السلام علیکم ورحمت اللہ ۔۔ مجھے اس پمفلٹ کے بارے میں پوچھنا ہے ۔۔ اس پے کوئی حوالہ نہیں البتہ QTv کی ویب پے اک مضمون ہے جس پے اس روایت کو حدیث کہا گیا ہے اور کتاب کا نام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
درج ذیل فتوی میں اس حدیث کے متعلق تفصیل واضح ہے ؛؛
ما صحة حديث " من تهاون في الصلاة عاقبه الله بخمس عشرة عقوبة " ؟
سؤال عن صحة الحديث التالي قبل أن أوزعه على الأصدقاء :
منكر أو تارك الصلاة يعاقبه الله خمس عشرة عقوبة 6 أثناء حياته و3 حين الموت و3 في القبر و3 يوم القيامة :
العقوبات في الدنيا :
1- يمحق الله البركة في عمره
2- لا يستجيب الله لدعائه
3- تذهب من وجهه علامات الصلاح
4- تمقته جميع المخلوقات على الأرض
5- لا يثيبه الله على عمله الصالح
6- لن يشمله الله في دعاء المؤمنين
العقوبات أثناء الموت :
1- يموت ذليلاً
2- يموت جوعاناً
3- يموت عطشاناً ولو شرب جميع ماء البحر
العقوبات في القبر :
1- يضيق الله قبره حتى تختلف أضلاعه
2- يوقد الله عليه ناراً ذات جمر
3- يرسل الله إليه ثعباناً يقال له الشجاع الأقرع يضربه من الفجر للظهر لتركه صلاة الفجر ومن الظهر للعصر لتركه صلاة الظهر وهكذا ... وفي كل ضربة يدخله في عمق الأرض 70 ذراعاً .
العقوبات يوم القيامة :
1- يرسل الله إليه من يسحبه على وجهه
2- ينظر الله إليه نظرة غضب يسقط معها لحم وجهه
3- يحاسبه الله بصرامة ويقذف به في النار .
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله
أولاً :
حديث " من تهاون في الصلاة عاقبه الله بخمسة عشر عقوبة : ستة منها في الدنيا ، وثلاثة عند الموت ، وثلاثة في القبر ، وثلاثة عند خروجه من القبر ... " : حديث موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم .
قال عنه سماحة الشيخ ابن باز - رحمه الله - في مجلة " البحوث الإسلامية " ( 22 / 329 ) : أما الحديث الذي نسبه صاحب النشرة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في عقوبة تارك الصلاة وأنه يعاقب بخمس عشرة عقوبة الخ : فإنه من الأحاديث الباطلة المكذوبة على النبي صلى الله عليه وسلم كما بين ذلك الحفاظ من العلماء رحمهم الله كالحافظ الذهبي في " لسان الميزان " والحافظ ابن حجر وغيرهما .
وكذلك أصدرت " اللجنة الدائمة " فتوى برقم 8689 ببطلان هذا الحديث كما في " فتاوى اللجنة " ( 4 / 468 ) ومما ورد في الفتوى مما يحسن ذكره قول اللجنة :
( ... وإن فيما جاء عن الله وعن رسوله في شأن الصلاة وعقوبة تاركها ما يكفي ويشفي ، قال تعالى : ( إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتاً ) النساء / 103 ، وقال تعالى عن أهل النار : ( ما سلككم في سقر قالوا لم نك من المصلين ... ) المدثر 42 – 43 ، فذكر من صفاتهم ترك الصلاة ... ، وقال صلى الله عليه وسلم : ( العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر ) رواه الترمذي ( 2621 ) والنسائي ( 431 ) ، وابن ماجه ( 1079 ) وصححه الألباني في صحيح الترمذي ( 2113 ) ، والآيات والأحاديث من ترك الصلاة أن النبي صلى الله عليه وسلم سماه كفراً .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال الشيخ ابن عثيمين - رحمه الله - : هذا الحديث موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل لأحد نشره إلا مقروناً ببيان أنه موضوع حتى يكون الناس على بصيرة منه .
" فتاوى الشيخ الصادرة من مركز الدعوة بعنيزة " ( 1 / 6 ) .
نسأل الله تعالى أن يثيبك على حرصك على دعوة إخوانك ونصحهم إلا أنه ينبغي أن يتقرر عند كل راغب في بذل الخير للناس وترهيبهم من الشر أن ذلك لابد أن يكون بما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم وأن في الصحيح غنية وكفاية عن الضعيف .
سألين الله أن يكلل مسعاك بالنجاح وأن يهدي من تدعوهم إلى سلوك طريق الاستقامة وجميع المسلمين .
والله أعلم .
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
ميرا سوال درج ذيل حديث كے متعلق ہے كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں؟ تا كہ ميں اسے تقسيم كر سكوں.
" نماز كے منكر يا تارك نماز كو اللہ تعالى پندرہ قسم كى سزائيں دے گا چھ تو اس كى زندگى ميں اور تين اس كى موت كے وقت، اور تين قبر ميں اور تين قيامت كے روز:
دنيا ميں سزا:
1 - اللہ تعالى اس كى عمر سے بركت مٹا ڈالتا ہے.
2 - اللہ تعالى اس كى دعاء قبول نہيں كرتا.
3 - اس كى چہرے سے نيكى اور اصلاح كى علامتيں ختم ہو جاتى ہيں.
4 - زمين پر سارى مخلوق اس سے ناراض ہو تى ہے.
5 - اللہ تعالى اس كے كسى بھى نيك عمل كا اجر و ثواب نہيں ديتا.
6 - اللہ تعالى اسے مومنوں كى دعاء ميں شامل نہيں كرتا.
موت كے وقت سزائيں:
1 - وہ ذليل ہو كر مرتا ہے.
2 - وہ بھوكا مرتا ہے.
3 - چاہے وہ سمند كا پانى بھى پى لے وہ پياسا ہى مرتا ہے.
قبر ميں سزائيں:
1 - اللہ تعالى اس كى قبر كو اتنا تنگ كرتا ہے كہ اس كى پسلياں آپس ميں مل جاتى ہيں.
2 - اللہ تعالى اس پر انگاروں كى آگ جلاتا ہے.
3 - اللہ تعالى اس پر ايك ازدھا مسلط كرتا ہے جسے شجاع اور اقرع كہتے ہيں، وہ فجر كى نماز ترك كرنے كى بنا پر فجر سے ليكر ظہر تك اسے ڈستا رہتا ہے، اور ظہر كى نماز ترك كرنے كى وجہ سے ظہر سے ليكر عصر تك اور عصر كى نماز ترك كرنے كى بنا پر عصر سے ليكر مغرب تك، اور مغرب كى نماز ترك كرنے كى وجہ سے مغرب سے ليكر عشاء تك، اور عشاء كى نماز ترك كرنے كى وجہ سے عشاء سے ليكر فجر تك ڈستا رہتا ہے، اور ہر ڈسنے كى وجہ سے وہ زمين ميں ستر ہاتھ دھنس جاتا ہے.
قيامت كے روز سزائيں:
1 - اللہ تعالى اس كے پاس اسے روانہ كرينگے جو اسے چہرے كے بل كھينچے گا.
2 - اللہ تعالى اس كى جانب غضب اور ناراضگى كى نظر سے ديكھيں گے جس كى بنا پر اس كے چہرے كا گوشت گر جائيگا.
3 - اللہ تعالى اس كا حساب سختى كے ساتھ كر كے اسے جہنم ميں پھينكے گا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
اول:
درج ذيل حديث:
" جس نے بھى نمازميں سستى اور حقارت سے كام ليا، اللہ تعالى اسے پندرہ قسم كى سزائيں دے گا، چھ دنيا ميں، اور تين موت كے وقت، اور تين قبر ميں، اور تين قبر سے نكلتے وقت .... "
يہ حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا گيا ہے.
فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے متعلق مجلۃ " البحوث الاسلاميۃ " ميں كہتے ہيں:
اس پملفٹ والے نے تارك نماز كے متعلق جس حديث كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب كيا ہے كہ:
" تارك نماز كو پندرہ قسم كى سزائيں دى جائينگى الخ "
يہ باطل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ باندھى جانے والى احاديث ميں شامل ہوتى ہے.
جيسا كہ علماء كرام ميں سے حفاظ كرام نے مثلا حافظ ذھبى رحمہ اللہ تعالى نے " لسان الميزان " ميں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى وغيرہ نے بيان كيا ہے. (ديكھيں مجلۃ: البحوث الاسلاميۃ ( 22 / 329 ).
اور اسى طرح مستقل فتوى كميٹى نے بھى اس حديث كےباطل ہونے كے متعلق فتوى جارى كيا ہے:
يہاں فتوى كميٹى كے علماء كرام كا قول ذكر كرنا بہتر معلوم ہے، مستقل فتوى اور اسلامى ريسرچ كميٹى كے فتوى نمبر ( 8689 ) ميں ہے:
" ..... اور نماز اور تارك نماز كى سزا كے متعلق جو كچھ اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے وہ كافى اور شافى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ يقينا مومنوں پر نماز وقت مقررہ پر ادا كرنى فرض كى گئى ہے ﴾ النساء ( 103 ).
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے جہنميوں كے متعلق فرمايا:
﴿ تمہيں جہنم ميں كس چيز نے پھينكا؟ وہ كہينگے ہم نماز ادا نہيں كرتے تھے ... ﴾المدثر ( 42 - 43 ).
چنانچہ اللہ تعالى نے جہنميوں كى صفات ميں نماز كا ترك كرنا بھى ذكر كيا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كا ارتكاب كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1079 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2113 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اس موضوع كے متعلق بہت سى آيات ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى بہت سى احاديث ميں ترك نماز كو كفر قرار ديا ہے.
مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر ( 2182 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ ہے، كسى شخص كے ليے بھى اسے نشر كرنا اور لوگوں ميں پھيلانا حلال نہيں، ليكن اگر كوئى شخص اس كى موضوعيت اور من گھڑت ہونا بيان كرنا چاہے تو وہ نشر كر سكتا ہے، تا كہ لوگ اس كے متعلق جان سكيں اور انہيں بصيرت حاصل ہو.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين جارى كردہ مركز الدعوۃ والارشاد عنيزہ قصيم سعودى عرب ( 1 / 6 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنے بھائيوں كو دعوت دينے اور ان كى اصلاح كرنے كى حرص ركھنے پر اجروثواب سے نوازے، ليكن يہ ضرور ہے كہ جو شخص بھى لوگوں ميں خير و بھلائى پھيلانے كى رغبت اور حرص ركھتا ہے، اور انہيں برائى اور شر سے بچانا اور ڈرانا چاہتا ہے، وہ اس چيز كے ساتھ كرے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور صحيح احاديث ميں كفائت اور ضعيف احاديث سے استغناء پايا جاتا ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كى كوششوں كو كاميابى سے نوازے، اور جنہيں آپ دعوت دينا چاہتے ہيں، اللہ تعالى انہيں اور سب مسلمانوں كو طريق مستقيم كى طرف چلائے.
واللہ اعلم .