• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بڑی جماعت کی پیروی کا حکم !!!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
قارئین کرام السلام علیکم ::

کچھ سال پہلے دیوبندی عالم ابو سجاد جھنگوی صاحب نے اپنی ایک کتاب تحفہ اہل حدیث ص ۷۶ پر لکھا ہیں چاروں اماموں کو چھوڑنا تو سوادِ اعظم کو چھوڑنا ہیں ۔ شاہ رحمہ اللہ تقلید کا حکم دیتے ہیں ۔ تقلید نہ کرنے والوں کو خارج از سواد اعظم اور فسادی فرماتے ہیں ۔۔۔

( اتبعوا بالسواد الاعظم ) جب اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم کو لازم پکڑو ۔ امام ابوالحسن سندھی لکھتے ہیں یہ حدیث اور بھی طریقے سے مروی ہیں لیکن سب میں ضعف ہے لہٰذا حجت نہیں ۔ ( حاشیہ ابن ماجہ ابواب الفتن جلد دوم صفحہ ۴۶۴)

اس حدیث کا تعلق قطعا دینی امور سے نہیں ہے ۔ اگر دینی امور سے ہو تو پھر ہر مسئلہ جس کو سوادِ اعظم صادر کرے دینی مسئلہ بن جائے گا اور یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے قطا منافی ہیں اس زمانے میں بریلویوں کی اکثریت ہیں پھر دیوبندیوں کو چاہیئے کہ بریلویوں میں شامل ہوجائے ۔

خیرالقرون کے صدیوں بعد تقریبا ہر زمانے میں حنفی اکثریت میں رہے ہے تو پھر یہ لوگ مالکیوں ، شافعیوں ، حنبلیوں کو دعوت کیوں نہیں دیتے کہ اس حدیث کی روشنی میں حنفی ہوجاؤ ۔ کیونکہ وہ تینو فرقے کبھی اس حدیث پر عمل کرنے کے لئے نہ تیار تھے اور نہ اب ہیں تو پھر وہ گمراہ کیوں نہیں ۔ سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ یہ تو ظاہر ہیں مقلدین عہدِ رسالت میں نہیں تھے عہدِ صحابہؓ ، عہدِ تابعین میں بھی نہیں تھے ۔ ہر فرقے کی جب ابتداء ہوتی ہے تو وہ فرقہ اقلیت میں ہوتا ہیں پہلے فرقے کا بانی اکیلا ہوتا ہیں پھر دوہوتے ہے پھر تین ہوتے ہیں اسی طرح فرقہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے مقلدین کے فرقے کی بھی آخر کوئی ابتداء ہے ۔ جو بقول شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے چوتھی صدی ہے ۔ تو پھر وہ اس ابتداعی دور میں یقینا وہ اقلیت میں ہوں گے اور غیر مقلدین کی اکثریت مقلدین کی اقلیت اس حدیث کی مخاطب ہوگی ۔ یہ حدیث پکار پکار کر کہہ رہی ہوگی کہ اے مقلدین کی اقلیت اکثریت میں گم ہوجاؤ اگر وہ گم ہوجاتے تو آج ان کا وجود نہ ہوتا یہ ہیں موجودہ دور کے مقلدین کے پیشرو ۔ انہونے باطل پر رہ کر اپنے فرقے کو باقی رکھا ۔ یہی اقلیتی فرقہ جو اس وقت باطل پر تھا ۔ بڑھتے بڑھتے اکثریت میں تبدیل ہوگیا ۔ تو کیا پھر بھی انہیں اپنی موجودہ اکثریت پر ناز ہے ( العیاذباللہ ) ۔ حق کے معاملہ میں اکثریت ، اقلیت کوئی معیار نہیں بلکہ دلائل کی رو سے اقلیت کا حق پر ہونا زیادہ ظاہر ہیں اور وہ دلائل یہ ہیں ::: وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله۔سورة الأنعام :: مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے ::: و قلیل من عبادی الشکور ۔سورة سبا :::: میرے بندوں میں شکر گزار تھوڈے ہی ہوتے ہیں ۔ ::: وإن كثيرا من الخلطاء ليبغي بعضهم على بعض إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وقليل ما هم۔سورة ص :::: اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں ایسے لوگ تھوڈے ہی ہوتے ہیں (یعنی مومنین ، صالحین کی تعداد کم ہی ہوتی ہیں ۔ ::: و إن کثیراً من الناس لفسقون.سورة المائدة):: بے شک کثیر لوگ فاسق ہوتے ہیں ::: اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه أولياء قليلا ما تذكرون ۔ سورة الأعراف :::: قال أرأيتك هذا الذي كرمت علي لئن أخرتن إلى يوم القيامة لأحتنكن ذريته إلا قليلا ۔سورة الإسراء ::: شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کرتا رہے گا ۔ البتہ تھوڑے سے لوگ بچ جائیں گے ۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ ( إنما الناس كالإبل المائة لا تكاد تجد فيها راحلة ) سواری کے قابل نہ ملے یعنی ناقص لوگوں سے اکثریت ہوگی ۔( صحیح بخاری و مسلم )

اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۹۵ پر جھنگوی صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ عمامہ پر مسح کرنا صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیق جائز ہے ۔یہاں غیر مقلدین تین اماموں کو چھوڑ کر ایک کی مانتے ہے ۔
قارئین کرام آپ کو معلوم ہوگا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ کی رائے تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڈ دیا جائے جبکہ اکیلے عمرؓ کی یہ رائے تھی کہ یی مشرکین ہے انہیں قتل کردیا جائے ۔تفثیر سورة النفال آیت نمبر ۶۷ یہاں سوادِ اعظم کی رائے کو نہیں بلکہ اکیلے حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا گیا ۔ کربلا میں حسینؓ یقینا حق پر تھے اور مخالفین سواد اعظم کے ساتھ ساتھ حق پر بھی نہیں تھے ۔ مگر حسینؓ نے سواد اعظم کی مخالفت کی تھی ۔ جھنگوی صاحب لکھتے ہے کہ چار امام کو چھوڑنا سواد اعظم کو چھوڑ نا ہے ۔ گویا سواد اعظم کے بھی چار حصے ہے ۔ حنفیوں نے تین اماموں کے اعمال چھوڑ دئے ہیں گویا تین حصے سوادِ اعظم کے حنفیوں نے بھی چھوڑ دئے ہیں کیا اس کے باوجود حنفی سوادِاعظم سے خارج نہیں ہیں؟ ہوسکتا ہے مقلدین حضرات یہ کہہ دے کہ ہم مسائل میں سوادِ اعظم کے ساتھ ہے ۔ عرض ہے کہ مسائل میں بھی حنفی سوادِاعظم سے خارج ہیں ۔ لیجئے کچھ مسائل حاضر خدمت ہیں ۔
ا۔ ائمه اربعه میں سے تین امام فاتحہ خلف الامام کے قائل ہے صرف ایک امام ابو حنیفہ کے قائل نہیں حنفیوں نے تین اماموں کے اقوال و اعمال کو چھوڑ کر صرف ایک امام ابو حنیفہ کے ساتھ ہوکر سوادِ اعظم سے خروج کیا

۲۔ ائمه اربعه میں سے تین امام آمین بالجہر کے قائل ہے جبکہ ایک امام ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں ۔تو حنفی تین اماموں کے اقوال و اعمال کو چھوڑ کر صرف ایک امام ابو حنیفہ کے ساتھ ہوکر سوادِ اعظم سے خارج ہے

۳۔ ائمه اربعه میں سے تین امام رکوع وغیرہ کے رفع یدین کے قائل ہے اور امام ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں تو حنفی تین اماموں کے اعمال کو چھوڑ کر رفع یدین عندالرکوع کے مسٓلہ میں ایک امام کے ساتھ ہوکر سوادِ اعظم سے خارج ہے ۔

۴۔ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے مسٓلہ کو لے لیجئے اس مسٓلہ میں بھی حنفی سوادِ اعظم سے خارج ہے ۔ مثلا پوری دنیا کے حنفیوں کا تجزیہ کیا جائے تو تمام حنفیوں کا آدھا حصہ حنفن عورتیں ہے جو اہل حدیثوں کی طرح نماز میں سینوں پر ہاتھ باندھتی ہے ۔ اس مسٓلہ کے عاملین کی گنتی میں اہل حدیثوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہ ایک بڑی اکثریت ہو کر سوادِاعظم بن جاتی ہے جبکہ حنفی زیر ناف ہاتھ باندھ کر کمی اکثریت کی وجہ سے سوادِ اعظم سے خارج ہیں

۵۔ مقلدین حضرات اگر سوادِ اعظم سے پوری دنیا کی اکثریت مراد لیتے ہیں تو دنیا کی اکثریت غیر مسلم ہیں ۔تو اگر سواد اعظم سے مراد مسلمان تبقہ ہیں تو مسلمانوں میں اکثریت لالچی جھوٹے اور فاسق بے نمازی اور سنت کے مطابق داڑھی نہ رکھنے والے ہیں تو کیا ایسے لوگوں کو سواد اعظم کہا جاسکتا ہیں ۔
قارئین کرام مزکورہ مسائل میں حنفی تین اماموں کے اقوال و اعمال کو پس پشت ڈال کر خوس سواد اعظم سے خارج ہیں !!!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سب کو ہدایت نصیب کرے آمین
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
کوئی باندھے رومال ہیں روٹی کے واسطے
یہ سب کشف و کمال ہیں روٹی کے واسطے​
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
قارئین کرام السلام علیکم ::
( اتبعوا بالسواد الاعظم ) جب اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم کو لازم پکڑو ۔
اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ
(اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔

چاروں اماموں کو چھوڑنا تو سوادِ اعظم کو چھوڑنا ہیں ۔
یہ بھی ایک طرح کا جھانسا ہے۔۔۔
ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والے افراد کی اکثریت خود کے حنفی ہونے پر فخر کرتی ہے۔۔۔ تو یہ ایک طرح کا پینترہ ہوتا ہے۔۔۔ عامی کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے اگر تم امام کی تقلید کرو گے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ دوسرے آئمہ کرام سے مسائل کو اخذ کرنے والے اُن کی تقلید کرتے ہیں۔۔۔ لہذا مسلمانوں میں شاید ہی کوئی ایسا گروہ ہو جو کسی امام کی تقلید سے برآت کا اظہار کرے کیونکہ اگروہ اس عقیدے سے برآت اختیار کرتا ہے تو وہ سواد اعظم کو چھوڑ کر اُمت کو اختلاف کی بھٹی میں جھونک رہا ہے۔۔۔ یعنی تقلید فرض عین ہےکے خودساختہ عقیدےکی نفی کررہا ہے۔۔۔ اس طرح سے جو لوگ پاکستان اور ہندوستان میں ہی رہتے ہیں وہ اس عقیدے کو درست تسلیم کرتے ہیں۔۔۔ وجہ وہ خود ساختہ اسلامی نصاب ہے جو حجروں میں بیٹھ کر تیار کیا جاتا ہے اور مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔۔۔ دیکھیں نا آل دیوبند کی کتاب فضائل اعمال کیا ہے؟؟؟۔۔۔ میرے نزدیک یہ وہ عجوبہ ہے جس کو آپ کوئی نمبر نہیں دے سکتے۔۔۔

دیوبندی عالم ابوسجاد جھنگوی صاحب سے کوئی یہ پوچھے کے اُن اماموں کا امام کون ہے؟؟؟۔۔۔
دوسری بات یہ ہی امام ہیں اس پردلیل امام کا عمل ہی ہوگا۔۔۔ آئمہ کرام میں سے کسی بھی ایک نے کیا کبھی خود کو اپنے کسی استاد کی طرف منسوب کیا؟؟؟۔۔۔ یقیناً نہیں۔۔۔ تو پھر امام کے شاگرد خود کو کس بنیاد پر ان کا مقلد گردان رہے ہیں۔۔۔
مسلمان کو چاہئے کے وہ یہ سوچے کےکسی بھی مسئلے میں اگر اختلاف ہوجائے تو اللہ کا حکم کیا ہے؟؟؟۔۔۔
اب بات کرتے ہیں ایک سنجیدہ پہلو پر۔۔۔
ملاحظہ کیجئے۔۔۔
اگر کوئی عورت شہوت کے غلبہ میں اپنے خاص حصہ میں کسی بے شہوت مرد یا جانور کے خاص حصہ کو یا کسی لکڑی وغیرہ کو یا اپنی انگلی کو داخل کرے۔۔۔ (مسئلہ ١١، باب غسل کا بیان، گیارہواں حصہ صفحہ ٨٦٥)۔۔۔
سب سے پہلے بےشہوت مرد سے مراد کیا لیا جائے گا؟؟؟۔۔۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔۔۔
اب صاحب عقل بتائیں کے یہ مسئلہ ہے یا کسی عریانی فلم کا ٹوٹا چلایا جارہا ہے؟؟؟۔۔۔

اللہ بیان فرمان رہا ہے۔۔۔
تم وہ بہترین اُمت ہو۔۔۔جو لوگوں کی بھلائی کے لئے دنیا میں بھیجی گئی ہو۔۔۔ جو اچھائی کی دعوت دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔۔۔ اور یہاں آل دیوبند برائی کو برائی تسلیم کرنے کی بجائے اس پر مسائل بیان کررہے ہیں۔۔۔ اس عبارت کا آخری حصہ یہاں پیش کروں گا “تب بھی اس پر غسل فرض ہوجائے گا منی گرے یا ناگرے“
اللہ کے بندے برائی کو برائی تو سمجھو۔۔۔

اقبال کو آل دیوبند کی کارستانیوں کاعلم شاید ہوچکا تھا۔۔۔ جب ہی وہ فرماگئے۔۔۔
یہ ہیں مسلمان جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔۔۔

(ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں) پڑھی پھر فرمایا: (یہاں) خیر (سے مراد) ہے قرآن اور میری سنت کی اتباع۔ اس کو ابن مردویہ نے روایت کیا۔۔۔اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اس اُمت کا ایک گروہ اس (دعوت الی الخیر وامر بالمعروف ونہی عن المنکر کی) ذمہ داری کو اٹھائے رہے اگرچہ یہ بات اُمت کے ہر فرد پر ہی حسب استطاعت فرض ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ اُسے ہاتھ سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے
اب بتائیں کے یہ مسئلہ مولوی سے کون پوچھے گا۔۔۔
بیوی کا شوہر، ماں کا بیٹا، یاایک کنواری بہن کا بھائی؟؟؟۔۔۔
اور اگر فرض کریں کے عورت بیوہ ہے تو۔۔۔ یہ سوال مولوی صاحب سے کون کرے گا۔۔۔
بیٹا، باپ، بھائی، دیور، سسر یا محلے کا کوئی پڑوسی۔۔۔

عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔
اور بڑی معذرت کے ساتھ۔۔۔
میں نے یہ مسئلہ یہاں اس لئے پیش کیا کیونکہ یہ پہلے ہی آل دیوبند کی کتابوں میں موجود ہے۔۔۔
تو یہاں پر پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔۔۔
لیکن انتظامیہ کو پورا اختیار ہے کے وہ اگر چاہیں تو اس کو حذف کردیں۔۔۔

اس بحث کو سمیٹتےہیں۔۔۔
ان ہی خرافات سے بچنے کے لئے۔۔۔
اوپر کی دو آیات پیش کی گئی ہیں۔۔۔
لہذا جو لوگ خود ساختہ عقائد کو مسلمانوں میں پھیلانے کا ارتکاب کررہے ہیں۔۔۔ انہیں ہم کیا کہہ کر پکاریں گے۔۔۔
دوسری سب سے اہم بات۔۔۔
کے اماموں کی ہی تقلید پر کیوں ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔۔۔
یہ بھی ایک خاص سوچ ہے۔۔۔
اور وہ یہ ہے کے اگر ہمارے ملکوں میں حنفی فقہ نہیں ہوگا تو فقہ جعفریہ کو پنپنے کا جواز کہاں سے مہیا کیا جائے گا۔۔۔
حالانکہ نبی کی بات پر امام کی بات کو ترجیح دینے والے حنفیوں کی لاتعداد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔
یعنی نظریہ امامت۔۔۔ تو حنفی پلیٹ فام سے دین کی جو خدمت کی جارہی ہےاسے سمجھنابےحد ضروری ہےکے وہ کون لوگ کررہے ہیں؟؟؟۔۔۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کے اہلسنت والجماعت کو اس طرح کے فحش مسائل میں پھنسا کر اپنے آپ کو اپنی جڑؤں کا مضبوط کیا جائے۔۔۔
اب کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔۔۔
عدلیہ، میڈیا، عسکری سیکٹر، بینکنگ سیکٹرز۔۔۔ یہ سب ہمارے سامنے ہیں۔۔۔
اور یہ بھی سوچیں کےکس کے ہاتھوں میں ہیں۔۔۔ تھوڑی کوشش کیجئے حقیقت سب سامنے آجائے گی۔۔۔
اور ہمیں لگایا ہوا ہے ۔۔۔
آمین اور رفع یدین پر یا اس طرح کے فحش وعریاں مسائل پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے پر۔۔۔

ایمان کی ایک شاخ یہ بھی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔۔۔
اور اپنی اولاد اور ماں باپ سے زیادہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا۔۔۔
کیونکہ وہ امام برحق ہیں۔۔۔ یہ اتنی چھوٹی سی بات عقل میں کیوں نہیں آتی؟؟؟۔۔۔

وما علینا الالبلاغ۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔
 
Top