فائزہ ان تین خواتین کی زندگی کا حال سن چکی تھی اور اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہے۔ میں نے ان تینوں مہما ن عورتوں کا شکریہ ادا کیا اور فائزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
‘‘مجھے امید ہے کہ ان خواتین کے تجربات نے آپ کی بہترین رہنمائی کی ہوگی۔ اگر اس حوالے سے پھر بھی کوئی بات دل میں کھٹکتی ہو تو ضرور کہیے۔
فائزہ جھجکتے ہوئے بولی: ‘‘میں آپ کی بہت شکرگزار ہوں، لیکن گزارش یہ ہے کہ کیا اس طرح کے سبھی واقعات میں ناکامی ہی ہوتی ہے، کوئی کامیابی نہیں ہوتی؟’’
اس موقعے پر میں نے اپنی چوتھی مہمان کو کچھ کہنے کی درخواست کی تو وہ بولیں:
‘‘عزیزہ، میں اپنے تعارف میں بتا چکی ہوں کہ میں نفسیاتی معالجہ ہوں۔ میرا تجربہ اور علم آپ کے سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے۔۔۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ وہ یہ کہ جب مرد اور عورت اپنے خاندان اور ماحول سے بغاوت کرکے ایک دوسرے کو اپناتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتےہیں۔ عورت سمجھتی ہے کہ اس نے مرد کی محبت کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا ہے، اس لیے اس کا حق زیادہ ہے، اس کی محبت اور قربانی کی قدر دنیا کی ہر چیز سے زیادہ کی جانی چاہیے۔ دوسری طرف مرد بھی ایسا ہی سوچتا ہے۔ یوں دونوں صرف ایک دوسرے سے ‘‘حقوق’’ حاصل کرنے کی تگ ودو میں رہتےہیں۔ جبکہ حقوق ادا کرنا وہ اپنی محبت کی ‘‘توہین’’ سمجھتے ہیں۔ اس خودغرضانہ ذہنیت سے ان کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوک جھونک شروع ہوجاتی ہے اور نتیجہ طلاق کی شکل میں نکلتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک میں گھر سے بھاگ کر یا والدین کی ناراضی مول لے کر کی گئی شادیوں آٹے میں نمک کےبرابر ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے ، بعض شکی مزاج مرد یہ سوچنے لگتےہیں کہ جو لڑکی اپنے ماں، باپ، بھائی ، بہنوں کی عزت کو لات مار کر محض چند دنوں یا چند ماہ کی آشنائی کے بعد اس کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی ہے، وہ ضرور بدچلن ہوگی۔ وہ میرے ساتھ عہد وفا کیوں کر نبھائے گی؟
ایسے مرد احساس کمتری کا شکار ہوتےہیں یا اپنی شکل وصورت یا قابلیت کے اعتبار سے بیوی سے کم تر ہوتےہیں، وہ اس منفی سوچ کا بہت جلد شکا رہوجاتےہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بات بے بات بیوی پر شک کریں گے۔ مثلاً کوئی ٹیلی فون آئے گا تو سوچیں گے کہ اس کے تو سارے خاندان والےناراض ہیں، اب فون کس کا آیا ہے؟ اس کے اس مزاج سے بیوی بہت جلد چڑ جاتی ہے اور یوں معاملہ ایسا بگڑتا ہے کہ سنورے نہیں سنورتا، اور بات بنائے نہیں بنتی۔
ایک تیسری وجہ بھی سامنے آئی ہے کہ اگر مرد کی مالی حالت اچھی نہ ہو یا وقتی طور پر تو ٹھیک ہو لیکن بچوں کی پیدائش اور گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے مقابلے میں کم ہوجائے تو مالی دشواریاں دونوں کی محبت کا بہت جلد بھرکس نکال دیتی ہیں۔ خاندان میں تو ان کی مدد کرنے والا کوئی ہوتا نہیں اور آہستہ آہستہ دوست احباب بھی قرض دے دے کر تنگ آجاتے ہیں اور معاملہ بگڑنے لگتا ہے۔
ایسے ہی موقعوں پر دونوں میاں بیوی کو اپنی حماقت کا احساس ہوتاہےا ور عورت ،مرد کو طعنہ دیتی ہے کہ وہ اس کے اخراجات پورے نہیں کرسکتا تھا تو ‘‘شادی’’ رچانے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری طرف اپنی نالائقی کا طعنہ میاں کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے اور وہ اسے کہتا ہے کہ یہ تم ہی ہو، جس نے اسے تسلیاں دی تھیں کہ وہ تنگی تُرشی برداشت کرے گی لیکن اب اسے اپنے فیشن اور چٹور پن ، محبت سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔
ایسے ہی میاں بیوی اگر مجرمانہ ذہنیت کے ہوں تو ان کا رخ جرائم کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ نہ صرف خود برباد ہوتےہیں بلکہ معاشرے میں انارکی اور غلاظت پھیلانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات میاں یا بیوی، دونوں میں سے کسی ایک کی اپنے والدین سے صلح ہوجاتی ہےاور عام طور پر مرد کے گھروالے ہی ایسا کرتے ہیں۔ اب لڑکے کے والدین، اپنی بہو کے بارے میں یہ کدورت رکھتےہیں کہ اس نے ان کے بیٹے کو بہکایا ہے۔ بعض گھرانوں میں ماں نے بیٹے کےلیے اپنی کسی عزیزہ کے متعلق سوچ رکھا ہوتا ہے، اس پس منظر میں، لڑکے کی ماں اور بہنیں ظالم ساس اور بی جمالو قسم کی نندوں کا روپ دھار لیتی ہیں اور بہت جلد لڑکی کا جینا حرام ہوجاتا ہے۔ اب یا تو لڑکی کو خوفناک قسم کا ‘‘گزارا’’ کرنا پڑتا ہے یا پھر تباہی اس کا مقدر بننے کو تیار ہوتی ہے! دونوں ہی صورتوں میں معاشرے میں ایک ایسے گھر کا نقشہ ابھرتا ہے جو اسی زندگی میں جہنم کا گڑھا ہوتا ہے!
اس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری وجوہات ہیں جن کا تعلق اتفاقات سے ہے، مثلاً بیماری، حادثات، کاروبار یا نوکری کا ختم ہوجانا وغیرہ۔ ان سارے حوادث میں دونوں میاں بیوی اکثر اوقات بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں۔ ان وجوہات کے ہوتے ہوئے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گھر والوں سے بغاوت کرکے محبت کی شادیاں اس قدر ناکام کیوں ہوتی ہیں!’’
کمرے میں پھر چند لمحوں کی خاموشی طاری ہوگئی اور اس دفعہ اسے فائزہ نے توڑا۔ کہنے لگی:
‘‘بلاشبہ آپ کی باتیں چشم کشا ہیں، دل کو لگتی ہیں، سمجھ میں آتی ہیں، مگر ایک کھٹک ہے اور آپ سب خواتین نے جس قدر ہمدردی اور اخلاص سے اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کیے ہیں، اس سے حوصلہ پاکر میں آپ سے یہ بات پوچھنے کی جرأت کررہی ہوں۔۔۔’’
مجھے فائزہ کی کیفیت کا اندازہ ہورہا تھا۔ یقیناً وہ اپنے معاملے میں واضح ہوچکی تھی لیکن کچھ سوالات بہر کیف باقی ہوں گے اور وہ چاہتی ہوگی کہ اچھی طرح اپنا ذہن ہر قسم کے کاٹھ کباڑ سے صاف کرلے۔ میں نے اس کا حوصلہ بڑھا تے ہوئے کہا:
‘‘ضرور پوچھو بیٹی، تمہارے ذہن کے کسی گوشے میں کوئی شبہ یا الجھن باقی نہیں رہنی چاہیے۔۔۔’’
اور اس نے واقعی بڑا عجیب سوال کیا۔ دراصل یہ سوال اکیلی فائزہ کا نہیں تھا، بلکہ ہر اس مسلمان لڑکی، لڑکے کے دل میں پیدا ہوتا ہے جو ٹی وی ، فلم اور مغرب زدہ ادبی لٹریچر سے متاثر ہے۔۔۔ اس نے پوچھا:
‘‘یہ محبت کیا چیز ہوئی۔۔۔؟ اللہ نے جنس مخالف میں جو کشش رکھی ہے، کیا وہ فطری نہیں؟ اگر اس کشش میں اخلاص شامل ہو ، تو یہ محبت کے زمرے میں نہیں آتی؟’’
مجھے یقین تھا کہ فائزہ کے دل میں یہ آخری باغیانہ قسم کا سوال ہے۔ اس کا جواب دینے کےلیے میں نے ابھی تک خاموش بیٹھی ہوئی خاتون کو دعوت دی۔ یہ بھی ایک بڑی جامعہ میں معلمہ ہیں اور دین کا وسیع علم رکھتی ہیں۔ انہوں نے بات کا آغاز کیا:
‘‘بیٹی دراصل بات یہ ہے کہ آج تک ماں، باپ، بہن بھائیوں، عزیز رشتے داروں اور دوست احباب کے درمیان جو محبت اور تعلق خاطر ہوتا ہے، وہ کبھی معاشرے میں متنازعہ نہیں بنا، مسئلہ صرف اسی محبت سے پیدا ہوتا ہے ، جس کے متعلق آپ نے سوال کیا۔ دراصل یہ انسان کے جنسی جذبات کا معاملہ ہے۔ اور اس جنسی جذبے کی تسکین بھی انسان کی اتنی ہی ضرور ت ہے جتنی ضرورت کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا ہے، مگر جس طرح انسان کھانے کے متعلق احتیاط کرتا ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہ کھائے جو بیماری کا باعث بنے، یا بد ذائقہ ہو، اسی طرح جنس کے معاملے میں بھی احتیاط لازم ہے۔ بس اگر یہ پہلو انسان سمجھ لے تو وہ سوال بھی حل ہوجاتا ہے جو آپ کے ذہن میں پیدا ہوا۔ اس لیے سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس محبت کا تعلق ایثار وقربانی یا دوسرے اخلاقی اقدار سے وابستہ جذبات سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق صرف اور صرف جنس سے ہے۔
میں آپ سمیت تمام بہنوں سے گزارش کروں گی کہ اگر وہ میری اس بات سے اختلاف کرتی ہیں تو براہ ِ کرم مجھے اس سے آگاہ کریں۔’’
میں توقع کررہی تھی کہ اس موقعے پر فائزہ بولے گی لیکن اسے خاموش دیکھ کر میں نے خود سوال کا فیصلہ کیا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ سوال تو اس کے ذہن میں ہیں لیکن محض جھجک یا شرم کے باعث نہیں پوچھ رہی۔میں نے کہا:
‘‘محترمہ اگر مردو عورت کی محبت کا تعلق صرف جنس سے ہے تو پھر محبوب کےلیے ایثار وقربانی کی جو لاتعداد داستان سنائی جاتی ہیں، ان کی کیا حقیقت ہے؟’’
محترم خاتون نے جواب دیا:
‘‘دیکھئے، میں نے یہ نہیں کہا کہ مرد اور عورت کے تعلق سے جو محبت وجو د میں آتی ہے ، اس میں ایثار وقربانی کا جذبہ نہیں ہوتا۔ایثار وقربانی کا جذبہ دو چوروں کے درمیان بھی ہوسکتا ہے۔ دراصل جب کبھی انسان کسی دوسرے انسان کا ممنون ِ احسان ہوگا، اس کی صالح فطرت ایثار وقربانی اور دوسرے پر خلوص جذبات کے اظہار پر مجبور ہوگی۔ انسان کی فطر ت میں ودیعت یہی جذبہ تو اللہ سے تعلق کی بنیاد ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جس بنیاد پر یہ محبت وجود میں آرہی ہے، وہ کیا ہے؟ مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان جو محبت ہے، اس کی بنیاد والدین کےلیے یہ احساس ہے کہ اولاد ان کے وجود کا حصہ ہے ، ان کی نیک نامی ، پہچان اور بڑھاپے میں سہارے کا باعث ہے، وغیرہ۔ اور اولاد کےلیے والدین سے محبت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ اس کے وجود کا باعث بنے ہیں۔ ان کی پرورش اور تربیت کی ذمے داری اللہ نے ان پر ڈالی ہے، وغیرہ۔ اسی طرح مرد اور عورت کے درمیان تعلق کی اصل وجہ ایک دوسرے سے جسمانی اور روحانی سکون کا حصول ہے۔ قرآن مجید میں اس پہلو کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے:
[وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةًً] (الروم، 30/21)
یعنی ‘‘اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور (اسی لیے) تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔’’
چنانچہ یہ بات طے ہے اور اس میں کسی کو اختلاف بھی نہیں۔۔۔اور قرآن کی شہادت آجانے کے بعد اختلاف ہونا بھی نہیں چاہیے۔۔۔ کہ ہر مرد اور عورت کے درمیان تعلق ومحبت کی اصل بنا ‘‘جنس’’ ہے اور جنس کی تسکین کےلیے ایک مسلمان کو ان تمام حدودو قیود کا پابند ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اس کےلیے مقرر کی ہیں۔ چنانچہ اس معاملے میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا فرمان یہی ہے کہ جنسی تعلق صرف اور صرف نکاح کے ذریعے ہی استوار کیا جاسکتا ہے۔ مرد وعورت کے درمیان محبت بھی نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے، نہ کہ نکاح سے پہلے ہی۔۔۔’’
محترمہ نے بات دو اور دو چار کی طرح واضح کردی تھی کہ محبت کا اظہار دراصل مرد وعورت کا ایک دوسرے سے جنسی راحت حاصل کرنے کا خوبصورت اظہار ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اقرار مسلم اور غیر مسلم ، سبھی کرتے ہیں۔ اس بات کے سامنے آجانے کے بعد ظاہر ہے، فائزہ کےلیے کوئی موقع نہیں تھا کہ وہ اس موضوع کو آگے بڑھاتی۔۔۔ اسی لیے محفل پر کچھ دیر کےلیے خاموشی کی چادر تن گئی۔ تب ایک خاتون کہنے لگیں:
‘‘محترمہ آپ کی بات پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ جنس کا جذبہ ایک حقیقی جذبہ ہے اور اس کےلیے اللہ نے مرد اور عورت کے درمیان محبت کا داعیہ پیدا کیا لیکن وہ کہتا ہے کہ اس کو وہ نکاح کے بعد ہی پورا کرسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے انسان، انسان نہیں ہوتا کہ اس کے دل میں جنسی جذبے کی تسکین کی خواہش نہیں ہوتی۔۔۔؟ جنس مخالف کےلیے محبت پیدا نہیں ہوتی؟’’
یہ ایک اہم سوال تھا اور بڑا ہی چبھتا ہوا سوال۔ میں دیکھ رہی تھی کہ اس سوال پر فائزہ کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ بھی ظاہر ہوئی تھی۔۔۔لگتا تھا کہ اس کے دل کی بات بوجھ لی گئی ہے۔ سوال کا جواب دینے کےلیے محترمہ معلمہ ہی نے لب کشائی کی:
‘‘میں نے عرض کی تھی کہ جنسی خواہش کی تسکین کےلیے انسان اگر انہی حدود وقیود کی پابندی کرے جو وہ دوسری حاجات مثلاً کھانےپینے، سونے آرام کرنے سے متعلق کرتا ہے تو یہ سوالات پیدا ہی نہیں ہوتے۔ مثلاً میں آپ سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتی ہوں کہ فرض کریں آپ بازار خریداری کرنے گئی ہیں، وہاں آپ کو کپڑے کا ایسا جوڑا پسند آجاتا ہے جس کی قیمت آپ ادا نہیں کرسکتیں تو کیا دنیا کا کوئی قانون اور اصول اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ یہ جوڑا زبردستی حاصل کرلیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی بیمار کے سامنے کھانے کی ایسی چیز رکھی جائے جسے وہ بہت زیادہ پسند کرتا ہو لیکن اس چیز کے کھانے سے اس کی بیماری کے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو لازمی طور پر اسے وہ چیز کھانے سے پرہیز ہی کرنا پڑے گا۔یہی معاملہ جنس کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ جنسی خواہش تو بلوغت کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتی ہے لیکن اگر اسے پورا کرنے کےلیے کسی حدود وقیود کا خیال نہ رکھا جائے تو معاشرہ جنگل کی شکل اختیار کرجائے گا۔ خاندان کا ادارہ ختم ہوجائے گا، انسان کی تہذیب وتمدن بالکل ملیامیٹ ہوکر رہ جائے گی۔ عجیب بات ہے کہ ہم غریب کو تو یہ نصیحت کرتےہیں کہ اس کی جیب میں پیسے نہیں ہیں، تو وہ صبر کرے، اپنی آمدنی میں اضافہ کرے، اپنی خواہش پر قابو پائے، لیکن جنس کے معاملے میں اسے کھلی چھٹی دینا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں، ہمیں مغربی معاشرے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ مغربی معاشرہ تو شاید جنسی آزادی کی وجہ سے بہت جلد ختم ہوجاتا لیکن وہاں ‘‘ایڈز’’ کی بیماری نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ کاش ہم مسلمانوں کا آخرت پر اتنا یقین ہوتا جتنا مغربی معاشرے کا ایڈز پر ہے۔ انہوں نے ایڈز کے خود سے ‘‘جنسی فاقہ’’ کرنا شروع کردیا ہے لیکن ہم مسلمانوں کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے متعین کردہ حدودوقیود کی پابندی کا خیال رکھیں۔’’
معلمہ کے آخری جملے خاصے تلخ تھے اور ان کا رویہ بھی جھنجھوڑنے والا تھا۔ یہی محسوس ہوتا تھا کہ ان کی باتوں نے بے لگام خواہش کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اس موقعے پر میں نے گفتگو کو ایک نیا موڑ دیا اور کہا:
‘‘مجھے امید ہے کہ ہم میں سے کسی کو اس معاملے میں کوئی شک یا تردد باقی نہیں رہا ہوگا کہ نکاح سے پہلے نام نہاد محبت کے بھیس میں مرد اور عورت کا ہر تعلق اسے بربادی کی طرف لے جاتا ہے، اللہ کی نافرمانی پر منتج ہوتا ہے، دنیا اور آخرت میں رسوائی کا باعث ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کا اس سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے جتنا آج انسان ایڈز یا کینسر کی بیماری سے بچنے کےلیے کرتا ہے۔ آخر ہم مسلمانوں کا ایمان دنیا داروں کے دنیا پر ایمان سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے! یعنی ہمیں اللہ اور رسول کی ناراضی سے اس سے زیادہ بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جتنی وہ ایڈز یا سرطان سے بچنے کےلیے کرتے ہیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ان تمام محرکات کو متعین کریں اور شیطان کے پھیلائے ہوئے جال سے محفوظ رہنے کا مؤثر حل تلاش کریں۔ اس لیے میری طرف سے پہلی گزارش یہ ہے کہ غیر مردوں کے ساتھ رابطے میں قرآن کی اس تعلیم کا خاص خیال رکھنا چاہیے جو امہات المؤمنین کو دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان عالی مرتبت خواتین کو یہ حکم دیا گیا تھا:
[فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ] (الاحزاب 33/32)
‘‘یعنی کسی سے نرم آواز میں بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں مرض ہے ، وہ کوئی امید لگا بیٹھے گا۔’’
قران کے اس حکم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین مردوں سے غیر شائستہ اور غیر مہذب طریقے سے گفتگو کریں۔ قرآن کا منشا صرف یہ ہے کہ عورت کی آواز میں غیر ضروری نرمی نہیں ہونی چاہیے کہ مخاطب کسی فضول بات کا حوصلہ پا سکے۔ کیونکہ گفتگو ہی وہ دروازہ ہے جس سے ہر طرح کے معاملات کا آغاز ہوتا ہے، اگر اس دروازے پر شرم وحیا، وقار اور خدا خوفی کا تالا لگا ہوگا تو کسی کو اندر گھسنے کی جرأت نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمیں صرف خاندان اور معاشرے ہی کا خیال نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہمارے دل میں سب سےز یادہ خوف اللہ کا ہونا چاہیے اور اللہ کا خوف ہرگز ہرگز کوئی نفسیاتی بیماری نہیں، بلکہ دنیا کے سب سے سچے اور اعلیٰ ترین انسان حضرت محمدﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ کا خوف تو عقل مندی کی معراج ہے۔۔۔
((رَأْسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللہِ)) (1)
اس لیے رابطہ ٹیلی فون سے ہویا فیکس سے، خط سے ہو یا ای میل کے ذریعے سے، ہمیں اس غلط فہمی میں ہرگز نہیں پڑنا چاہیے کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا، اگر ہمارا گمان ہے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ اللہ کے ان فرامین پر ہمارا کوئی ایمان نہیں کہ:
[يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى ](طہ،20/7)
‘‘وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات ، سبھی کو جانتا ہے۔’’
اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بھی بیان کیا:
[إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى ] (الاعلی، 87/7)
‘‘وہ اعلانیہ بات کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ کو بھی۔’’
اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
[وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ] (ق، 50/16)
‘‘اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا اور جو خیالات اس کے دل میں گردش کرتے ہیں، ہم انہیں جانتے ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔’’
میں نے اپنی بات مکمل کی تو بزرگ معلمہ نے میری ہی بات کو آگے بڑھایا اور کہا:
‘‘گھر والوں سے چھپ کر رابطہ کرنے والی عورت بھی کتنی عجیب ہے ، وہ لوگوں سے تو حیا اور شرم کررہی ہوتی ہے لیکن اللہ سے اسے کوئی شرم یا حیا محسوس نہیں ہوتی۔۔۔ حالانکہ اللہ کاحق سب سے زیادہ ہے کہ گناہ کرنے میں سب سے زیادہ شرم انسان کو اللہ سے کرنی چاہیے۔۔۔ اسی لیے تو نبیﷺ نے فرمایا:
((فَاللّٰہُ أَحَقُّ أَنْ یُّسْتَحْیٰ مِنْہُ)) (صحیح بخاری، کتاب الغسل، باب من اغتسل عریاناً وحدہ فی خلوہ۔ جامع الترمذی، کتاب الادب ، باب ماجاء فی حفظ العورۃ ، حدیث: ۲۷۶۹۔ سنن ابن ماجۃ، کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع، حدیث: ۱۹۲۰)
‘‘اللہ اس بات کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔’’
سچی بات تو یہ ہے کہ اگر انسان کا نفس اسے کسی غلط کام کی طرف آمادہ کررہا ہے تو اسے ایسی جگہ تلاش کرنی چاہیے جہاں اللہ نہ ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ ا س سےغافل نہیں۔۔۔
[لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ ] (البقرۃ 2/255)
‘‘اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔’’
‘‘دراصل یہ بات تو ویسے ہی غیر مناسب اور کمزور ایمان کی علامت ہے کہ انسان خاندان یا معاشرے کے خوف سے برے کا م سے بے۔ ایمان ِ خالص کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان محض اللہ کے خوف سے برائیوں سے بچے۔۔۔ یہی اللہ کا حکم ہے کہ :
[فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ] (آل عمران، 3/175)
‘‘لوگوں سے مت ڈرا، بلکہ مجھ سے ڈرو۔’’
اور جوشخص محض لوگوں کے خوف سے برائیوں سے بچتا ہے اسے بہت جلد شیطان یہ یقین دلا دیتا ہے کہ اس وقت اسے کوئی نہیں دیکھ رہا اور جو اللہ کو اپنا محافظ ونگران سمجھتا ہے، اسےکبھی یہ غلطی لاحق نہیں ہوسکتی کہ اس وقت وہ پروردگار ِ کائنات کی نگرانی میں نہیں ہے! مزید یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہیے کہ یہ زندگی اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزمائش کےلیے دی ہے۔ یہاں ہمیں جو آزادی دی گئی ہے وہ محض یہ ثابت کرنے کےلیے ہے کہ ہم اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ کس نوعیت کے فرد ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اہتمام کررکھا ہے کہ ہمارا ایک ایک فعل نوٹ کیا جائے، ریکارڈ میں رکھا جائے تاکہ قیامت والے دن اللہ ہم پر اپنی حجت قائم کرسکے۔ قرآن کے الفاظ اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:
[وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِراً وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَداً ] (الکہف، 18/49)
‘‘اور جو کام انہوں نے کیے ہوں گے ، وہ سامنے دیکھ لیں گے اور تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔’’
اس موقعےپر نفسیاتی معالجہ کہنے لگیں: ‘‘میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں ان وجوہات کا بھی تعین کرلینا چاہیے جن کی وجہ سے اس طرح کے حادثات جنم لیتے ہیں، جن کا اظہار آج یہاں کیا گیا ہے۔۔۔ اورمیرے مشاہدے اور مطالعے کی حدتک اس کی زیادہ تروجوہات ، دو ہیں۔ ایک فراغت اور دوسری خراب صحبت۔۔۔
فراغت دراصل ایک دودھاری تلوار ہے۔۔۔ انسان کا ذہن خالی ہو تو وہ شیطان کا گھر بن جاتا ہے اور انسان اپنی فراغت سے ‘‘انجوائے’’ کرنے کےلیے طرح طرح کے طریقے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ ہماری نوجوان لڑکیوں نے بھی اپنی فراغت کےلیے مختلف طریقے تلاش کرلیے ہیں۔ کچھ ذہنوں کو خراب کرنے والے ڈائجسٹ اور لچر قسم کے رسائل وجرائد کا مطالعہ کرتی ہیں اور کچھ ٹی وی اور ویڈیو سے دل بہلاتی رہتی ہیں اور کچھ فیشن کے نت نئے طریقے اپنانے اور بازاروں کا ‘‘سروے’’ کرنے کو زندگی سمجھے ہوئے ہیں اور کچھ ‘‘حسب ِ توفیق’’ بیک وقت ان تمام مشاغل کو اپنائے ہوتی ہیں۔
ان تمام مشاغل کو اختیار کرنے سے ان کا ذہن مردوں کو مسحور کرنےا ور ان سے مسحور ہونے ہی پر مرکوز ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے جب وہ ایسی کہانیاں پڑھتی اور فلمیں دیکھتی ہوں جن میں لڑکے لڑکیاں ماں باپ سے چھپ کر محبت کرتی نظر آتی ہیں، ایسی خواتین کے انٹرویو اور تصاویر دیکھتی اور پڑھتی ہوں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے حسن کی نمائش کرکے دوسروں کو متوجہ کرنا ہو، تو پھر ان کے تباہ کن اثرات سے بچنا کیسے ممکن ہوسکتاہے؟
دوسری چیز خراب صحبت ہے۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے:
((اَلْمَرءُ عَلیٰ دِیْنِ خَلِیْلِہٖ فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلْ)) (سنن أبی داؤد، کتا ب الادب، باب من یومر ان یجالس، حدیث:۴۸۳۳۔ جامع الترمذی، کتاب الزہد، باب حدیث الرجل علی دین خلیلہ، حدیث:۲۳۷۸)
‘‘انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے شخص کو دوست بنا رہا ہے۔’’
چنانچہ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اگر لڑکی کی سہیلیاں بے دین، فیشن پرست اور ان لغویات کی عادی ہوں، جن کا ذکر میں پہلے کرچکی ہوں، تو ان کی گفتگو کا موضوع اور مشترکہ مشاغل انہیں رسوائی کے دہانے پر پہنچا کر چھوڑتے ہیں۔ ان سہیلیوں کی مدد سے نت نئے اور شکاری قسم کے مردوں سے رابطہ ممکن ہوجاتا ہے۔ والدین بھی خاموش رہتے ہیں کہ ان کی بیتی سہیلی کے پاس گئی ہوئی ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ اس آڑ میں کیا کچھ ہوجاتا ہے! اس لیے اگر ہماری نوجوان نسل اپنی فراغت اور صحبت یعنی سہیلیوں کو اختیار کرنے میں عقل مندی کا مظاہرہ کریں تو یہی خرابیاں خوبیوں میں بدل جائیں۔ فراغت کے لمحات کو دین سیکھنے ، علم بڑھانے ، انسانی اقدار کو فروغ دینے والی کتب کے مطالعے میں گزارا جائے اور سہیلیوں کے انتخاب میں کردار اور دین کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر انسان پر شیطان کے حملہ آور ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ ’’
ان کی بات مکمل ہوئی تو بزرگ معلمہ نے کہا: ‘‘آپ کی بات کو میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات سے یوں مکمل کرتی ہوں کہ نماز کو اگر صحیح روح کے ساتھ اد ا کیا جائے یعنی انسان اللہ کے حضور کھڑا ہو کر محض تلاوت اور کچھ رٹے رٹائے جملوں کو ادا کرنے کے بجائے دل کی گہرائی سے اللہ سے مخاطب ہو تو پھر کائنات کا پروردگار خود اس کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔یہ نماز ہی ہے جس کے متعلق فرمایاگیا ہے کہ:
[إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ ] (العنکبوت ، 23/45)
‘‘بلاشبہ نماز انسان کو ہر قسم کی بے حیائی اور خلاف شرع کام سے روکتی ہے۔’’
اسی لیے جب نماز کا وقت ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم ان الفاظ سے فرماتے:
((قُمْ یَا بِلَالُ اَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ)) (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی صلاۃ العتمۃ، حدیث: ۴۹۸۶)
‘‘اے بلال! ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔’’
پھر جب زندگی میں کوئی مسئلہ، کوئی تکلیف، کوئی رنج پہنچے تو نماز ہی کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کی جائے۔۔۔ کیونکہ خود اللہ کے رسول ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کو اللہ نے یہی حکم دیا :
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ](البقرۃ، 2/153)
‘‘اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ساتھ اللہ کی مدد طلب کرو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔’’
اس موقعے پر خاصی دیر سے خاموش بیٹھی ہوئی وہ خاتون بولیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنی داستان سنائی تھی۔ کہنے لگیں:
‘‘ہم خواتین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری ساری اہمیت اور قدر ہمارے والدین اور شوہروں کی وجہ سے ہے۔ جو خواتین اپنے ماں باپ سے بے نیاز ہوکر فیصلے کرنا چاہتی ہیں ، انہیں پورے معاشرے کی مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش لوگ اگر اس موقعے پر اخباروں اور عدالتوں کے ذریعے ایسی لڑکیوں کی حمایت کرتے ہیں تو وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ معاشرے کے عرف کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہمارے معاشرے میں خاندان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اس سے الگ ہوکر خوش گوار زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری اور اس طرح کی دوسری ان گنت مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔’’
اس دوران ایک مرتبہ پھر چائے کے برتن سجائے جانے لگے اور گفتگو کا باقاعدہ سلسلہ ختم ہوگیا اور خواتین آپس میں بات چیت کرنے لگیں۔ چائے کے بعد تمام مہمان خواتین نے رخصت کی اجازت چاہی۔ فائزہ نے دل کی گہرائیوں سے سب کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی گفتگو نے اس کی آنکھیں کھول دی ہیں اور آج کی نشست اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔
مہمان رخصت ہوئے تو فائزہ نے مجھے مخاطب کیا۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے ۔ وہ میرے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔۔۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا:
‘‘بیٹی! اگر تم اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہی تو پھر کوئی بھی تمہیں دنیا کی بہترین متاع بننے سے نہیں روک سکتا کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:
((اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ)) (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا۔۔۔ حدیث:۳۶۵۰)
‘‘دنیا زندگی کا سامان ہے اور اس میں سب سے بہتر سامان نیک عورت ہے۔’’
فائزہ رندھی ہوئی آواز میں بولی:
‘‘میں اپنے دل کی کیفیت کو لفظوں کا روپ تو نہیں دے سکتی لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ میں گھر جاکر اپنا سر اپنے پروردگار کے حضور ڈال دینا چاہتی ہوں!’’
میں نے اس کےلیے دعائے خیر کی اوررخصت کرنے دروازے تک اس کے ہمراہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ (1) یہ حدیث ضعیف ہے۔(آزادؔ) تفصیل کےلیے یہ لنک ملاحظہ کریں۔
راس الحکمۃ مخافۃ اللہ؟؟؟ - URDU MAJLIS FORUM