• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیٹی پیدا ہونا عورت کے بابرکت ہونے کی علامت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک حدیث سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جو اس طرح کرکے ہے:
عورت کی برکت یہ ہے کہ اس سے پہلی بار بیٹی پیدا ہو۔
یہ حدیث بعض کتب میں موجود ہے، ذیل میں ایک کتاب سے اسے نقل کیا جاتا ہے:
646 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " §مِنْ بَرَكَةِ الْمَرْأَةِ تَبْكِيرُهَا بِالْأُنْثَى، أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ} [الشورى: 49] ، فَبَدَأَ بِالْإِنَاثِ قَبْلَ الذُّكُورِ "(مکارم الأخلاق للخرائطی ص 213)
امام سیوطی نے اسے الجامع الصغیر وزیاداتہ میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
شیخ البانی نے ضعیف الجامع میں اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیاہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس موضوع پر بندہ کچھ عرصہ قبل ایک سوال کا جواب دے چکا ہے ،جسے یہاں نقل کرتا ہوں امید ہے قارئین کیلئے مفید رہے گا :
ـــــــــــــــــــ
یوسف ثانی نے کہا ہے:
"خوش قسمت ہے وہ عورت جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو" (حدیث)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس معنی کی دو تین روایتیں ناکارہ اسناد سے منقول ہیں ؛
پہلی روایت امام ابن عدیؒ ( أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365 ھ) نے "
الكامل في ضعفاء الرجال " میں نقل فرمائی ہے :
علامہ ناصر البانیؒ "سلسلہ احادیث ضعیفہ (ج9 ص142 ) میں اسے نقل کرکے اسے موضوع یعنی گھڑنت قرار دیتے ہیں ،، لکھتے ہیں :
(من يمن المرأة أن يكون بكرها جارية) .
موضوع
أخرجه ابن عدي في "الكامل" (6/ 302) من طريق شيخه محمد بن محمد بن الأشعث: حدثني موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر ابن محمد: حدثني أبي، عن أبيه، عن جده جعفر، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن أبيه، عن علي مرفوعاً.
قلت: موضوع، المتهم به هذا الشيخ؛ فقد ساق له ابن عدي نحو خمسة وعشرين حديثاً من أصل قرابة ألف حديث بهذا الإسناد العلوي، وقال:
"وعامتها من المناكير، وكان متهماً". وقال الدارقطني:
"آية من آيات الله! وضع ذاك الكتاب. يعني العلويات".
وقد مضى له حديث آخر موضوع في المجلد الرابع رقم (1932) . وقال الذهبي في "الميزان":
"وساق له ابن عدي جملة موضوعات".

ترجمہ :
یعنی امام ابن عدیؒ اپنے شیخ محمد بن محمد سے وہ کہتے ہیں :حدثني موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر ابن محمد:حدثني أبي، عن أبيه، عن جده جعفر، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن أبيه، عن علي مرفوعاً :
جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ سے وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
"خوش قسمت اور بابرکت ہے وہ عورت جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ الالبانیؒ لکھتے ہیں : یہ حدیث موضوع ہے ، اور اس کے وضع کا الزام اور تہمت ابن عدی کے شیخ محمد بن محمد بن الاشعث پر ہے ،
ابن عدی نے اس کے ترجمہ میں اس کی پندرہ احادیث اسی اسناد سے نقل فرمائی ہیں ، اور ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اس کی اکثر روایات منکر ہیں ، جن کا الزام اسی کے سر ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــ
(2) دوسری روایت :
علامہ البانیؒ اسی معنی کی دوسری روایت (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة " 4519 ) میں نقل کرکے لکھتے ہیں :
( من بركة المرأة : تبكيرها بالبنات ؛ ألم تسمع الله يقول : (يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور) ، فبدأ بالإناث قبل الذكور )
یعنی واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت کی برکت میں سے ہے کہ اس سے پہلی اولاد لڑکیاں ہوں، کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ پاک خود فرماتا ہے ( الله ہی جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے ) تو اللہ نے اولاد عطا کرنے کے بیان بیٹیوں سے ابتدا کی ؛
علامہ البانیؒ کہتے ہیں :

موضوع
رواه الخرائطي في "مكارم الأخلاق" (ص 72) ، والخطيب (14/ 417-418) ، وابن عساكر (13/ 398/ 1) ، وأبو نعيم في "جزء حديث الكديمي وغيره" (33/ 2) عن مسلم بن إبراهيم: حدثنا حكيم بن حزام عن العلاء بن كثير عن مكحول عن واثلة بن الأسقع مرفوعاً.
قلت: وهذا إسناد ضعيف جداً؛ حكيم بن حزام هذا؛ قال البخاري:
"منكر الحديث". وقال أبو حاتم: "متروك الحديث". وقال الساجي: "يحدث بأحاديث بواطيل".
والحديث؛ أورده ابن الجوزي في "الموضوعات" من رواية الخرائطي.


ترجمہ :
یعنی یہ موضوع ہے ،
اسے محمد بن جعفرخرائطی (المتوفیٰ 327ھ) نے مکارم الاخلاق میں جس سند سے نقل فرمایا ہے اس میں حکیم بن حزام واقع ہے
اسے امام بخاریؒ منکر الحدیث ۔۔ اور ۔۔ امام ابو حاتم الرازیؒ "متروک الحدیث " کہتے ہیں ، اور امام ساجیؒ فرماتے ہیں کہ یہ باطل احادیث نقل کرتا ہے ،
اور امام ابن الجوزیؒ نے یہ مذکورہ روایت اپنی کتاب "الموضوعات " میں درج کی ہے ،یعنی ان کے نزدیک بھی یہ موضوع ہے ؛

ــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة

٤١٣٦ - قال ابن عدي: حَدَّثَنَا «مُحَمَّدٌ بْنُ مُحَمَّدٌ بْنُ الأَشْعَثُ» حَدَّثَنِي مُوْسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمد حَدَّثني أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
« مِنْ يُمْنِ الْمَرْأَةِ أَنْ يَكُونَ بِكْرُهَا جَارِيَةً »

ترجمہ: عورت کی برکت میں سے ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو۔
۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥ھ)؛ (موضوع)
شیخ البانی: یہ حدیث موضوع ہے، مُحَمد بن مُحَمد بن الأشعث متہم بالوضع ہے، ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے اس راوی کی اس علوی سند کی ہزار احادیث میں سے تقریبًا پچیس (۲۵) احادیث لائی ہیں اور کہا ہے کہ عام طور پر یہ احادیث منکر ہیں اور وہ متہم بالوضع ہے۔
دار قطنی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس نے یہ کتاب " العلويات" گھڑی ہے۔ اور ذہبی رحمہ اللّٰہ میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے اسکی موضوع احادیث نقل کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
عن مسلم بن إبراهيم: حدثنا حكيم بن حزام عن العلاء بن كثير عن مكحول عن واثلة بن الأسقع مرفوعاً.
رواه الخرائطي في "مكارم الأخلاق" (ص 72) ، والخطيب (14/ 417-418) ، وابن عساكر (13/ 398/ 1) ، وأبو نعيم في "جزء حديث الكديمي وغيره"
خرائطی اور ابن جوزی کی سند میں حکیم بن حزام ہے، خطیب بغدادی کی سند میں حکیم بن خذام ہے، اور ابن عساکر کی سند میں حکیم بن خدام ہے۔
خرائطی اور ابن عساکر کی سند میں مسلم بن ابراہیم ہے، خطیب بغدادی کی سند میں سلم بن ابراہیم ہے، ابن جوزی کی سند میں سالم بن ابراہیم ہے اور ابن الجوزی نے حدیث پر حکم لگانے میں سلم ہی کہا ہے۔
سلم بن ابراہیم اور مسلم بن ابراہیم دو الگ راوی ہیں۔ سلم بن ابراہیم الوراق کو یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے جیسا کہ تہذیب الکمال میں ہے۔ سلم بن ابراہیم کے شیوخ میں حکیم بن حزام کا ذکر ہے۔
مسلم بن ابراہیم ثقہ، بخاری رحمہ اللّٰہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ ان کے شیوخ میں حکیم بن حزام کا ذکر تہذیب الکمال میں مزی رحمہ اللّٰہ نے نہیں کیا ہے۔

اس تفصیل سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ حکیم بن حزام/خدام/خذام سے روایت کرنے والا راوی سلم بن ابراہیم کذاب ہے، مسلم بن ابراہیم ثقہ راوی نہیں۔ و اللّٰہ اعلم
خرائطی اور ابن عساکر کی سند میں شاید کسی راوی کی غلطی کی وجہ سے سلم کا مسلم ہو گیا ہے۔ و اللّٰہ اعلم


ابن الجوزی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں اس سند میں کذاب راویوں کی جماعت ہے:
علاء بن کثیر کے متعلق امام احمد اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے: لَيْسَ بشئ (اس کی کوئی حیثیت نہیں)، ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ ثقہ رواۃ سے موضوعات روایت کرتا ہے۔
حکیم بن حزام کو ابو حاتم رازی نے متروک کہا ہے۔
سلم بن ابراہیم کو یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے اس کی علت صرف حکیم بن حزام کو بتایا ہے۔ و اللّٰہ اعلم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة

٤٥١٩ - قَالَ الخرائطي: حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ الضَّرِيرُ» حَدَّثَنَا «مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْدِيُّ» حَدَّثَنَا «حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ» عَنِ «الْعَلَاءِ بْنِ كَثِيرٍ» عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « مِنْ بَرَكَةِ الْمَرْأَةِ تَبْكِيرُهَا بِالْأُنْثَى، أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ} [الشورى: ٤٩] ، فَبَدَأَ بِالْإِنَاثِ قَبْلَ الذُّكُورِ »



ترجمہ: عورت کی برکت میں سے ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو، کیا تم نے نہیں سنا کہ اللّٰہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: « اللّٰہ ہی جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے »۔ تو اللہ نے اولاد عطا کرنے کے بیان میں بیٹوں سے پہلے بیٹیوں کا ذکر کیا ہے۔

تخريج: مكارم الأخلاق للخرائطي (٦٤٦) (المتوفى: ٣٢٧ھ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (في ترجمة ٧٧٠٦ - أبو موسى البغدادي) (المتوفى: ٤٦٣ھ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٨١٨) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (في ترجمة ٥٤٧٣ - العلاء بن كثير أبو سعيد مولى بني أمية) (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧ھ)؛ (موضوع)

تفسير ابن مردويه، جزء حديث الكديمي لأبي نعيم.


شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، حکیم بن حزام کو امام بخاری نے منکر الحدیث اور ابو حاتم رازی نے متروک الحدیث کہا ہے۔ ساجی نے کہا ہے کہ وہ باطل احادیث روایت کرتا ہے۔
اس حدیث کو ابن الجوزی رحمہ اللّٰہ نے "الموضوعات" میں خرائطی کی سند سے روایت کیا ہے، سیوطی نے "اللآلىء" میں ان کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث کی ایک شاہد عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی مرفوع روایت ہے جسے ابو الشیخ نے روایت کیا ہے۔
شیخ البانی: عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی روایت کی سند میں دو متہم راوی ہیں اس لئے وہ روایت شاہد بننے کے لائق نہیں ہے۔

[مترجم: خرائطی اور ابن جوزی کی سند میں حکیم بن حزام ہے، خطیب بغدادی کی سند میں حکیم بن خذام ہے، اور ابن عساکر کی سند میں حکیم بن خدام ہے۔
خرائطی اور ابن عساکر کی سند میں مسلم بن ابراہیم ہے، خطیب بغدادی کی سند میں سلم بن ابراہیم ہے، ابن جوزی کی سند میں سالم بن ابراہیم ہے اور ابن الجوزی نے حدیث پر حکم لگانے میں سلم ہی کہا ہے۔
سلم بن ابراہیم اور مسلم بن ابراہیم دو الگ راوی ہیں۔ سلم بن ابراہیم الوراق کو یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے جیسا کہ تہذیب الکمال میں ہے۔ سلم بن ابراہیم کے شیوخ میں حکیم بن حزام کا ذکر ہے۔
مسلم بن ابراہیم ثقہ، بخاری رحمہ اللّٰہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ ان کے شیوخ میں حکیم بن حزام کا ذکر تہذیب الکمال میں مزی رحمہ اللّٰہ نے نہیں کیا ہے۔

اس تفصیل سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ حکیم بن حزام/خدام/خذام سے روایت کرنے والا راوی سلم بن ابراہیم کذاب ہے، مسلم بن ابراہیم ثقہ راوی نہیں۔ و اللّٰہ اعلم
خرائطی اور ابن عساکر کی سند میں شاید کسی راوی کی غلطی کی وجہ سے سلم کا مسلم ہو گیا ہے۔ و اللّٰہ اعلم

ابن الجوزی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں اس سند میں کذاب راویوں کی جماعت ہے:
علاء بن کثیر کے متعلق امام احمد اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے: لَيْسَ بشئ (اس کی کوئی حیثیت نہیں)، ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ ثقہ رواۃ سے موضوعات روایت کرتا ہے۔
حکیم بن حزام کو ابو حاتم رازی نے متروک کہا ہے۔
سلم بن ابراہیم کو یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے اس کی علت صرف حکیم بن حزام کو بتایا ہے۔ و اللّٰہ اعلم]
 
Top