- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بیرون ملک محنت و مشقت کے لیے جانے والے مزدور !
دور کے ڈھول سہانے بج رے
کچھ بھی نئیں ہے ، کیا بھی نئیں ہے
ایک جاننے والے ہیں ، کمپنی نے کئی ماہ کی تنخواہ دبا کے رکھی ہوئی ہے ، پانچ ماہ سے کمپنی بھی بند ہے ، جب سے کمپنی بند ہے ، اس کے بعد آپ نے تنخواہ کی امید میں جتنا بھی وقت گزارنا ہے ، وہ فری کھاتے جائے گا ، نہ کمپنی کوئی کام کرائے گی ، نہ کرنے دے گی ، اور اس عرصے کی تنخواہ بھی کوئی نہیں ۔
لیکن مزدور چاہے ، کام کرے یا نہ کرے ، روز مرہ ضروریات (اندرون ملک اور بیرون ملک ان میں بھی واضح فرق ہے ) کے لیے پیسے ہونا لازمی ہے ۔ آپ کسی انسان کو فری میں بھی کسی جگہ لے جا کر مہینوں بغیر کام اور تنخواہ رکھیں تو ظلم کی انتہا ہوگی ، چہ جائیکہ کے ویزہ وغیرہ کی مد میں اس سے لاکھوں روپیہ بھی لے لیا گیا ہو ۔
ایک اور عزیز ہیں ، چند ماہ پہلے اچانک خالی ہاتھ گھر لوٹ گئے ، کہتے ہیں ، آپ پیسے کی بات کرتے ہیں ، ہم جان بہت مشکل بچا کر آئے ہیں ۔
کچھ ہمت والے ہوتے ہیں ، بغیر اقامہ اور کاغذات کے چوری چھپے محنت مزدوری کرکے کچھ نہ کچھ محنتانہ بنالیتے ہیں ، لیکن وہ بھی ہر وقت اس ڈر کےساتھ کہ شاید ابھی پولیس والے پکڑ لیں گے ، اسی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کچھ فرعون صفت لوگ ، ان کی مزدوری بھی نہیں دیتے ، کہ یہ کون سا کہیں شکایت کرنے کے قابل ہیں ۔
یہ جہاں بھی ہورہا ہے ، ظلم کی انتہا ہے ، وہ سیٹھ ، تاجر اور وڈیرے ، جو ایک ایک سیکنڈ کا حساب کرکے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں ، انہوں نے سیکڑوں ، ہزاروں لوگوں کو کئی کئی ماہ سے جانوروں کی طرح کیمپیوں میں قید ہوا ہے ۔ گھر بار کی ضروریات ، بچوں کی خواہشیں ، ماں باپ کی امیدوں سے مجبور ہو کر اگر کوئی مظلومانہ احتجاج کرے تو انتظامیہ الٹا انہیں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے ۔ لیکن وہ مگرمچھ جو ان کے حقوق دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کے گرد شکنجہ کسنے کی کسی کو فرصت نہیں ۔
ایسی صورت حال میں ان لوگوں کے لیے بھی عبرت ہے ، جو مالدار بننے کے لالچ میں اپنے وطن ، ماں باپ اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر پردیس کی خاک چھاننے کے خواہشمند رہتے ہیں ۔ عزت و سکون کے ساتھ اپنے عزیز و اقارب میں رہ کر دس پندرہ ہزار پر گزارہ کرنا ، اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ بیرون ملک جاکر ماہانہ پجاس ہزار کمائیں ، جس میں سے بیس آپ کو بچے اور تیس ادھر ادھر کی چٹیوں اور فیسوں میں چلا جائے ۔
ظلم کی اس چکی کا پاٹ وہ ایجنٹ بھی ہیں ، جو چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ، سہانے خواب دکھاتے ہیں ، حالانکہ حقیقت حال سے نہ خود واقف ہوتے ہیں ، نہ مزدوروں کو اس کے متعلق کچھ رہنمائی کرتے ہیں ۔ بعض دفعہ خرانٹ قسم کے ایجنٹ خود معاشرے کے اندر اپنا اعتماد کھو چکے ہوتے ہیں ، اس لیے کسی اچھی سمعت اور شہرت والے سیدھے سادھے مولوی صاحب کوساتھ ملا لیتے ہیں ، اور یوں ایک لالچی بدمعاش ایک رحمدل فرشتہ صفت لیکن بھولے بھالے انسان کے ذریعے عوام کو لوٹتا ہے ۔
بعض دفعہ انسان پر ’ باہر جانے ‘ کا بھوت اس قدر سوار ہوتا ہے کہ خیرخواہ بھی برے لگتے ہیں ، احتیاط کا مشورہ دینے والے بھی اچھے نہیں لگتے ، ایک اور جاننے والے ہیں ، بڑا خوشی خوشی کہنے لگے ، فلاں رشتہ دار نے بڑا اچھا ویزہ بھیجا ہے ، سب بات سن کر میں نے صاف الفاظ میں عرض کیا ، کہ احتیاط کریں ، یہاں بات کچھ ہوتی ہے ، اور وہاں جاکر کچھ اور ہوتا ہے ، لیکن حسب توقع انہیں کوئی بات سمجھ نہیں آئی ، یہاں آکر پتہ چلا کہ کمپیوٹر آپریٹر کے ویزہ پر آنے والے صاحب کی ذمہ داری کسی بدو کی بکریاں چرانا ہے ۔
بیرون ملک انسان آدمی نہیں ، ایک جانور بن کے رہتا ہے ، اور جانور بھی ایسے لاپرواہ مالک کا ، جو صرف کام لینا جانتا ہے ، کسی گدھے کو چارہ پانی کی ضرورت ہے یا نہیں ، یا وہ اتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے یا نہیں ، اس سے اس کو کوئی غرض نہیں ۔
اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم فرمائے ۔
Last edited: