ایم اسلم اوڈ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 298
- ری ایکشن اسکور
- 965
- پوائنٹ
- 125
بے حیائی کا بڑھتاسیلاب اور خواتین کی ذمہ داریاں
ہرطرف بے حیائی، برائی، بے پردگی، بے شرمی نظر آ رہی ہے، ابلیس کے ایجنٹ متحرک شیطان کے آلہ کار فعال نظر آ رہے ہیں۔ اسلام کا استہزاءاور شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، گلیوں بازاروں، محلوں، علاقوں، شہروں اور دیہاتوں میں بے ہودگی کا سیلاب ہے جس میں امت مسلمہ ڈوبتی اور غرق ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ہم (بحیثیت مسلمان) تمام امتوں سے بہترین اس وجہ سے ہیں کہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ یہ ذمہ داری ہر عام و خاص، عوام و حکام اور مرد و عورت کی ہے۔ اس فرض سے بے رخی اختیار کرنا ملک و معاشرے کی تباہی اور افراد کی بربادی ہے، سابقہ قوموں کی تباہی، ہلاکت اور بربادی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ برائی کو دیکھ کر چشم پوشی اختیار کر لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک و معاشرے کو بے حیائی سے بچایا اور نکالا جائے اور اسے راہ حق کا راہی بنایا جائے۔ لہٰذا نصیحت کے عمل، دعوت کے مشن کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے جس کا کسی لمحے انکار ممکن نہیں۔فحاشی کا یہ سونامی اخلاق و کردار اور شرم و حیاءکو بہا کر لے جا رہا ہے۔ ان حالات میں ایسے لوگوں کو اکیلا چھوڑ دینا عقل مندی ہے یا ان کو بچانا دانش مندی؟ یقینا ان کو بچانا، نیکی پر چلانا راہ حق کا راہی بنانا اور برائی سے روکنا عقل مندی بھی ہے اور ہمارا فریضہ بھی۔
یوں تو حکومت کی بھی اولین ذمہ داری یہی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ لوگ جن کو ہم زمین میں اقتدار دیتے ہیں، وہ نماز کو قائم رکھنے، زکوٰة کے نظام کو منظم کرنے، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ آج حکومت وقت اور اس کے ادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہی نہیں بلکہ بے حیائی کو پھیلانے میں اسلام دشمن قوتوں کے معاون بنے ہوئے ہیں۔لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا! اے پیارے بیٹے! نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور آنے والی آزمائش اورتکلف پر صبر کا دامن تھام لے، یقینا یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ یہی نصیحت ہر باپ اپنے بیٹے، ہر استاذ اپنے شاگرد اور ہر قائد اپنے کارکن کو کرے گا تو نیکی عام ہو گی برائی دم توڑے گی، معاشرہ پاک ہو گا،
11جولائی 2011ءسوموار کے قومی اخبارات میں رنگین صفحہ پر محکمہ بہبود آبادی حکومت پنجاب کی طرف سے آبادی زیادہ، وسائل کم کے بعنوان سے اشتہار شائع کیا گیا جس میں ایک بے ہودہ، بے حیائی پر مبنی کارٹون بھی بنایا گیا۔ وہ کارٹون کچھ اس طرح تھا کہ ایک بے پردہ حاملہ عورت نے دو بچے ہمراہ لئے ہوئے ہیں، اس کے پیچھے اس کا خاوند تین بچوں کو اٹھائے اور ساتھ لئے ہوئے چل رہا ہے اور ایک بچہ اس جھولے میں ہے جو جھولا عورت کے بالوں اور مرد کی داڑھی سے بندھا ہوا ہے۔ نعوذ باللہ! یہ سنت رسول کا مذاق اڑایا گیا داڑھی کی تذلیل کی گئی ہے۔ یہ کارٹون انہی خاکوں کا تسلسل ہے جو ڈنمارک و ناروے وغیرہ نے رسول اللہ کے خلاف شائع کئے تھے۔ آخر ایسے خاکے اور کارٹون کس کے کہنے پر شائع ہوتے ہیں؟ وہ کون سے ادارے ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں شعائر اسلام کا استہزاءکرواتے ہیں؟ تمام غیر مسلم این جی اوز اسلامی ممالک میں بے حیائی پھیلانے کے لئے سرگرم عمل ہیں اس کے لئے وہ افراد اور مال خرچ کر رہے ہیں۔
جبکہ مردوں کی طرح عورتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کا پرچار کریں، نیکی کا حکم کریں بے حیائی کی روک تھام میں بھرپور حصہ لیں۔ عورت کی تخلیق کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ وہ اشتہار میں چھپے، اشیاءکی خرید و فروخت کے لئے اپنے جسمانی اعضاءکو ظاہر کرے اور نرم و ملائم انداز سے مختلف چیزوں کو متعارف کروائے۔یوں تو عورتوں پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں کہ وہ مساجد میں نماز کی ادائیگی اور عید گاہ میں نماز عیدین اور خطبہ عید کے لئے گھر سے نہیں نکل سکتیں، مگر بازاروں میں خریداری کیلئے زیب و زینت کے ساتھ جانا اور اس طرح محکمہ بہبود آبادی کی طرف سے غیر ملکی این جی اوز کی تنخواہ پر کنواری لڑکیوں کا گھر گھر گھومنا اورشادی شدہ خواتین کو منصوبہ بندی کے طریقے بتانا کہاں کا انصاف اور عدل ہے،
مرد کی طرح عورت کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، نیکی خیر و بھلائی کو عام کرنا اور برائی بے حیائی اور فحاشی سے رکنا اور دوسرے کو روکنا ہے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں ’’ خواتین کی ذمہ داری ‘‘ اس عنوان سے محترم پروفسر ڈاکٹر فضل الٰہی حفظ اللہ نے ایک شاندار، جاندار، مدلل اور جامع کتاب تحریر فرمائی ہے، اس میں سات اہم ترین سوالات کے جوابات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ اور بہت کچھ جو ایک عورت کے ذمہ ہے، اس کتاب میں منظم و مرتب شکل میں تعلیق و تحقیق، حوالہ جات اور تخریج مصادر و مراجع کے ساتھ 320 صفحات میں اب جو مطالعہ کریں، بے ہودہ ناولوں، ڈائجسٹوں، گندے رسائل و جرائد سے اپنی جان چھڑائیں۔ ایسا لٹریچر خریدنا، پڑھنا ایمان و حیا کی تباہی اور پیسے کی بربادی ہے۔ لہٰذا فحاشی کے اس طوفان بدتمیزی اور سونامی میں کودنے کی بجائے خواتین امر بالمعروف کے لئے وہی کردار ادا کریں جو امہات المومنین اور صحابیات رضوان اللہ علیہن اجمعین نے کیا تھا، اس میں ہماری نجات، معاشرے کی فلاح اور ملک کا تحفظ و دفاع مضمر ہے۔1۔ کیا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا عورتوں پر فرض ہے؟
2۔ خواتین کے اس فریضہ کے ادا کرنے کی کیا اہمیت ہے؟
3۔ کیا قرون اولیٰ کی عورتوں نے عام لوگوں، اعزا و اقارب اور شناسا لوگوں کا اجتناب کیا؟
4۔ کیا ان نیک عورتوں نے علماءاور طلبہ کا احتساب کیا؟
5۔ کیا انہوں نے اہل اقتدار اور اصحاب اختیار کو نیکی کا حکم دیا اور برائی سے روکا؟
6۔بازار میں عورت کو منصب احتساب پر فائز کرنے کا حکم کیا ہے؟
7۔عورتوں کو بازار میں منصب احتساب سونپنے کی ممانعت کے متعلق شبہات کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے؟
بشکریہ ،، ہفت روزہ جرار
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput