• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت سے کچھ سوالات

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تبلیغی جماعت سے کچھ سوالات

س نمبر1
فضائل اعمال کی جگہ قرآن پاک ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس کیوں نہیں دیا جاتا جو کہ صحیح ترین کتب ہیں ؟
س نمبر2
کل وقتی کارکنان امراء اور بیرون کے لیئے وفود کا خرچہ کہاں سے آ تا ہے۔؟ نیز اجتماع کا خرچہ کہاں سے آتا ہے۔؟ حالانکہ تبلیغی جماعت کوئی چندہ اکٹھا نہیں کرتی اور رسول اللہﷺ نے تقریباً ہر جنگ سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے مالی اعانت لی ؟
س نمبر3
تبلیغی جماعت کے ساتھ کتنا وقت لگانے سے ایک مسلمان قرآن اور حدیث سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے ؟
س نمبر4
مضبوطی ایمان کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے؟
س نمبر5
عربوں کو ریاض الصالحین اور عجمیوں (پاکستانی ،ہندوستانی وغیرہ) کو فضائل( فضائل اعمال،صدقات،حج،درود ۔۔) کی کتابیں کیوں پڑھائی جاتی ہیں؟
س نمبر6
فضائل اعمال کا عربی ترجمہ کیوں نہیں ہوا؟
س نمبر7
کیا تبلیغی جماعت دیوبندیوں میں بھی ایک فرقہ ہے؟
س نمبر8
ترجمة القرآن سیکھنے اور سکھانے سے کیوں روکا جاتاہے؟
س نمبر9
تبلیغی جماعت کا دعویٰ ہے کہ سب ٹھیک ہے تو تہتر میں سے کون سا فرقہ جنت میں جائے گا؟
س نمبر10
رسول اللہﷺ نے جہاد کے لئے جماعتیں روانہ کیں کیا تبلیغی جماعت نے کبھی اس سنت پر عمل کیا یا ان کا ابھی مکی دور ہی مکمل نہیں ہوا ؟
س نمبر11
تبلیغی جماعت کے ارکان جہاد سے کیوں جی چراتے ہیں؟ حالانکہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔کشمیری ، فلسطینی ،عراقی ،افغانی مائیں بہنیں مدد کے لئے پکار رہی ہیں۔ مسلمانوں کی عزت و ناموس لٹ رہی ہے اور یہ حضرات لوٹا، بستر اٹھائے تبلیغی مشن پرکیوں روانہ ہوتے ہیں حالانکہ یہ وقت ہتھیار اٹھانے کا ہے؟ مسلمان مجاہد جہاں جاتا تھا وہاں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کرتا تھا۔تبلیغ کا یہ طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا؟
جہاد فرض ہے چاہے ناگوار گذرے

کتب علیکم القتال وھوکرہ لکم وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیا وھو شر لکم وااللہ یعلم وانتم لا تعلمون (سورہ البقرہ 2 / 216)
ترجمہ:۔ تم پر قتال فرض کیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار گذرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کو تم ناگوار سمجھو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بری ہو۔اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
 

ساجد محبی

مبتدی
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
0
قرآن وحدیث کو کیوں نہیں پڑھایا جاتا ،،،،شاید وہ جوابا کہٰیں کہ جیسے ابن قیم کی تحقیقات کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہو ،براہ راست قرآن و حدیث کو کیوں نہیں ترجیح دیتے ۔۔۔۔
ظاہر ہے لوگ خود اپنی جماعت کے لیے اتنا تعاون کرتے ہوں گے کہ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی۔۔۔
ویسے آپ نے ”ریاض الصالحین “ کو فضائل اعمال سے کس لیے جوڑا ہے؟؟؟؟ دوست! ریاض الصالحین تو احادیث کا ذخیرہ ہے۔۔۔۔۔
جہاں تک جہاد کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے اسے ہی نہیں بلکہ ہر طبقہء زندگی سے تعلق رکھنے والے کو سوچنا چاہیے ۔۔۔۔۔ نہ کہ تبلیغی دوستوں کو۔۔۔۔
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
قرآن وحدیث کو کیوں نہیں پڑھایا جاتا ،،،،شاید وہ جوابا کہٰیں کہ جیسے ابن قیم کی تحقیقات کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہو ،براہ راست قرآن و حدیث کو کیوں نہیں ترجیح دیتے ۔۔۔۔
ظاہر ہے لوگ خود اپنی جماعت کے لیے اتنا تعاون کرتے ہوں گے کہ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی۔۔۔
ویسے آپ نے ”ریاض الصالحین “ کو فضائل اعمال سے کس لیے جوڑا ہے؟؟؟؟ دوست! ریاض الصالحین تو احادیث کا ذخیرہ ہے۔۔۔۔۔
جہاں تک جہاد کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے اسے ہی نہیں بلکہ ہر طبقہء زندگی سے تعلق رکھنے والے کو سوچنا چاہیے ۔۔۔۔۔ نہ کہ تبلیغی دوستوں کو۔۔۔۔
میرے بھائی زبردست فکری رد کیا ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
س نمبر1
فضائل اعمال کی جگہ قرآن پاک ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس کیوں نہیں دیا جاتا جو کہ صحیح ترین کتب ہیں ؟
اس کا جواب مجھے ایک تبلیغی جماعت والے نے یہ دیا تھا کہ آپ ہماری فضائل اعمال میں کتاب و سنت کے خلاف کوئی چیز دکھا دیں۔
شاید میں اس دور میں محدث فورم کا رکن نہیں تھا،ورنہ شاہد نزیر بھائی اور طالب نور بھائی اور دیگر بھائیوں کی تحریروں سے تبلیغی جماعت والوں کو آئینہ دکھاتا۔
 

ضرب کلیم

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
6
صور ت مسئولہ میں فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی تالیف ہے یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہےاس کتاب کے لکھنے کا مقصود یہ ہے کہ اعمال کے فضائل اور گناہ کے ارتکاب پر وعیدیں بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن میں اعمال کی اہمیت اور گناہوں سےبچنے کا شعور پیدا ہو کہ لوگ اعمال کرنے لگ جائیں اورگناہوں سے اجتناب کرنے لگ جائیں ۔ اس کتاب کا مقصد احکام اور مسائل کو بیان کرنا نہیں ہے اس لیے کہ اس کتاب میں احکام ،مسائل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔
جماعت دعوت تبلیغ کا مقصود چونکہ لوگوں کو اعمال پر لگانا اور گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ،احکام و مسائل بتا نا نہیں اس لیے وہ اپنےتعلیمی حلقوں میں اسی کتاب کو سامعین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔رہاقرآن کریم ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس تو چونکہ ان کتابوں میں احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے درس کے لیے علم کی ضرورت ہے یہ ہر تبلیغی کارکن کے پاس نہیں اور نہ ہی جماعت تبلیغ کا مقصود احکام کا بیان ہے بلکہ فضائل سن کر احکام سیکھنے کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے اپنی مجلسوں میں ان کتابوں کادرس نہیں دیتے۔
دوم یہ کہ فضائل اعمال نامی کتاب میں جوفضائل بیان ہوئےہیں وہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث رسول جو مختلف کتابوں مثلاً بخاری ،مسلم،ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں ،ان سے لیے گئے ہیں تو یہ قرآن اور حدیث سے ہٹ کر تو نہیں۔
2۔بیرونی یا اندرونی جماعتیں جو تبلیغ دین کا کام کرتی ہیں یہ جماعتیں اپنے خرچے اور اپنے وسائل پرچلتی ہیں کسی سے تعاون نہیں یہی معاملہ اجتماع کا ہے ۔ مسلمان باہمی تعاون سے اس نظام کو سنبھالتے ہیں اور اس کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
3۔جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کا مقصد ثواب کے کاموں کی ترغیب اور گناہ کے کاموں سےبچنے کی تلقین ہے ،درس وتدریس ،تعلیم تعلم نہیں ،اس لیے یہ سوال بے محل ہے ،ہاں اس جماعت کے ساتھ جڑجانے سے علم دین کے حصول کا جذبہ اس میں پیدا ہوتاہے ،اہلِ علم سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دین کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوجاتی ہیں باقی قرآن و حدیث کا سمجھنا انسان کے اپنے فہم و فراست پر مبنی ہے اگر انسان علم دین کے حصول میں لگ جائے ،صاحبِ فہم و فراست ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ بہت جلد قرآن و حدیث کو سمجھنے لگ جاتا ہے اس کے لیے کوئی وقت یا زمانہ متعین نہیں ۔
4۔اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔
5۔"فضائل اعمال"چونکہ اردوزبان جاننے والوں کے لیے لکھی گئی ہے اس میں احادیث کا ترجمہ لکھا گیاہے جبکہ "ریاض الصالحین"عربی زبان میں سے ہے اور اہلِ عرب عربی زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں اعمال کے فضائل اور معاصی کے ارتکاب پر وعیدوں کا تذکرہ ہے ،اس لیے اہلِ عرب کو "ریاض الصالحین "اور اہل عجم کو" فضائل اعمال" سے تعلیم دی جاتی ہے۔
6۔یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرے کوئی کرنا چاہے تو کسی کی طرف سے پابندی نہیں۔
7۔ "تبلیغی جماعت"یا دیوبند مکتبہ ٔ فکر کوئی فرقہ نہیں ہے ،اہل سنت والجماعت ہے جو کہ اہل حق کی جماعت ہے ،دین کی تبلیغ وترویج اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔
8۔آج تک انہوں نے نہ قرآن کریم کے سیکھنےسے روکا ہے اور نہ ہی اس کے ترجمہ وتفسیر سے بلکہ جماعت دعوت و تبلیغ میں جڑنے سے قرآن کریم کے سیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔علم دین کے احکا م و مسائل سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ،پھرقرآن کریم ،احادیث اورت احکام و مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
9۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب ٹھیک ہے ،اگر یہ کہتے تو پھر دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کرتے ،لوگوں کو برائیوں سے نکا ل کر خیرو بھلائی کی طرف کیوں لاتے ، ہاں دین کی طرف راغب کرنے میں وہ اپنی حکمت عملی کے تحت میانہ روی اختیار کرتے رہتے ہیں ۔
10۔اس جماعت نے کسی کو منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ ہے ۔کتنے افراد ایسے ہوں گے جو جہاد کے شعبے سے وابستہ ہوں گے ۔
دوم یہ کہ دین کے کئی شعبے ہیں تدریس ،تبلیغ ،جہاد وغیرہ ہرشعبہ اپنی جگہ صحیح ہے ۔ہر شعبہ کا اپنا کام ہوتاہے ،نہ تمام افراد تدریس سے وابستہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دعوت و تبلیغ سے اور نہ ہی جہاد سے لہٰذا یہ کہنا کہ جماعت دعوت و تبلیغ نے کوئی جماعت جہاد کے لیے روانہ نہیں کی ایک غیر معقول بات ہے۔
11۔ اس کا جواب ہو گیا ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
صور ت مسئولہ میں فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی تالیف ہے یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہےاس کتاب کے لکھنے کا مقصود یہ ہے کہ اعمال کے فضائل اور گناہ کے ارتکاب پر وعیدیں بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن میں اعمال کی اہمیت اور گناہوں سےبچنے کا شعور پیدا ہو کہ لوگ اعمال کرنے لگ جائیں اورگناہوں سے اجتناب کرنے لگ جائیں ۔ اس کتاب کا مقصد احکام اور مسائل کو بیان کرنا نہیں ہے اس لیے کہ اس کتاب میں احکام ،مسائل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔
جماعت دعوت تبلیغ کا مقصود چونکہ لوگوں کو اعمال پر لگانا اور گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ،احکام و مسائل بتا نا نہیں اس لیے وہ اپنےتعلیمی حلقوں میں اسی کتاب کو سامعین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔رہاقرآن کریم ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس تو چونکہ ان کتابوں میں احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے درس کے لیے علم کی ضرورت ہے یہ ہر تبلیغی کارکن کے پاس نہیں اور نہ ہی جماعت تبلیغ کا مقصود احکام کا بیان ہے بلکہ فضائل سن کر احکام سیکھنے کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے اپنی مجلسوں میں ان کتابوں کادرس نہیں دیتے۔
دوم یہ کہ فضائل اعمال نامی کتاب میں جوفضائل بیان ہوئےہیں وہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث رسول جو مختلف کتابوں مثلاً بخاری ،مسلم،ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں ،ان سے لیے گئے ہیں تو یہ قرآن اور حدیث سے ہٹ کر تو نہیں۔
2۔بیرونی یا اندرونی جماعتیں جو تبلیغ دین کا کام کرتی ہیں یہ جماعتیں اپنے خرچے اور اپنے وسائل پرچلتی ہیں کسی سے تعاون نہیں یہی معاملہ اجتماع کا ہے ۔ مسلمان باہمی تعاون سے اس نظام کو سنبھالتے ہیں اور اس کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
3۔جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کا مقصد ثواب کے کاموں کی ترغیب اور گناہ کے کاموں سےبچنے کی تلقین ہے ،درس وتدریس ،تعلیم تعلم نہیں ،اس لیے یہ سوال بے محل ہے ،ہاں اس جماعت کے ساتھ جڑجانے سے علم دین کے حصول کا جذبہ اس میں پیدا ہوتاہے ،اہلِ علم سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دین کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوجاتی ہیں باقی قرآن و حدیث کا سمجھنا انسان کے اپنے فہم و فراست پر مبنی ہے اگر انسان علم دین کے حصول میں لگ جائے ،صاحبِ فہم و فراست ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ بہت جلد قرآن و حدیث کو سمجھنے لگ جاتا ہے اس کے لیے کوئی وقت یا زمانہ متعین نہیں ۔
4۔اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔
5۔"فضائل اعمال"چونکہ اردوزبان جاننے والوں کے لیے لکھی گئی ہے اس میں احادیث کا ترجمہ لکھا گیاہے جبکہ "ریاض الصالحین"عربی زبان میں سے ہے اور اہلِ عرب عربی زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں اعمال کے فضائل اور معاصی کے ارتکاب پر وعیدوں کا تذکرہ ہے ،اس لیے اہلِ عرب کو "ریاض الصالحین "اور اہل عجم کو" فضائل اعمال" سے تعلیم دی جاتی ہے۔
6۔یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرے کوئی کرنا چاہے تو کسی کی طرف سے پابندی نہیں۔
7۔ "تبلیغی جماعت"یا دیوبند مکتبہ ٔ فکر کوئی فرقہ نہیں ہے ،اہل سنت والجماعت ہے جو کہ اہل حق کی جماعت ہے ،دین کی تبلیغ وترویج اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔
8۔آج تک انہوں نے نہ قرآن کریم کے سیکھنےسے روکا ہے اور نہ ہی اس کے ترجمہ وتفسیر سے بلکہ جماعت دعوت و تبلیغ میں جڑنے سے قرآن کریم کے سیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔علم دین کے احکا م و مسائل سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ،پھرقرآن کریم ،احادیث اورت احکام و مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
9۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب ٹھیک ہے ،اگر یہ کہتے تو پھر دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کرتے ،لوگوں کو برائیوں سے نکا ل کر خیرو بھلائی کی طرف کیوں لاتے ، ہاں دین کی طرف راغب کرنے میں وہ اپنی حکمت عملی کے تحت میانہ روی اختیار کرتے رہتے ہیں ۔
10۔اس جماعت نے کسی کو منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ ہے ۔کتنے افراد ایسے ہوں گے جو جہاد کے شعبے سے وابستہ ہوں گے ۔
دوم یہ کہ دین کے کئی شعبے ہیں تدریس ،تبلیغ ،جہاد وغیرہ ہرشعبہ اپنی جگہ صحیح ہے ۔ہر شعبہ کا اپنا کام ہوتاہے ،نہ تمام افراد تدریس سے وابستہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دعوت و تبلیغ سے اور نہ ہی جہاد سے لہٰذا یہ کہنا کہ جماعت دعوت و تبلیغ نے کوئی جماعت جہاد کے لیے روانہ نہیں کی ایک غیر معقول بات ہے۔
11۔ اس کا جواب ہو گیا ہے۔
عقائد کی سطح پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت اعمال حسنہ کی طرف خصوصی توجہ دیتی ہے لیکن عقائد کی سطح پر اصلاح نہیں کرتی اور اس حوالے سے استدلال یہ ہے کہ اگر''عقائدصحیح نہ ہوں تو انسان کے دیگر تمام اعمال صالحہ بھی بے کار اور اللہ کی بارگاہ میں ضائع ہو جاتے ہیں''۔ عقائد کی سطح پر اس''خرابی'' کی بنیادی وجہ تبلیغی جماعت پر تصوف کے غلبے کوقرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سلفی علما کا استدلال ہے کہ
''اہلِ توحید اور تبلیغی جماعت کے درمیان عقیدے اور منہج میں گہرا اور شدید اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت والے ماتریدیہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرتے ہیں اور عبادات اور اخلاقیات میں صوفی ہیں۔ وہ صوفیوں کے ان چار طریقوں کے مطابق بیعت کرتے ہیں اور جو انسان کو گمراہیوں کی اندھیری وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔''11
اسی بنا پر سلفی اور سلفی اور حنبلی علماء شیخ ابن باز، شیخ عبد لرزاق عفیفی ، شیخ ناصر الدین البانی اور صالح بن فوزاں نے تبلیغی جماعت کے خلاف فتوے جاری کیے۔12 بعض سخت گیر دیوبند علما بھی تبلیغی جماعت پر اسی نوع کے اعتراضات اُٹھاتے ہیں ۔ خصوصاً تبلیغی نصاب جو اب''فضائل اعمال'' کے نام سے معروف ہے کے آخری حصے میں جو صوفیا کی حکایات پر مبنی ہے خاص ہدف رہتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد سلیم جنہوں نے طویل عرصہ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کی اپنی کتاب''تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں'' میں لکھتے ہیں کہ''کاش! تبلیغی جماعت کے اکابرین تبلیغی نصاب سے شرک و بدعت کی باتیں نکال دیںاور اس نصاف کو اس طرح از سر نو مرتب کریں کہ اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ جو روایات ضعیف اور موزوں ہوں انہیں نکال دیں جھوٹی اور ضعیف روایتوں کی بنیاد پر لوگوں کے عقائد کو خراب ہونے سے بچائیں۔''13
صور ت مسئولہ میں فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی تالیف ہے یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہےاس کتاب کے لکھنے کا مقصود یہ ہے کہ اعمال کے فضائل اور گناہ کے ارتکاب پر وعیدیں بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن میں اعمال کی اہمیت اور گناہوں سےبچنے کا شعور پیدا ہو کہ لوگ اعمال کرنے لگ جائیں اورگناہوں سے اجتناب کرنے لگ جائیں ۔ اس کتاب کا مقصد احکام اور مسائل کو بیان کرنا نہیں ہے اس لیے کہ اس کتاب میں احکام ،مسائل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔
جماعت دعوت تبلیغ کا مقصود چونکہ لوگوں کو اعمال پر لگانا اور گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ،احکام و مسائل بتا نا نہیں اس لیے وہ اپنےتعلیمی حلقوں میں اسی کتاب کو سامعین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔رہاقرآن کریم ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس تو چونکہ ان کتابوں میں احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے درس کے لیے علم کی ضرورت ہے یہ ہر تبلیغی کارکن کے پاس نہیں اور نہ ہی جماعت تبلیغ کا مقصود احکام کا بیان ہے بلکہ فضائل سن کر احکام سیکھنے کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے اپنی مجلسوں میں ان کتابوں کادرس نہیں دیتے۔
دوم یہ کہ فضائل اعمال نامی کتاب میں جوفضائل بیان ہوئےہیں وہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث رسول جو مختلف کتابوں مثلاً بخاری ،مسلم،ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں ،ان سے لیے گئے ہیں تو یہ قرآن اور حدیث سے ہٹ کر تو نہیں۔
2۔بیرونی یا اندرونی جماعتیں جو تبلیغ دین کا کام کرتی ہیں یہ جماعتیں اپنے خرچے اور اپنے وسائل پرچلتی ہیں کسی سے تعاون نہیں یہی معاملہ اجتماع کا ہے ۔ مسلمان باہمی تعاون سے اس نظام کو سنبھالتے ہیں اور اس کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
3۔جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کا مقصد ثواب کے کاموں کی ترغیب اور گناہ کے کاموں سےبچنے کی تلقین ہے ،درس وتدریس ،تعلیم تعلم نہیں ،اس لیے یہ سوال بے محل ہے ،ہاں اس جماعت کے ساتھ جڑجانے سے علم دین کے حصول کا جذبہ اس میں پیدا ہوتاہے ،اہلِ علم سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دین کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوجاتی ہیں باقی قرآن و حدیث کا سمجھنا انسان کے اپنے فہم و فراست پر مبنی ہے اگر انسان علم دین کے حصول میں لگ جائے ،صاحبِ فہم و فراست ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ بہت جلد قرآن و حدیث کو سمجھنے لگ جاتا ہے اس کے لیے کوئی وقت یا زمانہ متعین نہیں ۔
4۔اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔
5۔"فضائل اعمال"چونکہ اردوزبان جاننے والوں کے لیے لکھی گئی ہے اس میں احادیث کا ترجمہ لکھا گیاہے جبکہ "ریاض الصالحین"عربی زبان میں سے ہے اور اہلِ عرب عربی زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں اعمال کے فضائل اور معاصی کے ارتکاب پر وعیدوں کا تذکرہ ہے ،اس لیے اہلِ عرب کو "ریاض الصالحین "اور اہل عجم کو" فضائل اعمال" سے تعلیم دی جاتی ہے۔
6۔یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرے کوئی کرنا چاہے تو کسی کی طرف سے پابندی نہیں۔
7۔ "تبلیغی جماعت"یا دیوبند مکتبہ ٔ فکر کوئی فرقہ نہیں ہے ،اہل سنت والجماعت ہے جو کہ اہل حق کی جماعت ہے ،دین کی تبلیغ وترویج اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔
8۔آج تک انہوں نے نہ قرآن کریم کے سیکھنےسے روکا ہے اور نہ ہی اس کے ترجمہ وتفسیر سے بلکہ جماعت دعوت و تبلیغ میں جڑنے سے قرآن کریم کے سیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔علم دین کے احکا م و مسائل سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ،پھرقرآن کریم ،احادیث اورت احکام و مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
9۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب ٹھیک ہے ،اگر یہ کہتے تو پھر دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کرتے ،لوگوں کو برائیوں سے نکا ل کر خیرو بھلائی کی طرف کیوں لاتے ، ہاں دین کی طرف راغب کرنے میں وہ اپنی حکمت عملی کے تحت میانہ روی اختیار کرتے رہتے ہیں ۔
10۔اس جماعت نے کسی کو منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ ہے ۔کتنے افراد ایسے ہوں گے جو جہاد کے شعبے سے وابستہ ہوں گے ۔
دوم یہ کہ دین کے کئی شعبے ہیں تدریس ،تبلیغ ،جہاد وغیرہ ہرشعبہ اپنی جگہ صحیح ہے ۔ہر شعبہ کا اپنا کام ہوتاہے ،نہ تمام افراد تدریس سے وابستہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دعوت و تبلیغ سے اور نہ ہی جہاد سے لہٰذا یہ کہنا کہ جماعت دعوت و تبلیغ نے کوئی جماعت جہاد کے لیے روانہ نہیں کی ایک غیر معقول بات ہے۔
11۔ اس کا جواب ہو گیا ہے۔
تبلیغی جماعت کے بارے میں مغرب میں جہاد دہشت گردی اور سیاسی اسلام کے حوالے سے جن شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے پاکستان کی مذہبی حلقے خصوصاً سیاست سے وابستہ علماء تبلیغی جماعت پر سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کو جہاد اور سیاست سے دور کر رہی ہے۔ ''اللہ کے واسطے ذرا ان تین چلوں، چھ نمبروں ، گشت و بیاں سے بھی باہر جھانک کر دیکھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ خانقاہوں اور تبلیغی مراکز کے اندر کوئی اخبار ہی پڑھ لیا کریں یا ریڈیو ہی رکھ لیں اور جان لیں کہ مسلمانوں کا کتنا خون بہہ رہا ہے۔ کبھی آپ کے مراکز میں جہاد کے بارے میں بھی مشورہ ہوا ہے؟ تیسری عالمی جنگ کے منصوبہ بندی کے لیے بھی کوئی حکمتِ عملی وضع ہو رہی ہے اگر یہ سب باتیں نفی میں ہیں تو پھر یہ جاگنے اور سوچنے کا وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تبلیغی اور صوفیا روزقیامت اپنے آپ کو گدھے پر سوارپائےں''16
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
عقائد کی سطح پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت اعمال حسنہ کی طرف خصوصی توجہ دیتی ہے لیکن عقائد کی سطح پر اصلاح نہیں کرتی اور اس حوالے سے استدلال یہ ہے کہ اگر''عقائدصحیح نہ ہوں تو انسان کے دیگر تمام اعمال صالحہ بھی بے کار اور اللہ کی بارگاہ میں ضائع ہو جاتے ہیں''۔ عقائد کی سطح پر اس''خرابی'' کی بنیادی وجہ تبلیغی جماعت پر تصوف کے غلبے کوقرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سلفی علما کا استدلال ہے کہ
''اہلِ توحید اور تبلیغی جماعت کے درمیان عقیدے اور منہج میں گہرا اور شدید اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت والے ماتریدیہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرتے ہیں اور عبادات اور اخلاقیات میں صوفی ہیں۔ وہ صوفیوں کے ان چار طریقوں کے مطابق بیعت کرتے ہیں اور جو انسان کو گمراہیوں کی اندھیری وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔''11
اسی بنا پر سلفی اور سلفی اور حنبلی علماء شیخ ابن باز، شیخ عبد لرزاق عفیفی ، شیخ ناصر الدین البانی اور صالح بن فوزاں نے تبلیغی جماعت کے خلاف فتوے جاری کیے۔12 بعض سخت گیر دیوبند علما بھی تبلیغی جماعت پر اسی نوع کے اعتراضات اُٹھاتے ہیں ۔ خصوصاً تبلیغی نصاب جو اب''فضائل اعمال'' کے نام سے معروف ہے کے آخری حصے میں جو صوفیا کی حکایات پر مبنی ہے خاص ہدف رہتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد سلیم جنہوں نے طویل عرصہ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کی اپنی کتاب''تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں'' میں لکھتے ہیں کہ''کاش! تبلیغی جماعت کے اکابرین تبلیغی نصاب سے شرک و بدعت کی باتیں نکال دیںاور اس نصاف کو اس طرح از سر نو مرتب کریں کہ اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ جو روایات ضعیف اور موزوں ہوں انہیں نکال دیں جھوٹی اور ضعیف روایتوں کی بنیاد پر لوگوں کے عقائد کو خراب ہونے سے بچائیں۔''13

تبلیغی جماعت کے بارے میں مغرب میں جہاد دہشت گردی اور سیاسی اسلام کے حوالے سے جن شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے پاکستان کی مذہبی حلقے خصوصاً سیاست سے وابستہ علماء تبلیغی جماعت پر سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کو جہاد اور سیاست سے دور کر رہی ہے۔ ''اللہ کے واسطے ذرا ان تین چلوں، چھ نمبروں ، گشت و بیاں سے بھی باہر جھانک کر دیکھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ خانقاہوں اور تبلیغی مراکز کے اندر کوئی اخبار ہی پڑھ لیا کریں یا ریڈیو ہی رکھ لیں اور جان لیں کہ مسلمانوں کا کتنا خون بہہ رہا ہے۔ کبھی آپ کے مراکز میں جہاد کے بارے میں بھی مشورہ ہوا ہے؟ تیسری عالمی جنگ کے منصوبہ بندی کے لیے بھی کوئی حکمتِ عملی وضع ہو رہی ہے اگر یہ سب باتیں نفی میں ہیں تو پھر یہ جاگنے اور سوچنے کا وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تبلیغی اور صوفیا روزقیامت اپنے آپ کو گدھے پر سوارپائےں''16
معروف دیوبندی عالم مولانا زاہد الراشدی نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار تبلیغی اکابرین سے کیا اور اس کا احوال اپنے کالم''نوائے حق'' میں کیا:
''بھارت سے تشریف لانے والے حضرات میں مولانا سعد، مولانا زبیر اور مولانا ابراہیم سے علیحدگی میں گفتگو ہوئی اور مذکورہ بالا بزرگوں کی طرف سے ان حضرات کی خدمت میں جو شکایات پیش کی گئیں ان میں یہ شکایت بھی شامل تھی کہ تبلیغی جماعت میں ہونے والے بعض بیانات میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اب صر ف دعوت و تبلیغ کا یہ کام ہی دین کا کام رہ گیا ہے اور دیگر دینی امور بالخصوص جہاد کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، بلکہ دیگر شکایات میں یہ باتیں تھیں کہ اب فیصلوں میں مشاورت کا عنصرکم ہوتا جارہاہے اور کشف و الہام کو زیادہ تر فیصلوں کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اہتمام میں چلنے والے دینی مدارس میں نصاب کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوتی اور عام بیانات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدی علیہ اسلام کے ظہورکا اس انداز سے تذکرہ کیا جانے لگا ہے کہ بس اب ان کا ظہور ہونے ہی والا ہے اور ہمارا کام صرف ان کا انتظام کرنا رہ گیا ہے۔ پاکستان کے ان ذمہ دار ترین علما ئے کرام نے ان امور کے بارے میں اپنا موقف یہ بیان کیا کہ یہ باتیں شرعاً درست نہیں ہیں، اس لیے ان کا سد باب کیا جانا چاہیے۔انڈیا کے تبلیغی بزرگوں کی طرف سے مولانا سعد نے ان حضرات کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اصلاحِ احوال کی طرف پوری توجہ دیں گے ۔ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور میں نے ایک بار اشارتاً اس کالم میں اس ملاقات کے بارے میں تذکرہ کرنے کے باجود،اب تک خاموشی ہی کو بہتر سمجھاہے،لیکن حالیہ اجتماع میں مولانا محمد احمد بہاولپوری کا بیان سامنے بیٹھ کر سننے والے علما کرام نے مجھے جو کچھ بتایا ہے، اس کے بعد اس بات کو حیطۂ خاموشی میں رکھنے کو نامناسب سمجھتے ہوئے پہلی بار اس ملاقات کی کچھ تفصیل عرض کرنے کی میں نے جسارت کی ہے۔ میں ابھی چند روز قبل اسی کالم میں دعوت و تبلیغ کے اس اہم ترین دینی فریضہ کی ضرورت و اہمیت اور اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کی عالمگیر خدمات اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کے بارے میں عرض کر چکا ہوں اور بحمد اللہ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہوں، لیکن اس حوالے سے دین کے دیگر شعبوں میں سے کسی کام کی نفی یا کسی کو بے اہمیت ظاہر کرنے کی بات کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے، اس لیے مجبوراً ایک بار یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جماعتیں، دینی مدارس، مساجد کا نظام، خانقاہیں،مجاہدین، نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس صحابہ کے لیے کام کرنے والے حلقے اور گروہ، مسائل و احکام میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے علمی مراکز اوار دارالافتاء مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کو بے نقا ب کرنے اور ان کا تعاقب کرنے والے ادارے اور شخصیات، تجدد پسند حلقوں کی فکری کج روی اور نظریاتی بے راہ روی کی نشان دہی کرنے والے افراد اور ادارے اس کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ امت کا یہ عالمی نظام،یہ سب دین کے شعبے ہیں اور ان میں سب کام کرنے والے دین ہی کا کام کر رہے ہیں، جن میں ہر شخص کو اس کی نیت اور محنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ملے گا، البتہ ان میں سے کوئی بھی شعبہ اگردوسرں کی نفی کرتے ہوئے خود کو دین کا واحد معیار قرار دے گا تو اس کی یہ کوشش دین کے تصور اور کردار کو محدود کرنے کی کوشش متصور ہو گی۔''
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
معروف دیوبندی عالم مولانا زاہد الراشدی نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار تبلیغی اکابرین سے کیا اور اس کا احوال اپنے کالم''نوائے حق'' میں کیا:
''بھارت سے تشریف لانے والے حضرات میں مولانا سعد، مولانا زبیر اور مولانا ابراہیم سے علیحدگی میں گفتگو ہوئی اور مذکورہ بالا بزرگوں کی طرف سے ان حضرات کی خدمت میں جو شکایات پیش کی گئیں ان میں یہ شکایت بھی شامل تھی کہ تبلیغی جماعت میں ہونے والے بعض بیانات میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اب صر ف دعوت و تبلیغ کا یہ کام ہی دین کا کام رہ گیا ہے اور دیگر دینی امور بالخصوص جہاد کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، بلکہ دیگر شکایات میں یہ باتیں تھیں کہ اب فیصلوں میں مشاورت کا عنصرکم ہوتا جارہاہے اور کشف و الہام کو زیادہ تر فیصلوں کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اہتمام میں چلنے والے دینی مدارس میں نصاب کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوتی اور عام بیانات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدی علیہ اسلام کے ظہورکا اس انداز سے تذکرہ کیا جانے لگا ہے کہ بس اب ان کا ظہور ہونے ہی والا ہے اور ہمارا کام صرف ان کا انتظام کرنا رہ گیا ہے۔ پاکستان کے ان ذمہ دار ترین علما ئے کرام نے ان امور کے بارے میں اپنا موقف یہ بیان کیا کہ یہ باتیں شرعاً درست نہیں ہیں، اس لیے ان کا سد باب کیا جانا چاہیے۔انڈیا کے تبلیغی بزرگوں کی طرف سے مولانا سعد نے ان حضرات کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اصلاحِ احوال کی طرف پوری توجہ دیں گے ۔ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور میں نے ایک بار اشارتاً اس کالم میں اس ملاقات کے بارے میں تذکرہ کرنے کے باجود،اب تک خاموشی ہی کو بہتر سمجھاہے،لیکن حالیہ اجتماع میں مولانا محمد احمد بہاولپوری کا بیان سامنے بیٹھ کر سننے والے علما کرام نے مجھے جو کچھ بتایا ہے، اس کے بعد اس بات کو حیطۂ خاموشی میں رکھنے کو نامناسب سمجھتے ہوئے پہلی بار اس ملاقات کی کچھ تفصیل عرض کرنے کی میں نے جسارت کی ہے۔ میں ابھی چند روز قبل اسی کالم میں دعوت و تبلیغ کے اس اہم ترین دینی فریضہ کی ضرورت و اہمیت اور اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کی عالمگیر خدمات اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کے بارے میں عرض کر چکا ہوں اور بحمد اللہ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہوں، لیکن اس حوالے سے دین کے دیگر شعبوں میں سے کسی کام کی نفی یا کسی کو بے اہمیت ظاہر کرنے کی بات کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے، اس لیے مجبوراً ایک بار یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جماعتیں، دینی مدارس، مساجد کا نظام، خانقاہیں،مجاہدین، نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس صحابہ کے لیے کام کرنے والے حلقے اور گروہ، مسائل و احکام میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے علمی مراکز اوار دارالافتاء مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کو بے نقا ب کرنے اور ان کا تعاقب کرنے والے ادارے اور شخصیات، تجدد پسند حلقوں کی فکری کج روی اور نظریاتی بے راہ روی کی نشان دہی کرنے والے افراد اور ادارے اس کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ امت کا یہ عالمی نظام،یہ سب دین کے شعبے ہیں اور ان میں سب کام کرنے والے دین ہی کا کام کر رہے ہیں، جن میں ہر شخص کو اس کی نیت اور محنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ملے گا، البتہ ان میں سے کوئی بھی شعبہ اگردوسرں کی نفی کرتے ہوئے خود کو دین کا واحد معیار قرار دے گا تو اس کی یہ کوشش دین کے تصور اور کردار کو محدود کرنے کی کوشش متصور ہو گی۔''
۔ تبلیغی جماعت کے مالی وسائل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا موقف ہے کہ اتمام اسباب اللہ مہیا کرتا ہے اور بندوں کو سبب بناتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تبلیغ سے وابستہ افراد اور بعض صورتوں میں حکومتوں نے بھی ان کے مراکز کی تعمیر میں حصہ ڈالا ہے جب کہ چندہ اور وابستہ افراد کے مالی تعاون سے روز مرہ کے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ تبلیغی دوروں کے لیے جماعت فنڈ مہیا نہیں کرتی بلکہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے سفر اور قیام و طعام کے لیے وسائل خود مہیا کرے۔ بعض صورتوں میں جماعت کے رکن انفرادی حیثیت میں کم وسائل رکھنے والوں کی مالی معاونت کر دیتے ہیں ورنہ جماعت میں مالی قربانی بھی اتنا ہی اہم جُزو ہے جتنا کہ تبلیغ کے لیے نکلنا۔
 
Top