• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھینس کی قربانی درست نہیں ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بھینس کی قربانی درست نہیں ہے

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفیانِ اسلام کہ

(۲) مسئلہ یہ ہے کہ بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں ، جو لوگ بھینس کی قربانی کرتے ہیں کیا قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ثبوت ہے ؟ بکرکہتا ہے کہ اگر بھینس کی قربانی ناجائز ہے تو اس کا دودھ کیوں استعمال فرماتے ہیں؟کیا اللہ کے رسول ﷺ نے بھینس کا دودھ پیا ہے؟ دلائل وبراہین سے واضح فرمائیں، مہربانی ہوگی۔
المستفتی:
محمدایوب
(مقیم حال فیض آباد)
۲۲؍ مئی ۲۰۱۵ء

الجواب:۲-

نصوص شریعت پرغور کرنے کے بعد جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بھینس کی قربانی درست نہیں ہے‘ کیوں کہ اس کی قربانی کا ثبوت قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود نہیں ہے‘ اس لئے اس کی قربانی کرنا غلط ہے۔

قربانی ایک عبادت ہے اورعبادت کے ثبوت کے لئے دلیل چاہیۓ بغیر دلیل کے عبادت ثابت نہ ہوگی اورچونکہ بھینس کی قربانی کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے شریعت میں بھینس کی قربانی درست نہ ہوگی۔

بھینس کے وجود اور اس کی جنس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو ضرور علم تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ ہم کو نہیں بتایا اگر دین میں اس کی قربانی موجود ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہوتا اور جب بیان نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ دین نہیں ہے۔

اسی طرح نبی ﷺ اور صحابۂ کرام کے تعامل میں بھی قربانی کا کوئی ذکر نہیں ملتا‘ یعنی نہ نبی ﷺ نے اس کی قربانی کی نہ صحابہ نے ‘ پھر کس طرح اسے دین بنایا جاسکتاہے؟!

"بهيمة الأنعام" جس کی قربانی اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے اس میں آٹھ جانور ہیں‘ بھینس اس میں شامل نہیں ہے ہم کو اپنی طرف سے بھینس کا اضافہ کرنے اور اسے شامل کرنے کا کیا حق ہے؟!

اگر یہ مان لیاجائے کہ بعض اہلِ لغت نے لکھا ہے : ’’الجاموس نوع من البقر ‘‘[لسان العرب لابن منظور۶/۴۳ مادۃ: جمس وتاج العروس للزبیدی ۸/ ۲۳۱] اور اسی کو لوگوں نے نقل کر دیا ہے تو اس پر چند باتیں قابلِ غورہیں:

١- شریعت کے مقابلے میں لغت حجت نہیں ہے ‘ کیوںکہ شریعت میں جہاں جہاں بقرۃ کا لفظ بولا گیا ہے اس سے صرف گائے ہی مراد لی گئی ہے‘ لفظ بقرۃ سے بھینس مراد لینے کی کوئی دلیل شریعت میں موجود نہیں ہے اور شریعت کے مقابلے میں لغت حجت نہیں ہے۔لہٰذا ازروئے لغت ایک شرعی حکم کا اثبات محل نظر ہے۔

٢- اگر لغت کا اطلاق دیکھا جائے تو ’’ شاۃ ‘‘ کے لفظ میں ہرن اور نیل گائے وغیرہ بھی شامل ہیں ‘

ازہری نے کہا: ’’ویقال الثور الوحشی : شاۃ‘‘ [تہذیب اللغۃ۶/۱۹۱، مادۃ:شوہ] ابن سیدہ نے کہا : ’’وقیـل الشاۃ تکون من الضان والمعز والظباء والبقر والنعام وحمر الوحش‘‘ [تہذیب اللغۃ۴/ ۴۰۲-۴۰۳، مادۃ ش و ہ ]

ابن منظور نے کہا : ’’والـشـاۃ: الـواحدۃ من الغنم تکون للذکر والانثی وقیل: الشاۃ تکون من الضأن والمعز والظباء والبقر والنعام وحمر الوحش‘‘ [لسان العرب لابن منظور ۱۳/۵۰۹، مادۃ: شوہ ، تاج العروس للزبیدی ۱۹/۵۶]

٣- کیا لغت کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ ہرن اور نیل گائے چونکہ ’’شاۃ‘‘ کا جزو ہے اس لئے اس کی بھی قربانی درست ہوگی؟! اور ظاہر ہے کہ دین میں اس کا کوئی قائل نہیں ہے‘ لہٰذا لغت کی بنیاد پر شریعت کا اتنا بڑا فیصلہ کرنا بالکل غلط ہے۔

٤- قربانی ایک عبادت ہے اگر بھینس کی قربانی درست ہوتی تو شریعت میں اس کی دلیل ہوتی اور جب دلیل نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ بھینس کی قربانی چونکہ ایک عبادت ہے اس لئے درست نہیں ہے۔

۵- بھینس کا وجود اگر چہ عرب میں نہ تھا مگر اس کا علم اللہ تعالیٰ کو تھا اس کے باوجود شریعت نے اس کی جانب کوئی اشارہ نہ کیا جو اسکے مشروع نہ ہونے کی دلیل ہے۔
اورجب شریعت کسی لفظ کے لغوی معانی میں سے صرف ایک کو ذکر کرے اور بقیہ کو نظرانداز کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باقی معانی شریعت کا مطلوب نہیں ہیں، جیسا کہ لفظ ’شاۃ ‘ کا حال ہے۔

٦- اس بات پر اس طرح بھی غور کر سکتے ہیں کہ بھینس کی قربانی کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ یہ مشتبہ ہے کیوں کہ انسان کو معلوم نہیں کہ اس کی قربانی ہوئی یا نہیں؟ اس لئے ورع اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی کی جائے جو یقینی ہو اور ایسے جانور کی قربانی سے بچا جائے جس کی قربانی یقینی نہ ہو۔

٧- ایک مزید بات یہ بھی ہے کہ اگر بھینس کی قربانی جائز ہوئی اور ہم نے قربانی نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں کبھی سوال نہ کرے گا کیوں کہ دوسرے جانور کی قربانی ہم نے کیا ہے لیکن اگر جائز نہ ہوئی اور ہم اس کی قربانی کرتے رہے تو عمر بھر ہماری قربانی نہ ہوئی اور یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ بھینس کی قربانی درست نہیں ہے کیوںکہ اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے ‘ اور لغت کی بنیاد پر اگر فیصلہ کیاجائے تو ہرن ‘ نیل گائے وغیرہ بھی لغوی طور سے شاۃ میں داخل ہیں تو کیا ان کی بھی قربانی درست ہوگی؟!
اور رہ گئی بات گوشت اور دودھ کی تو وہ بالاجماع حلال ہے۔
ایک تو اس لئے کہ اس کی حلت پر اجماع ہے‘ اور اجماعِ امت شرعی حجت ہے۔

دوسرے اس لئے کہ شریعت نے اس کو حرام نہیں قرار دیا ہے‘ اور ماکولات میں جسے شریعت نے حرام نہیں کیا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے اورحدیث میں ہے: ’’۔۔۔ الحلال ما أحل ا للہ والحرام ما حرم اللہ وماسکت عنہ فھو عفو ‘‘ [ابودائود(۳۸۰۰)]

بھینس کا گوشت کھانا اوراس کا دودھ پینا عبادت نہیں ہے کہ اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہو بلکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے جس میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جس کو شریعت نے حرام کیا ہے‘ اس لئے بلا شک وشبہ بھینس کا گوشت اور دودھ حلال ہے۔

واللہ أعلم۔

محمد جعفر أنوار الحق الهندي
شيخ الحديث جامعة إسلامية درياباد
ماخوذ: استدراک، ستمبر تا اکتوبر 2016 ص:٥٧_٥٩
 
Top