعمیر کیا گیا، ڈیم کی اونچائی چار سو پچاسی فیٹ اور ڈھائی سو سکیئر کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے جبکہ ڈیم سے چوتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی ناقص پولیسیوں کے باعث تربیلا ڈیم کے بعد پاکستان میں کوئی بھی بڑا ڈیم وجود میں نہیں آسکا جس کی وجہ سے آج پاکستان پانی کے شدید مسائل میں مبتلا ہے۔ جب بھی ڈیم بنانے کی بات کی جاتی ہے تو کالا باغ کا نام لے لیا جاتا ہے جس کو بنانے کے لئے ضلعی حکومتیں متفق نہیں، ڈیمز کے بننے کی باتیںتو کی جاتی رہیں ہیں مگر اس اہم مسئلے کو سیاست کی نظر کر دیا جاتا رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم ضلع میانوالی میں کالاباغ کے مقام پر بنایا جانا تھا۔ ان دنوں پاکستان ایک عشاریہ پانچ بلین ڈالر کی لاگت سے ایک بڑے ڈیم نیلم جہلم پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جو کہ دریائے جہلم کے پانی کو روک کر بنایا جا رہا ہے، ڈیم سے نو سو انتھر میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی اور پانی کی وسیع مقدار بھی محفوظ ہو سکے گی۔ مگر اس کے پانی پر بھی بھارت کی نظر لگی ہوئی ہے کیونکہ بھارت بھی دریائے جہلم کے پانی کو روک کر تین سو تیس میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا حامل کرشن گنگا ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ غیر قانونی ہے اور سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریائوں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت جبکہ سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا کہ جب پاکستان نے بھارتی بگلیہار ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات کئے اور اسے ورلڈ بینک کے مقرر کردہ سوئس شہری پروفیسر ریمنڈ لیفیت نے درست تسلیم کیا تھا۔ اس معاملے کے بعد سے بھارتی آبی جاحیت کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔