بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
اسلام کے خلاف بہت سی سازشیں برپاہوئیں ۔ متعدد قسم کے زہر پھیلائے گئے دشمنان اسلام نے مختلف لبادے اوڑھے اسلام سے باہر رہ کر بھی اسلام کی بیخ کنی کی اور بظاہر اسلام میں داخل پو کر منافق کی حیثیت سے بھی سازشیں کرتے رہے مخجملہ ان سازشوں کے ایک سازش یہ بھی کی کہ اسلام کی تاریخ کو مسخ کر دیا وہ معاشرہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے فیض صحبت سے تیار کیا تھا جس معاشرہ کی ترتیت اللہ تعالٰی کی نگرانی میں ہوئی تھی جس معاشرہ کے افراد کے متعلق ایسی زہری افشانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ قرن ثانی اور قرن ثالث کے اکابر کے اوپر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے خود ساختہ واقعات کو رنگ آمیزی اور نمک مرچ لگا کر اس طرح پیش کیا کہ پڑھنے والے اپنے اکابر کے متعلق بدظنی کا شکار ہو گئے اور پھر ان تمام زہر افشانیوں افترا پر درازیوں کو تاریخ میں اس طرح سمودیا کہ جھوٹ سچ میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
موجودہ زمانے میں اسلام سے بیزار کرنے کے لئے یہ چال چلی گئی کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں ان فرضی واقعات کو تاریخی حقائق کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اور یہ سازش اتنی کارگر ہوئی کی اکثر لوگوں کے ذہن مسموم ہوگئے اور وہ بےبس یہی سمھجنے لگے کہ تاریخ کا تمام مواد بالکل حقیقت ہے اور اس میں سے کسی ایک واقعہ کے بھی انکار کی گنجائش نہیں الغرض تاریخ پرستی عام ہوگئٰ۔ اس سازش کی زد میں بڑے بڑے لوگ آگئے اور اپنے اکابر کے خلاف مختلف قسم کی زہر افشانی کرنے لگے
اس تاریخ پرستی یا سازش نے جو فتنے پیدا کئے وہ یہ ہیں۔
۱)انکار حدیث کیلئے فضا سازگار ہوگئٰ اگر کوئٰ حدیث کسی تاریخ واقعہ سے ٹکرائی تو بجائے تاریخی واقعہ کع جھٹلانے کے حدیث کو یہ کہی کر جھٹلایا گیا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے حالانکہ کہاں تاریخ اور کہاں حدیث چہ نسبت خاک را باعالم پاک حدیث کی جانچ کے لئے بیسیوں فن استعمال کئے گئے راویان حدیث کی جانچ پڑتال کی گئی ان کی ثقاہت کردار حفظ و اتقا ن کو پر کھا گیا سند کو دیکھا گیا کہ متصل ہے یا منقطع غرض یہ کہ انتہائی ھزم و احتیاط کے ساتھ حدیث کو مدون کیا گیا صحیح اور غلط میں خچ امتیاز کھینچا گیا اس کے خلاف تاریخ اسلام کے ابتدائی موتفین میں سے اکثر غیر مستند جھوٹ بلکہ دشمن اسلام تھے بعد میں آنے والے متدین مورخین کے لئے ان ابتدائ مولفین کی کتابیں ماخز بن گئیں۔ دوسرے دور کی ان کتب میں تاریخ بغیر تحقیق و تنقید ہر قسم کے زطب و یا بس کو بھر دیا گیا واقعات کی سندیں بیان نہیں کی گئیں اگر بیان بھی کی گئیں تو ان کی صحت یا ضعف کو بیان نہیں کیا گیا یوں کہنا چاہئے کہ ان مورخین نے جو واقعات محققین کے لئے جمع کئے تھے وہ بغیر تحقیق کے مستند سمجھے جانے لگےہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تاریخ اور حدیث کے تضاد کی صورت میں تاریخ کی تکزیب کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث پر سے اعتماداٹھ گیا اور اس طرح اسلام کو مسخ کرنے کیلئے راہ ہموار ہوگئ۔
۲)جب حدیث پر سے اعتماد اٹھ گیا تو قرآن کی من مانی تاویل ہونے لگی۔ قرآن مجید بازیچہ اطفال بن گیا اور ایک جدید اسلام کی داغ بیل ڈال دی گئی۔
۳)خلافت راشدہ کو دشمنان اسلام کی نام نہاد ملوکیت میں تبدیل کرنے کاذمہ دار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور دوسرے اکابرکو ٹھہرادیا گیا۔اسی کے ساتھ ساتھ ملوکیت کو غیر شرعی نظام حکومت ظاہر کرکے انتہائی کراہت آمیز شکل میں پیش کیا گیا، جس کے نتیجہ میںصحابہ اور دوسرے اکابر کومحض دنیا دار مکاراور خوشامدی کی حثیت سے پیش کیا گیا۔کوئی صحابی کسی صحابی کے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے کوئی کسی کے خلاف نبردآزما ہے۔آپس میں تلواریں چل رہی ہیں، دنیا کی دوڑ میں کوئ پیچھے رہنا نہیں چاہتا، مال و دولت اور اقتدار کی ہوس نے سب کو اندھا کردیا ہے، غرض یہ کے جس معاشرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا وہ اسلام سے کوسوں دور تھا، وہ افراد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ فیض یافتہ تھےوہی صحیح معنوں میں مسلمان نہ تھے بعد والوں کاکیا کہنا، نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذباللہ من ذلک)اپنے مقصد میں ناکام ریے اور اپنے بعد منافق اور دنیا کے پیچھے بھاگنے والے چھوڑ گئے اس فتنہ نے نبوت کی عمارت کو متزلزل کردیا اور اسلام کے متعلق بد گمانی پیدا ہونے لگی۔
۴) یہ ہیں وہ فتنے جو ہماری غلط تاریخ کی وجہ سے وجود میں آئے اور جنہوں نے ہزارہا آدمیوں کے ایمان کو متزلزل کیا موجودہ تاریخ کو پڑھ کر یماری گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں کیونکہ اس خونی تاریخ کو ہم اپنی تاریخ سمھجتے ہیں ہمیں اتنی جرات نہیں ہوتی کے یم اس تاریخ کی صحت کا انکار کر دیں ذہن مسموم ہو چکے ہیں دماغ مرعوب ہو چکے ہیں علم سے تہی دامن ہیں تقلید کے جراثیم اس قدر
سرایت کر گئے ہیں کہ تحقیق کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی حالانکہ اللہ کا فرمان ہے:
اے ایمان والوں اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ
"جہالت کے باعث تم کسی قوم پر جاپڑو اور تمہیں نادم ہونا پڑے (حجرات :۶)
اس عظیم الشان فرمان کے باوجود ہم نے نے کبھی یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ کسی واقعہ کا بیان کرنے والا صحیح الایمان ہے یا فاسق۔ بغیر تحقیق کے ہم نے ہر واقعہ کو قبول کیا نتجہ یہ نکلا کہ جہالت کے باعث ہم اپنے اکابر پر برس پڑے اسلامی اصولوں کی پامالی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور کبھی ہمیں یہ خیال بھی نہ آیا کہ کہیں کل میدان محشر میں ہمیں شرمسار نہ ہونا پڑے۔
۵)دوسرے دور کی کتب تاریخ کی بنیاد پر دوسری کتب تاریخ وجود میں آئیں۔ مختلف زبانوں میں تاریخ اسلام لکھی گئ علماء نے اپنی تقاریر وں اور تحریروں میں انہی کتب افسانوں کو مستند سمجھ کر پیش کیا معدود ے چند محققین کے علاوہ کسی نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ تاریخی واقعات قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے مطابق بھی ہیں یا نہیں حالانکہ اگر وہ ذرا سا بھی غور و تربر کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ جن واقعات کووہ مستند سمجھ رہےہیں ان کے بطلان پر قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ شاہد ہیں ان کی آپس کی محبت کی شہادت قرآن مجید دے رہا ہے ان کے متعلق تاریخ میں ایسے افسانے ملتے ہیں جن سے ان کے تقوے پر ضرب کاری پڑتی ہے خلوص اور للہیت کی دھجیاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں محبت کے بجائے ایمان و عداوت کی تیزوتند آندھیان چلتی نطر آتی ہیں مگر وہ ہیں کہ سب کو تسلیم کرتے چلے جارہے ہیں اور بایں ہمہ ان کا ایمان باالقرآن متاثر نہیں ہوتا۔ ایںچہ بوالعجبیست۔
۶) قرآن کے بعد صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا جو درجہ ہے وہ کسی پر مخفی نہیں جس تحقیق و تفتیش اور سخت شرائط کے ساتھ ان کتابوں کو مدون کیا گیا وہ اپنی نظیر آپ ہیں لیکن افسوس ہے کہ تاریخ کے سلسلہ میں اکثر لوگوں نے ان کتابوں سے بے اعتنائی کا ثبوت دیا تاریخ کے ان واقعات کو بھی تسلیم کرلیا جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے متصادم تھے ذیل میں ہم چند مثالوں سے اس کی وضاحت کرتے پیں۔
۱) صحیح بخاری میں ہےکہ واقعہ رجیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر بنایا،تاریخ میں ہے کہ حضرت مرثد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امیر بنایا۔
(سیرہ ابن اسحق،سیرۃ ابن ہشام تاریخ ابن خلدون)
۲)صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عقبہ نے قتل کیا، تاریخ میں ہے کہ عقبہ کے بھائی نے قتل کیا (سیرۃ ابن اسحق)
۳)صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ جنگ موتہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، تاریخ میں ہے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑی خوبصورتی سے اپنی فوج کو بچا کر لے آئےیعنی دوسرے لفظوں میں شکست کھاکر بھاگ گئے خالد دشمنی کی یہ ادنٰی مثال ہے جو ہماری تاریخ میں مزکورہے(تاریخ ابن خلدون)
۴)صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح فتح مکہ کے بعد ہوا لیکن تاریخ میں ہے کہ فتح مکہ سے پہلے ہوا (سیرۃ ابن اسحاق)
۵)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں ایک نامہ مبارک نجاشی شاہ حبش کو بھیجا تھا صحیح مسلم میں ہے کہ اس بادشاہ کا نام اصحمہ نہیں تھاجس کی نماز غائبانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی۔ اس کے خلاف تاریخ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصمحہ ہی کو دعوت نامہ بھیجا تھا (طبری)
یہ مختصر تضاد ہم نے بیان کئے۔ مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہو گیا کہ تاریخ روایات متعدد مقامات پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیت سے ٹکراتی ہیں اور یہ چیز اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ تاریخ کی اکثر روایات نا قابل اعتبار ہیں اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایاہے کہ "تین قسم کی کتابیں یکسر بے بنیاد ہیں۔ یعنی مغازی، تفسیر اور شورشوں کی کتابیں" قاضی ابوالولید باجی رحمہ اللہ تعالٰی اہل سیر کی روایت پر محدثین اعتماد نہیں کرتے"
غرض یہ کہ تاریخ کی کتابیں سب غیر معتبر ہیں۔ مورخین نے سلسلہ اسناد کا اہتمام نہیں کیا گیا اور اگر سند بنان بھی کی گئی تو اس کی جانچ پڑتال نہیں کی ۔
(وما علینا الاالبلاغ)