سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
تاریخی واقعات کی تحقیق وفہم میں تعصب اور عدل سے انحراف کے اسباب
—————
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ»
“لوگو!دین میں غلو (اور حد سے بڑھنے )سے پرہیز کرو۔تم سے پہلے لوگوں کودین میں غلو ہی نے تباہ کیا ہے”
(سنن نسائی: ٣٠٥٧ وسنن ابن ماجہ: ۳۰۲۹، وصححه الالباني)
اور فرمایا:
أَلَا هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ
“خبردار ! غلو کرنے والے ، حد سے بڑھنے والے ہلاک ہوئے”
(صحیح مسلم: ٢٦٧٠، وسنن ابي داود: ٤٦٠٨)
تاریخی واقعات وشخصیات پر تحقیق اور ان کی تفہیم کرتے وقت اعتدال کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہئے۔
لیکن کچھ اسباب ایسے ہیں جو شعوری یا لا شعوری طور پر ایک محقق کو عدل کی راہ سے بھٹکانے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ان اسباب کی نشاندہی کی جائے تا کہ تحقیق کرتے وقت محقق کو قدم قدم ان کا شعور رہے اور وہ اپنی ہر رائے وفیصلے کو ان اسباب پر پرکھ کر سوچے کہ کہیں میں ان میں سے کسی کا شکار تو نہیں ہو رہا!؟
ویسے تو یہ اسباب ہر قسم کی تحقیق میں یکساں ہیں لیکن تاریخ کے فہم میں ان کا کردار قدرے زیادہ ہے۔
۱- جہل
حقائق کا مکمل علم نہ ہونے کے سبب خلاف واقع کسی چیز پر اعتقاد کرنا
یا حقائق کی عدم موجودگی کے اعتراف کے باوجود کسی موقف پر وثوق ظاہر کرنا۔
۲- رائے قائم کرنے کے بعد تحقیق کرنا
اسے کنفرمیشن بائس یعنی وثوقی تعصب کہتے ہیں۔ یہ ان معلومات کو قبول کرنے، تلاش کرنے، تاویل کرنے اور ترجیح دینے کا رجحان ہے جو ہماری پہلے سے قائم رائے کی توثیق کرتی ہیں۔ جبکہ ان حقائق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے جو ہمارے خیالات سے متصادم ہوں۔
اس کا اثر تب سب سے زیادہ ہوتا ہے جب کسی خاص نتیجے کی خواہش دل میں موجود ہو، یا موضوع بحث کوئی جذباتی یا گہرے اعتقاد والا ہو۔
وثوقی تعصب میں لوگ متشابہ دلائل کو بھی اپنی موجودہ رائے کے موافق تاویل دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مؤرخ اسلام علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ولمّا كان الكذب متطرّقا للخبر بطبعته وله أسباب تقتضيه. فمنها التّشيّعات للآراء والمذاهب فإنّ النّفس إذا كانت على حال الاعتدال في قبول الخبر أعطته حقّه من التّمحيص والنّظر حتّى تتبيّن صدقه من كذبه وإذا خامرها تشيّع لرأي أو نحلة قبلت ما يوافقها من الأخبار لأوّل وهلة وكان ذلك الميل والتّشيّع غطاء على عين بصيرتها عن الانتقاد والتّمحيص فتقع في قبول الكذب ونقله”
“تاریخ میں غلطیوں کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب اختلاف آراء ومذاہب ہے کیونکہ جب ذہن راہ اعتدال پر ہوتا ہے اور کوئی بات سنتا ہے تو اس کی تحقیق کرتا ہے اور غور وفکر کرتا ہے حتی کہ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی اور جب ذہن کسی (پہلے سے قائم کردہ) رائے یا مذہب میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے تو فورا اس خبر کو مان لیتا ہے جو اس کی رائے یا مذہب کے موافق ہو کیونکہ اس کی بصیرت پر تعصب ومحبت کی پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے جو اسے تحقیق وتنقید سے روک دیتی ہے اور وہ جھوٹی خبر قبول کر کے غلطی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کو بلا تامل نقل کر لیتا ہے۔
(مقدمہ ابن خلدون: ص ۱/٤٦، اردو ترجمہ: ص ١٤٧)
۳- کسی شخصیت کے لئے حد درجہ غلو ومبالغے کا شکار ہونا
بعض لوگ کسی خاص شخصیت کی محبت یا نفرت میں غلو ومبالغے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں اس سے محبت کرنے والا شخص ہر چیز کو اس کے حق وتائید کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، نیز اس کے دفاع میں وہ اس قدر متعصب ہوجاتا ہے کہ اگر اسے اس شخص کی چند بری یا قابل مذمت خصلات بھی مل جائیں تو خطاء جیسی انسانی فطرت کے عمومی اقرار کے باوجود وہ اس شخص کے لیے ان اخطاء کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے یا ان کی بعید سے بعید تاویل کرنے سے نہیں کتراتا ہے۔
جبکہ اس شخص سے نفرت کرنے والا اس کے بالکل برعکس پر عمل کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔
(النساء: ۱۳۵)
٤- فیصلے پر پہنچنے کے بعد مخالف رائے پر نئے دلائل کا ملنا
بعض اوقات ایک محقق دن رات ایک کر کے تحقیق کرنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتا ہے، لیکن تھوڑے عرصے بعد اسے کسی ایسی دلیل کا علم ہوتا ہے جو اس کی تحقیق کے منافی ہے، تو اسے ایک صدمہ پہنچتا ہے اور اسے لگتا ہے کہیں اس کی ساری تحقیق اور محنت ضائع نہ ہو جائے تو شعوری یا غیر شعوری طور پر بھی اس میں اس دلیل کی حقیقت کو کسی طرح موڑنے کا جذبہ ورجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چیز اسے عدل وانصاف کے راستے سے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
۵- عداوت ودشمنی کے سبب اپنے حریف کو غلط ثابت کرنے کی طرف رجحان ہونا
یہاں بھی یہ رجحان شعوری اور لا شعوری دونوں طور پر ہو سکتا ہے۔
٦- عزیز واقارب وساتھیوں کے دباؤ یا حوصلہ افزائی کی زد میں آکر ان کے موافق موقف کو مضبوط ثابت کرنا
جسے انگریزی میں (Peer Pressure) کہتے ہیں۔ جب محقق کے دوست واحباب اسے کسی خاص موقف کے متعلق حوصلہ افزائی کریں، تو وہ شخص بسا اوقات اس دباؤ میں لا شعوری طور پر اس موقف کے موافق دلائل تلاش کرنے اور انہیں ترجیح دینے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
٧- تقلید کرتے ہوئے دوسرے کی رائے اور تحقیق پر اعتماد کرنا
اکثر محققین کسی دوسرے کی تحقیق سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی تحقیق کی ظاہری پختگی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے بہت سے پہلوؤں پر خود تحقیق کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ نیز اس کے زریعے وہ اپنی خود کی بھی ایک رائے بنا لیتے ہیں جو بعد میں ان کی اپنی تحقیق پر اثر انداز ہوتی ہے جو کہ وثوقی تعصب کو جنم دیتی ہے جس کا ذکر اوپر دوسرے نمبر پر کیا گیا ہے۔
٨- تاریخی واقعات میں معاشرے کے طبعی احوال کی معرفت، خارجی واقعات سے مقابلہ اور تطبیق کرنے کی بجائے، راویوں کے الفاظ کے ظاہر پر اعتماد کرنا اور ان سے عجیب نتائج نکالنا
تاریخ میں غلطیوں کے اسباب بیان کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“تیسرا سبب مقاصد سے غفلت ہے کہ بہت سے راوی اپنی مشاہدہ کی ہوئی یا سنی ہوئی خبروں کے اغراض ومقاصد سے نا آشنا رہتے ہیں اور اپنے گمان پر روایت کر دیتے ہیں اس لئے غلطی میں پڑ جاتے ہیں۔”
ابن خلدون مزید فرماتے ہیں:
“چوتھا سبب وہمِ صداقت ہے یہ سبب کثیر الوقوع اور عام ہے اور کئی طرح سے پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ راویوں پر اعتماد کر لیا جاتا ہے۔ کبھی اس راہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خبروں کا خارجی واقعات سے مقابلہ نہیں کیا جاتا تا کہ احوال وواقعات میں تطبیق ہو جائے۔ اس لئے جہالتِ تطبیق سے بھی جعلی اور من گھڑت باتوں کو فروغ ہو جاتا ہے اور صحیح وغلط میں تمیز نہیں رہتی اور سننے والا خبر کو جوں کا توں نقل کر دیتا ہے حالانکہ وہ جعلی ہونے کی وجہ سے صداقت سے کوسوں دور ہوتی ہے۔”
آگے چل کے فرماتے ہیں:
“چھٹا سبب جو مذکورہ بالا تمام اسباب سے اہم ہے، معاشرے کے طبعی احوال سے نا واقفیت ہے کیونکہ زمانے کے ہر حادثے کے لئے (خواہ وہ ذات ہو یا فعل) ذات کے اور عارض ہونے والے احوال کے اعتبار سے ایک مخصوص طبیعت ہوتی ہے۔ اگر خبر سننے والا وجود میں آنے والے حادثات وحالات کی مخصوص طبیعتوں سے اور مخصوص تقاضوں سے خبردار ہے تو اس واقفیت سے اسے اس خبر کی تحقیق میں بڑی مدد ملے گی۔”
(مقدمہ ابن خلدون، مترجم: ص ١٤٥-١٤٧)
Written by: raza hassan
—————
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ»
“لوگو!دین میں غلو (اور حد سے بڑھنے )سے پرہیز کرو۔تم سے پہلے لوگوں کودین میں غلو ہی نے تباہ کیا ہے”
(سنن نسائی: ٣٠٥٧ وسنن ابن ماجہ: ۳۰۲۹، وصححه الالباني)
اور فرمایا:
أَلَا هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ
“خبردار ! غلو کرنے والے ، حد سے بڑھنے والے ہلاک ہوئے”
(صحیح مسلم: ٢٦٧٠، وسنن ابي داود: ٤٦٠٨)
تاریخی واقعات وشخصیات پر تحقیق اور ان کی تفہیم کرتے وقت اعتدال کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہئے۔
لیکن کچھ اسباب ایسے ہیں جو شعوری یا لا شعوری طور پر ایک محقق کو عدل کی راہ سے بھٹکانے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ان اسباب کی نشاندہی کی جائے تا کہ تحقیق کرتے وقت محقق کو قدم قدم ان کا شعور رہے اور وہ اپنی ہر رائے وفیصلے کو ان اسباب پر پرکھ کر سوچے کہ کہیں میں ان میں سے کسی کا شکار تو نہیں ہو رہا!؟
ویسے تو یہ اسباب ہر قسم کی تحقیق میں یکساں ہیں لیکن تاریخ کے فہم میں ان کا کردار قدرے زیادہ ہے۔
۱- جہل
حقائق کا مکمل علم نہ ہونے کے سبب خلاف واقع کسی چیز پر اعتقاد کرنا
یا حقائق کی عدم موجودگی کے اعتراف کے باوجود کسی موقف پر وثوق ظاہر کرنا۔
۲- رائے قائم کرنے کے بعد تحقیق کرنا
اسے کنفرمیشن بائس یعنی وثوقی تعصب کہتے ہیں۔ یہ ان معلومات کو قبول کرنے، تلاش کرنے، تاویل کرنے اور ترجیح دینے کا رجحان ہے جو ہماری پہلے سے قائم رائے کی توثیق کرتی ہیں۔ جبکہ ان حقائق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے جو ہمارے خیالات سے متصادم ہوں۔
اس کا اثر تب سب سے زیادہ ہوتا ہے جب کسی خاص نتیجے کی خواہش دل میں موجود ہو، یا موضوع بحث کوئی جذباتی یا گہرے اعتقاد والا ہو۔
وثوقی تعصب میں لوگ متشابہ دلائل کو بھی اپنی موجودہ رائے کے موافق تاویل دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مؤرخ اسلام علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ولمّا كان الكذب متطرّقا للخبر بطبعته وله أسباب تقتضيه. فمنها التّشيّعات للآراء والمذاهب فإنّ النّفس إذا كانت على حال الاعتدال في قبول الخبر أعطته حقّه من التّمحيص والنّظر حتّى تتبيّن صدقه من كذبه وإذا خامرها تشيّع لرأي أو نحلة قبلت ما يوافقها من الأخبار لأوّل وهلة وكان ذلك الميل والتّشيّع غطاء على عين بصيرتها عن الانتقاد والتّمحيص فتقع في قبول الكذب ونقله”
“تاریخ میں غلطیوں کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب اختلاف آراء ومذاہب ہے کیونکہ جب ذہن راہ اعتدال پر ہوتا ہے اور کوئی بات سنتا ہے تو اس کی تحقیق کرتا ہے اور غور وفکر کرتا ہے حتی کہ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی اور جب ذہن کسی (پہلے سے قائم کردہ) رائے یا مذہب میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے تو فورا اس خبر کو مان لیتا ہے جو اس کی رائے یا مذہب کے موافق ہو کیونکہ اس کی بصیرت پر تعصب ومحبت کی پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے جو اسے تحقیق وتنقید سے روک دیتی ہے اور وہ جھوٹی خبر قبول کر کے غلطی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کو بلا تامل نقل کر لیتا ہے۔
(مقدمہ ابن خلدون: ص ۱/٤٦، اردو ترجمہ: ص ١٤٧)
۳- کسی شخصیت کے لئے حد درجہ غلو ومبالغے کا شکار ہونا
بعض لوگ کسی خاص شخصیت کی محبت یا نفرت میں غلو ومبالغے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں اس سے محبت کرنے والا شخص ہر چیز کو اس کے حق وتائید کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، نیز اس کے دفاع میں وہ اس قدر متعصب ہوجاتا ہے کہ اگر اسے اس شخص کی چند بری یا قابل مذمت خصلات بھی مل جائیں تو خطاء جیسی انسانی فطرت کے عمومی اقرار کے باوجود وہ اس شخص کے لیے ان اخطاء کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے یا ان کی بعید سے بعید تاویل کرنے سے نہیں کتراتا ہے۔
جبکہ اس شخص سے نفرت کرنے والا اس کے بالکل برعکس پر عمل کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔
(النساء: ۱۳۵)
٤- فیصلے پر پہنچنے کے بعد مخالف رائے پر نئے دلائل کا ملنا
بعض اوقات ایک محقق دن رات ایک کر کے تحقیق کرنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتا ہے، لیکن تھوڑے عرصے بعد اسے کسی ایسی دلیل کا علم ہوتا ہے جو اس کی تحقیق کے منافی ہے، تو اسے ایک صدمہ پہنچتا ہے اور اسے لگتا ہے کہیں اس کی ساری تحقیق اور محنت ضائع نہ ہو جائے تو شعوری یا غیر شعوری طور پر بھی اس میں اس دلیل کی حقیقت کو کسی طرح موڑنے کا جذبہ ورجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چیز اسے عدل وانصاف کے راستے سے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
۵- عداوت ودشمنی کے سبب اپنے حریف کو غلط ثابت کرنے کی طرف رجحان ہونا
یہاں بھی یہ رجحان شعوری اور لا شعوری دونوں طور پر ہو سکتا ہے۔
٦- عزیز واقارب وساتھیوں کے دباؤ یا حوصلہ افزائی کی زد میں آکر ان کے موافق موقف کو مضبوط ثابت کرنا
جسے انگریزی میں (Peer Pressure) کہتے ہیں۔ جب محقق کے دوست واحباب اسے کسی خاص موقف کے متعلق حوصلہ افزائی کریں، تو وہ شخص بسا اوقات اس دباؤ میں لا شعوری طور پر اس موقف کے موافق دلائل تلاش کرنے اور انہیں ترجیح دینے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
٧- تقلید کرتے ہوئے دوسرے کی رائے اور تحقیق پر اعتماد کرنا
اکثر محققین کسی دوسرے کی تحقیق سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی تحقیق کی ظاہری پختگی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے بہت سے پہلوؤں پر خود تحقیق کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ نیز اس کے زریعے وہ اپنی خود کی بھی ایک رائے بنا لیتے ہیں جو بعد میں ان کی اپنی تحقیق پر اثر انداز ہوتی ہے جو کہ وثوقی تعصب کو جنم دیتی ہے جس کا ذکر اوپر دوسرے نمبر پر کیا گیا ہے۔
٨- تاریخی واقعات میں معاشرے کے طبعی احوال کی معرفت، خارجی واقعات سے مقابلہ اور تطبیق کرنے کی بجائے، راویوں کے الفاظ کے ظاہر پر اعتماد کرنا اور ان سے عجیب نتائج نکالنا
تاریخ میں غلطیوں کے اسباب بیان کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“تیسرا سبب مقاصد سے غفلت ہے کہ بہت سے راوی اپنی مشاہدہ کی ہوئی یا سنی ہوئی خبروں کے اغراض ومقاصد سے نا آشنا رہتے ہیں اور اپنے گمان پر روایت کر دیتے ہیں اس لئے غلطی میں پڑ جاتے ہیں۔”
ابن خلدون مزید فرماتے ہیں:
“چوتھا سبب وہمِ صداقت ہے یہ سبب کثیر الوقوع اور عام ہے اور کئی طرح سے پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ راویوں پر اعتماد کر لیا جاتا ہے۔ کبھی اس راہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خبروں کا خارجی واقعات سے مقابلہ نہیں کیا جاتا تا کہ احوال وواقعات میں تطبیق ہو جائے۔ اس لئے جہالتِ تطبیق سے بھی جعلی اور من گھڑت باتوں کو فروغ ہو جاتا ہے اور صحیح وغلط میں تمیز نہیں رہتی اور سننے والا خبر کو جوں کا توں نقل کر دیتا ہے حالانکہ وہ جعلی ہونے کی وجہ سے صداقت سے کوسوں دور ہوتی ہے۔”
آگے چل کے فرماتے ہیں:
“چھٹا سبب جو مذکورہ بالا تمام اسباب سے اہم ہے، معاشرے کے طبعی احوال سے نا واقفیت ہے کیونکہ زمانے کے ہر حادثے کے لئے (خواہ وہ ذات ہو یا فعل) ذات کے اور عارض ہونے والے احوال کے اعتبار سے ایک مخصوص طبیعت ہوتی ہے۔ اگر خبر سننے والا وجود میں آنے والے حادثات وحالات کی مخصوص طبیعتوں سے اور مخصوص تقاضوں سے خبردار ہے تو اس واقفیت سے اسے اس خبر کی تحقیق میں بڑی مدد ملے گی۔”
(مقدمہ ابن خلدون، مترجم: ص ١٤٥-١٤٧)
Written by: raza hassan