السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ ہمارے معاشروں عموما عورتوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا ایک رواج عام ہو چکا ہے جو کتاب وسنت کے صریحا خلاف ہے لہذا اس غیر شرعی اور قبیح رسم کے عرف بن جانے کی صورت میں یہ امر لازم ہے کہ عورتوں کو ان کے حصے کی وراثت کا قبضہ دیا جائے اور جب وہ مال وراثت ان کے قبضے میں آ جائے اور کچھ عرصہ ان کے قبضہ میں رہے تو اب وہ اگر کسی بھائی کو ہبہ یا عطیہ کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر نہیں ہے اور اگر عورتوں کو ان کے مال وراثت کا قبضہ دیے بغیر صرف ان کی طرف سے معافی کا سرٹیٍفکیٹ لے لیا جائے تو یہ ناکافی ہے۔
پس اگر تو اس کی والدہ کو اس مال وراثت کا قبضہ بلا شرکت غیر حاصل ہو گیا تھا اور اس نے واپس اپنے بھائیوں کو ہبہ کر دیا تو اب بھانجے کو مطالبہ نہیں کرنا چاہیے لیکن بھائیوں کو اپنے طور بھانجے سے حسن سلوک کرتے ہوئے اسے کچھ دے دینا چاہیے اور اگر والدہ کو مال وراثت کا قبضہ حاصل نہیں ہوا تھا تو بھانجے کو اس کے مطالبے کا حق حاصل ہے۔ دیکھیں اس میں غور کریں کہ ماں نے مطالبہ نہیں کیا لیکن بیٹے نے کیا تو کیا واضح ہوا کہ وراثت کی ضرورت موجود ہے لیکن ماں چونکہ عورت اور کمزور تھی لہذا اس نے معاف کرنے میں عافیت سمجھی جبکہ مرد طاقتور اور عزم و حوصلے والا تھا لہذا اس نے مامووں سے مطالبہ کر دیا۔ تو یہاں جائیداد نہ لینے میں اصل مسئلہ معافی کا نہیں ہے بلکہ حوصلہ اور عزم کی پستی اور عورت ہونے کا ہے۔