Raza Asqalani
رکن
- شمولیت
- جنوری 10، 2017
- پیغامات
- 60
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 57
کفایت اللہ سنابلی صاحب نے یزید کے دفاع میں امام زین العابدین سے منسوب امام ذہبی کی تاریخ الاسلام سے مدائنی کے طریق سے ایک روایت پیش کی جو یہ ہے:
وقال المدائني عن إبراهيم بن محمد عن عمرو بن دينار : حدثني محمد بن علي بن الحسين عن أبيه قال : لما قتل الحسين۔۔الخ
[تاریخ الاسلام للذہبی ج 1 ص 561]
سنابلی صاحب نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی سند کے بارے میں لکھتا ہے:
تاریخ الاسلام ط بشار (2/583) نقلا عن المدائنی، واسنادہ صحیح
[یزید بن معاویہ ص 338]
اور سنابلی صاحب نے علامہ مدائنی کے شیخ ابراہیم بن محمد کو بنا کوئی صریح دلیل کے "ابراہیم بن محمدبن علی بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب" قرار دیا ہے۔
[یزید بن معاویہ ص 340]
الجواب: کفایت سنابلی صاحب نے مدائنی کے شیخ کے تعین میں اتنہائی بے احتیاطی سے کام لیا ہے جب کہ مدائنی کا شیخ وہی "ابراہیم بن محمد" ہے جو امام شافعی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" ہےاس کے ثبوت فقیر کی طرف مندرجہ ذیل ہیں:
دلیل نمبر1: علامہ بلاذری مدائنی سے روایت کرتے ہیں:
المدائني عن إبراهيم بن محمد، عن زيد بن أسلم۔۔الخ
[انساب الاشراف للبلاذری ج 1 ص 379]
یہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" زید بن اسلم سے روایت کر رہا ہے۔ اسی طرح کی سند امام شافعی بھی بیان کرتے ہیں جیسے امام شافعی اپنی کتاب "الام" میں بیان کرتے ہیں:
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم بن محمد عن زيد بن أسلم۔۔الخ
[الام للشافعی ج1 ص 249]
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم قال : حدثني زيد بن أسلم۔۔الخ
[الام للشافعی ج1 ص 392]
یہاں بھی امام شافعی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" زید بن اسلم سے بیان کر رہا ہے۔
دلیل نمبر2:
تاریخ دمشق کی سند میں علامہ مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" امام جعفر صادق علیہ الرحمہ سے روایت کر رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
عن أبي الحسن المدائني عن إبراهيم بن محمد عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[تاریخ دمشق لابن عساکر ج 57 ص 247]
وروى المدائنى عن إبراهيم بن محمد عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[البداية والنهاية لابن كثير ج 8 ص 258]
اسی طرح امام شافعی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" بھی اسی طرح کی اسناد امام جعفر صادق علیہ الرحمہ سے بیان کرتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
قال الشافعي : أخبرنا إبراهيم بن محمد عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[الام للشافعی ج 6 ص 199]
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم قال : حدثني جعفر بن محمد۔۔الخ
[الام للشافعی ج 6 ص 394]
اور امام شافعی نے یہاں ابراہیم بن محمد کا تعین بھی کر دیا ہے کہ وہ کونسا ہے:
أخبرنا بذلك إبراهيم بن أبي يحيى عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[الام للشافعی ج 7 ص 161]
نوٹ: ابراہیم بن ابی یحیی کا اصل نام "ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی" ہی ہے۔ لہذا راوی کا واضح واضح تعین ہو گیا ۔ الحمدللہ
دلیل نمبر 3:
مدائنی کا شیخ"ابراہیم بن محمد" اپنے والد کے واسطے سے بھی روایت کرتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
المدائني عن إبراهيم بن محمد عن أبيه۔۔الخ
[انساب الاشراف للبلاذری ج 3 ص 416]
اسی طرح امام شافعی بھی اپنے شیخ "ابراہیم بن محمد" سے ان کے والد سے روایت کرتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے:
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم بن محمد عن أبيه۔۔الخ
[الام للشافعی 1 ص 463]
لہذا اسناد کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ امام شافعی کا شیخ اور علامہ مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" ایک ہی ہے وہ ہے "ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی"۔
اب آتے ہیں امام شافعی کے اس شیخ کی طرف کے محدثین کرام کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے:
امام شافعی کے اس شیخ کا پورا نام " ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی" ہے اور یہ پانچویں طبقے کا مدلس ہےا ور امام ابن حجر نے اس کو جمہور سے ضعیف قرار دیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الاسلمي شيخ الشافعي ضعفه الجمهور ووصفه أحمد والدارقطني وغيرهما بالتدليس
[طبقات المدلسین لابن حجر ص 52 رقم 129]
اور تقریب التہذیب میں اس کو متروک قرار دیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
إبراهيم ابن محمد ابن أبي يحيى الأسلمي [وقيل له: إبراهيم بن محمد بن أبي عطاء أيضاً] أبو إسحاق المدني متروك من السابعة مات سنة أربع وثمانين وقيل إحدى وتسعين ق
[تقریب التہذیب ج 1 ص 93 رقم 241]
اور امام یحیی بن معین کے نزدیک یہ کذاب ہے:
حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين انه قال إبراهيم بن أبى يحيى ليس بثقة كذاب
[الجرح والتعدیل ج 2 ص 126]
امام یحیی بن سعید کے نزدیک بھی یہ کذاب ہے:
سمعت أبى يقول سمعت على بن المديني يقول ما رأيت أحدا ينص يحيى بن سعيد بالكذب الا إبراهيم بن أبى يحيى
[الجرح والتعدیل ج 2 ص 126]
امام ذہبی نے علامہ محمد بن عبداللہ البرقی کی طرف سے اسے کذاب لکھا ہے:
وقال محمد بن عبد الله بن البرقي: كان يرى، أو قال: يرمى بالقدر والتشيع والكذب.
[سیراعلام النبلاء ج 8 ص 452]
امام ذہبی نے امام یزید بن ہارون کی طرف سے اسے جھوٹا قرار دیا ہے:
قال أبو محمد الدارمي: سمعت يزيد بن هارون يكذب زياد بن ميمون، وإبراهيم بن أبي يحيى، وخالد بن محدوج
[سیراعلام النبلاء ج 8 ص 452]
امام ابوحاتم الرازی نے کذاب و متروک قرار دیا:
حدثنا عبد الرحمن سمعت أبى يقول إبراهيم بن أبى يحيى كذاب متروك الحديث ترك بن المبارك حديثه
[الجرح والتعدیل ج 2 ص 126]
امام بخاری نے اس کو امام ابن قطان کے طریق سے ابن مبارک سے متروک قرار دیا:
إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى الاسلمي المدنى مولاهم كان يرى القدر وكلام جهم، عن يحيى بن سعيد، تركه ابن المبارك والناس
[تاریخ الکبیر ج 1 ص 323 رقم 1013]
امام نسائی نے بھی متروک قرار دیا:
وقال النسائي وغيره: متروك الحديث.
[سیراعلام النبلاء ج 8 ص 452]
اس پر کثیر ائمہ کی جروحات ہیں صرف امام شافعی نے ان کی توثیق کی کیونکہ یہ راوی ان کا شیخ تھا۔خیر یہاں اس کو امام شافعی کی توثیق نہیں بچا سکتی کیونکہ جمہور ائمہ حدیث نے جرح کر رکھی ہے
لہذا مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" جمہور محدثین کے نزدیک کذاب و متروک ہے لہذا تاریخ الاسلام کی سند جھوٹی و موضوع ہے۔ الحمدللہ
اس طرح کفایت اللہ سنابلی صاحب کے موقف کی تردید ہو جاتی ہے کہ امام زین العابدین علیہ الرحمہ کے ساتھ یزید نے اچھا سلوک اور امان نامہ لکھ دیا تھا۔ لہذا کفایت اللہ سنابلی صاحب کی تصحیح باطل ہے۔
واللہ اعلم
وقال المدائني عن إبراهيم بن محمد عن عمرو بن دينار : حدثني محمد بن علي بن الحسين عن أبيه قال : لما قتل الحسين۔۔الخ
[تاریخ الاسلام للذہبی ج 1 ص 561]
سنابلی صاحب نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی سند کے بارے میں لکھتا ہے:
تاریخ الاسلام ط بشار (2/583) نقلا عن المدائنی، واسنادہ صحیح
[یزید بن معاویہ ص 338]
اور سنابلی صاحب نے علامہ مدائنی کے شیخ ابراہیم بن محمد کو بنا کوئی صریح دلیل کے "ابراہیم بن محمدبن علی بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب" قرار دیا ہے۔
[یزید بن معاویہ ص 340]
الجواب: کفایت سنابلی صاحب نے مدائنی کے شیخ کے تعین میں اتنہائی بے احتیاطی سے کام لیا ہے جب کہ مدائنی کا شیخ وہی "ابراہیم بن محمد" ہے جو امام شافعی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" ہےاس کے ثبوت فقیر کی طرف مندرجہ ذیل ہیں:
دلیل نمبر1: علامہ بلاذری مدائنی سے روایت کرتے ہیں:
المدائني عن إبراهيم بن محمد، عن زيد بن أسلم۔۔الخ
[انساب الاشراف للبلاذری ج 1 ص 379]
یہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" زید بن اسلم سے روایت کر رہا ہے۔ اسی طرح کی سند امام شافعی بھی بیان کرتے ہیں جیسے امام شافعی اپنی کتاب "الام" میں بیان کرتے ہیں:
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم بن محمد عن زيد بن أسلم۔۔الخ
[الام للشافعی ج1 ص 249]
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم قال : حدثني زيد بن أسلم۔۔الخ
[الام للشافعی ج1 ص 392]
یہاں بھی امام شافعی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" زید بن اسلم سے بیان کر رہا ہے۔
دلیل نمبر2:
تاریخ دمشق کی سند میں علامہ مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" امام جعفر صادق علیہ الرحمہ سے روایت کر رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
عن أبي الحسن المدائني عن إبراهيم بن محمد عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[تاریخ دمشق لابن عساکر ج 57 ص 247]
وروى المدائنى عن إبراهيم بن محمد عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[البداية والنهاية لابن كثير ج 8 ص 258]
اسی طرح امام شافعی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" بھی اسی طرح کی اسناد امام جعفر صادق علیہ الرحمہ سے بیان کرتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
قال الشافعي : أخبرنا إبراهيم بن محمد عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[الام للشافعی ج 6 ص 199]
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم قال : حدثني جعفر بن محمد۔۔الخ
[الام للشافعی ج 6 ص 394]
اور امام شافعی نے یہاں ابراہیم بن محمد کا تعین بھی کر دیا ہے کہ وہ کونسا ہے:
أخبرنا بذلك إبراهيم بن أبي يحيى عن جعفر بن محمد۔۔الخ
[الام للشافعی ج 7 ص 161]
نوٹ: ابراہیم بن ابی یحیی کا اصل نام "ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی" ہی ہے۔ لہذا راوی کا واضح واضح تعین ہو گیا ۔ الحمدللہ
دلیل نمبر 3:
مدائنی کا شیخ"ابراہیم بن محمد" اپنے والد کے واسطے سے بھی روایت کرتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
المدائني عن إبراهيم بن محمد عن أبيه۔۔الخ
[انساب الاشراف للبلاذری ج 3 ص 416]
اسی طرح امام شافعی بھی اپنے شیخ "ابراہیم بن محمد" سے ان کے والد سے روایت کرتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے:
أخبرنا الشافعي قال : أخبرنا إبراهيم بن محمد عن أبيه۔۔الخ
[الام للشافعی 1 ص 463]
لہذا اسناد کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ امام شافعی کا شیخ اور علامہ مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" ایک ہی ہے وہ ہے "ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی"۔
اب آتے ہیں امام شافعی کے اس شیخ کی طرف کے محدثین کرام کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے:
امام شافعی کے اس شیخ کا پورا نام " ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی" ہے اور یہ پانچویں طبقے کا مدلس ہےا ور امام ابن حجر نے اس کو جمہور سے ضعیف قرار دیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الاسلمي شيخ الشافعي ضعفه الجمهور ووصفه أحمد والدارقطني وغيرهما بالتدليس
[طبقات المدلسین لابن حجر ص 52 رقم 129]
اور تقریب التہذیب میں اس کو متروک قرار دیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
إبراهيم ابن محمد ابن أبي يحيى الأسلمي [وقيل له: إبراهيم بن محمد بن أبي عطاء أيضاً] أبو إسحاق المدني متروك من السابعة مات سنة أربع وثمانين وقيل إحدى وتسعين ق
[تقریب التہذیب ج 1 ص 93 رقم 241]
اور امام یحیی بن معین کے نزدیک یہ کذاب ہے:
حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين انه قال إبراهيم بن أبى يحيى ليس بثقة كذاب
[الجرح والتعدیل ج 2 ص 126]
امام یحیی بن سعید کے نزدیک بھی یہ کذاب ہے:
سمعت أبى يقول سمعت على بن المديني يقول ما رأيت أحدا ينص يحيى بن سعيد بالكذب الا إبراهيم بن أبى يحيى
[الجرح والتعدیل ج 2 ص 126]
امام ذہبی نے علامہ محمد بن عبداللہ البرقی کی طرف سے اسے کذاب لکھا ہے:
وقال محمد بن عبد الله بن البرقي: كان يرى، أو قال: يرمى بالقدر والتشيع والكذب.
[سیراعلام النبلاء ج 8 ص 452]
امام ذہبی نے امام یزید بن ہارون کی طرف سے اسے جھوٹا قرار دیا ہے:
قال أبو محمد الدارمي: سمعت يزيد بن هارون يكذب زياد بن ميمون، وإبراهيم بن أبي يحيى، وخالد بن محدوج
[سیراعلام النبلاء ج 8 ص 452]
امام ابوحاتم الرازی نے کذاب و متروک قرار دیا:
حدثنا عبد الرحمن سمعت أبى يقول إبراهيم بن أبى يحيى كذاب متروك الحديث ترك بن المبارك حديثه
[الجرح والتعدیل ج 2 ص 126]
امام بخاری نے اس کو امام ابن قطان کے طریق سے ابن مبارک سے متروک قرار دیا:
إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى الاسلمي المدنى مولاهم كان يرى القدر وكلام جهم، عن يحيى بن سعيد، تركه ابن المبارك والناس
[تاریخ الکبیر ج 1 ص 323 رقم 1013]
امام نسائی نے بھی متروک قرار دیا:
وقال النسائي وغيره: متروك الحديث.
[سیراعلام النبلاء ج 8 ص 452]
اس پر کثیر ائمہ کی جروحات ہیں صرف امام شافعی نے ان کی توثیق کی کیونکہ یہ راوی ان کا شیخ تھا۔خیر یہاں اس کو امام شافعی کی توثیق نہیں بچا سکتی کیونکہ جمہور ائمہ حدیث نے جرح کر رکھی ہے
لہذا مدائنی کا شیخ "ابراہیم بن محمد" جمہور محدثین کے نزدیک کذاب و متروک ہے لہذا تاریخ الاسلام کی سند جھوٹی و موضوع ہے۔ الحمدللہ
اس طرح کفایت اللہ سنابلی صاحب کے موقف کی تردید ہو جاتی ہے کہ امام زین العابدین علیہ الرحمہ کے ساتھ یزید نے اچھا سلوک اور امان نامہ لکھ دیا تھا۔ لہذا کفایت اللہ سنابلی صاحب کی تصحیح باطل ہے۔
واللہ اعلم