مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
تبلیغی جماعت اور مساجد
مقبول احمد سلفی
مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں جن میں خالص اس خالق ومالک کی عبادت کی جاتی ہے جس نے ہمیں محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے تین مقامات پر (سورہ بقرۃ : 114، سورہ توبہ :17اورسورہ توبہ :18)مساجد اللہ اور ایک جگہ (سورہ جن :18)المساجد للہ یعنی مساجد اللہ کے لئے ہیں ذکر کیا ہے ۔ روئے زمین پر یہ واحد اللہ کا گھر ہے جو آسمان والوں کو ستاروں کی طرح چمکتا نظر آتا ہے۔ طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک روایت نقل کی ہے ۔
عن ابنِ عبَّاسٍ قالَ المساجدُ بيوتُ اللَّهِ في الأرضِ تضيءُ لأهلِ السَّماءِ كما تضيءُ نجومُ السَّماءِ لأهلِ الأرضِ(رواه الطبراني)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں جو آسمان والوں (فرشتوں) کو اس طرح چمکتی نظر آتی ہیں جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں ۔
٭ ہیثمی نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے ۔ ( مجمع الزوائد : 10/2)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کو پورے روئے زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ یہی اپنےگھر مساجد ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أحبُّ البلادِ إلى اللهِ مساجدُها . وأبغضُ البلادِ إلى اللهِ أسواقُها(صحيح مسلم:671)
ترجمہ: اللہ تعالی کو شہروں میں سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں اور شہروں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں ۔
مساجد اللہ کے گھر ہونے کی وجہ سے ان کا حترا م وتقدس بھی بہت ہے ۔ مساجد میں دنیاوی باتیں کرنا، شوروغل مچانا، گم شدہ چیز کا اعلان کرنا، خریدوفروخت کرنا، بلاضروت فضول آوازبلند کرنا، بلامقصد شعرگوئی کرنا، مسجد میں دوڑ کر آنا، اسے گزرگاہ بناناحتی کہ لہسن پیاز کی بو لیکر آنا بھی منع ہے ، کسی نمازی کو ادنی سے تکلیف پہنچانا بھی منع کیا گیا ہے ۔ نیز اللہ کا گھر تعمیر کرنا بڑے اجر کا کام ہے ، اس پہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو ابھارا ہے اور مسجد کی تعمیر کرنے والوں کے لئے جنت میں ایک محل کی بشارت سنائی ہے ۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں اور اب مزید دو باتوں کی جانکاری حاصل کریں کہ جو مساجد اللہ کے گھر ہیں اور روئے زمین پر اللہ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں ان کو آباد کرنے والے ، ان کی تعمیر کرنے والے کون لوگ ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے محبوب گھر کو مسمار کرتے ہیں، ان کی کیا سزا ہے ؟ آئیے جانتے ہیں قرآن کی روشنی میں ،،،،،
(1) اللہ کے محبوب گھروں(مساجد ) کو آباد کرنے والے :اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة:18)
ترجمہ: اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں نمازوں کے پابند ہوں زکٰوۃ دیتے ہوں ، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔
اس آیت کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ جو اللہ پراور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور نماز وروزہ کی پابندی نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں وہ نہ تو مساجد آباد کرنے والے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو مساجد آباد نہیں ویران کرتے ہیں، یا انہیں توڑتے ہیں وہ لوگ بھی نہ ہدایت یافتہ ہیں ، نہ ایمان والے ہیں اور نہ عمل صالح والے۔
(2) اللہ کے محبوب گھروں(مساجد) کو مسمار کرنے والے : اللہ کا فرمان ہے :
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرة:114)
ترجمہ:اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اللہ تعالٰی کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔
یہ آیت ہمیں بتلاتی ہے کہ جو اللہ کے گھرمیں لوگو ں کو نماز پڑھنے اور ذکر قرآن وحدیث کرنےسے روکتے ہیں وہ ظالم ہیں بلکہ بڑے ظالم ہیں جو مساجد برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں منہدم کرتے ہیں، یہ اتنا بھیانک اور عظیم جرم ہے کہ اللہ نے ایسے بدبختوں کے لئے دنیا سے ہی سزا شروع کردی ہے ۔ آخرت میں دردناک عذاب توہے ہی۔
یہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ، ہمیں ان کی تعمیرکرنے میں، انہیں آباد کرنے میں اور ان میں اللہ کا ذکر بلند کرنے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے مگر روئے زمین پرایک ایسی بھی جماعت ہے جو تبلیغی جماعت سے موسوم ہے۔ یہ جماعت نہ صرف مساجد میں اہل حدیث کو درس قرآن اور درس حدیث دینے سے روکتی ہےبلکہ ان میں نماز ادا کرنے سے بھی روکتی ہے ۔اس جماعت کی پوری تاریخ میں اہل حدیث مساجد، اہل حدیث ائمہ اور اہل حدیث عوام کو گزند پہنچانا لکھا ہے۔ اخبار اہل حدیث امرتسر یکم جولائی 1932 ء کا ایک پیج کسی بھائی نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے اس میں لکھا ہےکہ دشمنوں کے بھڑکاوے میں آکر احناف نے اہل حدیث امام ومقتدیوں پر حملہ کرکے انہیں بےتحاشا زدوکوب کیا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اہل حدیث نے بالکل مقابلہ نہ کیا۔ اہل حدیث کے نزدیک مسجد کا تقدس دیکھیں کہ انہوں نے مقدس جگہ پر ظالموں کو کچھ نہ کہا بلکہ مسجد کا احترام کیا اور دوسری طرف احناف نے نہ مسجد دیکھی، نہ نمازی کا خیال کیا اور نہ ہی اللہ کے گھر میں امامت کرنے والے امام صاحب کا پاس ولحاظ کیا۔
تبلیغی جماعت ، وہ جماعت ہے جس پر دنیا بھر کی مسجد کا بڑا احسان ہے ، اس جماعت کےپاس نہ کوئی آفس ہے، نہ کوئی مطبخ ہے ، نہ سونے کا انتظام ہے اور نہ ہی تبلیغی اڈے ہیں ۔ یہی مسجد ان کا گھر ہے، اسی میں کھانا پکاتے ہیں، اسی میں ڈکارلے لے کر کھاتےپیتے ہیں اور کھاکر یہیں پیر پسار پسار کر خراٹے لیتے ہیں۔ اٹھتے ہیں اسی کے حمام میں غسل اور استنجا کرتے ہیں۔ یہیں چلہ کشی ہوتی ہے، یہیں سے گشت ترتیت دئے جاتے ہیں، گاؤں کےپاک وناپاک سارے افراد کو زبردستی پکڑپکڑ کر یہیں جمع کیا جاتا ہے، دراصل یہ جہال کی جماعت ہوتی ہے، ان میں سے کوئی ان جاہلوں کو دین سکھاتا ہے۔ چند گشتوں اور دوچار چلوں سے یہ بڑے فقیہ و مفتی بن جاتے ہیں ، جو ان کی طرح چلہ کشی نہ کرے ،ان کے خلاف تبلیغیوں کو بھڑکاتے ہیں ، یہاں تک کہ جہاں جہاں ان کاگزرہوتا ہے وہاں کے اہل حدیث عوام پر اپنی نفرت ظاہر کرتے ہیں ، کہیں پر خوب ستاتے ہیں ، بریلویوں کے طرح کڑوی کسیلی باتیں سناتے ہیں اور بات بات پر وہابی کا طعنہ دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث ان تمام مرحلوں میں صبر سے کام لیتے ہیں اور اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔
یہ لوگ اللہ کے گھر پر بھی قبضہ کرتے پھرتے ہیں ، اہل حدیث اتنے شریف ہوتے ہیں کہ اپنی مساجد میں تبلغیوں کو پناہ دیتے ہیں اور یہ چلہ کش اتنے ظالم ہوتے ہیں کہ مساجد پر قبضہ ہی شروع کردیتے ہیں ۔ ہندوستان میں کتنی جگہوں پر ان بہروپیوں نے اہل حدیث مساجد پر قبضہ کرنے کی ناپاک کوشش کی ۔
15/ ستمبر 2018 کا ہفتہ تاریخ میں نہ بھولنے والا دن ہے جب اندھیرے میں اللہ سے بے خوف ہوکر آندھر اپردیش کے ضلع چتور کے ایک گاؤں پلمنیر میں رات کے تین بجے تبلیغی جماعت کے غنڈے ، دہشت گرد مبلغین نے اہل حدیث کی مسجد گرادی ۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔
وہ مسجد جس نے انہیں پالا، پوسا ، جوان کیا، دنیا میں وجود باقی رکھنے کا سہارا دیا، اس کا سہارا لیکر نگر نگر اور ڈگرڈگر کی خاک چھانا، اسی کے سہارے جیتا رہا، اسی کے سہارے اپنے چھ نمبری کام کرتا رہا۔ اسی کے رحم وکرم پر عام لوگوں کو حنفی بناتا رہا اور اپنی تعداد بڑھاتا رہا۔ آج اتنے سارے احسان کابدلہ مسجد منہدم کرکے دیا۔
اس المناک حادثے پر غیرمسلم کا بابری مسجد منہدم کرنا کوئی تعجب خیز امر معلوم نہیں ہورہا ہے ، ایک کافر کو اللہ کے گھر کی عظمت کا کیا احساس مگر خود کو تبلیغ کے اصل ٹھکیدار کہنے والے اور مسجدوں کو بڑی تعدادمیں آبادکرنے پر گھمنڈ کرنے والے جب ابرہہ کے شرمناک فعل جیسا گھناؤنا فعل انجام دینے لگیں تو پھر تعجب نہیں ان کے ایمان میں شبہ لگ رہاہے ۔ اور پھر یقین سے کہا جاسکتا ہےکہ سورہ بقرہ کی آیت 114 میں ظالم سے مراد اسی قسم کے تبلیغی غنڈے ہیں جو بظاہر نماز کی دعوت دیتے ہیں ،مسجدوں کو آباد کرتے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں ان کے دل میں ایمان نہیں ہے ، یہ اللہ سے اور آخرت میں اس کی پکڑ سے بھی بے خوف ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی رسواکن ذلت کے مستحق ہیں اور آخرت میں بھی دردناک عذاب سے دوچار کئے جائیں گے ۔
اس موقع سے ہندوستان کے دو اہم احناف کےتدریسی ادارے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ داروں سے مخاطب ہوں ۔ تعلیمی ادارہ آپ کے پاس ہے ، قرآن وحدیث کی جس انداز میں بھی تعلیم دیتے ہیں مجھے اس پہ کوئی سوال نہیں ہے مگر انہدام مسجد کا واقعہ آپ کی نظر میں کیسا ہے اور جن ظالموں نے ایسا کیا ہے ان پر کیا حکم عائد ہوتا ہے ؟ میں نے قرآن کے حوالے سے اپنا نظریہ بیان کردیا ہے مجھے آپ کے دارالعلوم کا علوم سے بھرا ہوا فتوی چاہئے ۔
ان دو اداروں کے علاوہ حنفی تحریکات میں صرف مسلم پرسنل لا بورڈ کے حنفی ذمہ دار سے میرا سوال ہے کہ اس بورڈ کے اہم ایشوز میں بابری مسجد کیس بھی ہے ۔ آپ نے اس مسجد کی تعمیر نو کے لئے قابل قدر جتن کیاہے ، آج آپ کی تبلیغی جماعت کے دعاۃ ومبلغین نے اللہ کے گھر کو مسمار کیا ہے ، آپ کو اس کا بخوبی علم ہوگامگر ابھی تک آپ کی خاموشی نہ صرف بورڈ پہ سوالیہ نشان ہے بلکہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔آپ سے مسجد بنوانے کی اپیل نہیں کروں گا ، یہ اللہ کا گھر ہے ، اللہ جس سے چاہتا ہے اپنا گھر بنوالیتا ہے۔ آپ خاموش کیوں ہیں ؟ اس انہدام پہ آپ کی زبان مبارک سے آپ کا نظریہ جاننا چاہتے ہیں اور بس ۔
اہل حدیث عوام آندھرا پردیش کے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ جس طرح ہم پہلے صبر کے پیکر تھے آج بھی اس طرہ امتیاز کا اظہار کریں، اس حادثہ کی وجہ سے کہیں پر اشتعال انگیزی نہ کریں،ویسے بھی ملکی حالات ہمیں کسی قسم کے مظاہرے اور انتشار کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ یہ وقت تبلیغی جماعت کی شرانگیزی عیاں کرنے کا ہے۔ انہدام مسجد سے بڑھ کر میری نظر میں اور کوئی شرانگیزی نہیں ہوسکتی ۔ ہم اپنے زبان وقلم سےپرامن طریقے پر تبلیغی جماعت کی شرانگیزی بیان کریں اور اپنی عوام کو بالخصوص ان کے شر سے محفوظ رہنے کی تاکید کریں ۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو ۔