سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
اْس کی عمر اسّی سال سے تجاوز کرچکی تھی۔ وہ ممبئی کے ایک پاش علاقہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ مقیم تھا۔ بیٹی کے ساتھ وہ اس لیے نہیں رہ رہا تھا کہ اللہ نے اسے بیٹے نہیں دیے تھے۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ چار میں سے ایک بیٹا پاگل تھا۔ باقی تین جو پاگل نہیں تھے وہ اپنی اپنی لائف میں سیٹل ہوچکے تھے۔ البتہ ان میں سے کوئی باپ کا "بوجھ" اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے باپ اپنی بیٹی کے ساتھ مقیم تھا۔
باپ پریشان تھا۔فلیٹ جس میں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ مقیم تھااس کی زندگی کی واحد جمع پونجی تھا۔ اس کے تینوں بیٹے جو پاگل نہیں تھے وہ باپ سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ باپ اکلوتا فلیٹ بیچ دے ۔ اور ان کا جو "شرعی حصہ" ہوتا ہے وہ ان کو دے دیا جائے۔( حالانکہ شرعی اعتبار سے باپ کی زندگی میں باپ کے مال میں بیٹے کا کوئی حصہ نہیں ہوتا الٹا بیٹا اپنے مال سمیت باپ کا حصہ ہوتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ وعلیہ وسلم سے ایک صحابی نے شکایت کی میرا باپ مجھ سے میرا مال مانگتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کا ہے ۔ ) فلیٹ بیچ دینے کے بعد باپ کہاں جائے یہ ان کا مسئلہ نہیں تھا۔ پر باپ کا تو مسئلہ تھا ہی ۔ وہ اس مسئلہ کو لے کر پریشان تھا۔
یہ کوئی افسانہ نہیں اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھی حقیقت ہے ۔ اور ایسی مکروہ حقیقتیں ہمارے ارد گرد سیکڑوں کی تعداد میں بکھری پڑی ہیں اور ہمارے سماج کے جسم پر پھوڑوں کی طرح بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ہم خطرناکی کی حد پار کرکے اس مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اچھا خاصا "دیندار آدمی" آکر پوچھتا ہے :
"مولانا! میری بیوی امی ( جو معمر بھی ہیں اور بیوہ بھی) کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ میں کیا کروں؟"
ہمارے سماج کےاکثر بوڑھوں کے پاس بڑھاپے میں اپنے بچوں سے "خدمت" وصول کرنے کا واحد راستہ اس کی زندگی میں بنائی گئی پراپرٹی ہے ۔باپ کے پاس اپنے بچوں سے بڑھاپے کی خدمت کرانے کے لیے بس یہ دھمکی ہوتی ہے کہ ’’ اگر میری خدمت نہیں کی تو جائداد دوسروں کے نام کردوں گا۔ اور بچوں کے پاس بڑھاپے میں باپ کا بوجھ اٹھانے کے لیے ’’پراپرٹی ‘‘ ہی ایک واحد وجہ ہوتی ہے ۔
کیا یہ ہمارے زمانہ کا کڑوا سچ نہیں ہے کہ باپ بوڑھا ہوجانے کے بعد پراپرٹی بچوں کے نام نہیں کرتا صرف اس ڈر سے کہ اگر پراپرٹی بچوں کے نام کردی تھی وہ خود دربدر ہوجائے گا؟
باپ پریشان تھا۔فلیٹ جس میں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ مقیم تھااس کی زندگی کی واحد جمع پونجی تھا۔ اس کے تینوں بیٹے جو پاگل نہیں تھے وہ باپ سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ باپ اکلوتا فلیٹ بیچ دے ۔ اور ان کا جو "شرعی حصہ" ہوتا ہے وہ ان کو دے دیا جائے۔( حالانکہ شرعی اعتبار سے باپ کی زندگی میں باپ کے مال میں بیٹے کا کوئی حصہ نہیں ہوتا الٹا بیٹا اپنے مال سمیت باپ کا حصہ ہوتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ وعلیہ وسلم سے ایک صحابی نے شکایت کی میرا باپ مجھ سے میرا مال مانگتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کا ہے ۔ ) فلیٹ بیچ دینے کے بعد باپ کہاں جائے یہ ان کا مسئلہ نہیں تھا۔ پر باپ کا تو مسئلہ تھا ہی ۔ وہ اس مسئلہ کو لے کر پریشان تھا۔
یہ کوئی افسانہ نہیں اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھی حقیقت ہے ۔ اور ایسی مکروہ حقیقتیں ہمارے ارد گرد سیکڑوں کی تعداد میں بکھری پڑی ہیں اور ہمارے سماج کے جسم پر پھوڑوں کی طرح بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ہم خطرناکی کی حد پار کرکے اس مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اچھا خاصا "دیندار آدمی" آکر پوچھتا ہے :
"مولانا! میری بیوی امی ( جو معمر بھی ہیں اور بیوہ بھی) کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ میں کیا کروں؟"
ہمارے سماج کےاکثر بوڑھوں کے پاس بڑھاپے میں اپنے بچوں سے "خدمت" وصول کرنے کا واحد راستہ اس کی زندگی میں بنائی گئی پراپرٹی ہے ۔باپ کے پاس اپنے بچوں سے بڑھاپے کی خدمت کرانے کے لیے بس یہ دھمکی ہوتی ہے کہ ’’ اگر میری خدمت نہیں کی تو جائداد دوسروں کے نام کردوں گا۔ اور بچوں کے پاس بڑھاپے میں باپ کا بوجھ اٹھانے کے لیے ’’پراپرٹی ‘‘ ہی ایک واحد وجہ ہوتی ہے ۔
کیا یہ ہمارے زمانہ کا کڑوا سچ نہیں ہے کہ باپ بوڑھا ہوجانے کے بعد پراپرٹی بچوں کے نام نہیں کرتا صرف اس ڈر سے کہ اگر پراپرٹی بچوں کے نام کردی تھی وہ خود دربدر ہوجائے گا؟