• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھارتی مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی نہ کریں، دارالعلوم دیوبند

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام علیکم
یہ مسلہ جتنا آسان دکھتا ہے اتنا ہے نہیں، میں بھی انڈیا میں ہی رہتا ہوں، اور یہاں اس طرح گائے کی قربانی کرنا خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں، اس سال ماشاء الله میرے گھر بھی تین بھینس کی قربانی کی گئی ہے لیکن گائے کی قربانی نہیں کی گئی کیونکہ یہاں گرفتاری ممکن رہتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ لوگ گائے کی قربانی نہیں کر رہے ہیں بہت سے لوگ چپکے سے کر بھی دیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اس جھمیلے میں پھنسنے سے بچتے ہے، یہ مسلہ پاکستان میں جتنا آسان لگتا ہے اتنا یہاں نہیں ہے، اگر گائے کو لے جاتے وقت گائے پولیس کے ہاتھ یا کسی عام لوگوں کے بیچ پکڑی جاتی ہے تو گاڑی وغیرہ میں آگ لگا دی جاتی ہے، اور خود اپنی جان کا بھی خطرہ رہتا ہے، اب دیوبند نے کس نیت سے فتویٰ دیا ہے وہ سمجھنے والی بات ہوگی،
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
السلام علیکم
اس سال ماشاء الله میرے گھر بھی تین بھینس کی قربانی کی گئی ہے لیکن گائے کی قربانی نہیں کی گئی
وعلیکم السلام۔ ہندو لوگ بھینس اور گائے کو الگ الگ سمجھتے ہیں؟
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
ہندومذہب کے اعتبار سے گائے کی قربانی کوئی برافعل نہیں ہے ۔اوران کی مذہبی کتابیں جیساکہ وید اورگیتا وغیرہ اس بارے میں قطعاخاموش ہیں۔ گائے کو ماں کا درجہ دینااورگائے کی قربانی کی بنائ پر فساد برپاکرناماضی قریب کی روایت ہے۔
دارالعلوم دیوبند کو بولنے کی ضرورت شاید اس لئے آتی ہے کہ فقہی مسائل میں لوگ دارالعلوم دیوبند کی جانب ہی دیکھتے ہیں کہ اس کا اس معاملہ پر کیاموقف ہے اورمیڈیابھی دارالعلوم کو ہی نشانہ بناتاہے چاہے وہ ثانیہ مرزا کے کپڑوں کامسئلہ ہو یاکچھ اور ۔ہندوستان میں یقینادیگر دینی ادارے موجود ہیں لیکن فقہی مسائل میں لوگوں کی نگاہیں بشمول میڈیادارالعلوم دیوبن دکی جانب ہی اٹھتی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ بہت سے مسلمان غلط فہمی سے سمجھتے ہیں کہ قربانی صرف گائے کی ہی ہوسکتی ہے۔ان کواس غلط فہمی سے نکالنابھی ضروری ہے۔ابھی حال میں مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فساد ہوا۔جس میں سرکاری رپورٹ کے مطابق 52اورغیرسرکاری رپورٹ کے مطابق 2000کے قریب مسلمان مارے گئے۔ پچاس ہزار سے زائد متاثرین تاحال کیمپوں میں ناگفتہ بہ حالات کے ساتھ رہ رہے ہیں۔کچھ عرصہ بعد پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہی۔ فرقہ پرست جماعتیں مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں اورہندئوں میں فساد برپاکرایاجائے۔ گائے کی قربانی ان کو ایک آسان موقع فراہم کرسکتی ہے۔ ان تمام حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگردارالعلوم دیوبند نے ایسی کوئی اپیل جاری کی ہے توکون ساغلط کام کیاہے؟
میں یہاں جامعہ سنابل کے قریب رہتاہوں۔ کوئی بتائے جامعہ سنابل یادلی کے کتنے اہل حدیث مدارس میں گائے کی قربانی کی گئی ہے؟وہی کام جو اہل حدیث حضرات خاموشی سے انجام دے رہے ہیں اگراسی کام کو دارالعلوم دیوبند والوں نے اپیل کرکے دیگر مسلمانوں سے بھی نہ کرنے کو کہاہے تاکہ بے خبری میں کوئی حادثہ نہ ہوجائے تویہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ہے یامسلمانوں کی جان ومال کو بچانامقصود ہے؟
ایسانہیں ہے کہ ہندوستان میں سرے سے گائے کی قربانی ہی نہ ہوتی ہو۔ لوگ کرتے ہیں۔جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں گائے کی بھی قربانی ہوتی ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ذبح بقر در ہندوستان از شعائر اسلام است

مولانا تھانوی کا کہنا تھا کہ چونکہ قربانی شعائر اسلام میں سے ہے جسے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر قائم کیا ہے اس لئے اگر مسلمان ایک شعائر اسلام کو چھوڑنے پر تیار ہوگئے تو دین کی بیخ کنی شروع ہوجائے گی اور ایسا کرنا دوسری قوموں کو اس بات کی دعوت دینا ہوگا کہ سب احکام اسلام ایسے ہی ہیں اس لئے ان کو کسی نہ کسی وجہ سے چھوڑا جاسکتا ہے۔
مولانا نے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ اگر ہندوؤں کو خوش کرنے کی خاطر وہ قربانی گاؤ کو ترک کرنے پر آمادگی کا اظہار کریں گے تو پھر کل کو ہندوؤں کا مطالبہ یہ ہوگا کہ کلمہ چھوڑ دو۔ تاکہ دونوں قوموں اتفاق اور اتحاد بڑھ جائے کیونکہ حقیقت میں تو یہ ساری دشمنی کلمہ پڑھنے کی بدولت ہے۔ الافاضات الیومیہ جلد اول ص ۳۲۹۔ مولانا تھانوی چونکہ قربانی گاؤ کو شعائر اسلام میں سے سمجھتے تھے اس لئے آپ کے نزدیک اس کا گوشت کھانا بھی موجبِ ثواب تھا۔ فرمایا کہ " اس وقت مسلمان کی وقا میں تین چیزیں ہیں، ایک نماز دوسرے بزرگوں کی محبت تیسرے گائے کا گوشت"۔ الافاضات الیومیہ جلد اول ۳۲۷۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ بھی گائے کی قربانی کو شعائر اسلام میں سے سمجھتے تھے۔ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا " ذبح بقر در ہندوستان از شعائر اسلام است" ذبیحہ گاؤ ہندوستان میں ایک بڑا اسلامی شعائر ہے۔
مکتوبات امام ربانی جلد اول ( لکھنؤ۱۹۱۳ء) مکتوب نمبر۸۱۔
http://www.haqforum.com/vb/showthread.php?19595-مولانا-اشرف-علی-تھانویؒ-اور-تحریک-آزادی-(یونیکوڈ)&p=99232#post99232
دین اکبری کے خالیق مغل بادشاہ اکبر نے بھی اس طرح کا مشورہ ہندوستان کی عوام کو دیا تھا لیکن اس مشورے کے خلاف حضرت مجد الف الثانی نے احتجاج اور کہا کہ " گائے کی قربانی ہندوستان میں ایک بڑا اسلامی شعائر ہے"اور اس پر قید بند کی صوبتیں برداشت کی ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم،
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس خبر سے ہندو تنظیمیں اور اسلام کے دشمن کس قدر جرات مند ہوئے ہوں گے۔کیونکہ کھلے عام اس طرح کا فتوی مسلمانوں کی جانب سے آگیا۔
اللھم اصلح احوال المسلمین فی کل مکان
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
اگر کل کو انڈیا حکومت اشاعت اسلام پر بھی پابندی لگادے کہ قرآن وسنت کی دعوت سے ہندو مسلم فسادات کا خطرہ ہے اور اسلام کی تبلیغ پر پابندی سے کئی جانیں بچ سکتی ہیں۔تو پھر مصلحت کے تحتکیا کرنا چاہیے۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مسئلہ کافی پیچیدہ سا محسوس ہو رہا ہے ۔ لیکن میں جو سمجھ سکا ہوں کہ گائے کی قربانی کو کلمہ طیبہ اور ایسے احکام شریعت کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے جہاں کوئی دوسرا اختیار ہی نہیں ۔
کیونکہ قربانی میں اختیار ہے کہ آپ گائے ، بھینس (عند المجوزین ) بکرا ، دنبہ اور اونٹ وغیرہ میں سے کسی بھی چیز کی قربانی کر سکتے ہیں ۔
اگر کسی مصلحت کی وجہ سے کسی خاص علاقے میں مختارفیہ چیزوں کے سلسلے میں اس طرح کا موقف رکھا جائے تو بظاہر کوئی حرج نظر نہیں آتا ۔ واللہ أعلم
اور رہا مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا اقتباس تو اس حوالے سے فورم پر موجود دیوبندی فاضلین شاید بہترین وضاحت کرسکتے ہیں ۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
حقیقت یہ ہے کہ مولانااشرف علی تھانوی کے دور کے ہندوستان کے حالات الگ تھے۔آج کے الگ ہیں اس زمانے میں انگریزوں کی حکومت تھی اورانگریزذبح گائو کے سلسلے میں نہ جذباتی تھے اورنہ ہی منع کیاتھا۔(باوجوداس کے کہ گائے کی قربانی کا مسئلہ انگریزوں نے ہی ہندومسلم منافرت کیلئے پیداکیاتھا)اس کے علاوہ مسلمان ہراعتبار سے مضبوط تھے۔لیکن اب جب کہ مسلمان تین ملکوں میں بٹ چکے ہیں۔ہندوستان میں مختلف وجوہات کی بنائ پر جن کی تفصیل طوالت کا متقاضی ہے۔ مسلمانوںکا سیاسی وزن اورسیاست میں نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے۔ اورایسے حالات میں جب کہ فرقہ پرست فساد کے بہانے ڈھونڈتے ہوں اوریہ معلوم ومشاہد حقیقت ہے کہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوگا۔توکیاایسے حالات میں گائے کی قربانی کی جائے یاپھر مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرو کے تحفظ کو اہمیت دی جائے۔
رسول پاک نے خانہ کعبہ کو مخاطب کرکے کہاتھاکہ اے کعبہ توکتنامحترم ہے لیکن ایک مسلمان کی جان وآبرو تجھ سے بھی زیادہ محترم ہے(مفہوم)میراذاتی خیال یہ ہے کہ اگرمولانااشرف علی تھانوی موجودہ حالات کو دیکھتے توشاید اپنی رائے سے رجوع کرلیتے۔
جہاں تک حضرت مجدد الف ثانی کا تعلق ہے اورشعائر اسلام کہنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلم بادشاہ غیر مسلموں کے زیر اثربالخصوص غیرمسلم رانیوں کے زیراثراگرکسی جائز چیز سے جس کے جواز پر شریعت متفق ہو،کرنے سے مسلمانوں کوروکے تواس کی مخالفت کرنااورکلمہ حق جابربادشاہ کے سامنے کہناوقت کا تقاضاہے۔لیکن اس دور کے حالات اورآج کے حالات میں بہت فرق ہے۔
ایک مثال بیان کروں!
مسلم ممالک میں اگرکسی خلاف شریعت چیز پر حکمراں اصرار کرتے ہیں تو وہاں کی عوام کافریضہ ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں اورپرزور احتجاج کریں لیکن یہ بات وہاں لاگونہیں ہوتی جہاں غیرمسلموں کی حکومت ہے اوران کی جان ومال کو خطرہ موجود ہے۔پھرمولانااشرف علی تھانوی کی رائے کے برعکس مولانا احمد حسین مدنی کی رائے تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس خبر سے ہندو تنظیمیں اور اسلام کے دشمن کس قدر جرات مند ہوئے ہوں گے۔کیونکہ کھلے عام اس طرح کا فتوی مسلمانوں کی جانب سے آگیا
ہرچیز کی ایک حدونہایت ہوتی ہے اوراس پر عمل کرناضروری ہوتاہے۔ مذہبی تبلیغ اورآزادی کوپوری دنیا نے تسلیم کیاہواہے اس لئے کوئی حکومت اس کے خلاف نہیں جاسکتی لیکن کچھ چیزیں حکومت کی اپنی صوابدید پر ہوتی ہے۔ اکثریت کاخیال کرناحکومت کی مجبوری بھی ہے اورضروری بھی ہے۔آپ یہ بتائیے کہ ہندوستان میں کتنے اہل حدیث حضرات اس کے خلاف عمل کررہے ہیں۔امریکہ اوریوروپ میں آپ کھلے عام اذان نہیں دے سکتے۔ آخر اس کی اوردوسرے قوانین کی اہل حدیث وہاں پابندی کرتے ہیں یانہیں کرتے ہیں؟میں نے تواس بارے میں کبھی اہل حدیث حضرات کے زبان وقلم سے کچھ نہیں سناکہ اس کے خلاف احتجاج کرناچاہئے۔ آخر اذان زور سے دینابھی توشعائر اسلامی میں سے ہے۔اس پر کبھی غورکیاہے؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
امام
جہاں تک حضرت مجدد الف ثانی کا تعلق ہے اورشعائر اسلام کہنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلم بادشاہ غیر مسلموں کے زیر اثربالخصوص غیرمسلم رانیوں کے زیراثراگرکسی جائز چیز سے جس کے جواز پر شریعت متفق ہو،کرنے سے مسلمانوں کوروکے تواس کی مخالفت کرنااورکلمہ حق جابربادشاہ کے سامنے کہناوقت کا تقاضاہے۔لیکن اس دور کے حالات اورآج کے حالات میں بہت فرق ہے۔
ایک مثال بیان کروں!
مسلم ممالک میں اگرکسی خلاف شریعت چیز پر حکمراں اصرار کرتے ہیں تو وہاں کی عوام کافریضہ ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں اورپرزور احتجاج کریں لیکن یہ بات وہاں لاگونہیں ہوتی جہاں غیرمسلموں کی حکومت ہے اوران کی جان ومال کو خطرہ موجود ہے۔پھرمولانااشرف علی تھانوی کی رائے کے برعکس مولانا احمد حسین مدنی کی رائے تھی۔

ہرچیز کی ایک حدونہایت ہوتی ہے اوراس پر عمل کرناضروری ہوتاہے۔ مذہبی تبلیغ اورآزادی کوپوری دنیا نے تسلیم کیاہواہے اس لئے کوئی حکومت اس کے خلاف نہیں جاسکتی لیکن کچھ چیزیں حکومت کی اپنی صوابدید پر ہوتی ہے۔ اکثریت کاخیال کرناحکومت کی مجبوری بھی ہے اورضروری بھی ہے۔آپ یہ بتائیے کہ ہندوستان میں کتنے اہل حدیث حضرات اس کے خلاف عمل کررہے ہیں۔امریکہ اوریوروپ میں آپ کھلے عام اذان نہیں دے سکتے۔ آخر اس کی اوردوسرے قوانین کی اہل حدیث وہاں پابندی کرتے ہیں یانہیں کرتے ہیں؟میں نے تواس بارے میں کبھی اہل حدیث حضرات کے زبان وقلم سے کچھ نہیں سناکہ اس کے خلاف احتجاج کرناچاہئے۔ آخر اذان زور سے دینابھی توشعائر اسلامی میں سے ہے۔اس پر کبھی غورکیاہے؟
مغل بادشاہ اکبر کو ہندوستان کا سب سے طاقتور حکمران مانا جاتا ہے جس نے دین اکبری کے نام سے ایک دین تخلیق کیا اور یہ دین اسلام اور ہندو مت کا ملغوبہ تھا جو ہندوستان میں نافذ عمل تھا اس دین کے تحت گائے کی قربانی ناجائز مانی جاتی تھی اور ایسی کے رد میں امام ربانی مجد الف ثانی نے گائے کی قربانی کو شعائر اسلام کہا اور یہ بات بھی کہی کہ اس سال صرف گائے کی قربانی ہی مسلمانوں کو کرنا ضروری ہے
 
Top