بات صحیح ہے البتہ۔۔۔۔۔
پاکستان کی فحش فلموں کے کیا اثرات ہیں ان کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے؟
اول تو پاکستان میں اب فلمیں بن ہی نہیں رہیں لیکن ماضی قریب میں معروف ڈائریکٹر شعیب منصور کی جو دو فلمیں منظر عام پر آئی ہیں ایک ’’خدا کے لئے‘‘ اور دوسری ’’بول‘‘ ان پاکستانی فلموں میں جس طرح مسلمان معاشرے اور اسلام کی تضحیک کی گئی ہے اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ موخر الذکر فلم میں تو نوجوانوں کو بھرپور ترغیب دی گئی ہے کہ پردہ اور کثرت اولاد کے خلاف آواز اٹھائیں۔ صحیح بات ہے کہ اس فلم میں جن موضوعات پر کھل کر بات کی گئی ہے ایک گناہ گار مسلمان بھی اس پر بات کرنے سے ڈرتا ہے لیکن ایسے ہی جاہل اور بے علم مسلمانوں کی شرعی معاملات میں بات کرنے کی جھجک اور ہچکچاہٹ دور کرنے کے لئے خاص طور پر یہ فلم بنائی گئی ہے۔
فلم کے ایک منظر میں جب جوان بیٹی اپنے والد سے اس بات پر اعتراض کرتی ہے کہ جب تم غربت کی وجہ سے ہماری ضروریات ہی پوری نہیں کرسکتے تھے تو اتنی ساری بیٹیوں کو پیدا کیوں کیا۔اس پر اس لڑکی کا والد جواب دیتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی کثرت پر فخر کریں گے اس لئے زیادہ اولاد ہونا کوئی بری بات نہیں اس پر لڑکی بے ساختہ کہتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کی بات کر ہی نہیں سکتے۔ اندازہ کریں کہ حدیث کے انکار کی کیسی آسان ترکیب ہے کہ جس حدیث کو انسانی عقل تسلیم نہ کرے جھٹ کہہ دو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما ہی نہیں سکتے۔
فلم ’’خدا کے لئے ‘‘ میں بھی ایسے کئی مناظر ہیں جس میں ایک مولوی موسیقی اور رقص کے جائز ہونے پر تورات سے دلائل دے رہا ہوتا ہے۔ جب مولوی پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو موسیقی کی حرمت پر واضح اشارے ہیں تو مولوی بے ساختہ کہتا ہے کہ کیونکہ موسیقی اور رقص فطری چیزیں ہیں اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حرام قرار دے ہی نہیں سکتے۔ اناللہ واناالیہ راجعون!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا کی ہزار فلمیں بھی پاکستانی نوجوانوں پر وہ اثرات نہیں ڈال سکیں جو صرف ان دو پاکستانی فلموں نے ڈالے ہیں۔
شعیب منصور مردہ باد!