13-باب
۱۳-باب
2946- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ: اخْتِمْهُ فِي شَهْرٍ قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي عِشْرِينَ" قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ" قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي عَشْرٍ" قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي خَمْسٍ" قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَمَا رَخَّصَ لِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۵۶) (ضعیف الإسناد)
(سند میں ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، نیز حدیث میں یہ ہے کہ
اختمه في خمس یعنی پانچ دن میں قرآن ختم کرو ،عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں پھرکہاکہ رسول اللہﷺ نے اس سے کم دن میں قرآن ختم کرنے کی مجھے اجازت نہیں دی، امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ غرابت بسند ابوبردۃ عن عبداللہ بن عمرو ہے، واضح رہے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُن سے کہا کہ
اقرأ القرآن في كل شهر قال: إني أطيق أكثر فما زال حتى قال: "في ثلاث" تم ہر مہینے میں قرآن ختم کرو، توانہوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اور برابر یہ کہتے رہے کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو رسول اللہﷺ نے کہا : ''تین دن میں قرآن ختم کرو''(خ/الصیام ۵۴ (۱۹۷۸)،اورصحیح بخاری (فضائل القرآن ۳۴ ۵۰۵۴)، اور صحیح مسلم (صیام ۳۵ /۱۸۲) وأبوداود/الصلاۃ ۳۲۵ (۱۳۸۸)میں ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے
: فاقرأه في كل سبع ولا تزد على ذلك یعنی ہر سات دن پر قرآن ختم کرو، اور ا س سے زیادہ نہ کرو، تو اس سے پتہ چلا کہ
فما رخص لي مجھے پانچ دن سے کم کی اجازت نہیں دی کا جملہ شاذ ہے، اور تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت محفوظ اور ثابت ہے،اور ایسے ہی دوسری روایت میں سات دن ختم کرنے کی اجازت ہے) اورسبب ضعف ابواسحاق السبیعی ہیں)۔
٭وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
٭وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثٍ".
٭وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: " اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ".
و قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: وَلاَ نُحِبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْتِيَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَلَمْ يَقْرَأْ الْقُرْآنَ لِهَذَا الْحَدِيثِ.
و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثٍ لِلْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
٭ وَرُوِي عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ يُوتِرُ بِهَا.
٭وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ فِي الْكَعْبَةِ، وَالتَّرْتِيلُ فِي الْقِرَائَةِ أَحَبُّ إِلَى أَهْلِ الْعِلْمِ.
۲۹۴۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا:'' مہینے میں ایک بارختم کرو''، میں نے کہا میں اس سے بڑھ کر (یعنی کم مدت میں) ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:'' توبیس دن میں ختم کرو''۔ میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی یعنی اور بھی کم مدت میں ختم کرنے کی طاقت رکھتاہوں۔ آپ نے فرمایا:'' پندرہ دن میں ختم کرلیاکرو''۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں۔ آپ نے کہا:دس دن میں ختم کرلیاکرو''۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں، آپ نے فرمایا:'' پانچ دن میں ختم کرلیاکرو۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں۔ تو آپ نے مجھے پانچ دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- یہ حدیث بطریق: ابی بردۃ، عن عبداللہ بن عمرو'' غریب سمجھی گئی ہے،۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے قرآن تین دن سے کم مدت میں پڑھا، اس نے قرآن کونہیں سمجھا ''، ۴- عبداللہ بن عمرو سے (یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا:'' قرآن چالیس دن میں پڑھ ڈالاکرو''، ۵- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : ہم اس حدیث کی بناپر کسی آدمی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ اس پر چالیس دن سے زیادہ گزرجائیں اور وہ قرآن پاک ختم نہ کرچکاہو،۶- اس حدیث کی بناپر جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن پڑھ کر نہ ختم کیاجائے،۷- اور بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے،۸- اور عثمان بن عفان سے متعلق ہے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے،۹- سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے اندر ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا،۱۰- قرأت میں ترتیل (ٹھہرٹھہرکر پڑھنا) اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک دن یا تین دن میں ختم کرنے سے ٹھہرٹھہرکرپڑھنااورتلاوت کرنازیادہ پسندیدہ ہے۔
2947- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ -هُوَ ابْنُ شَقِيقٍ-، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: "اقْرَأِ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۲۶ (۱۳۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۴۴) (صحیح)
۲۹۴۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا:'' چالیس دن میں قرآن پورا پڑھ لیاکرو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- بعضوں نے معمر سے ،اورمعمر نے سماک بن فضل کے واسطہ سے وہب بن منہہ سے روایت کی ہے ،کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ قرآن چالیس دن میں پڑھاکریں۔
2948- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: "الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ" قَالَ: وَمَا الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ؟ قَالَ: "الَّذِي يَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ إِلَى آخِرِهِ كُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۹) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں صالح المری ضعیف راوی ہیں)
2948/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ الرَّبِيعِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۵۳) (ضعیف)
(سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے ، اس لیے کہ زرارہ تابعی ہیں، اور انہوں نے روایت میں واسطہ نہیں ذکر کیا ہے)
۲۹۴۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا:'' حال اور مرتحل''( اترنے اور کوچ کرنے والا)عمل۔ اس نے کہا: حال اور مرتحل (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جو قرآن شروع سے لے کر آخرتک پڑھتاہے، جب بھی وہ اترتاہے کوچ کردیتاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف ابن عباس کی اس روایت سے جانتے ہیں جو اس سند سے آئی ہے او ر اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔
۲۹۴۸/أ- مجھ سے بیان کیا محمد بن بشار نے ،وہ کہتے ہیں: بیان کیامجھ سے مسلم بن ابراہیم نے ،وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے صالح مری نے قتادہ کے واسطہ سے اورقتادہ نے زرارہ بن اوفیٰ کے واسطہ سے نبی ﷺ اسی جیسی اسی معنی کی حدیث روایت کی ، لیکن اس میں ابن عباس سے روایت کاذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت میرے نزدیک نضر بن علی کی اس راویت سے جسے وہ ہیثم بن ربیع سے روایت کرتے ہیں (یعنی: پہلی سندسے) زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے جو قاری مسافرکے مثل اپنی منزل تک پہنچ کرپھرنئے سرے سے سفرکا آغازکردیتاہے۔یعنی ایک بارقرآن ختم کر ے دوبارہ شروع کردیتاہے اس کا عمل اللہ کو زیادہ پسندہے۔
2949- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۲۶ (۱۳۹۴)، ق/الإقامۃ ۱۷۸ (۱۳۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۵۰)، وحم (۲/۱۴۶، ۱۸۹) (صحیح)
2949(م)- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۹۴۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرڈالا ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۹۴۹/أ- بیان کیامجھ سے محمد بن بشار نے ، وہ کہتے ہیں :بیان کیا مجھ سے محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔
* * *