• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیک وقت تین طلاقوں کا مسئلہ اور یورپ میں مقیم مسلمان خواتین کی مشکلات

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پنے شوہر کے ہاتھوں بیک وقت تین طلاق حاصل کرکے ایک خفیہ حلالہ سینٹر پہنچنے والی ایک پاکستانی مسلمان عورت کا کہنا ہے کہ ایک نام نہاد مولوی نے اسے کئی مردوں کے پاس بھیج کر اس کا حلالہ کردیا اور جب وہ تنگ آگئی اس نے مولوی کی بات ماننے سے انکار کردیا اور واپس اپنے شوہر کے پاس چلی گئی مگر مولوی نے اس کے ذہن پر اس قدر منفی اثرات ڈالے کہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی۔ پاکستان سے شادی کرکے مڈلینڈز میں سیٹل ہونے والی اس عورت نے اپنی جی پی کو بتایا کہ اس کے شوہر نے غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دی تھیں۔ چونکہ حلالہ کرانے والی عورت خود اپنی اور اپنے شوہر کی مرضی سے حلالہ مولوی کے ساتھ نکاح کرتی ہے۔ لہذا اس کو ریپ نہیں کہا جاسکتا اس لئے پولیس اس پر کارروائی نہیں کرتی۔ بعض نام نہاد مولوی نو مسلم عورتوں کو سخت پریشان کرتے ہیں اور حلالہ کے نام پر ان کا سخت جنسی استحصال کرتے ہیں۔ نومسلم عورتیں معلومات نہ رکھنے کی وجہ سے ہر چھوٹی موٹی بات پوچھنے مولویوں کے پاس جاتی ہیں مگر ان میں سے بعض مولوی ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر انہیں داغ دار کردیتے ہیں۔ حلالہ کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کا نکتہ نظر ایک ہی ہے کہ حلالہ محض اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ عورت اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق کے بعد اگر کوئی عورت حلالہ کے ارادے کے بغیر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرلے اور کچھ عرصے بعد ان دونوں میں طلاق ہوجائے تو وہ دوبارہ شادی کرسکتے ہیں۔ تاہم حلالہ کے نام پر شادی کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں دی گئی۔ اس بارے میں برطانیہ کے مقتدر علماء کرام کا کہنا ہے کہ بعض نام نہاد مولویوں اور مفاد پرستوں نے مذہب کے نام پر دوکانیں لگا رکھی ہیں اور لوگوں کی بھاری اکثریت ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ ان علماء نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں نکاح، شادی، طلاق، خلع وغیرہ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ صرف مستند اداروں میں ہی جائیں اور ایسے لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں جو عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ حلالہ کے حوالے سے جنگ لندن میں ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں معروف عالم دین مولانا شفیق الرحمن اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو انتہائی سنگین قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر تباہ ہورہے ہیں۔ بعض علما کا کہنا ہے کہ غصے کی حالت میں اور بیک وقت تین طلاقوں کے مسئلے میں اجتہاد کی ضزورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ واضح رہے فقہ حنفیہ کے برخلاف فقہ جعفریہ میں غصے کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی اور نہ بیک وقت تین طلاقیں دی جاسکتی ہیں۔ جبکہ صیغہ طلاق جاری کرنے کے لئے گواہوں کی موجو دگی بھی بنیادی شرط تصور کی جاتی ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
چند ماہ قبل برمنگھم میں سابق مسلمانوں (مرتدین) کا ایک اجلاس ہوا جس میں بعض صحافی بھی شرکت کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے تاکہ یہ جان سکیں کہ اسلام جیسے عظیم دین کو چھوڑنے والے یہ لوگ آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں اور انہوں نے اس خوبصورت مذہب کو کیوں چھوڑا ہے۔ اجلاس تک رسائی حاصل کرنے والے ایک صحافی نے مجھے ایک عورت کے حوالے سے بتایا کہ وہ اسلام سے اس لئے دور ہوئی ہے کہ اس نے اپنی ایک مسلمان دوست کی حلالہ کے ذریعے درگت بنتی ہوئے دیکھی تھی۔ اس لئے اس کا خیال تھا کہ اسے ایسے مذہب میں نہیں رہنا چاہئے جس میں بقول اس کے عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس عورت کو حلالہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوں گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے دماغ میں بہت زیادہ خلل ہو جس کی وجہ سے اس نے اسلام کو چھوڑا تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اس نے صرف حلالہ ہی کا ذکر کیوں کیا ؟ اس سے یہ بات ضرور ظاہر ہوئی ہے کہ مسلمان کمیونٹی کے اندر حلالہ ایک اوپن سیکرٹ ہے اور بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں مگر اس پر کوئی بات اس لئے نہیں کی جاتی کہ اس سے کمیونٹی کی بدنامی ہوگی۔ میں نے اس حوالے سے بعض علما کرام سے استفسار بھی کیا ہے جس میں سے اکثریت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کمیونٹی کے اندر یہ مسئلہ موجود ہے اور اب بڑے بڑے شہروں میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون جعلی مولوی یا جعلی پیر بن کر سادہ لوح انسانوں کا استحصال کررہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حقیقی علما کرام اور مولوی حضرات نے تو کسی کو حلالہ کا مشورہ دیں گے اور نہ ہی کسی پر بری نظر رکھیں گے بلکہ وہ اس حوالے سے اپنے پاس آنے والوں کو اسلامی احکامات کے مطابق ہی کوئی مشورہ دیں گے۔ مگر جو افراد اور عورتیں فراڈ کرنے والوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں وہ قصور نہ ہونے کے باوجود لاعلمی کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہیں۔ اس میں قصور مذہب یا مولوی کا نہیں بلکہ ان افراد کا ہے دوسرے شعبوں کی طرح مذہب میں بھی گھس گئے ہیں اور انہوں نے بہروپ بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وہی لوگ ہیں جو کبھی جعلی پیر بن کر مریدوں کو رقوم سے محروم کردیتے ہیں اور کبھی مولوی بن کر لوگوں کو مذہب سے متنفر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جنگ لندن میں شائع ہونے والی ایک خبر کے بعد مجھے کئی جید علما کرام اور کمیونٹی شخصیات کے فون آئے جن میں سے آج میں صرف دو فون کالز کا ذکر کرنا مناسب سمجھوں گا۔ اس میں سے ایک فون میرے لئے ایک انتہائی محترم عالم دین کا تھا جن کے ساتھ میں اکثر گفتگو کرتا ہوں اور دینی معاملات پر ان سے رائے بھی لیتا رہتا ہوں۔ وہ حلالہ کے بارے میں شائع ہونے والی خبر پر سخت برہم تھے مگر انہوں نے مجھے انتہائی محبت کے دھمکایا کہ برطانیہ کے مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کی بات یہودی اور مسیحی تو کرتے چلے آتے ہیں مگر "جنگ" میں اس طرح کی باتیں کبھی شائع نہیں ہوئیں۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ اس خبر میں محض نام نہاد مولویوں کی بات کی گئی ہے جو دراصل حقیقی علما کرام اور مولویوں کی بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسی چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے مسلمان بدنام ہورہے ہیں۔ مگر وہ میری اس وضاحت کو سننے کے روادار نہ تھے اور انہوں نے اپنے رکھ رکھاؤ کی وجہ سے مجھے مزید برا بھلا کہنے کی بجائے فون بند کردیا۔ اگر وہ مجھے برا بھلا کہہ دیتے تو بھی وہ اس قدر محترم ہیں کہ میں ان کو کوئی جواب نہ دیتا۔ البتہ میں بعد میں یہ ضرور سوچتا رہا کہ آخر ہم کب تک اپنے مسائل کو انڈر کارپٹ رکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رکھیں گے۔ کیا ہمیں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ آج جن مسائل کو ہم کمیونٹی کی بدنامی کے ڈر سے دباکر رکھ رہے ہیں کل وہی مسائل چائلڈ سیکس گرومنگ کے کیسوں کی طرح سامنے آسکتے ہیں۔ اس حوالے سے میں جس دوسرے فون کا ذکر کرنا چاہوں گا وہ ایک صحافی کا تھا۔ جس نے مجھے اس مسئلہ پر قلم اٹھانے پر مبارکباد دی اور خوشی کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ یہ واقعی میں بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ جگہ جگہ پر بنے ہوئے آستانوں میں سے بعض میں کیا ہوتا ہے اور بعض خفیہ حلالہ سینٹروں میں حوا کی بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ جب میں نے اس صحافی دوست سے پوچھا کہ جب اس کو اس کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات حاصل ہیں تو وہ اس موضوع پر قلم کیوں نہیں اٹھاتا ؟ اس پر اس کے پر جلنے لگے اور اس نے صاف کہا کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے یہودی اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا جائے گا اور اس پر کفریہ فتوے لگیں گے کیونکہ فتویٰ دینے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ! میں اس صحافی کی باتوں پر بھی دیر تک غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ آیا مجھے کافر قرار دیئے جانے کے ڈر سے کمیونٹی کے اندر گھسی ہوئی گندگی کو سامنے لانے سے ثابت ہوجانا چاہئے یا پھر نڈر ہوکر حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے ؟ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان مسائل پر لکھوں گا اور سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہوں گا۔ ان خبروں کے حوالے سے مجھے جن علما کرام اور احباب نے فون کئے ان سب کو شاید یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ جیسے میں نے ایک ساتھ تین طلاقیں دینے اور ان کے موثر ہونے کے خلاف کوئی بات لکھی ہے اور یا شاید میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک ساتھ تین طلاقیں موثر نہیں ہوتیں بلکہ اس بارے میں شاید اہلحدیث درست کہتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینے سے صرف ایک طلاق ہی شمار کی جائے گی اور یہ کہ شوہر ایک ماہ کے اندر اندر بغیر نکاح کئے بیوی سے رجوع کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میری مراد طلاق کے طریقہ کار پر بحث نہیں تھی اور نہ ہی میں اس سلسلے میں علما کرام اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی باتوں کو غلط یا درست قرار دے رہا تھا بلکہ میں نے عورتوں پر ہونے والے اس ظلم کی بات کی تھی جو شوہروں کی وجہ سے انہیں سہنا پڑتا ہے۔ عورت کو خواہ ایک ساتھ تین طلاقیں موثر ہوجائیں یا پھر ہر ماہ ایک طلاق موثر ہو ، ظلم اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس عورت سے یہ تقاضہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں ، وٹہ سٹہ کی شادیوں ، خاندانی عزت و وقار یا کسی اور وجہ سے دوبارہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ شادی کرلے۔ اس سلسلے میں جب یہ عورت اکیلی یا اپنے سابق شوہر یا کسی اور رشتہ دار کے ہمراہ جب وہ کسی عالم دین ، یا کسی اسلامی کونسل یا ادارے کے پاس جاتی ہے تو یقیناً اسے اسلامی طریقہ کار کے مطابق یہ مشورہ دیا جاتا ہوگا کہ جب تک وہ کسی دوسرے کے ساتھ شادی کرکے کسی وجہ سے دوبارہ طلاق یافتہ نہیں ہوجائے گی اس وقت تک وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی۔ یقیناً حقیقی علما کرام اور خاندانی مسائل حل کرنے والے مراکز ان عورتوں کو حلالہ کا مشورہ نہیں دیتے ہوں گے کیونکہ حلالہ مسلمانوں کے تمام مسالک میں حرام ہے اور اسے زنا قرار دیا گیا ہے۔ مگر خبر میں ایسے بعض نام نہاد مراکز اور ان میں بیٹھے ہوئے جعلی مولویوں کی بات کی گئی تھی جو واقعی عورتوں اور ان کے خاندان والوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں حلالہ کا مشورہ دیتے ہیں اور پھر بعض انہیں اپنی خدمات بھی پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے افراد بہت کم ہیں مگر جس طرح ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو خراب کرتی ہے ، اسی طرح یہ نام نہاد افراد بھی حقیقی علما اور مولویوں کو بدنام کررہے ہیں۔ اگر علما کرام نے ان افراد کی نشاندہی نہ کی تو بدنامی سارے مسلمانوں کی ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ خفیہ حلالہ سینٹروں اور بعض جعلی آستانوں کو مقدس گائیں نہ سمجھا جائے بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بغداد میں ایک خلیفہ نے ایک چھوٹی سی بات پر برہم ہوکر اپنی حسین و جمیل ملکہ کو طلاق طلاق طلاق کہہ دیا ملکہ پردے میں چلی گئی۔ خلیفہ تمام رات جاگتے رہے اور صبح دم مفتی دربار کو بلا کر کہا کہ مجھکو اپنی اس ملکہ سے بہت محبت ہے اور اب صلح کی کوئی صورت ہوسکتی ہے کیا دوبارہ عقد کر سکتا ہوں مفتی نے کہا کہ اب ملکہ کو حلالہ کرنا ہوگا۔ خلیفہ بہت افسردہ خاطر ہوا، لیکن وزیرِ با تدبیر نے کہا کہ اعلیٰ حضرت مین ایک اجنبی شخص کو لا کر محلول بنا دوں گا اور وزیر دروازہ بغداد پر ایک گھوڑے پر گیا اور ایک زین بن دوسرا گھوڑا بھی پاس میں کھڑا کرلیا کہ یکسر نگاہ ایک بیس سالہ جوان پر پڑی وزیر نے اشارہ کرکے بلوایا اور پوچھا کہ اے جوان مرد تو بغداد میں کیوں داخل ہو رہا ہے؟ جوان نے کہا کہ مزدوری کرنے وزیر نے کہا کہ کیا تو بغداد آتا رہتا ہے؟ جوان نے کہانہیں پہلی بار آیا ہوں۔ تو وزیر نے کہا کہ چل تجھے مزدوری دلا دوں اور گھوڑے پر سوار ہوجا وہ اس کو ایک سادہ سے مکان میں لے گیا جہاں اس کو نہلانے کے بعد اچھا سا لباس پہنایا گیا ملکہ کو بلا کر مفتی دربار نے عقد کا صیغہ پڑھ دیا اور لڑکے سے کہا کل صبح تجھکو اس منکوحہ کو طلاق طلاق طلاق کہنا ہوگا پھر عدت کے بعد یہ خاتون آزاد ہونگی اور تجھکو دس دینار مزدوری کے ملیں گے۔ اس پر اسی طرح سے لڑکے نے عمل کیا اور من ہی من سوچتا رہا کہ بغداد میں بہت عمدہ مزدوری ملتی ہے۔ دوسرے دن پھر وہ لڑکا آیا اور بغداد کی گلیوں میں چیختا رہا کہ حلالہ کرالو حلالہ جس پر ایک شخص نے گھر سے نکل کر اس لڑکے کو پیٹ دیا۔ یہ تو اس عہد کا قصہ تھا اب مشہور پاکستانی مزاحیہ ایکٹر معین اختر کا لطیفہ ہے کہ نیویارک سے کراچی آنے پر بیوی نے شوہر سے کہا کہ تم اب میرے اوپر حرام ہوچکے ہو مجھکو ہاتھ مت لگانا، شوہر نے کہا کہ میں ہوائی جہاز میں کسی بات پر ناراض ہوکر تمکو صرف دو بار طلاق طلاق کہا تھا، بیوی نے کہا کہ نہیں تین بار کہا تھا تو شوہر نے کہا کہ کراچی ائیرپورٹ کا رن وے خراب ہے تیسری بار نہیں کہا لیکن رن وے کی خرابی کی باعث زبان اور جبڑا چل گیا تھا اس کو حساب نہ کرو تب کہیں جاکر بیوی راضی ہوئی ورنہ شہر میں تو محلول بہت گھوما کرتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایسی خبریں پڑھ کر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور مجدد الف ثانی یا شاہ ولی اللہ کی ضرورت ہے۔
اللہ اپنا رحم فرمائے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
شاہ صاحب تو غیر مقلد تھے بھائی

دلائل دونوں فریقوں نے اس پر قائم کیے ہوئے ہیں۔ میں نے پڑھے تو دونوں ہیں لیکن تقابل کبھی نہیں کیا۔ اگر وہ غیر مقلد بھی تھے تو بھی ان کے کام سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
آج 1 بریلوی بھائ نے غشے مے آ کر 3 طلاق دے دی ،، جب ہوش مے اے تو مولانا کے پاس گئے تو حلالا کا فتوا ملا ہے ۔۔آگے دیکھو کیا کرتے ہیں ۔۔ اللہ رحم کرے۔۔(یے مینے کسی کو تنج کے لئے نہیں لکھا ہیں )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آج 1 بریلوی بھائ نے غشے مے آ کر 3 طلاق دے دی ،، جب ہوش مے اے تو مولانا کے پاس گئے تو حلالا کا فتوا ملا ہے ۔۔آگے دیکھو کیا کرتے ہیں ۔۔ اللہ رحم کرے۔۔(یے مینے کسی کو تنج کے لئے نہیں لکھا ہیں )
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم محمد یوسف بھائی!
لگتا ہے کہ آپ نے ہندی میں اردو لکھی ہے۔۔۔ابتسامہ!
خیر!!
اصلاح حاضر ہے۔
آج ایک بریلوی بھائی نے غصے میں آ کر 3 طلاق دے دی ،، جب ہوش میں آئے تو مولانا کے پاس گئے تو حلالہ کا فتوی ملا ہے ۔۔آگے دیکھو کیا کرتے ہیں ۔۔ اللہ رحم کرے۔۔(یہ میں نے کسی کو طنزکے لئے نہیں لکھا ہے)
 
Top