محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بچوں کی اسلامی تعلیم کا فريضہ :
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
جس طرح ہر مسلمان شخص پر فرض ہے کہ وہ خود ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف ہو , اسی طرح ہر مسلمان ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف کرائیں ,اور اس بابت بالکل غفلت نا برتیں کیونکہ والدین کے اوپر بچوں کے اہم حقوق میں سے ایک اس کو اسلامی تعلیم دلانا بھى ہے,اور اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی اللہ کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے , اور اسلامی تعلیم سے محروم بچہ خود اپنے والدین کی قیامت کے دن اللہ کے حضور میں شکایت کرے گا, اور والدین کے لیے رحمت کے بجائے زحمت ہوگا۔
لیکن آج کے زمانہ میں افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلکہ ان کی اکثریت خود اسلامی تعلیم اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہے, یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے ماں باپ أپنے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے لیے بہت زیادہ دوڑ بھاگ کرتے ہیں , اعلى سے اعلى درجہ کی اسکول ,کالج اور یونیورسٹی کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے ہیں بلکہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں, اور صرف اسکول , کالج کی تعلیم پر اکتفا نہ کرتے ہوئے الگ سے ٹیوشن کا بھی انتظام کرتے ہیں گرچہ ایک عصری مادہ انگلش , فزکس اور کیمسٹری وغیرہ کے لیے ایک ہزار یا اس سے زائد ہی کیوں نہ دینا پڑے, اور پھر اپنے بچوں کو ٹیچر کے گھر بھیجتے ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف ہم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد أپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت سے بالکل غافل ہے, ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احسا س نہیں ہے, یہی وجہ ہے کہ وہ اس بارے میں بالکل توجہ نہیں کرتے ہیں یا اگر توجہ کرتے بھی ہیں تو بہت معمولی قسم کا, اور دینی تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں جتنی اہمیت عصری تعلیم کو دیتے ہیں, لہذا وہ دینی تعلیم پر اتنا خرچ نہیں کرتے ہیں جتنا خرچ عصری تعلیم پر کرتے ہیں, اور نا ہی اسلامی تعلیم کے لیے الگ سے کوئی استاد وغیرہ رکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں, اور اگر بادل ناخواستہ و بحالت مجبوری کوئی معلم ٹیوشن کے لیے رکھتے ہیں تو اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اوراس کا مشاہرہ متعین کرنے میں انتہائی بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور یہ کوشس کرتے ہیں کہ کم سے کم پر مولوی یا حافظ راضی ہوجائے, اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے اور عذر تلاش کرتے ہیں, اور اس کا احترام بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ عموما حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ,جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہونا چائیے تھا کہ ہم دینی تعلیم کے بارے میں عصری تعلیم سے کچھ زیادہ ہی اہتمام اور توجہ کریں کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں یہ ہماری سعادت کا باعث ہے۔
دینی تعلیم سے اسی غفلت, بے توجہی اور روگردانی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک پوری نسل ہی دین سے بیزار نظر آتی ہے, ان کو اپنے دین کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے, خوف خدا ان کے اندر سے مفقود ہے, فرائض پر عمل کرنا ان کے لیے بارگراں ہے چہ جائیکہ وہ سنتوں پر عمل پیرا ہوں, اور دنیا میں مسلمانوں کی ذلت اور خواری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماں باپ اسلامی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں,اور اپنے بچوں کو ضروری و بنیادی دینی تعلیم دلانے کے لیے بھی اتنی ہی محنت کریں بلکہ اس سے زیادہ محنت کریں جتنی محنت ہم عصری تعلیم دلانے کے لیے کرتے ہیں ,اس میں ذرہ برابر کوتاہی نہ کریں تاکہ ہم اپنے بچوں کا حق ادا کرسکیں اور اپنی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی سبکدوش ہو سکیں۔
اوراس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جا سکتے ہیں, جس کے حل کی ایک آسان صورت خاکسار کی نظر میں یہ ہے کہ ہم مسلمان ویکنڈ اسلامک اسکول زیادہ سے زیادہ چلایئں ۔ اسی طرح چھٹی خصوصا لمبی چھٹی کے موقع پر اسلامی تعلیم کیمپ لگائیں, یا گھر پر ہی ٹیوشن کا انتظام کریں یا پڑھے لکھے والدین خود ہی اپنے بچوں کو تعلیم دیں وغیرہ تاکہ ہمارے عصری اور ماڈرن تعلیم حاصل کر رہے بچوں کو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے , اور والدین, علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو ان اسکولوں اور کیمپوں میں شریک ہونے پر آمادہ کریں۔اور مسلمان أصحاب ثروت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اسلامی اسکولوں اور کیمپوں کی دل کھول کر مدد کریں تاکہ ہر کوئی اسلامی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکے۔
اورمیرے کہنے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہ دلائیں یا اس سے محروم کردیں, نہیں بلکہ آج کے دور میں تو اس کی سخت ضرورت ہے, اور ہر اس عصری علم کا طلب کرنا مسلمانوں پر فرض و واجب ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے,اور اسلامی سماج کے لیے مفید ہے, مثال کے طور پر انجینرینگ, فزکس , کیمسٹری , بائیلوجی , طب ,فارمیسی , نرسنگ,ریاضیات , کمپیوٹر وغیرہ بلکہ میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عصری تعلیم کی قیمت پر دینی و اسلامی تعلیم پر ظلم نہ کریں,بلکہ اس کو عصری تعلیم سے زیادہ اہمیت دیں ,اور خود أپنے اوپر اور أپنے بچوں پر دینی تعلیم سے غفلت برت کے ظلم نہ ڈھائیں۔
وما علینا الا البلاغ
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
جس طرح ہر مسلمان شخص پر فرض ہے کہ وہ خود ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف ہو , اسی طرح ہر مسلمان ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف کرائیں ,اور اس بابت بالکل غفلت نا برتیں کیونکہ والدین کے اوپر بچوں کے اہم حقوق میں سے ایک اس کو اسلامی تعلیم دلانا بھى ہے,اور اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی اللہ کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے , اور اسلامی تعلیم سے محروم بچہ خود اپنے والدین کی قیامت کے دن اللہ کے حضور میں شکایت کرے گا, اور والدین کے لیے رحمت کے بجائے زحمت ہوگا۔
لیکن آج کے زمانہ میں افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلکہ ان کی اکثریت خود اسلامی تعلیم اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہے, یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے ماں باپ أپنے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے لیے بہت زیادہ دوڑ بھاگ کرتے ہیں , اعلى سے اعلى درجہ کی اسکول ,کالج اور یونیورسٹی کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے ہیں بلکہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں, اور صرف اسکول , کالج کی تعلیم پر اکتفا نہ کرتے ہوئے الگ سے ٹیوشن کا بھی انتظام کرتے ہیں گرچہ ایک عصری مادہ انگلش , فزکس اور کیمسٹری وغیرہ کے لیے ایک ہزار یا اس سے زائد ہی کیوں نہ دینا پڑے, اور پھر اپنے بچوں کو ٹیچر کے گھر بھیجتے ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف ہم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد أپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت سے بالکل غافل ہے, ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احسا س نہیں ہے, یہی وجہ ہے کہ وہ اس بارے میں بالکل توجہ نہیں کرتے ہیں یا اگر توجہ کرتے بھی ہیں تو بہت معمولی قسم کا, اور دینی تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں جتنی اہمیت عصری تعلیم کو دیتے ہیں, لہذا وہ دینی تعلیم پر اتنا خرچ نہیں کرتے ہیں جتنا خرچ عصری تعلیم پر کرتے ہیں, اور نا ہی اسلامی تعلیم کے لیے الگ سے کوئی استاد وغیرہ رکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں, اور اگر بادل ناخواستہ و بحالت مجبوری کوئی معلم ٹیوشن کے لیے رکھتے ہیں تو اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اوراس کا مشاہرہ متعین کرنے میں انتہائی بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور یہ کوشس کرتے ہیں کہ کم سے کم پر مولوی یا حافظ راضی ہوجائے, اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے اور عذر تلاش کرتے ہیں, اور اس کا احترام بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ عموما حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ,جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہونا چائیے تھا کہ ہم دینی تعلیم کے بارے میں عصری تعلیم سے کچھ زیادہ ہی اہتمام اور توجہ کریں کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں یہ ہماری سعادت کا باعث ہے۔
دینی تعلیم سے اسی غفلت, بے توجہی اور روگردانی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک پوری نسل ہی دین سے بیزار نظر آتی ہے, ان کو اپنے دین کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے, خوف خدا ان کے اندر سے مفقود ہے, فرائض پر عمل کرنا ان کے لیے بارگراں ہے چہ جائیکہ وہ سنتوں پر عمل پیرا ہوں, اور دنیا میں مسلمانوں کی ذلت اور خواری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماں باپ اسلامی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں,اور اپنے بچوں کو ضروری و بنیادی دینی تعلیم دلانے کے لیے بھی اتنی ہی محنت کریں بلکہ اس سے زیادہ محنت کریں جتنی محنت ہم عصری تعلیم دلانے کے لیے کرتے ہیں ,اس میں ذرہ برابر کوتاہی نہ کریں تاکہ ہم اپنے بچوں کا حق ادا کرسکیں اور اپنی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی سبکدوش ہو سکیں۔
اوراس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جا سکتے ہیں, جس کے حل کی ایک آسان صورت خاکسار کی نظر میں یہ ہے کہ ہم مسلمان ویکنڈ اسلامک اسکول زیادہ سے زیادہ چلایئں ۔ اسی طرح چھٹی خصوصا لمبی چھٹی کے موقع پر اسلامی تعلیم کیمپ لگائیں, یا گھر پر ہی ٹیوشن کا انتظام کریں یا پڑھے لکھے والدین خود ہی اپنے بچوں کو تعلیم دیں وغیرہ تاکہ ہمارے عصری اور ماڈرن تعلیم حاصل کر رہے بچوں کو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے , اور والدین, علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو ان اسکولوں اور کیمپوں میں شریک ہونے پر آمادہ کریں۔اور مسلمان أصحاب ثروت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اسلامی اسکولوں اور کیمپوں کی دل کھول کر مدد کریں تاکہ ہر کوئی اسلامی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکے۔
اورمیرے کہنے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہ دلائیں یا اس سے محروم کردیں, نہیں بلکہ آج کے دور میں تو اس کی سخت ضرورت ہے, اور ہر اس عصری علم کا طلب کرنا مسلمانوں پر فرض و واجب ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے,اور اسلامی سماج کے لیے مفید ہے, مثال کے طور پر انجینرینگ, فزکس , کیمسٹری , بائیلوجی , طب ,فارمیسی , نرسنگ,ریاضیات , کمپیوٹر وغیرہ بلکہ میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عصری تعلیم کی قیمت پر دینی و اسلامی تعلیم پر ظلم نہ کریں,بلکہ اس کو عصری تعلیم سے زیادہ اہمیت دیں ,اور خود أپنے اوپر اور أپنے بچوں پر دینی تعلیم سے غفلت برت کے ظلم نہ ڈھائیں۔
وما علینا الا البلاغ
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین