اس طرح کی زبان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کیوں اتنے بےغیرت و بےحس ہوتے جا رہے ہیں؟ کیونکہ ظاہر ہے کہ جب تک عوام کا ساتھ نہ ہو کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس ضرورت کا انکار تو کسی نے نہیں کیا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جتنے نیک اعمال و افعال کشمکش کے حالات میں طے ہوتے ہیں ان کی تعداد کا موازنہ ان معاشروں کے افراد سے کرنا درست نہیں جنہیں تمام مادی و روحانی سہولیات و آسانیاں حاصل ہوں۔۔لیکن اپنےنظریہءجیات کا شعوری فہم حاصل کرکےاس پرعمل کرنابھی توضروری ٹھرتاہےکیونکہ اسی کےدم سے آپ کےوجود کی بقاہے
مجھے پتا ہے کہ ایسا لہجہ اس وقت بہت چبھتا ہے جب بولنے والا ہم وطن نہ ہو۔ ہاں جب کسی معاملے میں خود ہم وطنوں میں اختلاف ہو جائے تب ایسے لہجے سے بدتر اختلاف والا لہجہ بھی معیوب نہیں لگتا ، اسے صرف عمومی اختلاف رائے باور کر لیا جاتا ہے۔ اور یہ عین انسانی نفسیات کے مطابق ہے۔ :)اس طرح کی زبان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
تو پھر آپ کو تو اور محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے تھا جب آپ خود جانتے ہیں کہ آپ ہم وطن نہیں ہیں، بہرحال میں یہ ہی کہوں گی کے جس نفسیات کی آپ نے نشاندہی کی ہے اس پر خود بھی تھوڑا غور ضرور کیجئے گا اچھے لوگ اچھے ہی لفظوں سے تنقید کرتے اچھے لگتے ہیں ورنہ بازاری زبان تو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔مجھے پتا ہے کہ ایسا لہجہ اس وقت بہت چبھتا ہے جب بولنے والا ہم وطن نہ ہو۔ ہاں جب کسی معاملے میں خود ہم وطنوں میں اختلاف ہو جائے تب ایسے لہجے سے بدتر اختلاف والا لہجہ بھی معیوب نہیں لگتا ، اسے صرف عمومی اختلاف رائے باور کر لیا جاتا ہے۔ اور یہ عین انسانی نفسیات کے مطابق ہے۔ :)
نمونہ دکھائی دے رہا ہے۔ موضوع بدلنے کا لیکن یہ بھی کڑوی حقیقت ہے کے آج کے دور میں سچ ہضم نہیں ہوتا شاید اسی لئے سچ کو کڑوا کہتے ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ تھریڈ کا اصل موضوع زبان دانی نہیں ہے۔ اب بظاہر اس کا کوئی علاج نہیں کہ کچھ لوگوں کو حقائق چبھتے ہوں تو یا تو وہ ذاتیات پر اتر آتے ہیں یا پھر موضوع بدلنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں :P
شاہد نذیر بھائی نے کیا خوب بات کہی ہے سو سونار کی ایک لوہار کی (ابتسامہ )اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا کی ہزار فلمیں بھی پاکستانی نوجوانوں پر وہ اثرات نہیں ڈال سکیں جو صرف ان دو پاکستانی فلموں نے ڈالے ہیں۔