• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ اور حدیث

جاءالحق

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

السلام علیکم

اسلام کے خلاف بہت سی سازشیں برپاہوئیں ۔ متعدد قسم کے زہر پھیلائے گئے دشمنان اسلام نے مختلف لبادے اوڑھے اسلام سے باہر رہ کر بھی اسلام کی بیخ کنی کی اور بظاہر اسلام میں داخل پو کر منافق کی حیثیت سے بھی سازشیں کرتے رہے مخجملہ ان سازشوں کے ایک سازش یہ بھی کی کہ اسلام کی تاریخ کو مسخ کر دیا وہ معاشرہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے فیض صحبت سے تیار کیا تھا جس معاشرہ کی ترتیت اللہ تعالٰی کی نگرانی میں ہوئی تھی جس معاشرہ کے افراد کے متعلق ایسی زہری افشانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ قرن ثانی اور قرن ثالث کے اکابر کے اوپر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے خود ساختہ واقعات کو رنگ آمیزی اور نمک مرچ لگا کر اس طرح پیش کیا کہ پڑھنے والے اپنے اکابر کے متعلق بدظنی کا شکار ہو گئے اور پھر ان تمام زہر افشانیوں افترا پر درازیوں کو تاریخ میں اس طرح سمودیا کہ جھوٹ سچ میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

موجودہ زمانے میں اسلام سے بیزار کرنے کے لئے یہ چال چلی گئی کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں ان فرضی واقعات کو تاریخی حقائق کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اور یہ سازش اتنی کارگر ہوئی کی اکثر لوگوں کے ذہن مسموم ہوگئے اور وہ بےبس یہی سمھجنے لگے کہ تاریخ کا تمام مواد بالکل حقیقت ہے اور اس میں سے کسی ایک واقعہ کے بھی انکار کی گنجائش نہیں الغرض تاریخ پرستی عام ہوگئٰ۔ اس سازش کی زد میں بڑے بڑے لوگ آگئے اور اپنے اکابر کے خلاف مختلف قسم کی زہر افشانی کرنے لگے

اس تاریخ پرستی یا سازش نے جو فتنے پیدا کئے وہ یہ ہیں۔
۱)انکار حدیث کیلئے فضا سازگار ہوگئٰ اگر کوئٰ حدیث کسی تاریخ واقعہ سے ٹکرائی تو بجائے تاریخی واقعہ کع جھٹلانے کے حدیث کو یہ کہی کر جھٹلایا گیا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے حالانکہ کہاں تاریخ اور کہاں حدیث چہ نسبت خاک را باعالم پاک حدیث کی جانچ کے لئے بیسیوں فن استعمال کئے گئے راویان حدیث کی جانچ پڑتال کی گئی ان کی ثقاہت کردار حفظ و اتقا ن کو پر کھا گیا سند کو دیکھا گیا کہ متصل ہے یا منقطع غرض یہ کہ انتہائی ھزم و احتیاط کے ساتھ حدیث کو مدون کیا گیا صحیح اور غلط میں خچ امتیاز کھینچا گیا اس کے خلاف تاریخ اسلام کے ابتدائی موتفین میں سے اکثر غیر مستند جھوٹ بلکہ دشمن اسلام تھے بعد میں آنے والے متدین مورخین کے لئے ان ابتدائ مولفین کی کتابیں ماخز بن گئیں۔ دوسرے دور کی ان کتب میں تاریخ بغیر تحقیق و تنقید ہر قسم کے زطب و یا بس کو بھر دیا گیا واقعات کی سندیں بیان نہیں کی گئیں اگر بیان بھی کی گئیں تو ان کی صحت یا ضعف کو بیان نہیں کیا گیا یوں کہنا چاہئے کہ ان مورخین نے جو واقعات محققین کے لئے جمع کئے تھے وہ بغیر تحقیق کے مستند سمجھے جانے لگےہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تاریخ اور حدیث کے تضاد کی صورت میں تاریخ کی تکزیب کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث پر سے اعتماداٹھ گیا اور اس طرح اسلام کو مسخ کرنے کیلئے راہ ہموار ہوگئ۔

۲)جب حدیث پر سے اعتماد اٹھ گیا تو قرآن کی من مانی تاویل ہونے لگی۔ قرآن مجید بازیچہ اطفال بن گیا اور ایک جدید اسلام کی داغ بیل ڈال دی گئی۔

۳)خلافت راشدہ کو دشمنان اسلام کی نام نہاد ملوکیت میں تبدیل کرنے کاذمہ دار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور دوسرے اکابرکو ٹھہرادیا گیا۔اسی کے ساتھ ساتھ ملوکیت کو غیر شرعی نظام حکومت ظاہر کرکے انتہائی کراہت آمیز شکل میں پیش کیا گیا، جس کے نتیجہ میںصحابہ اور دوسرے اکابر کومحض دنیا دار مکاراور خوشامدی کی حثیت سے پیش کیا گیا۔کوئی صحابی کسی صحابی کے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے کوئی کسی کے خلاف نبردآزما ہے۔آپس میں تلواریں چل رہی ہیں، دنیا کی دوڑ میں کوئ پیچھے رہنا نہیں چاہتا، مال و دولت اور اقتدار کی ہوس نے سب کو اندھا کردیا ہے، غرض یہ کے جس معاشرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا وہ اسلام سے کوسوں دور تھا، وہ افراد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ فیض یافتہ تھےوہی صحیح معنوں میں مسلمان نہ تھے بعد والوں کاکیا کہنا، نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذباللہ من ذلک)اپنے مقصد میں ناکام ریے اور اپنے بعد منافق اور دنیا کے پیچھے بھاگنے والے چھوڑ گئے اس فتنہ نے نبوت کی عمارت کو متزلزل کردیا اور اسلام کے متعلق بد گمانی پیدا ہونے لگی۔

۴) یہ ہیں وہ فتنے جو ہماری غلط تاریخ کی وجہ سے وجود میں آئے اور جنہوں نے ہزارہا آدمیوں کے ایمان کو متزلزل کیا موجودہ تاریخ کو پڑھ کر یماری گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں کیونکہ اس خونی تاریخ کو ہم اپنی تاریخ سمھجتے ہیں ہمیں اتنی جرات نہیں ہوتی کے یم اس تاریخ کی صحت کا انکار کر دیں ذہن مسموم ہو چکے ہیں دماغ مرعوب ہو چکے ہیں علم سے تہی دامن ہیں تقلید کے جراثیم اس قدر

سرایت کر گئے ہیں کہ تحقیق کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی حالانکہ اللہ کا فرمان ہے:
اے ایمان والوں اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ
"جہالت کے باعث تم کسی قوم پر جاپڑو اور تمہیں نادم ہونا پڑے (حجرات :۶)

اس عظیم الشان فرمان کے باوجود ہم نے نے کبھی یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ کسی واقعہ کا بیان کرنے والا صحیح الایمان ہے یا فاسق۔ بغیر تحقیق کے ہم نے ہر واقعہ کو قبول کیا نتجہ یہ نکلا کہ جہالت کے باعث ہم اپنے اکابر پر برس پڑے اسلامی اصولوں کی پامالی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور کبھی ہمیں یہ خیال بھی نہ آیا کہ کہیں کل میدان محشر میں ہمیں شرمسار نہ ہونا پڑے۔

۵)دوسرے دور کی کتب تاریخ کی بنیاد پر دوسری کتب تاریخ وجود میں آئیں۔ مختلف زبانوں میں تاریخ اسلام لکھی گئ علماء نے اپنی تقاریر وں اور تحریروں میں انہی کتب افسانوں کو مستند سمجھ کر پیش کیا معدود ے چند محققین کے علاوہ کسی نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ تاریخی واقعات قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے مطابق بھی ہیں یا نہیں حالانکہ اگر وہ ذرا سا بھی غور و تربر کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ جن واقعات کووہ مستند سمجھ رہےہیں ان کے بطلان پر قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ شاہد ہیں ان کی آپس کی محبت کی شہادت قرآن مجید دے رہا ہے ان کے متعلق تاریخ میں ایسے افسانے ملتے ہیں جن سے ان کے تقوے پر ضرب کاری پڑتی ہے خلوص اور للہیت کی دھجیاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں محبت کے بجائے ایمان و عداوت کی تیزوتند آندھیان چلتی نطر آتی ہیں مگر وہ ہیں کہ سب کو تسلیم کرتے چلے جارہے ہیں اور بایں ہمہ ان کا ایمان باالقرآن متاثر نہیں ہوتا۔ ایںچہ بوالعجبیست۔

۶) قرآن کے بعد صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا جو درجہ ہے وہ کسی پر مخفی نہیں جس تحقیق و تفتیش اور سخت شرائط کے ساتھ ان کتابوں کو مدون کیا گیا وہ اپنی نظیر آپ ہیں لیکن افسوس ہے کہ تاریخ کے سلسلہ میں اکثر لوگوں نے ان کتابوں سے بے اعتنائی کا ثبوت دیا تاریخ کے ان واقعات کو بھی تسلیم کرلیا جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے متصادم تھے ذیل میں ہم چند مثالوں سے اس کی وضاحت کرتے پیں۔

۱) صحیح بخاری میں ہےکہ واقعہ رجیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر بنایا،تاریخ میں ہے کہ حضرت مرثد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امیر بنایا۔
(سیرہ ابن اسحق،سیرۃ ابن ہشام تاریخ ابن خلدون)

۲)صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عقبہ نے قتل کیا، تاریخ میں ہے کہ عقبہ کے بھائی نے قتل کیا (سیرۃ ابن اسحق)

۳)صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ جنگ موتہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، تاریخ میں ہے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑی خوبصورتی سے اپنی فوج کو بچا کر لے آئےیعنی دوسرے لفظوں میں شکست کھاکر بھاگ گئے خالد دشمنی کی یہ ادنٰی مثال ہے جو ہماری تاریخ میں مزکورہے(تاریخ ابن خلدون)

۴)صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح فتح مکہ کے بعد ہوا لیکن تاریخ میں ہے کہ فتح مکہ سے پہلے ہوا (سیرۃ ابن اسحاق)

۵)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں ایک نامہ مبارک نجاشی شاہ حبش کو بھیجا تھا صحیح مسلم میں ہے کہ اس بادشاہ کا نام اصحمہ نہیں تھاجس کی نماز غائبانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی۔ اس کے خلاف تاریخ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصمحہ ہی کو دعوت نامہ بھیجا تھا (طبری)

یہ مختصر تضاد ہم نے بیان کئے۔ مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہو گیا کہ تاریخ روایات متعدد مقامات پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیت سے ٹکراتی ہیں اور یہ چیز اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ تاریخ کی اکثر روایات نا قابل اعتبار ہیں اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایاہے کہ "تین قسم کی کتابیں یکسر بے بنیاد ہیں۔ یعنی مغازی، تفسیر اور شورشوں کی کتابیں" قاضی ابوالولید باجی رحمہ اللہ تعالٰی اہل سیر کی روایت پر محدثین اعتماد نہیں کرتے"

غرض یہ کہ تاریخ کی کتابیں سب غیر معتبر ہیں۔ مورخین نے سلسلہ اسناد کا اہتمام نہیں کیا گیا اور اگر سند بنان بھی کی گئی تو اس کی جانچ پڑتال نہیں کی ۔

(وما علینا الاالبلاغ)
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
محترم بھائی۔ اگر مقالہ نگار کا نام بھی فراہم کر دیں تو بہت مناسب رہے گا۔

غرض یہ کہ تاریخ کی کتابیں سب غیر معتبر ہیں۔ مورخین نے سلسلہ اسناد کا اہتمام نہیں کیا گیا اور اگر سند بنان بھی کی گئی تو اس کی جانچ پڑتال نہیں کی ۔
بےشک تاریخ نگاری ، علم حدیث کی طرح کوئی مصدقہ و مستند علم نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا ذرا زیادتی ہے کہ تاریخ کی تمام ہی کتب "غیر معتبر" ہیں۔
بلکہ اس مسئلہ میں زیادہ بہتر توضیح شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے کی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب "خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت" میں لکھا ہے :
کتبِ تواریخ میں جو ہر طرح کا (صحیح / غلط) مواد ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جلیل القدر مورخین نے اپنی کتابوں میں جو تاریخی مواد جمع کیا ہے وہ سب محض جھوٹ کا پلندہ ہے جس کو بس اٹھا کر پھینک ہی دینا چاہئے۔ درحقیقت امام ابن کثیر ، ابن سعد ، طبری جیسے معتبر مورخین کی تعریف ہی کی جانی چاہئے کہ تاریخ نگاری میں انہوں نے یکسر غیرجانبدارانہ روش اختیار کی اور واقعات کو جوں کا توں جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے ۔۔۔۔

1۔ نہ تو راویوں کے اخلاقی و علمی مقام کو مشخّص کرنے کی کوشش کی ہے اور
2۔ نہ ہی صحت و ضعف کے لحاظ سے روایت کا درجہ متعین کیا ہے۔

یہ دونوں چیزیں انہوں نے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے چھوڑ دی ہیں۔
اس لیے اب ان مورخین حضرات پر ہمارا یہ بڑا ہی ظلم ہوگا اگر ہم ان کی بیان کردہ روایت کے حسن و قبح کو دیکھے بغیر ، اپنی بات کے استدلال کے طور پر محض ان مورخین کی کتب کا حوالہ دے کر بات کو ختم کر دیں۔
ہمارے لیے صحیح طرزِ عمل یہی ہے کہ :
ہم قرنِ اول کے مشاجرات (ہنگامے / سانحات / اختلافات) کی حقیقت اور اس کے پسِ منظر کو پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے راویوں کی ثقاہت و عدم ثقاہت اور ان کا علمی و اخلاقی مقام متعین کر کے روایات کی تنقیح کریں ، بالخصوص اُن روایات میں تو یہ اہتمام بہت ضروری ہے جن سے صحابہ کرام کا ایسا کردار ہمارے سامنے آتا ہے جو قرآن و حدیث کے بیان کردہ کردار سے صریحاً متصادم ہے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
[URDU]
بےشک تاریخ نگاری ، علم حدیث کی طرح کوئی مصدقہ و مستند علم نہیں ہے۔:
محترم باذوق بھائی ! اللہ آپکے ذوق سلیم کو اور زیادہ بڑھائے۔
میرے محترم!
آپ کا یہ جملہ سراسر غلط ہے !!!
کیونکہ علم تاریخ بھی علم حدیث کی طرح مصدقہ اور مستند ہے ۔
جس طرح کتب احادیث میں صحیح وضعیف ہمہ قسم روایات موجود ہیں بعینہ کتب تاریخ میں صحیح وضعیف ہمہ قسم روایات موجود ہیں۔
جس طرح احادیث کی صحت وسقم کو پرکھنے کے لیے اللہ نے حکم دیا اور ایک معیار مقرر فرمایا ہے اسی طرح تاریخ کی صحت وسقم کو پرکھنے کا بھی اللہ نے حکم دیا ہے اور اسکا معیار مقرر فرمایا ہے۔
جس طرح محدثین ناقدین نے کتب حدیث میں مذکور روایات کو پرکھا اور صحیح کو سقیم سے الگ کیا ہے اور کرر رہے ہیں , اسی طرح محدثین ناقدین نے تاریخ کی کتب میں مذکور میں روایات کو بھی پرکھا اور صحیح کو سقیم سے الگ کیا ہے اور کررہے ہیں ۔
ہاں البتہ آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حدیث کی نسبت تاریخ کے صحت وسقم کو پرکھنے کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوئی جو حدیث کو ہوئی ہے ۔[/URDU]
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

تاریخ پر میں نے ایک شیخ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تاریخ کے بغیر آپ حدیث مبارکہ کی وضاحت نہیں کر سکتے۔

رہی بات تاریخ کے غلط کی تو میری رائے کے مطابق اسے غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر پبلشر اصل متن سے اس میں جو امینڈمنٹس کرتا ھے اس میں اصل نسخہ بھی موجود ہوتا ھے مگر وہ اپنے علم سے اس کی مزید تشریح بھی ساتھ پیش کرتا ھے۔

کوئی بھی موضوع پر کوئی کتاب خریدنی ہو تو آپ جس شیخ سے اس کتاب کی خرید کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ آپ کو اسی رائٹر کی کتاب خریدنے کو کہے گا جو اس کا فقہ و مسلک ہو گا۔ اگر آپ اپنی مرضی سے کسی موضوع پر کتاب خرید کر کسی شیخ کو دکھائیں گے تو اگر وہ اس کے ذہن کے مطابق نہیں ہو گی فوراً آپ سے کہہ دے گا کہ کتاب درست نہیں اسے بدلوا کے فلاں والے رائٹر کی کتاب خریدو وہ بہت اچھی ھے۔

مثال کے طور پر فقہ/ مسلک اے، بی، سی ھے۔

فقہ/ مسلک فقہ"اے" نے اپنے فقہ/ مسلک فقہ کے مطابق ہر بات قرآن و حدیث سے بڑی خوبصورتی سے واضع کی ہوئی ھے۔
اسی طرح فقہ/ مسلک "بی" نے اپنے فقہ/ مسلک فقہ کے مطابق ہر بات قرآن و حدیث سے بڑی خوبصورتی سے واضع کی ہوئی ھے۔
اسی طرح فقہ/ مسلک "سی" نے اپنے فقہ/ مسلک فقہ کے مطابق ہر بات قرآن و حدیث سے بڑی خوبصورتی سے واضع کی ہوئی ھے۔

بگاڑ کہاں پیدا ہوتا ھے جب ایک دوسرے کے خلاف پراپگنڈا شروع ہوتا ھے جیسے

عقیدہ مسلک/ فقہ "اے"، کا شیخ و رائیٹر اسی موضوع پر مسلک/ فقہ "بی" کے نام سے کتاب چھپواتا ھے اور تمام نقص اس میں بتاتا ھے. یہ دیکھو ایسے نہیں ایسے فلاں سال میں فلاں نے اس پر ایسا لکھا وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح عقیدہ مسلک/ فقہ "بی"، کا شیخ و رائیٹر اسی موضوع پر مسلک/ فقہ "سی" کے نام سے کتاب چھپواتا ھے اور تمام نقص اس میں بتاتا ھے. یہ دیکھو ایسے نہیں ایسے فلاں سال میں فلاں نے اس پر ایسا لکھا وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح عقیدہ مسلک/ فقہ "اے"، کا شیخ و رائیٹر اسی موضوع پر مسلک/ فقہ "بی" کے نام سے کتاب چھپواتا ھے اور تمام نقص اس میں بتاتا ھے. یہ دیکھو ایسے نہیں ایسے فلاں سال میں فلاں نے اس پر ایسا لکھا وغیرہ وغیرہ۔

جب سے ٢٠٠ سے ٥٠٠ صفحات پر کتابیں ہر کسی نے چھپوانی شروع کی ہیں تب سے معملات زیادہ ہی بگڑنے شروع ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس پر حکومت کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں کہ کسی اسلامی کتابوں پر اجازت لی جائے۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے جو چاہے چھپوا کر آگے قیمت پر یا مفت میں بانٹی جا رہی ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

ایک زمانہ ہوا میں لاہور اردو بازار سے کتابوں کی کلکشن کر رہا تھا، جس پر کسی علامہ سے رائے نہیں لی تھی، ایک کتاب جس اسلامی بک سینٹر سے خریدی اسی نام سے باہر کا ٹائٹل الگ تھا اور پہلے صفحہ پر پبلشرز بھی الگ تھا، یعنی ایک نام پر ٹائٹل اور پبلشرز الگ الگ تھے اور دوسری کتاب میں اب یاد نہیں اندازاً ٥٠ کے قریب صفحات بھی زیادہ تھے۔

کیپر سے پوچھا مولانا صاحب یہ کتاب میں نے پیچھے سے بھی خریدی ھے اس میں ٥٠ صفحات کم ہیں آپ میں زیادہ ہیں کیا کتاب بیچنے کے لئے اس میں اضافہ کیا گیا ھے۔ تو مولانہ صاحب نے جواب دیا، نہیں یہ کتاب جس کی لکھی ہوئی ھے وہ انتقال فرما چکا ھے اور اس کا اصل نسخہ ہمارے پاس تھا اس لئے ہم نے اسے پورا چھاپا ھے، پیچھے والے پبلشرز کے پاس نسخہ پورا نہیں تھا اس لئے اسے جتنا ملا اس نے چھپوا دیا، ہماری کتاب اصل ھے۔ میں نے وہ کتاب بھی خرید لی۔ اس کے بعد پیچھے والے کے پاس گیا تو اس اسے دونوں کتابیں دکھائیں تو اس نے کہا کہ ہمارا نسخہ اصل تھا دوسرے والے نے ہماری کتاب سے بڑھا کے اپنی طرف سے اضافہ کیا ھے، خیر کتاب تو واپس نہیں اس نے کرنی تھی اور نہ کی جس پر میں نے دونوں ہی خرید کر بغیر مطالعہ کے کسی اپنے قریبی مسجد میں دے دی تھی۔ تب سے اب تک کتابوں کو مطالعہ تک ہی محدود رکھا ھے اور نہ ہی اس پر ضرورت محسوس کی ھے کہ بحث کی جائے۔ ہر روز مختلف فارمز میں ایسی کتابوں کے حوالہ دے کر ہر کوئی اپنی بات سچ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوتا ھے ہر کوئی اپنی اچھائیاں اور دوسرں کی برائیاں تلاش کرنے میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں کنورسیشن میں اپنی رائے دینی چاہئے۔ اچھی لگے تو جزاک اللہ خیر بری لگے تو معذرت، لڑائی جھگڑا کا کوئی امکان نہیں۔

والسلام
 
Top