بیٹی ہوئی ہے !!!
ساگر تیمی
صائمہ پانچویں بار امید سے تھی ، سب کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی کہ اللہ پاک اس مرتبہ اسے بیٹا دے دے ۔ بیٹے کی تمنا تو اسے بھی تھی کہ اللہ نے چار بیٹیاں اسے پہلے ہی دے رکھی تھی لیکن اس کے لیے وہ اللہ سے شکوہ سنج یا دعا گو نہیں تھی ۔ وہ صرف اللہ سے یہ مانگتی تھی کہ اللہ جس میں بھلائی ہو وہی عطا ہو ۔ اس کے علاوہ اس کے شوہر حمدان کو بھی بیٹیوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ بر عکس طور پر اسے بیٹیاں پسند بھی زيادہ تھیں اور چاروں بچیوں کے بیچ وہ جب ہوتا تھا ایسا لگتا جیسے پوری دنیا پھولوں سے لدے چمن میں بدل گئی ہو ۔ ایک پر ایک شرارتیں ، مسکراہٹیں اور توتلی بولیاں ۔ حمدان کو لگتا ہی نہیں کہ بیٹا یا بیٹی فی نفسہ کوئی مسئلہ ہے ۔ اسے اپنے رب پر بھروسہ بھی تھا اور اپنی تربیت پر یقین بھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ بیٹیاں ایسی ہوں کہ بیٹوں کو رشک آئے ۔
چاروں بیٹیاں آسانی سے پیدا ہوگئی تھیں ، آپریشن یا ڈاکٹر کی ضرورت نہيں پڑی تھی ، حمدان کو یاد تھا کہ اللہ نے ہر ایک بچی کے ساتھ اس کی زندگی میں خوشحالی کے نئے دروازے کھولے تھے ۔ شادی ہوئی تھی تو پڑھ ہی رہا تھا ، پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اسے نوکری ملی تھی ، دوسری کی پیدائش کے بعد اللہ نے اس کا پروموشن کرایا تھا ، تیسری اور چوتھی کے وقت اس نے اپنے بزنس کی بنیاد ڈالی تھی اور اللہ نے بہت جلد ترقیوں سے نوازا تھا ۔ اس لیے جب پانچویں بار صائمہ حاملہ تھی تو دل ہی دل حمدان کی خواہش تھی کہ اللہ ایک اور رحمت سے نواز دے لیکن اس کا اظہار وہ نہ تو صائمہ کے پاس کرتا تھا اور نہ کسی اور کے پاس ۔ صائمہ اگر کبھی اس طرف اس کی توجہ دلائی تو وہ مسکراکر طرح دے جاتا اور اپنے عمل سے اس بات کا نمونہ پیش کرتا کہ اس کے لیے بیٹا یا بیٹی معنی نہیں رکھتے ۔
داخلی سطح پر صائمہ بہت مطئمن تھی لیکن اسے معلوم تھا کہ اس کا خارجی معاملہ بہت اچھا نہیں ہے ۔ حمدان کے والد ، والدہ ، بھائی اور بہنیں سب کو بیٹی کی بجائے بیٹے کی طلب تھی ۔ جب پہلی بیٹی ہوئی تھی تو سب خوش تھے ، دوسری میں خوشی نہیں تھی تو غم بھی نہیں تھا ، تیسری میں غم تو تھا لیکن اظہار غم کا رویہ بہت واضح نہیں تھا لیکن چوتھی جب پیدا ہوئی تھی تو حمدان کی والدہ رابعہ خاتون کا غصہ پھٹ پڑا تھا ، بہن حمیدہ کے غلیظ خیالات باہر آگئے تھے اور بھائیوں کے ساتھ والد کی بے اطمینانی بھی سامنے آگئی تھی ۔
حمیدہ : امی مبارک ہو ! پھر سے " رحمت " آئی ہے ۔ حمیدہ نے رحمت کو ایسے ادا کیا تھا کہ صائمہ اندر تک سہم گئی تھی ۔
رابعہ : کب سے کہہ رہی ہوں حمدان مانتا ہی نہیں ۔ اس عورت سےاسے بیٹا ہونے والا نہیں ہے لیکن کلموہی نے تو اس پر جیسے جادو ہی کردیا ہوا ہے ۔ اس بار بھی منحوس نے بیٹی ہی جنم دیا ہے ۔
حمدان کے والد شمیم صاحب بھی دبے لفظوں میں اپنی بیوی کا ہی ساتھ دے رہے تھے : رابعہ ! صرف کہنے سے کیا ہوتا ہے ، تم نے بھی تو کوئی دوسری لڑکی اس کے لیے دیکھی نہیں ؟ آخر کو نسل تو آگے بڑھنی چاہیے ۔
یہ سب باتیں سن کر صائمہ پر جو اثر پڑنا چاہیے وہی اثر پڑتا تھا لیکن اسے اپنے اللہ پر بھروسہ تھا ، اس لیے اندر سے زخمی زخمی رہنے کے باوجود لبوں سے وہ کبھی دکھ کا اظہار نہیں کرتی تھی ۔ دل جب زيادہ بے قرار ہوتا ، وضوء کرکے دو رکعت ادا کرتی ، سجدے میں گرتی اور اپنے سننے والے کو سب کچھ سنا دیتی ۔
اس بار حمل کے درمیان کا تجربہ صائمہ کا کچھ دوسرا تھا ، تکلیف تھوڑی زیادہ تھی ، ابکائی زیادہ آتی تھی ، کچھ کھانے کو طبیعت نہیں کرتی تھی ، پڑوسن شمیمہ بار بار یقین دلاتی تھی کہ ہو نہ ہو اس بار بیٹا ہوگا اور صائمہ اندر ہی اندر ہنس کر رہ جاتی تھی ۔ ساس کے طعنے باقی تھے ، نندوں کا کاٹدار لہجہ بھی یاد آتا تھا اور کبھی کبھی تو سسر کی باتیں دل کے اندرون تک چھلنی کردیتی تھیں لیکن اس کا اپنے رب پر بھروسہ بہت مضبوط تھا ۔ حمدان کا رویہ بھی اسے بہت مطمئن رکھتا تھا ۔
اللہ کا کرنا دیکھیے کہ اس بار بھی صائمہ کے بطن سے بیٹی ہی پیدا ہوئی تھی ۔ بے حد خوبصورت ، بڑی بڑی آنکھیں ، چوڑی پیشانی ، ترشے ہوئے پتلے پتلے ہونٹ اور کھڑی ناک ۔ ایک دم سے اپنے باپ پر گئی تھی ۔ یہ پہلا موقع تھا جب صائمہ کو ہاسپیٹل جانا پڑا تھا ۔ باہر سارے لوگ موجود تھے ، نندیں ، ساس ، دیور ، سسر اور شوہر بھی ۔ اندر سے نرس نے آکر خبر دی تھی " بیٹی ہوئی ہے ! " اور سب کے سب سوائے حمدان کے اداس ہوگئے تھے ۔ اس نے الحمدللہ کہا اور اپنی بیوی کی بابت معلوم کرکے مطمئن ہوگيا کہ صائمہ اور بچی دونوں ٹھیک ہیں ۔ لیکن رابعہ کو جیسے ایک اور موقع ہاتھ لگ گیا ہو ۔
رابعہ : حمدان ! اب بہت ہوگيا ۔ میں نے تیرے راجو مامو کی بیٹی دیکھی ہے ۔ چل تو اس سے نکاح کرلے ۔ اس عورت سے تو تجھے نرینہ اولاد ملنے سے رہی ۔ حمیدہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور باپ کا عندیہ بھی ویسا ہی تھا ۔ حمدان نے اس مرتبہ نظرانداز کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کی زبان چل پڑی " مجھے کبھی کبھی آپ سب پر افسوس ہوتا ہے ۔ ایک عورت بچہ پیدا کرنے کے مرحلے سے گزر رہی ہے ، موت و حیات کے مرحلے سے گزر رہی ہے ، درد و کرب کی کس سطح پر ہے اور آپ لوگ یہ گھٹیا باتیں کررہے ہیں ۔ آپ کو پوتا چاہیے ، رابعہ کو بھتیجا چاہیے ، بھائیوں کو بھتیجا چاہیے لیکن میں اپنی بیٹیوں سے بہت خوش ہوں ، مجھے اللہ کی یہ رحمتیں ہی زیادہ پسند ہیں ، میں تو اللہ پاک سے دعا کیا کرتا تھا کہ مجھے پانچویں بھی بیٹی ہی ہو ۔ آخر آپ لوگوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے ۔ یہ اللہ کے فیصلے ہیں ، وہ جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے دونوں سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں سے محروم کردیتا ہے ۔ میں تو اس بات کو لے کر اس کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے سرے محروم نہیں کیا ۔ اس میں اس غریب صائمہ کا کیا قصور ہے ۔ بچے تو مرد کے پانی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر میری قسمت میں بیٹیاں ہیں تو اس میں وہ کیا کرسکتی ہے ؟ امی کو ایک عورت ہونے کے ناتے اس کا درد سمجھنا چاہیے تو الٹے اس موقع سے وہ مجھے شادی کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں ۔ مجھے آپ سب پر افسوس ہورہا ہے جیسے آپ لوگوں سے میری خوشی نہیں دیکھی جارہی ہو ۔ اللہ کے واسطے اس طرح کی گھٹیا باتیں کرنا چھوڑ دیجیے ۔ میں اپنی بیٹیوں کو پاکر بہت خوش ہوں اور اللہ کا بہت شکرگزار بھی ۔ بولتے بولتے حمدان کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ سب کے سب لوگ کچھ دیر نگاہیں نیچیے کیے وہیں کھڑے رہے ۔ اس درمیان نرس نے آکر انہیں اندر جانے کی اجازت دی اور وہ سب صائمہ کے پاس پہنچ گئے ۔ رابعہ نے پوتی کو گود میں لیا ، اسے دلارا ، صائمہ کی خبر پوچھی اور حمیدہ سے ہاسپیٹل میں ہی رک کر صائمہ کا خیال رکھنے کو کہا ۔ شمیم صاحب بھی بہو کو دعائیں دے رہے تھے ۔ صائمہ تھوڑی حیران لیکن اندر سے مطمئن اپنے شوہر کی طرف دیکھ رہی تھی اور وہ مسکراکر جیسے کہہ رہے ہوں کہ اللہ نے تمہاری سن لی !!
ساگر تیمی
صائمہ پانچویں بار امید سے تھی ، سب کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی کہ اللہ پاک اس مرتبہ اسے بیٹا دے دے ۔ بیٹے کی تمنا تو اسے بھی تھی کہ اللہ نے چار بیٹیاں اسے پہلے ہی دے رکھی تھی لیکن اس کے لیے وہ اللہ سے شکوہ سنج یا دعا گو نہیں تھی ۔ وہ صرف اللہ سے یہ مانگتی تھی کہ اللہ جس میں بھلائی ہو وہی عطا ہو ۔ اس کے علاوہ اس کے شوہر حمدان کو بھی بیٹیوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ بر عکس طور پر اسے بیٹیاں پسند بھی زيادہ تھیں اور چاروں بچیوں کے بیچ وہ جب ہوتا تھا ایسا لگتا جیسے پوری دنیا پھولوں سے لدے چمن میں بدل گئی ہو ۔ ایک پر ایک شرارتیں ، مسکراہٹیں اور توتلی بولیاں ۔ حمدان کو لگتا ہی نہیں کہ بیٹا یا بیٹی فی نفسہ کوئی مسئلہ ہے ۔ اسے اپنے رب پر بھروسہ بھی تھا اور اپنی تربیت پر یقین بھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ بیٹیاں ایسی ہوں کہ بیٹوں کو رشک آئے ۔
چاروں بیٹیاں آسانی سے پیدا ہوگئی تھیں ، آپریشن یا ڈاکٹر کی ضرورت نہيں پڑی تھی ، حمدان کو یاد تھا کہ اللہ نے ہر ایک بچی کے ساتھ اس کی زندگی میں خوشحالی کے نئے دروازے کھولے تھے ۔ شادی ہوئی تھی تو پڑھ ہی رہا تھا ، پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اسے نوکری ملی تھی ، دوسری کی پیدائش کے بعد اللہ نے اس کا پروموشن کرایا تھا ، تیسری اور چوتھی کے وقت اس نے اپنے بزنس کی بنیاد ڈالی تھی اور اللہ نے بہت جلد ترقیوں سے نوازا تھا ۔ اس لیے جب پانچویں بار صائمہ حاملہ تھی تو دل ہی دل حمدان کی خواہش تھی کہ اللہ ایک اور رحمت سے نواز دے لیکن اس کا اظہار وہ نہ تو صائمہ کے پاس کرتا تھا اور نہ کسی اور کے پاس ۔ صائمہ اگر کبھی اس طرف اس کی توجہ دلائی تو وہ مسکراکر طرح دے جاتا اور اپنے عمل سے اس بات کا نمونہ پیش کرتا کہ اس کے لیے بیٹا یا بیٹی معنی نہیں رکھتے ۔
داخلی سطح پر صائمہ بہت مطئمن تھی لیکن اسے معلوم تھا کہ اس کا خارجی معاملہ بہت اچھا نہیں ہے ۔ حمدان کے والد ، والدہ ، بھائی اور بہنیں سب کو بیٹی کی بجائے بیٹے کی طلب تھی ۔ جب پہلی بیٹی ہوئی تھی تو سب خوش تھے ، دوسری میں خوشی نہیں تھی تو غم بھی نہیں تھا ، تیسری میں غم تو تھا لیکن اظہار غم کا رویہ بہت واضح نہیں تھا لیکن چوتھی جب پیدا ہوئی تھی تو حمدان کی والدہ رابعہ خاتون کا غصہ پھٹ پڑا تھا ، بہن حمیدہ کے غلیظ خیالات باہر آگئے تھے اور بھائیوں کے ساتھ والد کی بے اطمینانی بھی سامنے آگئی تھی ۔
حمیدہ : امی مبارک ہو ! پھر سے " رحمت " آئی ہے ۔ حمیدہ نے رحمت کو ایسے ادا کیا تھا کہ صائمہ اندر تک سہم گئی تھی ۔
رابعہ : کب سے کہہ رہی ہوں حمدان مانتا ہی نہیں ۔ اس عورت سےاسے بیٹا ہونے والا نہیں ہے لیکن کلموہی نے تو اس پر جیسے جادو ہی کردیا ہوا ہے ۔ اس بار بھی منحوس نے بیٹی ہی جنم دیا ہے ۔
حمدان کے والد شمیم صاحب بھی دبے لفظوں میں اپنی بیوی کا ہی ساتھ دے رہے تھے : رابعہ ! صرف کہنے سے کیا ہوتا ہے ، تم نے بھی تو کوئی دوسری لڑکی اس کے لیے دیکھی نہیں ؟ آخر کو نسل تو آگے بڑھنی چاہیے ۔
یہ سب باتیں سن کر صائمہ پر جو اثر پڑنا چاہیے وہی اثر پڑتا تھا لیکن اسے اپنے اللہ پر بھروسہ تھا ، اس لیے اندر سے زخمی زخمی رہنے کے باوجود لبوں سے وہ کبھی دکھ کا اظہار نہیں کرتی تھی ۔ دل جب زيادہ بے قرار ہوتا ، وضوء کرکے دو رکعت ادا کرتی ، سجدے میں گرتی اور اپنے سننے والے کو سب کچھ سنا دیتی ۔
اس بار حمل کے درمیان کا تجربہ صائمہ کا کچھ دوسرا تھا ، تکلیف تھوڑی زیادہ تھی ، ابکائی زیادہ آتی تھی ، کچھ کھانے کو طبیعت نہیں کرتی تھی ، پڑوسن شمیمہ بار بار یقین دلاتی تھی کہ ہو نہ ہو اس بار بیٹا ہوگا اور صائمہ اندر ہی اندر ہنس کر رہ جاتی تھی ۔ ساس کے طعنے باقی تھے ، نندوں کا کاٹدار لہجہ بھی یاد آتا تھا اور کبھی کبھی تو سسر کی باتیں دل کے اندرون تک چھلنی کردیتی تھیں لیکن اس کا اپنے رب پر بھروسہ بہت مضبوط تھا ۔ حمدان کا رویہ بھی اسے بہت مطمئن رکھتا تھا ۔
اللہ کا کرنا دیکھیے کہ اس بار بھی صائمہ کے بطن سے بیٹی ہی پیدا ہوئی تھی ۔ بے حد خوبصورت ، بڑی بڑی آنکھیں ، چوڑی پیشانی ، ترشے ہوئے پتلے پتلے ہونٹ اور کھڑی ناک ۔ ایک دم سے اپنے باپ پر گئی تھی ۔ یہ پہلا موقع تھا جب صائمہ کو ہاسپیٹل جانا پڑا تھا ۔ باہر سارے لوگ موجود تھے ، نندیں ، ساس ، دیور ، سسر اور شوہر بھی ۔ اندر سے نرس نے آکر خبر دی تھی " بیٹی ہوئی ہے ! " اور سب کے سب سوائے حمدان کے اداس ہوگئے تھے ۔ اس نے الحمدللہ کہا اور اپنی بیوی کی بابت معلوم کرکے مطمئن ہوگيا کہ صائمہ اور بچی دونوں ٹھیک ہیں ۔ لیکن رابعہ کو جیسے ایک اور موقع ہاتھ لگ گیا ہو ۔
رابعہ : حمدان ! اب بہت ہوگيا ۔ میں نے تیرے راجو مامو کی بیٹی دیکھی ہے ۔ چل تو اس سے نکاح کرلے ۔ اس عورت سے تو تجھے نرینہ اولاد ملنے سے رہی ۔ حمیدہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور باپ کا عندیہ بھی ویسا ہی تھا ۔ حمدان نے اس مرتبہ نظرانداز کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کی زبان چل پڑی " مجھے کبھی کبھی آپ سب پر افسوس ہوتا ہے ۔ ایک عورت بچہ پیدا کرنے کے مرحلے سے گزر رہی ہے ، موت و حیات کے مرحلے سے گزر رہی ہے ، درد و کرب کی کس سطح پر ہے اور آپ لوگ یہ گھٹیا باتیں کررہے ہیں ۔ آپ کو پوتا چاہیے ، رابعہ کو بھتیجا چاہیے ، بھائیوں کو بھتیجا چاہیے لیکن میں اپنی بیٹیوں سے بہت خوش ہوں ، مجھے اللہ کی یہ رحمتیں ہی زیادہ پسند ہیں ، میں تو اللہ پاک سے دعا کیا کرتا تھا کہ مجھے پانچویں بھی بیٹی ہی ہو ۔ آخر آپ لوگوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے ۔ یہ اللہ کے فیصلے ہیں ، وہ جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے دونوں سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں سے محروم کردیتا ہے ۔ میں تو اس بات کو لے کر اس کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے سرے محروم نہیں کیا ۔ اس میں اس غریب صائمہ کا کیا قصور ہے ۔ بچے تو مرد کے پانی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر میری قسمت میں بیٹیاں ہیں تو اس میں وہ کیا کرسکتی ہے ؟ امی کو ایک عورت ہونے کے ناتے اس کا درد سمجھنا چاہیے تو الٹے اس موقع سے وہ مجھے شادی کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں ۔ مجھے آپ سب پر افسوس ہورہا ہے جیسے آپ لوگوں سے میری خوشی نہیں دیکھی جارہی ہو ۔ اللہ کے واسطے اس طرح کی گھٹیا باتیں کرنا چھوڑ دیجیے ۔ میں اپنی بیٹیوں کو پاکر بہت خوش ہوں اور اللہ کا بہت شکرگزار بھی ۔ بولتے بولتے حمدان کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ سب کے سب لوگ کچھ دیر نگاہیں نیچیے کیے وہیں کھڑے رہے ۔ اس درمیان نرس نے آکر انہیں اندر جانے کی اجازت دی اور وہ سب صائمہ کے پاس پہنچ گئے ۔ رابعہ نے پوتی کو گود میں لیا ، اسے دلارا ، صائمہ کی خبر پوچھی اور حمیدہ سے ہاسپیٹل میں ہی رک کر صائمہ کا خیال رکھنے کو کہا ۔ شمیم صاحب بھی بہو کو دعائیں دے رہے تھے ۔ صائمہ تھوڑی حیران لیکن اندر سے مطمئن اپنے شوہر کی طرف دیکھ رہی تھی اور وہ مسکراکر جیسے کہہ رہے ہوں کہ اللہ نے تمہاری سن لی !!