• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھیک مانگنا عادت یا ضرورت؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
محمد حسان

کچھ دن پہلےمیں مسجد میں نما ز عشاء کی ادائیگی کیلئے داخل ہو ا ، نما زکے اختتام پرمسنون ذکر اذکا ر میں مصروف تھا کہ غم میں ڈوبی ہوئی ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا ، جہاں ایک آدمی غم والم کی تصویر بنا تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور لوگوں کی نظریں اس کے لاغر اور کمزور حلیے اور میلے کچیلے لبا س پر مرکوز تھیں جس نے اپنے پاؤں پر پٹیاں بھی باندھی ہوئی تھیں اور اس نے کچھ ان الفاظ میں لوگوں کو مخاطب کیا: ’’میرے اسلامی بھائیو ! میرا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے ہے اور ہم لوگ بہت مفلسی کی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں جبکہ ان حالات کے ساتھ ساتھ میری ماں گردے کی مریضہ ہیں جن کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں جنہیں ہر ماہ میں تین چار دفعہ ڈائیلاسز کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، جو کہ بیش قیمت علاج ہے اس کے علاوہ میں خود بھی مریض ہوں میرے پاؤں پر چھالے پڑے ہوئے ہیں او رانفیکشن کی وجہ سے چلنا بھی مشکل ہو رہا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ابھی بھی میرے پاؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں لہذا میں آپ تمام بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے ساتھ حسب توفیق تعاون کردیں تاکہ میں آپکے پیسوں سے اپنااور اپنی امی کا علاج کروا سکوں ۔

دوسرا واقعہ:
ایک نوجوان عو رت بغیر پردہ کیے گاڑی میں سوار ہوتے ہی لوگوں کے سامنے رونا دھونا شروع ہوگئی کہ میرے شوہر فوت ہوچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے گھرمیں بہت بھوکے ہیں میں آپ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر التجا کر رہی ہوں کہ آپ میرے بچوں کو کھانا دلا کر ان کو بھوکوں مرنے سے بچا لیں۔

قارئین کرام ! یہ باتیں کوئی نئی نہیں ہیں جب آپ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں تو آپ کو ان لوگوں کی کثیر تعداد سے واسطہ پڑتا ہے اسی طرح فٹ پاتھوں پر ، مسجدوں، اور بازاروںمیں بھی یہ لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات کی حقیقت کیا تھی؟

جہاں تک پہلے واقعے کا تعلق ہے تو جب لوگوں نے اس کو پیسے دے دیئے تو ان نمازیوں میں سے ایک آدمی اس مانگنے والے کو جانتا تھا کہ یہ عادی بھکاری ہے ضرورت مند نہیں ہے اور مزید تحقیق کیلئے جب اس کے پاؤں سے پٹیاں کھولی گئیں تو لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اس کے پاؤں صحیح سلامت تھے جبکہ اس کے پاس اس وقت تقریبا 3500روپے جمع ہو چکے تھے جو اس نے حیلے بہانے کر کے لوگوں سے بٹور لیے تھے ۔اور یہ بھی معلو م ہو اکہ اس کی والدہ کے ڈائیلاسز وغیر ہ کی کہا نی بھی جھوٹ پر مبنی تھی۔

اور جہاں تک دوسرے واقعے کا تعلق ہے تو وہاں کچھ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ عورت پیشہ ور بھکارن ہے جس کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوتی۔

معزز قارئین ! اگر اس طرح کے واقعا ت پر غور کیاجائے تو مختلف پہلو زیر بحث آتے ہیں مثلاً:۔

1۔سب سے پہلے تو یہ بات کہ بھیک مانگنا کسی بھی طرح سے اسلام کا پسندیدہ عمل نہیں ہے ، کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کسی بھی آدمی کیلئے بھیک مانگنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنی کمر پر لادے او ربیچ کر اپنے گھر کا گزارہ کرے۔(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسألۃ)

اس کے ساتھ سوال نہ کرنے والوں کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے وہ تین حا لات بھی بیان فرما دئیے کہ جن میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر سوال کیا جا سکتا ہے، ایک وہ آدمی جس کے مال کو کسی ناگہانی آفت نے آلیا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے قرض لیا ہو لیکن وہ مفلسی کی وجہ سے اس کو ادا کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو ،اور تیسرا وہ آدمی جس کی غربت کے بارے میں اس کی قوم قبیلے کے تین معتبر آدمی شہادت دے دیں کہ واقعتًہ یہ آدمی حاجت مند ہے ۔ (نسائی ،کتاب الزکاۃ)

2۔ موجودہ دور میں آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کافی بہتر حالت والے لوگوں کی بھی کمر توڑکے رکھ دی ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ اس ناگہانی آ فت میں اپنا اوراپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کام کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن اپنی حالت زار سے تنگ آکر مانگنا شروع کر دیتے ہیں ، لیکن صد افسوس کہ لوگوں کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ اس عمل کو پیشے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں اور وہ لوگوں سے بھیک مانگتے ہوئے ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں کرتے حالانکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں اس عمل کو پسندیدہ نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ ناجائز طریقے سے مانگنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

3۔ صاحب ثروت لوگوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے مستحقین کو اپنے مال میں سے کچھ حصہ ضرور دیں ،اس میں دینے والے کیلئے دو اجر ہیں ایک اپنے رشتے داروں کی مدد اور دوسرا زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔

4۔ اگر مالدارلوگ اپنے مالوں میں سے شریعت اسلامیہ کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کریں تو اس طریقے سے بھی اس مرض کا علاج ممکن ہے ، کیونکہ زکوٰۃ ادا کرنے کا مقصد ادا کرنے والے کے مال کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ غریب اور نادار لوگوں کی مالی اعانت کرنا بھی ہوتا ہے ، جیسا کہ صدقۃ الفطر کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺہے کہ تم لوگ غریب لوگوں کی مدد کرکے ان کو اس خوشی(عید ) کے دن لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچاؤ۔

5۔ جو آدمی بھی اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت رکھتا ہو اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اس کا دیا ہوا مال مستحق لوگوں تک ہی پہنچے اور اگر کسی عادی بھکاری کے بارے میں معلوم ہو جائے تو اسے ہرگز اپنا مال نہ دیں ، کیونکہ اگر اسے آپ کی طرف سے مدد ملتی رہی تو وہ اپنی اس عادت سے باز نہیں آئے گا۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو اپنی عزت نفس کی توہین سمجھتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے کہ:
’’یہ لوگ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ‘‘(البقرۃ: ۲۷۳)
ان کی حاجت مندی کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصا ان لوگوں کی مدد کرنا ضروری ہے تاکہ یہ لوگ بھی دوسروں کے ساتھ شامل ہو کر اپنی خوشیاں منا سکیں۔

6۔ اسلامی حکومت پر خصوصاً یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہنے والے بے کس ، لاچار اور مظلوم لوگوں کی مالی معاونت اس ملک کے بیت المال سے کرے کیونکہ ان کی کفالت حکومت کے ذمے ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شاہانہ اخراجات والے لوگ اپنے سے نیچے طبقے کو بغور دیکھیں تو ان کو زندگی کے اس پہلو کا اندازہ بھی بخوبی ہو سکتا ہے ۔

7۔ اہل ثروت لوگوں کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی شاہانہ تقاریب میں غریب اور مستحق لوگوں کو بھی شریک کریں جن کو گھروں میں دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہے لیکن صد افسوس کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ رواج عام ہوچکا ہے کہ اگر افطاری بھی کروائیں تو اس میں بڑے بڑے امراء ووزراء کو مدعو کیا جاتا ہے اور وہی لوگ عامۃ الناس کی توجہ کا مرکزبھی ہوتے ہیں، جبکہ افطاری جیسی دعوت کا اصل مقصد ان لوگوں کو شریک کرناہوتا ہے جن کے پاس گھر میں افطاری کرنے کا سامان موجود نہ ہو۔اس طرح سے ایسی دعوتوں کاحقیقی مقصد معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

8۔ جو لوگ عادتاً اس مذموم فعل کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کے خلاف حکومت وقت کو مناسب کاروائی کرنی چاہئے کیونکہ کچھ لوگ اس شش وپنج میں مستحق لوگوں کی مدد بھی نہیں کرتے کہ آیا یہ آدمی ضرورت مند ہے بھی یا نہیں؟حتی کہ کچھ دن پہلے ایک خبر پڑھ کر نہایت حیرانی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ شہر کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں کچھ لوگ اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں کہ وہ دور دراز کے علاقوں میں سے معذور لوگوں کو اپنے ساتھ لے آتے ہیں ان کو شہر کی مصروف شاہراہوں اور چوکوں پر بٹھا دیتے ہیں اور شام کو اپنے ساتھ واپس لے کر چلے جاتے ہیں اس طرح ان معذور لوگوں کی کمائی ہوئی رقم سے وہ ان کو کچھ مخصوص حصہ دیتے ہیں اس طرح ان کا یہ کاروبار عروج پر ہے جو لوگوں کو دھوکہ دیکر اور معذور لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اگر ان کے خلاف مناسب کاروائی کی جائے تو اس برائی کا سدباب بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی کی محتاجی کے بارے میں معلوم ہوجائے تو حتی المقدور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔

جولوگ اس عمل کو محض عادت کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اس چہرے پر گوشت نہیں ہوگا بلکہ صرف خراشوں کے واضح نشانات ہوں گے‘‘(نسائی ۔کتاب الزکاۃ)

اس لیے ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیںاور اس عمل کو فورا ترک کردینا چاہئے تاکہ یہ کام روز آخر ت ان کی ذلت ورسوائی کا سبب نہ بنے۔
 
Top