- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
بے لاگ تحقیقی اصول
٭…شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ بلاشبہ مسلمانوں کے لئے ایک بڑی آزمائش تھی۔ شریروں نے اپنے مذموم مقاصد پورے کئے ۔انہیں مزید شہ بھی ملی ۔ حدیث ِرسول کو بھی انہوں نے نشانہ بنایا۔ایسے موقع پر صحابۂ رسول جو محافظ دین وحدیث تھے اپنے لائق شاگردوں سمیت ہر خبر ، حدیث اور روایت کی توثیق ضروری سمجھتے۔یعنی اس خبر کا ناقل کون ہے؟ کوئی شرپسند، فاسق اور زندیق تو نہیں؟ صحابہ کرام کی تربیت اللہ نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایسی کردی کہ خبرازرسول کی تحقیق وجستجو بہر صورت کرنی ہے۔انہیں یہ ارشاد الہی ازبر تھا کہ خبر قبول کرنی ہے مگر فاسق کی خبر خوب چھانٹی اورتحقیق کے بعد۔
{ یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ جَا ئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍفَتَبَیَّنُوْا۔۔۔}(الحجرات:۶)
اہل ایمان اگر تمہارے پاس کوئی فاسق اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔
{ إِذْ تَلْقَوْنَہُ بِأَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاہِکُمْ مَا لَیْسَ لَکُمْ بِہِ عِلْمٍ وَتَحْسَبُوْنَہُ ہَیِّنًا وَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ}
(النور:۱۵)
جب تم اپنی زبانوں سے اسے ایک دوسرے کو سنارہے تھے اور تم ایسی باتیں کررہے تھے جس کی حقیقت تم پر آشکارا نہ تھی اور تم اسے معمولی سمجھ رہے تھے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔
٭…جھوٹی خبر کون پھیلاتا ہے؟ اور اسے کون پہچان سکتے ہیں؟ اس آیت نے بتادیا کہ ہرمدعی شخص اس فن کا ماہر نہیں ہوا کرتا بلکہ چند مخصوص لوگ ہوا کرتے ہیں:
{ وَإِذَا جَا ئَ ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوْا بِہِ، وَلَوْ رَدُّوْہُ إِلَی الرَّسُوْلِ وَ إِلٰی أُولِی الْأَمْرِ مِنْہُمْ لِعِلْمِہِ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْہُمْ، وَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتِہِ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنُ إِلَّا قَلِیْلاً۔}(النسا ٔ:۸۳)
اور جب ان کے پاس امن یا جنگ سے متعلق کوئی بات آتی ہے تو وہ فوراً اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر وہ اسے اللہ کے رسول یا اپنے میں سے کسی صاحب امر تک پہنچاتے تو ان میں سے تہہ تک پہنچنے والے فوراً جان لیتے۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم شیطان کی پیروی کرتے سوائے چندایک کے۔
٭…انہیں یہ ارشادات ِرسول بھی یاد تھے:
کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِباً (وَفِی رِوَایَۃٍ: إِثْماً) أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃ صحیح مسلم: ۵)
آدمی کے لئے جھوٹا ہونے یا ایک روایت کے مطابق گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے آگے بیان کردے۔
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ(صحیح بخاری)
جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ بنالے۔
مَنْ حَدَّثَ عَنِّیْ بِحَدِیْثٍ یُرِیْ أَنَّہٗ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنِ۔(مسند احمد۴؍۲۵۲)
جس نے مجھ سے کوئی حدیث بیان کی اور وہ دیکھتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے۔