مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
بیت المال کا نقدی اموال سے ضرورت کی اشیاء خریدکردینا
جواب: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر-مسرہ-طائف
رمضان المبارک کے موقع سے مالدارلوگ عموما اپنے مال کی زکوۃ نکالتے ہیں ،ان میں سے بعض تو خود سے غرباء ومساکین اور مستحقین میں زکوۃ تقسیم کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ دینی مراکز اور بیت المال نامی اداروں کو بطور زکوۃ نقدی رقوم دیتے ہیں ۔یہ ادارے زکوۃ کی رقم سے ضرورت مندوں کو ضرورت کی اشیاء خرید کر دیتے ہیں ۔ایک مدت سے یہ کام برصغیر میں ہوتا چلا آرہا ہے ،سعودی عرب کے خیراتی ادارے بھی فقراء ومساکین میں راشن پیکیج ،ساتھ میں کچھ نقدی رقم دیا کرتے ہیں لیکن آج کل اس کے عدم جواز پر بعض علماء کے فتاوی سوشل میڈیا پر گشت کررہے ہیں جن کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی بے چینی ہے اور وہ اس معاملے میں مختلف علماء سے رجوع کررہے ہیں ۔
مالیگاوں سے فرید احمد صاحب مجھے لکھتے ہیں "آج کل زکوٰۃ کے مال سے راشن کٹ تقسیم کو لیکر مسئلہ بتایا جارہا ہے کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ۔یہاں سوال یہ ہیکہ اہل خیر حضرات جماعت کے بیت المال میں اپنی زکوٰۃ رقم کی شکل میں ادا کرتے ہیں اور بیت المال کے ذمے داران حسب ضرورت وموقع کے مستحق افراد کو راشن کٹ، سردی کے موسم میں کمبل، بے روزگار افراد کو ٹھیلہ گاڑی یا دیگر ذرائع سے ذریعہ معاش کا نظم کرتے ہیں، بعض حضرات عیدین کے موقع پر نئے کپڑے تقسیم کرتے ہیں وغیرہ ۔ایسی صورت میں جماعت کے بیت المال کے ذمے داران کو کیا رقم کے ذریعے سے ہی امداد کرنا ہوگی یا مروجہ طریقہ سے بھی امداد کی جاسکتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔براہ کرم اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں ۔نوازش ہوگی"۔
اس سوال کا جواب لکھنے سے پہلے اس سے متعلق مختلف علماء کے فتاوی و آرا کاگہرائی سے مطالعہ کیاہوں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صاحب نصاب اپنے نقدی رقم کی زکوۃ ہرحال میں نقد ی صورت میں ہی نکالے گا خواہ وہ بذات خود مستحق کو دے یا نیابت کے لئے دینی مراکز اور بیت المال کو دے تاہم دینی مراکز اور بیت المال نقدی زکوۃ میں تصرف کرسکتے ہیں یا لوگوں کی مصلحت وضرورت کا خیال کرکے ان کے مناسب حال اشیاء مالی زکوۃ سے خرید کر دے سکتے ہیں ؟ اس معاملے میں علماء کے درمیان اختلاف نظر آتا ہے ۔
اس مختلف فیہ مسئلے کا جواب جاننے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں مسلمان رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کا اسلامی خزانہ یا بیت المال کا وجود ہونا چاہئے جس سے مسلمانوں میں موجود ضرورت مندوں کی حاجات پوری کی جاسکے جیساکہ ہم عہد رسالت وخلافت میں دیکھتے ہیں مگر اس جانب مسلمانوں میں عدم اتحاد کی وجہ سے بڑی کوتاہی نظر آتی ہے تاہم کچھ لوگ جماعتی سطح پر بیت المال یا دینی مراکز کے ذریعہ سماجی خدمات انجام دیتے ہیں جوکہ قابل قدر ہے ، مزید اس میں بہتری کی ضرورت درکار ہے اور جوانفرادی یا اجتماعی طور پر صدقات وعطیات جمع کرکے خیانت کرتے ہیں ان کی اصلاح بھی ہونی چاہئے ۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کے شروع دور میں بیت المال کا قیام اس طرح نہیں تھا جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متعارف کروایا ۔ میں ان کے دور سے یعنی عہد فاروقی سے بیت المال کی دومستند مثالیں بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ ان مثالوں سے اپنی بات واضح کرسکوں ۔
(1)پہلا واقعہ صحیح بخاری کا ہے ، زید بن اسلم روایت کرتے ہیں ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بازار گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہ امیرالمؤمنین! میرے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ کی قسم کہ اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ ان کو پکا لیں، نہ کھیتی ہے ‘ نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فقر و فاقہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہوں۔ میرے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہو گئے ‘ آگے نہیں بڑھے۔ پھر فرمایا ‘ مرحبا ‘ تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے۔ پھر آپ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان روپیہ اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دیئے اور اس کی نکیل ان کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ اسے لے جا ‘ یہ ختم نہ ہو گا اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ تجھے اس سے بہتر دے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا ‘ اے امیرالمؤمنین! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ تیری ماں تجھے روئے ‘ اللہ کی قسم! اس عورت کے والد اور اس کے بھائی جیسے اب بھی میری نظروں کے سامنے ہیں کہ ایک مدت تک ایک قلعہ کے محاصرے میں وہ شریک رہے ‘ آخر اسے فتح کر لیا۔ پھر ہم صبح کو ان دونوں کا حصہ مال غنیمت سے وصول کر رہے تھے۔(صحيح البخاري:4160)
(2)دوسرا واقعہ مختلف کتب تاریخ وسیر میں درج ہے جیسے تاریخ طبری، تاریخ دمشق اور فضائل الصحابہ وغیرہ اور اس کی سند حسن درجے کی ہے ۔ یہ واقعہ بھی حضرت عمرکے غلام اسلم بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عمر کے ساتھ حرہ واقم کی طرف نکلے ، ضرار کے مقام پر آگ جل رہی تھی ، حضرت عمر نے کہا ہوسکتا ہو یہاں سوار ڈیرہ ڈالا ہو اور سردی کی وجہ سے آگ جلا رکھی ہو ۔ قریب ہوئے تو دیکھا کہ دیکھا کہ ایک عورت کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہیں اور آگ پر ہنڈیا چڑہائی ہوئی ہے ۔علیک سلیک کے بعد کچھ اس طرح گفتگو ہوئی ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:کیا ہم قریب آجائیں ؟
وہ عورت بولی :اچھے طریقے سے قریب آجائیں یا ہمیں چھوڑ دیں ۔
پھر جب ہم قریب ہوئے تو عمر نے پوچھا : تمھیں کیا ہوا ہے ؟
اس عورت نے کہا:رات ہوچکی ہے اور سردی بھی ہے ۔
انھوں نے پوچھا :یہ بچے کیوں رو رہے ہیں ؟
اس عورت نے جواب دیا :بھوک کی وجہ ۔
انھوں نے پوچھا :ہانڈی میں کیا چیز (پک رہی ) ہے ؟
اس عورت نے جواب دیا :اس میں وہ ہے جس کے ساتھ میں ان بچوں کو چکرا رہی ہوں تاکہ وہ سو جائیں ۔ہمارے اور عمر کے درمیان اللہ ہے ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ تجھ پر رحم کرے ،عمر کو تمھارے بارے میں کیا پتا ہے ؟
اس عورت نے کہا: عمر ہمارا حاکم ہے اور پھر ہم سے غافل رہتا ہے ؟
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میری طرف رخ کرکے فرمایا: چلو ہمارے ساتھ ،پھر ہم بھاگتے ہوئے اس جگہ گئے جہاں آٹا رکھنے کا سٹور تھا ۔انھوں نے آٹے کی ایک بوری اور چربی کا ایک ڈبہ نکالا اور کہا:یہ مجھ پر لاد دو ۔میں نے کہا:آپ کے بجائے میں اسے اٹھا لیتا ہوں ۔
انھوں نے کہا:تیری ماں نہ رہے ،کیا تو قیامت کے دن میرا وزن اٹھائے گا؟
لہٰذا میں نے یہ وزن آپ پر لاد دیا اور آپ کے ساتھ چلا ،آپ بھاگے بھاگے جارہے تھے ، پھر آپ نے یہ سامان اس عورت کے سامنے ڈال دیا اور تھوڑا سا آٹا نکال کر کہا:
میں اسے ہوا میں اچھال کر صاف کرتا ہوں ،تم اس میں میرے ساتھ تعاون کرو۔
وہ ہانڈی کے نیچے پھونکیں (بھی ) مار رہے تھے پھر ہانڈی کو اتار دیا اور کہا: کوئی چیز لے آؤ۔ وہ ایک برتن لے آئی تو انھوں نے اسے اس برتن میں انڈیل دیا اور پھر ان سے فرمانے لگے : تم انھیں کھلاؤ اور میں اسے بچھاتا ہوں ۔
انھوں نے سیر ہو کر کھا لیا اور کچھ کھانا باقی بھی رہ گیا ۔
عمر (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوگئے اور میں بھی کھڑا ہوگیا پھر وہ عورت کہہ رہی تھی :
اللہ تجھے جزائے خیر دے :امیر المومنین (عمر رضی اللہ عنہ)کے بجائے تجھے صاحبِ اقتدار (خلیفہ ) ہونا چاہئے تھا۔
انھوں نے فرمایا:جب تم امیر المومنین کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہنا اور وہاں مجھ سے بات کرنا ۔ان شاء اللہ
پھر آپ پیچھے ہٹ گئے ا ور زانووں کے بل بیٹھ گئے ۔ہم نے کہا:ہماری تو دوسری شان ہے ۔
آپ مجھ سے کوئی کلام نہیں کررہے تھے پھر میں نے بچوں کو اچھلتے کودتے اور کھیلتے ہوئے دیکھا اور بعد میں وہ سوگئے تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:اے اسلم !بھوک نے ان کی نیند ختم کررکھی تھی اور انھیں رُلا دیا تھا ،لہٰذا میں نے یہ دیکھنا پسند کیا جو میں نے دیکھ لیا ہے ۔[فضائل الصحابہ ج۱ ص ۲۹۰۔۲۹۱ح ۳۸۲ وسندہ حسن ۔ منقول از مقالات،جلد 6،ص250-253 بتصرف قلیل]
بیت المال کے ذریعہ ضرورت مند مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں ان دو واقعات سے بہت سارے اسباق ملتے ہیں ۔ان اسباق میں منجملہ ایک سبق یہ ملتا ہے کہ مسلم ملک ومعاشرہ میں ضرورت مندوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے کے لئے بیت المال کا انتظام ہونا چاہئے تاکہ اس کے ذریعہ حاجت مندوں کی حاجت پوری کی جاسکے ۔ مسکین سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو کیا چاہےبلکہ ذمہ دارخود ہی ان کی مکمل معلومات حاصل کرے اورحاجت وضرورت کے مطابق ان کی امداد کرے ، فقراء ومساکین عموما شرم وحیا کی وجہ سے اپنی ضرورت بیان نہیں کرسکتے ہیں ، یہ ذمہ داروں کا ہی کام ہے ۔ اوپر آپ نے پہلے واقعہ میں پڑھاکہ ایک بیوہ عورت کے پاس چندچھوٹی چھوٹی بچیاں تھیں ، ا ن کے پاس کھانے پینے اور گزر بسر کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا تو وقت کے حاکم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ضرورت کی چیزیں، کپڑے اور روپئے دئے ۔ اسی طرح دوسرے واقعہ میں آپ نے پڑھا کہ ضرورت مند عورت کو حضرت عمر نے پکانے کی چیزیں آٹا اور چربی عطا کیا ۔ کیا آج مسلمانوں میں ایسے لوگ نہیں ہیں جنہیں ضرورت کی چیزیں چاہئے ؟ دیکھا جائے تو ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا نہیں ہے ، دوچند ہیں جو ایسے ضرورت مندوں کو تلاش کرتے ہیں اور ان کے لئےضرورت کی چیزیں مہیا کرتے ہیں ۔
اب آتے ہیں سائل کے جواب کی طرف اور مذکورہ بالا واقعات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ کیا دینی مراکز یا بیت المال ایسے کام نہیں کرسکتے ہیں ؟ تو اس کا جواب ہے کہ بالکل کرسکتے ہیں ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اداروں کے پاس لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے زکوۃ کی نقدی رقوم ہوتی ہیں ۔ کیا زکوۃ کی نقدی رقوم سے ضرورت مندوں کے مطابق اشیاء خوردونوش یا کپڑے خرید کر دئے جاسکتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں متعدد علماء کے فتاوی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مالی زکوۃ سے کوئی چیز خرید کرہم نہیں دے سکتے ہیں ،نقدی مال ہی مستحق کو دینا پڑے گا ، خوف طوالت کی وجہ سے عدم جواز کا فتوی نقل نہیں کرہاہوں ،جبکہ بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ مصلحت وضرورت کے تحت ضرورت مندوں کے درمیان اشیاء بھی تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیاکہ ہم لوگ راشن اور ضرورت کی چیزیں مثلا کمبل اور کپڑے وغیرہ زکوۃ کے پیسوں سے خرید کر بعض غربت زدہ اسلامی ممالک جیسے سوڈان ، افریقہ ، افغانی مجاہدین کے لئے بھیجتے ہیں خصوصا جب ان جگہوں پر اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں یا اشیاء نہیں پائی جاتیں ۔ کیا یہ صحیح ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا :
لا مانع من ذلك بعد التأكد من صرفها في المسلمين(مجموع فتاوى ومقالات ابن باز 14/246) یعنی اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس بات پریقین کرلیا جائے کہ یہ مسلمانوں میں ہی تقسیم کیا جائے گا۔ اس بارے میں ، میں بھی یہی موقف رکھتا ہوں کہ ضرورت اور مصلحت کے تحت محتاجوں کے درمیان زکوۃ کے پیسوں سے ضرورت کی چیزیں خرید کردینے میں حرج نہیں ہے اس بات کی تاکید کے ساتھ کہ جہاں پیسوں کی ضرورت ہو وہاں پیسے دئے جائیں ۔
پہلی وجہ :اس موقف کی تائید اس لئے کرتا ہوں کہ ہمارے زکوۃ کی تقسیم میں اسلامی معاشرہ افراط وتفریط کا شکار ہے ۔اولا :مسلم سماج میں انصاف کے ساتھ زکوۃ نہیں نکالی جاتی ۔ ثانیا :زکوۃ کےجو اوائل مستحقین ہیں وہ اکثر زکوۃ سے محروم رہتے ہیں کیونکہ زکوۃ کا اکثرحصہ مساجد، مدراس اورمراکز میں جاتا ہے جبکہ یہ نام مصارف زکوۃ میں مذکور ہی نہیں ۔پھر زکوۃ کے ان پیسوں کا استعمال تعمیرمیں، بجلی پانی میں ، کھانے پینے میں اور ضرورت کی تمام چیزوں میں ہوتا ہے۔
اس لئے اسلامی معاشرے کو زکوۃ کی تقسیم میں اعتدال برتنا ہوگا تاکہ جو اصل مستحق ہیں ان تک زکوۃ کی رقم پہنچے اور ان کے علاوہ جہاں بھی جواز کی صورت نکلتی ہے وہاں بھی تقسیم کی جائے ۔
دوسری وجہ :ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم کم اور ضرورت مند زیادہ ہیں پھر ان ضرورت مندوں میں عموما کم ہی سرپرست مرد ہواکرتے ہیں ، مردہوتے بھی ہیں تو معذور، لاغروبیمار، مجنون وغیرہ ،اکثر چھوٹے بچے اوربچیاں ہوتی ہیں، عورتیں ہوتی ہیں ، ان کے لئےصحیح سامان خریدنا بھی دشوار اور پھر کم پیسوں میں ضرورت کی چیز نہیں خریدسکتے جبکہ ایک ذمہ دار قسم کا آدمی بڑی تعداد میں سامان خرید ے تو کم قیمت پر ملے گا اور کثیر تعداد کو فائدہ ہوگا گویا انفرادی خرید پر مال کا زیادہ ضیاع معلوم ہوتا ہے جبکہ اجتماعی طور پر خریدنے میں محتاجوں کا فائدہ ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گائے، بکری اور فصل وغیرہ کی زکوۃ بغیر کسی ضرورت اور مصلحت کے نقدی کی صورت میں دینا ممنوع ہےپھر اس کی وجہ بتاتے ہیں کیوں ممنوع ہے، مزید آگے بتاتے ہیں کہ کسی ضرورت یا مثبت مصلحت کی بنا پر قیمت کی صورت میں زکاۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے(مجموع الفتاوى 25/82)
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر زکاۃ کے مستحق لوگوں کی مصلحت کو سامنے رکھا جائے تو نقدی رقم کی بجائے سامان، کپڑے اور راشن وغیرہ خرید کر دیا جا سکتا ہے اور اس کیلئے اشیائے ضرورت کی قیمت کو مد نظر رکھا جائے گا، مثال کے طور پر زکاۃ کا مستحق شخص : پاگل ہو یا کم عقل ہو یا ذہنی توازن درست نہ ہو اور یہ ڈرہو کہ اگر رقم دی جائے گی تو صحیح جگہ صرف نہیں کر سکے گاتو ایسی صورت میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے راشن خرید کر دیا جائے یا زکاۃ کی قیمت کے برابر کپڑے لیکر دئے جائیں، یہ موقف اہل علم کے صحیح ترین اقوال کے مطابق ہے(فتاوی ابن باز: 14/ 253)
اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ پہلے کہتے ہیں کہ زکاۃ ادا کرنے والا شخص اپنی رقم کے بدلے میں چیزیں نہیں دے سکتا پھر کچھ آگے کہتے ہیں اگر آپ کو خدشہ ہو کہ غریب گھرانے کو رقم کی شکل میں زکاۃ دینے پر وہ غیر ضروری اشیاء میں صرف کر دینگے تو آپ گھر کے سربراہ یعنی باپ، ماں، بھائی، یا چچا سے بات کریں اور انہیں کہیں کہ میرے پاس زکاۃ کی کچھ رقم ہے تو آپ ہمیں اپنی ضرورت کی اشیاء بتلادیں میں خریدکر آپ کو دے دیتا ہوں،اس طریقے پر عمل کریں تو یہ جائز ہوگا، اور زکاۃ اپنی صحیح جگہ صرف ہوگی (مجموع فتاوى ابن عثیمین:18/ سوال نمبر:643)
تیسری وجہ : رمضان کے آخر میں صدقۃ الفطر نکالنا واجب ہے اور صدقۃ الفطر زکوۃ میں سے ہے نیز غلہ سے یہ زکوۃ دینی ہے تاہم اس زکوۃ کے بارے میں بھی اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ فقراء ومساکین کی ضرورت ومصلحت بنا پر نقدی رقم بھی دے سکتے ہیں بلکہ بعض تو کہتے ہیں نقدی فطرانہ ہی دینا چاہئے ۔ جب ہم غلے والی زکوۃ میں فقراء کی مصحلت دیکھ کر روپیہ دے سکتے ہیں تو مالی زکوۃ میں کیوں نہیں مصلحت دیکھی جاسکتی ہے؟
ان باتوں کے علاوہ مزید باتیں اس معاملے میں قابل اعتنا ہیں ۔
*ضرورت ومصلحت کے نام پر لوگوں میں غیرضروری اشیاء نہ تقسیم کی جائیں یعنی وہی اشیاء تقسیم کی جائیں ،محتاجوں کو جن کی اصلا ضرورت ہو۔
*بسا اوقات سستے داموں پر ڈیٹ اسپائراور خراب سامان خرید لئے جاتے ہیں ، یہ بہرحال غلط ہے ۔
*کچھ محتاج ایسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں سامان کی نہیں پیسوں کی سخت ضرورت ہوایسے لوگوں کی جانکاری حاصل کرکے پیسوں سے ہی مدد کی جائے ۔
*راشن کے ساتھ کچھ پیسے بھی دئے جائیں تاکہ اگر مزید کچھ ضرورت ہو تو پوری کی جاسکے جیساکہ آپ نے اوپر پہلے واقعہ میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر نے سامان کے ساتھ کچھ پیسے بھی دئے ۔
اس موضوع کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ایک مالدار آدمی خود سے کسی مستحق کو نقدی رقم کی زکوۃ دے گا تو نقد کی صورت میں ہی دے گا ، اسی طرح کسی بیت المال کو نقدی مال کی زکوۃ دے گا توبھی نقدمیں ہی دے گااور اس مالدار کی طرف سے زکوۃ ادا ہوجائے گی ۔ آگے بیت المال کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے مال کو مستحقوں میں جہاں مال کی ضرورت ہو وہاں مال اور جہاں مصلحت وضرورت سامان کا متقاضی ہو وہاں سامان تقسیم کرے ۔