• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھٹو اور سردار سورن سنگھ سے زرداری اور سردار من موہن سنگھ تک

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
اپنی کتاب "The United States and Pakistan 1947-2000, Disenchanted Allies" میں ممتاز امریکی سکالر اور جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ڈینس ککس نے لکھا ہے کہ جب 1962ءمیں نیفا کے محاذ پر چین اور بھارت کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ کشمیرپر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیں۔ کیونکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر متعین اپنی فوج چین کے ساتھ لڑائی میں جھونک رکھی تھی۔ یہ اطلاع امریکی صدر جان ایف کینڈی کو ملی تو انہوں نے فوراً اپنا نمائندہ ایوب خان کے پاس بھیجا اور انہیں خبردار کیا کہ وہ چین بھارت لڑائی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ ڈینس ککس کے مطابق امریکی صدر کے دو نمائندے ہیری سین اور سینڈیز نے 28 نومبر 1962ءکو جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اس سے پہلے یہ دونوں امریکی سفارتکار نہرو سے دہلی میں مل کر آئے تھے۔ امریکی سفارتکاروں نے ایوب خان کو تجویز پیش کی کہ استصواب رائے کشمیر کا مناسب حل نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کو یہ سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی ساری وادی اسے مل جائے گی۔ ڈینس ککس کے مطابق جب امریکی سفارتکار پاکستان میں ایوب خان سے مل رہے تھے عین اس وقت نہرو نے بھارتی پارلیمنٹ میں یہ بیان داغ دیا کہ ”جموں و کشمیر کے موجودہ سٹیٹس میں کوئی تبدیلی لوگوں کےلئے اچھی نہیں ہو گی“ یوں نہرو نے کشمیر کے بارے میں مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا۔ کتاب کے مطابق جب امریکی سفارت کار ہیری سین نے نہرو سے یہ بیان واپس لینے کےلئے کہا تو اس نے کہا کہ امریکہ ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔
دسمبر 1962ءمیں امریکی صدر کینڈی اور اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میکمیلن نے متفقہ طور پر کشمیر کے مسئلہ کو حل کرانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ ایوب خان نے محمد علی بوگرا کو ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ مقرر کر یا اور جواہر لعل نہرو نے بھارت کے ریلوے کے وزیر سردار سورن سنگھ کو پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات چیت کےلئے بھارتی ٹیم کا سربراہ بنایا۔ 1963ءمیں پاکستان اور بھارت کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے چھ راﺅنڈ ہوئے، اس دوران امریکی اور برطانوی سفارتکار پاکستان، کو کشمیر تقسیم کرنے کی تجویز دیتے رہے، لیکن نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ ڈینس ککس کے مطابق جب 8 سے 10 فروری 1963ءکو کراچی میں کشمیر کے مسئلہ پر ذوالفقار علی بھٹو اور سردار سورن سنگھ کے مذاکرات ہوئے تو بھارت نے کشمیر کی سرحد میں معمولی ردوبدل کر کے مسئلہ حل کرنے کی تجویز پیش کی لیکن پاکستان نے ایک متوازی تجویز دی کہ جموں کا علاقہ جہاں ہندو آبادی کی اکثریت ہے وہ بھارت کے ساتھ رہے باقی کشمیر پاکستان کو دیا جائے۔ ابھی مذاکرات جاری تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو چین چلے گئے جہاں انہوں نے چین کے ساتھ سرحدی سمجھوتہ کر لیا۔ جس پر امریکہ نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر عزیز احمد کو طلب کر کے بھٹو کے دورہ چین پر سخت احتجاج کیاپاکستان اور بھارت کے درمیان بھٹو سورن سنگھ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔
پچاس سال بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھارت کے وزیراعظم سردار من موہن سنگھ سے نئی دہلی میں بات چیت کی ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کے مطابق اس بات چیت میں صدر زرداری نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ بات چیت کے بعد سردار من موہن سنگھ نے کہا کہ ہم دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل کا ایک PRAGMATIC حل تلاش کریں گے۔ بھارت کے نزدیک کشمیر کا PRAGMATIC حل کیا ہے؟ اس کا جواب سردار من موہن سنگھ ہی دے سکتے ہیں لیکن تاریخ کا حوالہ دیکھا جائے تو بھارت کشمیر کے مسئلے کے کسی ایسے حل سے اتفاق نہیں کرے گا جو کشمیریوں کی رائے اور ان کی منشاءپر مبنی ہو۔ 1962ءمیں تو چین اور امریکہ دونوں کا بھارت پر دباﺅ تھا اس کے باوجود نہرو نے کشمیر کے معاملہ پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اب تو امریکہ بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر ہے اس نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کراس بارڈر ٹیررازم قرار دے رکھا ہے۔ اب بھارت پر کون دباﺅ ڈالے گا کہ وہ
کشمیریوں کو ان کا حق خواختیاری دے۔ شائد اسی لئے سردار من موہن سنگھ کشمیر کا PRAGMATIC حل تلاش کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
جاوید صدیق۔نوائے وقت
 
Top