نومولود کی طرف سے عقیقہ کا جانور ذبح کرنا ضروری ہے :
عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ وَيُسَمَّى »
ترجمہ : سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہوتا ہے ( لہٰذا ) ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے ، اس کا سر مونڈا جائے اور نام رکھا جائے"
سنن ابوداود 2838
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَتُهُ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى »
ترجمہ : سیدنا سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” لڑکے کے لیے عقیقہ لازمی ہے ، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس کی میل کچیل دور کرو ۔ “
سنن ابی داود 2839
عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ، مِثْلَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ»
ترجمہ : سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہیں ہم مثل ( ایک جیسی ) اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۔»
سنن ابی داود 2836
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیث صحیحہ سے لڑکی کی طرف سے ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں ذبح کرنا ہی مشروع ہے ،
تاہم اگر دو بکریوں کی استطاعت نہ ہو تو ایک بکری کا عقیقہ بھی جائز ہے ،
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
" فإن لم يجد الإنسان ، إلا شاة واحدة أجزأت وحصل بها المقصود ، لكن إذا كان الله قد أغناه ، فالاثنتان أفضل " انتهى .
"الشرح الممتع" (7/492) .
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر انسان صرف ايك ہى بكرى پائے تو يہ كفائت كر جائيگى اور اس سے مقصود حاصل ہو جائيگا، ليكن اگر اللہ تعالى نے اسے مالدار اور غنى كيا ہے تو پھر دو افضل ہيں " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 492 )
https://archive.org/stream/waq53629/07_53635#page/n492/mode/2up
اور مشہور شافعی فقیہ امام ابو اسحاق شیرازی (المتوفی 476ھ ) فرماتے ہیں :
والسنة أن يذبح عن الغلام شاتين وعن الجارية شاة لما روت أم كرز قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن العقيقة فقال للغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة ولانه إنما شرع للسرور بالمولود والسرور بالغلام أكثر فكان الذبح عنه أكثر وان ذبح عن كل واحد منهما شاة جاز»
یعنی سنت تو یہی ہے کہ :لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں عقیقہ میں ذبح کی جائیں ،جیسا کہ سیدہ ام کرز سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہیں ہم مثل ( ایک جیسی ) اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے "
اور اس لئے بھی کہ بچہ کی ولادت کی خوشی میں شرعاً جانور ذبح کرنا مقرر کیا گیا ہے ،اور چونکہ لڑکے کی ولادت کی خوشی زیادہ ہوتی ہے ،اس لئے (لڑکی کے عقیقہ کی نسبت )لڑکے کے عقیقہ میں زیادہ جانور ذبح کرنا مقرر ہے ،، اور اگر ہر ايك كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى جائے تو بھى جائز ہے »
( المهذب في الفقه الإمام الشافعي)
https://archive.org/stream/FP28685/01-02_28685#page/n839/mode/2up
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیز دیکھئے ۔۔ المجموع شرح المہذب ۔۔
https://archive.org/stream/FP3865/magm08#page/n407/mode/2up