بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بھاری سجدہ
ڈاکٹر جِفری لانج (Dr. Jeffery Lang)امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک کنساس یونیورسٹی میں ریاضیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
اپنے اِسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جس دِن میں نے اِسلام قبول کیا، اِمام مسجد نے کلمہ پڑھاتے ہی میرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب بھی تھما دی جس میں نماز پڑھنے کا طریقہ درج تھا۔ میں تو حیران تھا ہی مگر مجھے ساتھ لے کر مسجد جانے والے میرے شاگرد بھی کافی پریشان تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں مجھے تلقین کررہا تھا کہ مجھے کسی معاملے میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہر کام کو مرحلہ وار کروں اور اپنے ذہن پر زیادہ دباؤ نہ ڈالوں اور اسلام کے شعار اور فرائض کو آہستہ آہستہ اپناؤں وغیرہ وغیرہ۔
ان لوگوں کی پریشانیوں کو دیکھ دیکھ کر تو میں بھی اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا کہ کیا نماز پڑھنا اتنا ہی مشکل کام ہے؟
اپنے شاگردوں کی باتیں اَن سُنی کرتے ہوئے میں یہ طے کر چکا تھا کہ پانچ وقتی نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام تو بغیر کسی تاخیر کے ہی کر دوں گا۔ اور اُس رات کو میں دیر گئے تک صوفے پر ہی ٹکا رہا، بلب کی مدھم روشنی میں کتاب میں دی گئی نماز کی حرکات و سکنات کے نقشوں کا نہ صرف مطالعہ کرتا رہا بلکہ ساتھ ساتھ اُن قرآنی آیات کو بھی یاد کرتا رہا جو مجھے نماز میں پڑھنا تھیں۔ بہت ساری آیات تو مجھے عربی میں ہی پڑھنا تھیں اِس لئے میں وہ سارے کلمات عربی میں ہی یاد کر رہا تھا مگر ساتھ ساتھ اُنکا انگریزی میں ترجمہ بھی دیکھ رہا تھا۔ کتاب کا کئی گھنٹے تک مطالعہ کر نے کے بعد میں اِتنا جان چکا تھا کہ نماز کا پہلا تجربہ کرنے کیلئے میرے پاس کافی معلومات آچکی ہیں۔ اُس وقت تک نصف رات بھی بیت چکی تھی مگر میں نے سوچا کہ سونے سے پہلے کیوں نہ عشاء کی نماز ادا کر لی جائے۔
واش روم جا کر کتاب کے وہ صفحات جن پر وضوء کا طریقہ درج تھا کھول کر بیسن کے ایک طرف رکھی، اور میں نے مرحلہ وار اور بالترتیب وضوء کرنا شروع کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی باورچی ترکیب کتاب سے پڑھ کر نئی ڈش تیار کر رہا ہو۔ وضوء سے فراغت پر پانی کا نل بند کرکے واپس کمرے میں لوٹا تو پانی میرے اعضاء سے فرش پر ٹپک رہا تھا (کتاب میں تو یہی لکھا تھا کہ وضوء کے بعد جسم پر لگے پانی کو خود بخود خشک ہونے دینا مستحب عمل ہے)۔
کمرے کے درمیان میں جا کر اپنے طور پر اخذ کی ہوئی قبلہ کی سمت میں منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ پیچھے مڑ کر تصدیق بھی کی کہ میرے فلیٹ کا صدر دروازہ اچھی طرح بندبھی تھا کہ نہیں۔ ایک بار پھر قبلہ رو ہو کر متوازی کھڑا ہو گیا۔ ایک گہری سانس لے کر اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر کانوں کے برابر لایا، اور کتاب میں درج شدہ طریقے کے مطابق آہستہ سے اللہ اکبر کہا۔
مجھے اُمید تھی کہ میری حرکات و سکنات اور آوازوں کو سننے والا کوئی نہیں ہے تو پھر اتنی احتیاط اور آہستگی کس بات کی!! میں نے سوچا کیوں نا شرم اور جھجھک کو ایک طرف رکھ کر نماز والا یہ فرض ادا کر ہی لیا جائے ۔ کہ یکایک میری نظر سامنے والے پردے پر پڑی جو کھڑکی سے ہٹا ہوا تھا ۔ اگر کوئی ہمسایہ دیکھ لیتا تو کیا خیال کرتا یہ جان کر ہی میرا بُرا حال ہو گیا۔ نماز کیلئے جو کچھ کر چکا تھا اُس سب کو چھوڑ کر میں کھڑکی کی طرف لپکا، آس پاس نظر دوڑا کر ہر ممکن تسلی کی کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں، پھر پچھواڑے میں کھلنے والی میری اِس کھڑکی سے حدِ نظر ویرانی اور خالی پن کو دیکھنے کے بعد میں نے پردے برابر کیئے اور ایک بار پھر کمرے کے درمیان میں آ کھڑا ہوا۔