اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
بات تو آپ حضرات کی بالکل ٹھیک ہے لیکن اس کا حل کیا ہو؟
ہمارے بر صغیر باک و ہند میں چند چیزیں عرب سے مختلف ہیں:
ہمارے عوام جب زیادہ پڑھ لیتے ہیں تو اپنے آپ کو خود ہی عالم سمجھ لیتے ہیں اور مستند ہو جاتا ہے ان کا فرمایا ہوا۔ بس پھر کسی سے پوچھنے سمجھنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔
ہمارے یہاں جہالت اور نا سمجھی زیادہ ہے۔ کوئی بھی پیر فقیر عوام کو بآسانی اپنے جال میں لے سکتا ہے۔ پھر وہی چیز محقق اور معتمد ہوتی ہے جو پیر صاحب نے معتمد فرمائی ہو۔
چونکہ برسوں سے اہل تشیع کے ساتھ ملاپ رہا ہے تو شیعیت ہماری رگوں میں بسی ہوئی ہے۔ کوئی عامی کتنا ہی سنی کیوں نہ ہو، جب کوئی تاریخی قصہ سنتا ہے تو اس کا وہ انہماک ہوتا ہے جو قرآن و حدیث کے الفاظ سنتے ہوئے کبھی نہیں ہوتا۔ عوام قرآن و حدیث کے معانی کی وضاحت تاریخ سے ڈھونڈتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر صحیح و غلط کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کرنا کیا چاہیے؟ اس کا جواب اتنا تو آسان ہے کہ تاریخ کی کتب پر کام کرنا چاہیے۔ لیکن کیا کام؟؟؟
تاریخ کی کتب کو علم الاسناد کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔ ایک تو اس کی اسناد محفوظ نہیں ہیں۔ سند محفوظ کرنے کا کام حدیث پر ہوا ہے تاریخ پر نہیں، تاریخ کے روات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس طرح ہم کئی تاریخی روایات کو یکسر رد کر دیں گے حالانکہ وہ صحیح ہوں گی۔
دوسرا تاریخ میں غلط روایات صحیح سند سے بکثرت ملتی ہیں کیوں کہ تاریخ کے راویوں نے وہ احتیاط نہیں کی جو حدیث بیان کرتے وقت انہوں نے کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن عباس رض سے متعہ کی روایت کو لے لیں۔
تیسرا اکثر ایک شخص حدیث میں کمزور لیکن تاریخ کا ماہر ہوتا ہے۔ اور کتب جرح و تعدیل میں حکم حدیث کے تناظر میں ہوتا ہے (سوائے کذاب جیسی جروح کے)۔
لہذا تاریخ کو ہم اسناد سے زیادہ درایۃ دیکھ سکتے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ ہر بات کے کئی پہلو دیکھنا اور ہر پہلو کی صحت و ضعف معلوم کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہوتا۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم یہ تحقیق و تعلیق سے مزین کتاب شائع کریں گے تو یقیناً اس کی قیمت و ضخامت بڑھ جائیں گی۔ کتابوں کے شوقین تو اسے لیں گے، کچھ لوگ لائیبریریوں سے بھی استفادہ کریں گے، لیکن جن تک ہم نے یہ کتابیں پہنچانی ہیں وہ نہیں لے سکیں گے۔ وہ وہی کتب لیں گے جو انہیں سستی ملیں گی چاہے تحقیق موجود نہ ہو۔
لہذا اس مسئلہ کا جو حل سوچا جائے وہ ان تمام پہلؤوں کو دیکھ کر سوچا جانا چاہیے تاکہ ہم جو کام کریں اس کا حاصل بھی کچھ ہو۔
ہمارے بر صغیر باک و ہند میں چند چیزیں عرب سے مختلف ہیں:
ہمارے عوام جب زیادہ پڑھ لیتے ہیں تو اپنے آپ کو خود ہی عالم سمجھ لیتے ہیں اور مستند ہو جاتا ہے ان کا فرمایا ہوا۔ بس پھر کسی سے پوچھنے سمجھنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔
ہمارے یہاں جہالت اور نا سمجھی زیادہ ہے۔ کوئی بھی پیر فقیر عوام کو بآسانی اپنے جال میں لے سکتا ہے۔ پھر وہی چیز محقق اور معتمد ہوتی ہے جو پیر صاحب نے معتمد فرمائی ہو۔
چونکہ برسوں سے اہل تشیع کے ساتھ ملاپ رہا ہے تو شیعیت ہماری رگوں میں بسی ہوئی ہے۔ کوئی عامی کتنا ہی سنی کیوں نہ ہو، جب کوئی تاریخی قصہ سنتا ہے تو اس کا وہ انہماک ہوتا ہے جو قرآن و حدیث کے الفاظ سنتے ہوئے کبھی نہیں ہوتا۔ عوام قرآن و حدیث کے معانی کی وضاحت تاریخ سے ڈھونڈتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر صحیح و غلط کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کرنا کیا چاہیے؟ اس کا جواب اتنا تو آسان ہے کہ تاریخ کی کتب پر کام کرنا چاہیے۔ لیکن کیا کام؟؟؟
تاریخ کی کتب کو علم الاسناد کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔ ایک تو اس کی اسناد محفوظ نہیں ہیں۔ سند محفوظ کرنے کا کام حدیث پر ہوا ہے تاریخ پر نہیں، تاریخ کے روات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس طرح ہم کئی تاریخی روایات کو یکسر رد کر دیں گے حالانکہ وہ صحیح ہوں گی۔
دوسرا تاریخ میں غلط روایات صحیح سند سے بکثرت ملتی ہیں کیوں کہ تاریخ کے راویوں نے وہ احتیاط نہیں کی جو حدیث بیان کرتے وقت انہوں نے کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن عباس رض سے متعہ کی روایت کو لے لیں۔
تیسرا اکثر ایک شخص حدیث میں کمزور لیکن تاریخ کا ماہر ہوتا ہے۔ اور کتب جرح و تعدیل میں حکم حدیث کے تناظر میں ہوتا ہے (سوائے کذاب جیسی جروح کے)۔
لہذا تاریخ کو ہم اسناد سے زیادہ درایۃ دیکھ سکتے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ ہر بات کے کئی پہلو دیکھنا اور ہر پہلو کی صحت و ضعف معلوم کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہوتا۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم یہ تحقیق و تعلیق سے مزین کتاب شائع کریں گے تو یقیناً اس کی قیمت و ضخامت بڑھ جائیں گی۔ کتابوں کے شوقین تو اسے لیں گے، کچھ لوگ لائیبریریوں سے بھی استفادہ کریں گے، لیکن جن تک ہم نے یہ کتابیں پہنچانی ہیں وہ نہیں لے سکیں گے۔ وہ وہی کتب لیں گے جو انہیں سستی ملیں گی چاہے تحقیق موجود نہ ہو۔
لہذا اس مسئلہ کا جو حل سوچا جائے وہ ان تمام پہلؤوں کو دیکھ کر سوچا جانا چاہیے تاکہ ہم جو کام کریں اس کا حاصل بھی کچھ ہو۔