• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تالی بجانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تالی بجانے کا کیا حکم ہے کیا یہ حرام ہے یا جائز ؟ اس بارے میں صرف علما ہی اپنی رائے پیش کریں ۔ جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محفلوں میں تالی بجانا اعمال جاہلیت میں سے ہے ۔اس کے بارے میں کم سے کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مکروہ ہے ورنہ دلیل کے ظاہر سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مسلمان کو کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور کفار مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَما كانَ صَلاتُهُم عِندَ البَيتِ إِلّا مُكاءً وَتَصدِيَةً ۚ...﴿٣٥﴾... سورةالانفال
"اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔"
علماء فرماتے ہیں کہ (مكاء) کے معنی سیٹی بجانا اور (تصدية) کے معنی تالی بجانا ہے ۔ مرد مومن کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ جب کوئی ناپسند یدہ یا ناپسندیدہ بات دیکھے یا سنے تو سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہے جیسا کہ نبی ﷺ سے مروی بہت سی احادیث سے ثابت ہے ۔ تالی بجانے کا حکم تو بطور خاص عورتوں کے لیے ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ مرد وں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کررہی ہوں اور امام سے نماز میں کوئی سہو ہوجائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے و ہ تالی بجاسکتی ہیں جیسا کہ مرد ایسی صورت میں سبحان اللہ کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں جیسا کہ صحیح سنت سے ثابت ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے تالی بجانے میں کافروں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت ممنوع ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج4ص356
محدث فتویٰ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محفلوں میں تالی بجانا اعمال جاہلیت میں سے ہے ۔اس کے بارے میں کم سے کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مکروہ ہے ورنہ دلیل کے ظاہر سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مسلمان کو کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور کفار مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَما كانَ صَلاتُهُم عِندَ البَيتِ إِلّا مُكاءً وَتَصدِيَةً ۚ...﴿٣٥﴾... سورةالانفال
"اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔"
علماء فرماتے ہیں کہ (مكاء) کے معنی سیٹی بجانا اور (تصدية) کے معنی تالی بجانا ہے ۔ مرد مومن کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ جب کوئی ناپسند یدہ یا ناپسندیدہ بات دیکھے یا سنے تو سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہے جیسا کہ نبی ﷺ سے مروی بہت سی احادیث سے ثابت ہے ۔ تالی بجانے کا حکم تو بطور خاص عورتوں کے لیے ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ مرد وں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کررہی ہوں اور امام سے نماز میں کوئی سہو ہوجائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے و ہ تالی بجاسکتی ہیں جیسا کہ مرد ایسی صورت میں سبحان اللہ کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں جیسا کہ صحیح سنت سے ثابت ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے تالی بجانے میں کافروں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت ممنوع ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج4ص356
محدث فتویٰ
محترم جناب خضر حیات صاحب!
یہ تو ایک عالم کی رائے ہے،دوسرے علما کی آرا کو بھی مد نظر رکھیں ۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ اس جاہلیت والے کام کی اجازت دوران نماز کیوں ہے؟اس بارے میں بعض علما نے جواز کا فتوی بھی دیا ہے،اس کو بھی سامنے رکھیں اور پھر نتیجہ اخذ کریں:
واستدل أصحاب هذا القول بعدم ورود نص يدل على التحريم أو الكراهة ، قالوا : والأصل في العادات الإباحة . أما الآية السابقة فهي تنعى على كفار قريش تعبدهم لله تعالى بهذه الأعمال الهوجاء : التصفيق والتصفير ، فقد كانوا يتخذون ذلك عبادة وشعيرة يتقربون إلى الله بها ، وهذا أمر زائد على التصفير المجرد من نية العبادة .
يقول شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
" كان المشركون يجتمعون في المسجد الحرام يصفقون ويصوتون ، يتخذون ذلك عبادة وصلاة ، فذمهم الله على ذلك ، وجعل ذلك من الباطل الذي نهى عنه " انتهى.
"مجموع الفتاوى" (3/427)
يقول أبو بكر الجصاص رحمه الله :
" سمي ( المكاء ) و ( التصدية ) صلاة ؛ لأنهم كانوا يقيمون الصفير والتصفيق مقام الدعاء والتسبيح . وقيل : إنهم كانوا يفعلون ذلك في صلاتهم " انتهى.
"أحكام القرآن" (3/76)
فإذا لم يفعل ذلك على وجه العبادة لم يبق وجه للمنع أو التحريم ، خاصة إذا قامت الحاجة لإصدار صوت الصفير ، وهي حاجات كثيرة اليوم ، فقد أصبحت الصافرة تستعمل اليوم لدى شرطة المرور ، كما أصبحت أصوات كثير من الأدوات الكهربائية تتضمن هذا الصوت ، والأم قد تصدر هذا الصوت لإسكات طفلها والغناء له ، كما قد يضطر إليه بعض الناس لمناداة البعيد ، ونحو ذلك .
ولكن إذا اتخذ التصفير لإيذاء الناس وإزعاجهم ، أو للتحرش بالفتيات ، أو قصد به التشبه بالكفار والفساق وعادتهم : فيحرم حينئذ باتفاق .

سئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله السؤال الآتي :
" ما حكم التصفيق والتصفير ، وأي نوع من التصفير محرم ، وما دليل التحريم ؟
فأجاب رحمه الله :
الآن لو أنك قمت تصفق وتصفر ماذا سنقول : هذا مجنون أم عاقل ؟!!
فما هو سبب التصفيق والتصفير ؟
أما إذا كان التصفيق للإنسان الذي تميز عن غيره في النجاح ، أو أجاب جواباً صواباً ، أو ما أشبه ذلك ، فأنا لا أرى فيه بأساً .
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک اور عرب عالم احمد نجیب کی اس معاملے میں یہ رائے ہے:
بل الظاهر أن الترخيص في التصفيق للنساء مقتصر على كونهن في الصلاة إذا نابهن فيها شيء ، أما خارج الصلاة فهن و الرجال في الحكم سواء ، و النهي عن التصفيق خارجها يحتاج إلى دليل خاص ، و الله أعلم
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے تالی بجانے میں کافروں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت ممنوع ہے
شیخ امین اللہ صاحب نے تحقیق کرکے احادیث کے خلاصہ کلام یہ جمع کیا ۔ کہ عندالضرورت اس میں گنجائش ہے مثلاً کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا وغیرہ ۔
رہی بات آیت میں جو مشرک لوگ کرتے تھے ۔ ان کا مقصد مسلمانوں کی عبادت میں خلل ڈالنا تھا ۔
اگر کوئی بلا ضرورت تالی بجائے تو صحیح نہیں ہے ۔ اور اگر کسی مسلمان کی عبادت میں خلل ڈالنے کی غرض سے بجائے ، پھر تو بدرجہ اولیٰ منع ہے ۔
واللہ اعلم
 
Top